خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍نومبر 2022ء

لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پرابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو (الحدیث)

دَورِ جاہلیت میں حضرت ابوبکرؓ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا

حضرت ابوبکرؓ غریبوں اور مسکینوں پر بےحد مہربان تھے۔ سردیوں میں کمبل خریدتے اور انہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے

حضرت ابوبکرؓنے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے

جنگِ اُحد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ ہجوم کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے

جس طرح رؤیا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپؐ کے ساتھ تھے ہجرت میں ابوبکرؓ آپؐ کے ساتھ تھے جوگویا اسی طرح آپؐ کے تابع تھے جس طرح جبریل خداتعالیٰ کے تابع کام کرتا ہے

یا رسول اللہؐ! میں اپنی جان کے لئے تو نہیں ڈرتا۔ میں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا۔ میں تو آپؐ کے لئے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپؐ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مٹ جائے گی

’’حضرت ابوبکرؓ قربانی کرکے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا مَیں دیندار ہوں اور مَیں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی‘‘ ہے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍نومبر2022ء بمطابق 25؍نبوت1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر

ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں ان کی خدمتِ خلق اور محتاجوں کو کھانا کھلانے وغیرہ کے بارے میں ملتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی حضرت ابوبکرؓ قریش کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور لوگوں کو جو بھی مشکل پیش آتی تھی اُن میں وہ لوگ اُن سے مدد لیا کرتے تھے۔ مکہ میں وہ اکثر مہمان نوازی کرتے اور بڑی بڑی دعوتیں کیا کرتے تھے۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد 1 صفحہ390، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

دَورِ جاہلیت میں حضرت ابوبکرؓ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

حضرت ابوبکرؓ کو اس معاشرے میں شرفائے قریش میں شمار کیا جاتا تھا، افضل ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ لوگ اپنے مسائل و معاملات میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔ مکہ میں ضیافت و مہمان نوازی میں انفرادی حیثیت کے مالک تھے۔

(حضرت ابوبکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از محمد الصلابی مترجم صفحہ 52 تا 54، دارابن کثیر بیروت 2003ء)

پھر لکھا ہے کہ

حضرت ابوبکرؓ غریبوں اور مسکینوں پر بے حد مہربان تھے۔ سردیوں میں کمبل خریدتے اور انہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے۔

(حضرت ابو بکرصدیقؓ کے فیصلے صفحہ378مشتاق بک کارنر لاہور)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک سال گرم اونی چادریں خریدیں یعنی کمبل جو دیہات سے لائی گئی تھیں اور سردی کے موسم میں مدینہ کی بیوہ عورتوں میں یہ چادریں تقسیم کی گئیں۔

(کنز العمال جلد 3 جزء 5 صفحہ 245 ،كتاب الخلافة ، حدیث14076 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

ایک روایت ہے کہ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓ ایک لاوارث کنبہ کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔ جب آپؓ خلیفہ بن گئے تو اس کنبہ کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اپنی جان کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ میں نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اس عادت سے نہ روکے گی جس پر مَیں تھا۔ چنانچہ آپ حسبِ سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے۔ جب وہ بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو آپؓ ازراہِ شفقت فرماتے دودھ کا جھاگ بناؤں یا نہ بناؤں؟ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ بنا دیں تو برتن کو ذرا دُور رکھ کر دودھ دوہتے حتیٰ کہ خوب جھاگ بن جاتی۔ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ نہ بنائیں تو برتن تھن کے قریب کر کے دودھ دوہتے تا کہ دودھ میں جھاگ نہ بنے۔ آپؓ مسلسل چھ ماہ تک یہ خدمت سرانجام دیتے رہے یعنی خلافت کے بعد چھ ماہ تک۔ پھر آپؓ نے مدینہ میں رہائش اختیار کر لی۔

پہلے حضرت ابوبکرؓ کے دو گھر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھر باہر تھا وہاں باہر رہا کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؓ کے قریب، اپنے گھروں کے قریب بھی ان کو ایک جگہ دی تھی وہاں بھی انہوں نے گھر بنایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایک گھر تھا۔ مدینہ میں بھی دو گھر تھے لیکن پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں زیادہ وقت یہ جو مضافات میں گھر تھا وہاں رہا کرتے تھے۔ خلافت کے بعد پھر مدینہ شفٹ ہو گئے۔ جب تک مدینہ نہیں آئے ان بچیوں کی جو ڈیوٹی اپنے ذمہ آپ نے لی ہوئی تھی وہ مسلسل ادا کرتے رہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 138-139 ’’ابوبکر الصدیق‘‘ ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے کنارے پر رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا خیال رکھا کرتے تھے۔ آپ اُس کے لیے پانی لاتے اور اُس کا کام کاج کرتے۔ ایک مرتبہ آپؓ جب اُس کے گھر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپ سے پہلے آیا ہے جس نے اس بڑھیا کے کام کر دیے ہیں۔ اگلی دفعہ آپؓ اس بڑھیا کے گھر جلدی گئے تا کہ دوسرا شخص پہلے نہ آ جائے۔ حضرت عمرؓ چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ

یہ حضرت ابوبکرؓ ہیں جو اس بڑھیا کے گھر آتے تھے اور اُس وقت حضرت ابوبکرؓ خلیفہ تھے۔

اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ آپؓ ہی ہو سکتے تھے۔(تاریخ الخلفاء از جلال الدین السیوطی حالات ابو بکر الصدیق ؓصفحہ 64 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1999ء)یعنی اس نیکی میں میرے سے بڑھنے والے آپؓ ہی ہو سکتے تھے۔

ایک روایت موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کی ہے کہ معتمر نے اپنے باپ سے روایت کی اور بتایا کہ ابوعثمان نے ہم سے بیان کیا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں بتایا کہ صُفَّہ والے محتاج لوگ تھے اور ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے یا چھٹے کو یا ایسے ہی کچھ الفاظ فرمائے، یعنی وہ غریب لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے لوگ ان کو اپنے گھروں میں لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔ حضرت ابوبکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس کو لے گئے۔ اور گھر میں حضرت ابوبکرؓ اور تین اَور شخص تھے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے کہ میں، میرا باپ اور میری ماں۔ راوی نے کہا ہے کہ مَیں نہیں جانتا کہ آیا عبدالرحمٰن نے یہ بھی کہا کہ میری بیوی یا میرا خادم جو کہ ہمارے اور حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں مشترکہ تھا۔ اور ایسا ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں شام کا کھانا کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی پھر واپس آ گئے۔ مہمانوں کو گھر لے گئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے اور وہیں کھانا کھا لیا اور پھر واپس آئے۔ بیان کرتے ہیں کہ وہاں اتنی دیر ٹھہرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے شام کا کھانا کھایا اور اتنی رات گزرنے کے بعد آئے جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ اُن کی بیوی نے ان سے کہا کس بات نے آپ کو اپنے مہمانوں سے یا کہا مہمان سے روکے رکھا؟ یعنی آپ نے دیر کیوں لگائی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ وہ کہنے لگیں کہ انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کر دیا تھا۔ مہمانوں نے کہا ہم نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکر نہیں آتے۔ انہوں نے تو اُن کو کھانا پیش کر دیا تھا، ان کی اہلیہ کہنے لگیں مَیں نے تو کھانا پیش کر دیا تھا مگر مہمانوں نے اُن کی پیش نہ چلنے دی۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے کہ میں جا کر چھپ رہا۔ مَیں اُن سے اس لیے چھپ گیا کہیں مجھے حضرت ابوبکرؓ سے ڈانٹ نہ پڑے کہ کیوں مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا اے بیوقوف! اور انہوں نے مجھے سخت سست کہا، عبدالرحمٰن ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے مہمانوں سے کہا کہ کھانا کھائیں اور خود حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھا لی کہ میں ہرگز نہیں کھاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے کہ

اللہ کی قسم! ہم جو بھی لقمہ لیتے اس کے نیچے سے اس سے زیادہ کھانا بڑھ جاتا۔ اور انہوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے۔اور جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔

مہمانوں کو کھانا کھلایا۔ مہمان کھانا کھاتے جاتے تھے لیکن کہتے ہیں کہ وہ کھانا اتنا ہی رہتا تھا بلکہ بڑھ جاتا تھا۔ اور سب نے پیٹ بھر کے کھایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ دیکھاکہ کھانا تو ویسے کا ویسا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تھا تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا بنی فِراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ ان کی بیوی بولیں کہ قسم میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی! یہ تو اَب اُس سے تین گنا زیادہ ہے جتنا پہلے تھا۔ یعنی اتنا بڑھ گیا ہے کھانا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اس سے کھایا اور کہنے لگے وہ تو صرف شیطان تھا یعنی اس کی تحریک پر میں نے نہ کھانے کی قسم کھائی تھی۔ پہلے کہا تھا ناں، قَسم ہے کہ مَیں نہیں کھاؤں گا لیکن جب دیکھا کھانے میں برکت پڑ رہی ہے تو آپؓ نے کہا وہ قسم میرے سے شیطان نے کہلوائی تھی لیکن یہ برکت والا کھانا ہے، اس سے میں بھی کھاؤں گا۔ پھر اس میں سے ایک لقمہ حضرت ابوبکرؓ نے کھایا۔ اس کے بعد وہ کھانا اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں صبح تک رہا۔ کھانا وہاں صبح تک رہا۔کہتے ہیں ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک عہد تھا اور اس کی میعاد گزر گئی تھی۔ ہم نے بارہ آدمیوں کو الگ الگ بٹھایا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ کچھ لوگ تھے۔ اللہ بہتر جانتا ہے یعنی کہ ان معاہدہ کرنے والوں کے بارہ آدمی تھے اور ہر ایک کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے مگر اس قدر ضرور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آدمیوں کو لوگوں کے ساتھ بھیجا یعنی قابلِ ذکر تعداد تھی۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے تو اُن سب نے اس کھانے میں سے کھایا یا کچھ ایسا ہی کہا۔ تو

یہ برکت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کے کھانے میں بھی ایک دفعہ ڈالی۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر 3581)

حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا مَیں مسجد میں داخل ہوا تو ایک سائل نے سوال کیا۔ میں نے عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا پایا۔ وہ میں نے اس سے لے لیا اور وہ اس سائل کو دے دیا۔(سنن ابی داؤد کتاب الزکاۃ باب المسألۃ فی المساجد حدیث نمبر1670) اس طرح سوال کرنے والے نے سوال کیا تھا۔ میرے بیٹے کے ہاتھ میں روٹی تھی تو مَیں نے اس سے لے کے پھر اس سوالی کو دے دی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکرؓکے بیٹے عبدالرحمٰن بھی خلافت کے لائق تھے اور لوگوں نے کہا بھی کہ ان کی طبیعت حضرت عمرؓسے نرم ہے اور لیاقت بھی ان سے کم نہیں۔ ان کو آپ کے بعد خلیفہ بننا چاہئے لیکن حضرت ابوبکرؓنے خلافت کے لئے حضرت عمرؓ کو ہی منتخب کیا باوجودیکہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ کی طبائع میں اختلاف تھا۔ پس

حضرت ابوبکرؓنے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’صوفیاء کی ایک روایت ہے۔ (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے) کہ حضرت ابوبکرؓکی وفات کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تا کہ میں بھی وہ کام کروں۔ منجملہ اَور نیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایا کہ روزانہ حضرت ابوبکرؓروٹی لے کر‘‘ کھانا لے کر ’’فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس مقصد کے لئے اُدھرجاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓاس غلام کے ہمراہ اس طرف کو کھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکر غلام نے کیا تھا۔ آگے جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپاہج اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہؤا ہے۔ حضرت عمرؓنے اس اپاہج کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ ابوبکرؓپر رحم فرمائے۔ وہ بھی کیا نیک آدمی تھا۔حضرت عمرؓنے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابوبکرؓفوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لئے ابوبکرؓمیرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھےآج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابوبکرؓنہیں ہے بلکہ کوئی اَور شخص ہے اور ابوبکرؓتو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہؤا تو یقیناً وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’پس وہ کون سی شے ہے جو بادشاہت سے حضرت ابوبکرؓنے حاصل کی؟‘‘ خلافت یا بادشاہت جو اُن کو ملی اس سے تو کچھ نہیں حاصل کیا۔ ’’کیا سرکاری مال کو اپنا قرار دیا‘‘ انہوں نے ’’اور حکومت کی جائدادوں کو اپنا مال قرار دیا؟ ہرگز نہیں۔ جو اشیاء ان کے رشتہ داروں کو ملیں وہ ان کی ذاتی جائداد سے تھیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد17صفحہ 495،494) صرف ایک امتیاز جو ان کو تھا وہ تو خدمت تھی جو انہوں نے کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’یہ دوٹکڑے شریعت کے ہیں حق اللہ اور حق العباد۔‘‘ یہ دو چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حق اور حق العباد۔فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گذارا۔ اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابوبکرؓنے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا۔ غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔ جب آپؓ فوت ہو گئے‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ فوت ہو گئے ’’تو اُس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓفوت ہو گیا۔ اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوا لے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہو اکہ فوت ہو گیا یعنی زندگی میں ممکن نہ تھاکہ کسی حالت میں بھی حلوا نہ پہنچے۔ دیکھو!کس قدر خدمت تھی۔ ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمت ِخلق کرے۔‘‘

( ملفوظات جلد 6 صفحہ54 ایڈیشن 1984ء)

