خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 22؍جولائی2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:جیساکہ مَیں نے گذشتہ جمعہ میں بتایا تھا کہ آج حضرت ابوبکرؓ کے دَور ِخلافت میں ایرانیوں کے خلاف کارروائیوں کا بیان ہوگا۔

سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ سلاسل کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:یہ جنگ محرم الحرام 12؍ہجری میں ہوئی۔ یہ جنگ تین ناموں سے معروف ہے۔ جنگِ ذات السلاسل، جنگِ کاظمہ اور جنگِ حَفِیر۔اس جنگ کو ذاتُ السَّلَاسِل یعنی زنجیروں والی جنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عربی میں سلسلة زنجیر کو کہتے ہیں جس کی جمع سلاسل ہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ایرانی فوج نے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تا کہ کوئی شخص جنگ سے بھاگنے نہ پائے۔ جنگِ ذات السلاسل کی اس روایت کو بعض مؤرخین تسلیم نہیں کرتے۔ یہ جنگ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان کَاظِمَہ مقام کے قریب لڑی گئی تھی اس لیے اسے جنگِ کاظمہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔حَفِیر علاقہ میں ہونے کی وجہ سے اس جنگ کو جنگِ حفیر بھی کہا جاتا ہے۔مسلمانوں کی طرف سے اس جنگ کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ تھے اور ایرانیوں کی جانب سے سپہ سالار کا نام ہُرمز تھا۔ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خالدبن ولیدؓ کے ہُرمز کو خط لکھنے اوراس کے ساتھ جنگ کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب:فرمایا:حضرت خالد بن ولید ؓنے یمامہ سے روانگی سے قبل ہُرمُز کو خط لکھا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ اَمَّا بَعد! فرمانبرداری اختیار کر لو، تم محفوظ رہو گے یا اپنی اور اپنی قوم کے لیے حفاظت کی ضمانت حاصل کر لو اور جزیہ دینے کا اقرار کرو ورنہ تم بجز اپنے آپ کے کسی اَور کو ملامت نہیں کر سکو گے۔میں تمہارے مقابلے کے لیے ایسی قوم کو لایا ہوں جو موت کو یوں پسند کرتی ہےجیسے تم زندگی کو پسند کرتے ہو۔جب حضرت خالد ؓکا خط ہُرمُز کے پاس پہنچا تو اس نے اردشیر شاہ ِکسریٰ کو اس کی اطلاع دی اور اپنی فوجیں جمع کیں اور ایک تیز رَو دستے کو لے کر فوراً حضرت خالد ؓکے مقابلے کے لیے کاظمہ پہنچا اور اپنے گھوڑوں سے آگے بڑھ گیا مگر اس نے اس راستے پر حضرت خالد بن ولید ؓکو نہ پایا اور اس کو یہ اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر حَفِیر میں جمع ہو رہا ہے۔ اس لیے پلٹ کر حفیر کی طرف روانہ ہوا۔وہاں پہنچتے ہی اپنی فوج کی صف آرائی کی… جب حضرت خالد ؓکو ہُرمُز کے حفیر پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپ اپنے لشکر کو لے کر کاظمہ کی طرف مڑ گئے۔ہُرمُز کو اس کا پتا چل گیا تو وہ فوراً کاظمہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پڑاؤ کیا۔ ہُرمُز اور اس کے لشکر نے صف آرائی کی اور پانی پر ان کا قبضہ تھا۔ جب حضرت خالد بن ولید ؓآئے تو ان کو ایسے مقام پر اترنا پڑا جہاں پانی نہیں تھا۔ لوگوں نے آپؓ سے اس کی شکایت کی۔ آپؓ کے منادی نے اعلان کیا کہ سب لوگ اتر پڑیں اور سامان نیچے اتار لیں اور دشمن سے پانی کے لیے لڑائی کریں کیونکہ بخدا پانی پر اسی جماعت کا قبضہ ہو گا جو دونوں گروہوں میں سے زیادہ ثابت قدم رہے گی اور دونوں لشکروں میں زیادہ معزز ہو گی۔ اس پر سامان اتار لیا گیا۔ سوار فوج اپنی جگہ کھڑی رہی۔ پیدل فوج نے پیش قدمی کی اور دشمن پر حملہ آور ہوئی۔ دونوں طرف لڑائی شروع ہوئی تو اللہ نے ایک بدلی بھیجی۔ مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے بارش ہوئی۔ مسلمانوں کو اس سے قوت ملی۔ ہُرمُز نے حضرت خالدؓکے لیے ایک سازش تیار کی۔ اس نے اپنے دفاعی دستے سے کہا کہ مَیں حضرت خالد ؓکو مبارزت کی دعوت دیتا ہوں اور اس دوران کہ مَیں ان کو اپنے ساتھ مصروف رکھوں گا تم لوگ اچانک چپکے سے حضرت خالد ؓپر حملہ کر دینا۔ اس کے بعد ہُرمُز میدان میں نکلا۔ حضرت خالد ؓاپنے گھوڑے سے اتر پڑے۔ ہُرمُز بھی اپنے گھوڑے سے اترا اور اس نے حضرت خالد ؓکو مقابلے کی دعوت دی۔ حضرت خالد ؓچل کر اس کی طرف آئے اور دونوں میں مقابلہ ہوا۔ دونوں طرف سے وار ہونے لگے۔ حضرت خالد ؓنے ہُرمُز کو بھینچ لیا۔ اس پر ہُرمُز کے دفاعی دستے نے خیانت سے کام لیتے ہوئے حضرت خالد ؓپر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ جب اس طرح ایک ایک کی لڑائی ہو رہی ہو تو پھر دوسرے حملہ نہیں کرتے لیکن بہرحال ان کی فوج نے ان پہ حملہ کر دیا۔ اس کے باوجودحضرت خالد ؓنے ہُرمُز کا کام تمام کر دیا۔حضرت قَعْقَاعْ بن عَمروؓ نے جیسے ہی ایرانیوں کی یہ خیانت دیکھی تو ہُرمُز کے دفاعی دستے پر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے کر موت کی نیند سلا دیا۔ ایرانیوں کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ بھاگ گئے۔ بھاگنے والوں میں قُبَاذْ اور اَنُوْشَجَانَ بھی تھے۔مسلمانوں نے رات کے اندھیرے میں ایرانیوں کا تعاقب کیا اور دریائے فُرات کے بڑے پل تک جہاں آج کل بصرہ آباد ہے انہیں قتل کرتے چلے گئے۔

سوال نمبر5: جنگ اُبُلَّہکب ہوئی اور اس کی فتح کےمتعلق کیا روایات مذکورہیں؟

جواب:فرمایا:جنگ اُبُلَّہْ بارہ ہجری میں لڑی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓکو ہدایت کی تھی کہ وہ عراق میں جنگ کا آغاز اُبُلَّہ سے کریں جو خلیج فارس پر ایک سرحدی مقام تھا۔ ہندوستان اور سندھ کو جو تجارتی قافلے عراق سے آتے تھے سب سے پہلے اُبُلَّہ میں قیام کرتے تھے۔ اُبُلَّہ کی فتح کے متعلق دو روایتیں مذکور ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں نے اُبُلَّہکو سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں فتح کیا لیکن بعد میں یہ دوبارہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا اور حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں مسلمان اس پر پوری طرح قابض ہوئے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اس کی فتح حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ مذارکی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب:فرمایا:یہ معرکہ صفر بارہ ہجری میں ہوا۔جنگ بارہ ہجری میں لڑی گئی۔اس واقعہ کے روز لوگوں کی زبان پر یہ فقرہ تھا کہ صفر کا مہینہ آگیا ہے اور اس میں ہر ظالم سرکش قتل ہو گا جہاں دریا اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہُرمُز ذَاتُ السَّلَاسِل کی جنگ میں حضرت خالد بن ولید ؓکے مدمقابل تھا اس نے اپنے بادشاہ کو مدد کے لیے لکھا تھا۔ بادشاہ نے اس کی مدد کے لیے قَارِن کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا مگر وہ لشکر ابھی مَذَارْ کے مقام پر پہنچا تھا کہ اس کو جنگ ذَاتُ السَّلَاسِل میں ہُرمُز کی شکست کی اور اس کے مارے جانے کی اطلاع ملی اور ساتھ ہی ہُرمُز کی فوج کے شکست کھائے ہوئے دستے بھی مَذَارْ میں قَارِن سے آ ملے اور ان میں سے بعض دستوں کے سپاہیوں نے دوسرے دستوں کے سپاہیوں سے کہا کہ اگر آج تم متفرق ہو گئے تو پھر کبھی جمع نہیں ہو سکو گے۔اس لیے ایک دم واپسی کے لیے اکٹھے ہوجاؤ۔ وہ دوڑی ہوئی فوج جو تھی وہ بھی اور جو نئی کمک آ رہی تھی یا نئی فوج جو ایران سے آرہی تھی دونوں مل گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اس بات پر جوش دلایا کہ جنگ ہونی چاہیے۔ جو دوڑے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ بادشاہ کی مدد پر مشتمل نیا لشکر آن پہنچا ہے۔ اور یہ اس کا سپہ سالار قَارِن ہمارے ساتھ ہے ممکن ہے کہ خدا ہمیں غلبہ عطا کرے اور ہمارے دشمن سے ہمیں نجات عطا فرمائے اور ہم اپنے نقصانات کی کسی قدر تلافی کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے مَذَارْ میں پڑاؤ ڈال دیا۔ قَارِن نے ہراول دستے پر قبُاَذ اور اَنُوشَجَان کو مقرر کیا جو جنگِ ذات السلاسل میں فرار ہو گئے تھے۔ دوسری طرف دشمن کی اس تیاری کی اطلاع حضرت مُثَنّٰی اور حضرت مُعَنّٰی نے حضرت خالد بن ولیدؓکو بھیج دی۔ حضرت خالد ؓنے قَارِن کی اطلاع پاتے ہی معرکہ ذات السلاسل میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت انہی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جن کو خدا نے وہ مال غنیمت دیا تھا اور خُمُسمیں سے مزید جس قدر چاہا دیا اور معرکۂ ذات السلاسل میں حاصل ہونے والا باقی مال غنیمت اور اس معرکے میں جو فتح ہوئی تھی اس کی خوشخبری حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھجوا دی اور اس امر سے بھی مطلع کر دیا کہ معرکۂ ذات السلاسل میں دشمنوں کی ہزیمت خوردہ افواج اور قَارِن کی سربراہی میں آنے والا نیا لشکر ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت خالد ؓروانہ ہوئے اور مَذَارْ میں قَارِن کی فوج کے مقابلے پر آئے اور اپنی فوج کی صف آرائی کی۔ دونوں طرف سے مقابلہ ہوا۔ دونوں حریفوں کی نہایت غیظ و غضب کی حالت میں مڈھ بھیڑ ہوئی۔ قَارِن مبارزت کے لیے میدان میں نکلا۔ دوسری طرف سے اس کے مقابل کے لیے حضرت خالد ؓاور حضرت معقل بن اَعْشیٰ آگے بڑھے۔ دونوں قَارِن کی طرف لپکے مگر حضرت مَعْقَلؓ نے حضرت خالد ؓسے پہلے قَارِن کوجا لیا اور اسے قتل کر دیا۔ حضرت عاصمؓ نے اَنُوشَجَان کو اور حضرت عدی نے قُبَاذ کو قتل کر دیا۔ ان تینوں سرداروں کے مارے جانے سے ایرانی حوصلہ ہار بیٹھے اور میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے۔اس جنگ میں اہل فارس کی بہت بڑی تعداد ماری گئی اور جو لوگ پسپا ہوئے وہ اپنی کشتیوں میں سوار ہو کر بھاگے…ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں تیس ہزار ایرانی قتل ہوئے اور یہ ان کے علاوہ ہیں جو نہر میں ڈوب کر مر گئے اور کہا جاتا ہے کہ اگریہ پانی مانع نہ ہوتا تو ان میں سے ایک بھی نہ بچتا۔ پھر بھی جو لوگ بچ کر بھاگے وہ بہت پراگندہ حال اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگے۔ جنگ کے بعد لڑائی میں حصہ لینے والوں اور ایرانی فوج کی حمایت کرنے والوں کو مع اہل و عیال کے قید کر لیا گیا۔ ان قیدیوں میں ابوالحسن بصری بھی شامل تھے۔ ابوالحسن بصری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام حسن بصری کے والد تھے جو کہ بصرہ کے مشہور واعظ اور صوفی تھے، مسلمان ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ابوالحسن بصری کو قید کرنے کے بعد مدینہ لایا گیا جہاں ان کی مالکہ نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔

سوال نمبر7: جنگ وَلَجَہکب ہوئی اورحضرت خالد بن ولیدؓ نے دشمن کے مقابل پرکیاحکمت عملی اختیارکی؟

جواب:فرمایا:جنگِ وَلَجَہ۔ صفر بارہ ہجری میں ہوئی۔ جنگ مَدار میں ایرانیوں کو جس شرمناک شکست کا سامان کرنا پڑا کہ اس میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی مارے گئے تھے۔ اس پر ایرانی شہنشاہ نے ایک اَور حکمت عملی طے کرتے ہوئے اَور زیادہ تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ چنانچہ ایرانی حکومت نے عراق میں بسنے والے عیسائیوں کے ایک بہت بڑے قبیلہ بَکْر بن وَائِل کے سرکردہ لوگوں کو دربارِ ایران میں بلایا اور ان کو مسلمانوں کے ساتھ لڑنے پر آمادہ کر کے ایک لشکر ترتیب دیا اور اس لشکر کی قیادت ایک مشہور شہسوار اَنْدَرْزَغَرْ کے ہاتھ میں دی اور یہ لشکر وَلَجَہکی طرف روانہ ہو گیا۔ عراق میں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔ شہنشاہ اَرْدَشِیر نے انہیں طلب کیا اور ان کی ایک فوج مرتب کر کے انہیں مسلمانوں سے معرکہ آرائی کے لیے وَلَجَہکی جانب روانہ کر دیا۔ حِیرَہ اور کَسْکَر کے نواحی علاقوں کے لوگ اور کسان بھی اس لشکر کے ساتھ مل گئے۔لیکن اس خیال سے کہ مسلمانوں پر فتح یابی کا فخر مکمل طور پر عیسائی عربوں کے حصہ میں نہ آئے اپنے ایک بڑے سپہ سالار بَہْمَنْ جَاذْوَیہ کو بھی ایک بھاری لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے ہی روانہ کر دیا۔جب اس فارسی سردار کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی فوج بہت بڑی ہو گئی ہے تو اس نے حضرت خالد بن ولید ؓپر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب حضرت خالد بن ولید ؓکو فارسی فوج کے وَلَجہ میں جمع ہونے کی خبر ملی اس وقت آپؓ بصرہ کے قریب تھے۔ آپؓ نے مناسب سمجھا کہ فارسی فوج پر تین جہات سے حملہ کریں تاکہ ان کی جمعیت منتشر ہو جائے اور اس طرح اچانک حملے سے فارسی فوج پریشانی کا شکار ہو جائے۔چنانچہ آپؓ نے سُوَید بن مُقَرِّنکو قائمقام مقرر کیا اور انہیں حفیر میں ہی قیام پذیر ہونے کا حکم دیا اور ان لوگوں کے پاس پہنچے جن کو دِجْلَہ کے زیریں جانب چھوڑا ہو اتھا۔ ان کو حکم دیا کہ دشمن سے ہر وقت چوکنے رہیں اور غفلت اور فریب میں مبتلا نہ ہوں اور اپنی فوج کو لے کر وَلَجَہ کی طرف پیش قدمی کی اور دشمن کے لشکر اور اس کی معاون جماعتوں کے مقابلے پر اترے اور شدید ترین جنگ ہوئی۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے فوج کے دونوں طرف مجاہدین کے ذریعہ گھات لگا رکھی تھی۔ آخر کار گھات لگائے ہوئے دونوں دستے دونوں طرف سے دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ ایرانیوں کی فوجیں شکست کھا کر بھاگیں مگر حضرت خالد بن ولید ؓنے سامنے سے اَور گھات لگائے ہوئے دونوں دستوں نے پیچھے سے ان کو ایسا گھیرا کہ وہ بوکھلا گئے یہاں تک کہ کسی کو اپنے ساتھی کے قتل کی بھی پروا نہ رہی۔ دشمن فوج کا سپہ سالار ہزیمت خوردہ ہو کر بالآخر مارا گیا۔ کاشتکاروں کے ساتھ حضرت خالد بن ولید ؓنے وہی سلوک کیا جو ان کا طریق تھا یعنی ان میں سے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صرف جنگجو لوگوں کی اولاد اور ان کے معاونین کو گرفتار کیا اور عام باشندگان ملک کو جزیہ دینے اور ذِمّی بن جانے کی دعوت دی جس کو ان لوگوں نے قبول کر لیا۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ اُلیس کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب:فرمایا:جنگ اُلَّیسماہ صفر بارہ ہجری میں ہوئی۔حضرت خالد ؓکے ہاتھوں وَلَجَہ کے دن قبیلہ بکر بن وائل اور ایرانیوں کو پہنچنے والی ایک اَور عبرتناک شکست سے ان کے ہم قوم عیسائی غضبناک ہو گئے۔ انہوں نے ایرانیوں کو اور ایرانیوں نے ان کو خطوط لکھے اور اُلَّیس کے مقام پر سب جمع ہو گئے۔ان کا سردار عَبْدُالْاَسْوَد عِجْلِیمقرر ہوا۔ اسی طرح ایرانی بادشاہ نے بَہْمَنْ جَاذْوَیہ کو خط لکھا کہ تم اپنے لشکر کو لے کر اُلَّیس پہنچو اور فارس اور عرب کے نصاریٰ میں سے جو لوگ وہاں جمع ہیں ان سے جا ملو لیکن بَہْمَنْ جَاذْوَیہ خود تو لشکر کے ساتھ نہ گیا البتہ اس نے اپنی جگہ ایک اَور نامور بہادر جَابَانْ کو روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ لوگوں کے دلوں میں جنگ کا جوش پیدا کرو مگر میرے آنے تک دشمن سے لڑائی شروع نہ کرنا سوائے اس کے وہ خود پہل کریں۔ جَابَانْ اُلَّیس کی طرف روانہ ہوا۔ بَہْمَنْ جَاذْوَیہ خود ایرانی بادشاہ اَرْدَشِیر کے پاس گیا تا کہ اس سے مشورہ کرے مگر یہاں آ کر دیکھا کہ بادشاہ بیمار پڑا ہے۔ اس لیے بَہْمَنْ جَاذْوَیہ تو اس کی تیمارداری میں لگ گیا اور جَابَانْ کو کوئی ہدایت نہ بھیجی۔ جَابَانْ اکیلا لشکر کے ہمراہ محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو کر ماہ صَفَر میں اُلَّیس پہنچا۔مختلف قبائل اور حِیرَہ کے نواحی علاقوں کے عرب عیسائی جَابَانْ کے پاس جمع ہو گئے۔ حضرت خالدؓ کو جب ان عیسائی گروہوں کے اکٹھا ہونے کی اطلاع ملی تو آپ ان کے مقابلے کے لیے نکلے مگر آپ کو معلوم نہ تھا کہ جَابَانْ بھی قریب آ گیا ہے۔حضرت خالد ؓصرف ان عربوں اور نصرانیوں سے لڑنے کے ارادے سے آئے تھے مگر اُلَّیس میں جَابَانْ سے سامنا ہو گیا۔ جب جَابَانْ اُلَّیس پہنچا تو اس موقع پر عجمیوں نے جَابَانْ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ آیا پہلے ہم ان کی خبر لیں یا لوگوں کو کھانا کھلا دیں۔ یعنی جنگ شروع کریں یا پہلے کھانا کھا لیں اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر ان سے جنگ کریں۔ جَابَانْ نے کہا کہ اگر دشمن تم سے کوئی تعرض نہ کریں تو تم بھی خاموش رہو لیکن میرا خیال ہے کہ وہ تم پر اچانک حملہ کریں گے اور تمہیں کھانا نہیں کھانے دیں گے۔ ان لوگوں نے جَابَانْ کی بات نہ مانی۔ دسترخوان بچھائے۔ کھانا چنا گیا اور سب کو بلا کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔حضرت خالد ؓدشمن کے مقابل پر پہنچ کر ٹھہر گئے۔ سامان اتارنے کا حکم دیا۔ اس کام سے فراغت ہوئی تو دشمن کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت خالد ؓنے اپنے عقب کی حفاظت کے لیے محافظ دستے مقرر کیے اور دشمن کی صف کی طرف بڑھ کر للکارتے ہوئے کہا۔ اَبْجَرکہاں ہے؟ عبدالاسود کہاں ہے؟ مالک بن قَیس کہاں ہے؟ مالک کے علاوہ باقی سب بزدلی کی وجہ سے خاموش رہے۔ مالک آپ کے مقابلے کے لیے نکلا۔ حضرت خالد ؓنے اس سے کہا: ان سب میں سے تجھے میرے مقابل پر آنے کی کس بات نے جرأت دلائی ہے؟ تجھ میں میرا مقابلہ کرنے کی طاقت کہاں! یہ کہہ کر آپؓ نے اس پر وار کیا اور اسے قتل کر دیا اور عجمیوں کو قبل اس کے کہ وہ کچھ کھائیں، دستر خوان پر سے اٹھا دیا…حضرت خالد ؓنے اپنی فوج کی صف آرائی اس طرح کی جیسا کہ اس سے پہلے کی لڑائیوں میں کر چکے تھے۔ شدید ترین لڑائی ہونے لگی۔ایرانیوں کو بَہْمَنْ جَاذْوَیہ کے آنے کی توقع تھی اس لیے خوب جم کر بڑی شدت سے لڑے کیونکہ جَابَانْ ان کو امید دلا رہا تھا کہ وہ ایک بڑا لشکر لے کر چل پڑا ہے اور ابھی پہنچنے ہی والا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ بہمن کو تو ایرانی بادشاہ کے بیمار ہونے کی وجہ سے نہ تو بادشاہ سے صورتحال ذکر کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی وہ خود لشکر لے کر آ سکتا تھا بلکہ اس کا جَابَانْ سے کسی قسم کا رابطہ بھی نہ رہا تھا۔ بہرحال اس جنگ میں مسلمان بھی ان کے خلاف خوب جوش اور غضب میں آئے بڑی سخت جنگ ہوئی ….مسلمانوں نے بار بار حملے کیے لیکن ہر بار ایرانیوں نے کمال پامردی اور مستقل مزاجی سے حملے کو ناکام بنا دیا۔ بالآخر حضرت خالد بن ولید ؓنے مادی اسباب و ذرائع کو ناکافی ہوتا دیکھ کر بڑی عاجزی سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اور عرض کی کہ اے اللہ! اگر تو مجھے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے گا تو میں کسی ایک دشمن کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا اور یہ دریا ان کے خون سے سرخ ہو جائے گا۔ بعض کتب میں ہے کہ حضرت خالد ؓ نے قَسم کھائی تھی یا نذر مانی تھی کہ اگر اس جنگ میں فتح ہو گئی تو کسی بھی دشمن جنگجو کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ بہرحال اس کے بعد حضرت خالد ؓنے جنگی چال چلتے ہوئے فوج کو دائیں اور بائیں جانب سے ایرانی لشکر کے عقب پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس حملے سے ایرانی لشکر تتر بتر ہو گیا اور اسے بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ حضرت خالد ؓنے حکم دیا کہ دشمن کو پکڑ کر قیدی بنا لو اور مقابلہ کرنے والوں کے سوا کسی کو قتل نہ کرو۔ صرف ان کو قتل کرنا جو مقابلہ کرتے ہیں۔

سوال نمبر9:حضرت خالدبن ولیدؓ پراعتراض’’انہوں نے جنگ اُلیس میں قیدیوں کو قتل کرکے نہرمیں پھینکا‘‘ کاحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیاجواب بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:یہ حقیقت نہیں لگتی کہ قیدیوں کو قتل کر کے پھر نہر میں خون پھینکا گیا ہو اور سیرت نگاروں نے اس میں کچھ تساہل یا مبالغہ سے کام لیا ہے یا عین ممکن ہے کہ وہ ذہن جو اسلامی جنگوں میں جان بوجھ کر ظلم و بربریت کی جھوٹی کہانیاں شامل کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے انہوں نے جہاں موقع ملا اپنی طرف سے ایسے واقعات کو شامل کر دیا تھا۔تاریخ نگاروں میں بعض دشمن بھی تھے تو ایسے دشمنی رکھنے والے یا کینہ رکھنے والے جو مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی ایسی بات لکھ دیا کرتے تھے انہوں نے لکھ دیا ہو کہ قیدیوں کو قتل کر کے نہر میں بہا دیا لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ بہرحال ایسی کوئی بات شامل کی گئی ہے تاکہ دجل اور فریب سے لوگوں کے سامنے یہ پیش کریں کہ دیکھیں کس طرح مسلمانوں نے ظلم و ستم کیے اور نہتے قیدیوں کو قتل کیا گیا…حضرت خالد بن ولید ؓجیسے سپہ سالار کی جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے بھی جہاں تک ممکن ہوا میدان جنگ میں بھی ہر اس شخص کی جان بخشی ہی کی ہے جس نے ہتھیار پھینک دیے یا اطاعت قبول کر لی اور جس کو بھی قتل کیا باوجود تاریخ نگاروں کی افسانہ طرازی کے تحقیق کرنے پر اس کے قتل کی ٹھوس وجوہ اور اسباب موجود پائے گئے ہیں۔ بہرحال اس واقعہ کو دیکھا جائے تو یہ بھی کچھ بناوٹی قصہ زیادہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مورخین اور سیرت نگار جو کہ ان جگہوں کی تمام تر تفصیلات بیان کرتے ہیں اور بیان کرتے ہوئے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی ذکر کرتے ہیں ان میں سے بعض نے اس واقعہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بنائی گئی باتیں ہیں۔ اور ایک مصنف نے جو بہت آزادانہ رائے رکھتے ہوئے تاریخ کو بیان کرتے ہیں اور قابل اعتراض حد تک ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے ہیں کہ جس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا وہ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ راویوں نے یہ روایت بیان کر کے مبالغہ آرائی کی انتہا کر دی ہے۔ اتنا یقینی ہے کہ خالد نے قتلِ دشمنانِ اسلام میں اتنا تشدد برتا تھا کہ اسے دیکھ کر قعقاع اور اس کے ساتھیوں سے رہا نہ گیا۔اسی طرح ایک مصنف نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔یعنی سختی تو کی تھی قیدیوں پر لیکن قتل کرنا یہ غلط ہے۔ اسی طرح ایک مصنف نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عملاً یا حقیقی طور پر ایرانیوں کو نہر میں قتل کر کے پھینکا نہیں گیا تھا۔چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ حضرت خالد ؓنے پھرتی سے حملے کر کے عیسائیوں کو اس طرح کاٹنا اور ایرانی صفوں کو زیر و زبر کرنا شروع کیا جیسے وہ مٹی کے بنے ہوئے ہوں اور گوشت پوست کے انسان نہ ہوں۔ چونکہ ایرانی لمبائی میں دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے ہلالی صورت میں آدھا دائرہ بنا لیا تھا اور بڑھ کر مسلمانوں کو نرغے میں لے لیا۔ اب صورت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کے چاروں طرف ایرانی اور عیسائی عرب چھا گئے اور بڑے جوش سے لڑنے لگے لیکن جس جوش و خروش سے مسلمان لڑ رہے تھے وہ عیسائیوں میں نہیں تھا۔ہر مسلمان خونخوار شیر بن گیا اور زور دار حملے کر کے عیسائیوں کو گھاس پھوس کی طرح کاٹ رہا تھا۔ اگرچہ ایرانی بھی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر رہے تھے لیکن مسلمان بہت کم گر رہے تھے اور جو زخمی ہوتا وہ اَور بھی جوش کے ساتھ لڑنے لگتا تھا۔ایرانی اس کثرت سے مر رہے تھے کہ ان کی لاشوں سے میدان اٹا پڑا تھا اور جو ایرانی زخمی ہو جاتا تھا وہ میدان جنگ سے ہٹ جاتا تھا۔ مسلمانوں نے اس قدر خونریزی کی کہ ان کے کپڑوں پر خون کے دھبے جم گئے۔ خالد بن ولید کے کپڑوں کا بھی یہی حال تھا۔ ایرانیوں کے خون سے زمین سیراب ہو گئی اور فالتو خون پانی کی طرح بہنے لگا۔ آخر ایرانیوں کو ہزیمت ہوئی اور وہ بدحواس ہو کر بھاگے۔ مسلمان ان کے پیچھے لگ گئے اور دور تک انہیں قتل اور گرفتار کرتے چلے گئے اور ایرانی ایسے بدحواس ہو کر بھاگے کہ ان کے ہزاروں سپاہی دریا میں گر کر ڈوب گئے۔ جب ایرانی دور نکل گئے تب مسلمان واپس لوٹے۔ اس لڑائی میں ستر ہزار ایرانی مارے گئے۔ مسلمان ایک سو اڑتیس شہید ہوئے۔ بہرحال مؤرخین کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کی اتنی بڑی تعداد کو کیسے مار ڈالا۔ایک تاریخ نگار نے یہ لکھا ہے۔ اس حوالے سے صاف نظر آتا ہے کہ اگر نہر کے پانی کے سرخ ہو جانے والے واقعہ کو درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ لوگ جن کی وجہ سے نہر خون سے سرخ ہو گئی وہ انہیں زخمی سپاہیوں کے ڈوبنے کی وجہ سے بھی تو ہو سکتی تھی۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ایسے واقعات میں مبالغہ آرائی کی آمیزش بھی کسی حد تک شامل ہو گئی جس کی بنا پر اسلامی جنگوں اور حضرت خالد بن ولید ؓکی ذات پر رکیک حملے کرنے والوں کو مواقع ملے۔یا جنگوں میں مسلمانوں پر وحشیانہ طرز اختیار کرنے کا الزام لگایا گیا۔بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ صرف الزام لگایا گیا۔

سوال نمبر10:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امغیشیاکی فتح کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:اَمْغِیشِیا کو اللہ نے صَفَر بارہ ہجری میں جنگ کے بغیر ہی فتح کرا دیا تھا۔جب حضرت خالد ؓاُلَّیس کی فتح سے فارغ ہو گئے تو آپ نے تیاری کی اور اَمْغِیشِیا آئے مگر آپؓ کے آنے سے قبل ہی وہاں کے باشندے جلدی سے بستی چھوڑ کر بھاگ گئے اور سَوَادْ میں منتشر ہو گئے۔عراق میں وہ بستیاں جن کو مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتح کیا تو وہاں کھیتوں میں سرسبزی کی وجہ سے اسے سَوَاد کا نام دیا گیا۔ حضرت خالد ؓنے اَمْغِیشِیا اور اس کے قرب و جوار میں جو کچھ بھی تھا اسے منہدم کرنے کا حکم دیا۔مسلمانوں کو اَمْغِیشِیا سے اس قدر مال غنیمت حاصل ہوا کہ ذات السلاسل سے لے کر اب تک کسی جنگ میں حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس جنگ میں گھڑ سواروں کا حصہ پندرہ سو درہم تھا اور یہ حصہ ان اموال غنیمت کے علاوہ تھا جو کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو دیا گیا تھا۔ اُلَّیس اور اَمْغِیشِیاکی فتح کی اطلاع حضرت خالدؓنے بنو عِجْلکےایک جَنْدَل نامی شخص کے ذریعہ روانہ کی تھی جو ایک بہادر گائیڈ کے طور پر مشہور تھے۔ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں پہنچ کر اُلَّیس کی فتح کی خوشخبری، مال غنیمت کی مقدار، قیدیوں کی تعداد، خُمُس میں جو چیزیں حاصل ہوئی تھیں اور جن لوگوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ ان سب کی تفصیل اور خاص طور پر حضرت خالد ؓکی بہادری کے کارنامے بہت عمدگی سے بیان کیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی شجاعت، پختہ رائے اور فتح کی خبر سنانے کا یہ انداز بہت پسند آیا یعنی جو نمائندہ بھیجا تھا اس کا جو طریق تھا اور اس کی بہادری کے قصے تھے اور جو اندازِ بیان تھا اس کا، وہ حضرت ابوبکرؓ کو بڑا پسند آیا۔ آپؓ نے اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا میرا نام جَنْدَل ہے۔ آپ نے فرمایا بہت خوب جندل۔ اور پھر آپؓ نے اس کو مال غنیمت میں سے ایک لونڈی دینے کا حکم دیا جس سے اس کے ہاں اولاد پیدا ہوئی۔ اسی طرح اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اب عورتیں حضرت خالد بن ولید ؓجیسا شخص پیدا نہیں کر سکیں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button