آپؓ کا پردہ پوشی کا معیار

کیا تھا، اس بارے میں روایت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ اگر مَیں چور کو پکڑتا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ خدا اُس کے جرم پر پردہ ڈال دے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 5 صفحہ 9 باب الطبقۃ الاولیٰ من اھل المدینۃ …… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

بہادری اور شجاعت

کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ شجاعت اور بہادری کا مجسمہ تھے۔ بڑے بڑے خطرے کو اسلام کی خاطر یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مکی زندگی میں جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لیے کوئی خطرہ یا تکلیف کا موقع دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و نصرت کے لیے دیوار بن کر سامنے کھڑے ہو جاتے۔ شعبِ ابی طالب میں تین سال تک اسیری اور محصوری کا زمانہ آیا تو ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ وہیں موجود رہے۔ پھر ہجرت کے دوران انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت کا اعزاز ملا حالانکہ جان کا خطرہ تھا۔ جتنی بھی جنگیں ہوئیں حضرت ابوبکرؓ نہ صرف یہ کہ اُن میں شامل ہوئے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے فرائض آپؓ سرانجام دیتے۔ آپؓ کی اسی جرأت اور بہادری کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو! لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین !آپ ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: جہاں تک میری بات ہے میرے ساتھ جس نے مبارزت کی مَیں نے اس سے انصاف کیا یعنی اسے مار گرایا مگر

سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ ہیں۔

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدر کے دن خیمہ لگایا۔ پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے؟ تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا۔ پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں۔

اسی طرح جنگِ اُحد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ ہجوم کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔

کہا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت صرف گیارہ صحابہ کرام موجود تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ ،حضرت سعدؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ اور حضرت ابودجانہؓ کا نام بھی آتا ہے۔ جنگِ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے میں گھاٹی پر موجود چند جاںنثاروں میں حضرت ابوبکرؓ بھی ایک تھے۔جنگِ خندق میں حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے اور خندق کی کھدائی کے وقت آپ کپڑے میں مٹی اٹھا کر پھینکنے والوں میں شامل تھے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جان نچھاور کرنے کے لیے بیعت کرنے والوں میں تو آپؓ شامل تھے ہی لیکن جو معاہدہ لکھا گیا تو جس ایمانی جرأت اور استقلال اور فراست اور اطاعت و عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حضرت ابوبکرؓ نے پیش کیا حضرت عمرؓ اپنی بعد کی ساری زندگی اس کو نہیں بھولے۔

غزوۂ طائف میں بھی حضرت ابوبکرؓ شامل تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ بن ابو بکر بھی شامل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے یہ جوان بیٹے اس غزوہ میں شہید ہو گئے تھے۔

(سیرت سیدناصدیق اکبر ؓ، استاذ عمرابوالنصر ،ترجمہ اردو صفحہ367،354، 369، 376 مشتاق بک کارنر لاہور)

(سیرت سیدناصدیق اکبر ؓشخصیت اور کارنامے، از صلابی مترجم صفحہ 107 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیس ہزار کا لشکر لے کر غزوۂ تبوک کے لیے نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سپہ سالار مقرر فرمائے اور انہیں جھنڈے عطا فرمائے۔ اس موقع پر سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کو عطا کیا گیا۔

(سیرت سیدناصدیق اکبر، استاذ عمرابوالنصر ،ترجمہ اردو صفحہ381 مشتاق بک کارنر لاہور)

حضرت سَلَمہ بن اکوعؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سات غزوات میں شرکت کی اور جو جنگی مہمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمائیں ان میں سے نو مہمات میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا اور ان میں کبھی تو ہماری کمان حضرت ابوبکرؓ کے پاس ہوتی تھی اور کبھی حضرت اسامہ بن زیدؓ کے پاس۔(سیرت سیدناصدیق اکبر، استاذ عمرابوالنصر ،ترجمہ اردو صفحہ356مشتاق بک کارنر لاہور)اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب سارا عرب ہی گویا مرتد ہو گیا ان حالات میں جس جرأت و شجاعت کا عملی مظاہرہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گلے میں پٹکا ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور آپؓ نے ان کفار کو ہٹایا اور فرمایا اے لوگو! تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اس لیے مارتے پیٹتے ہو کہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔ وہ تم سے کوئی جائیداد تو نہیں مانگتا پھر تم اُسے کیوں مارتے ہو؟

صحابہؓ کہتے ہیں ہم اپنے زمانہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓکو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر مَیں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا تو اسلام ختم ہو جائے گا اور ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ ابوبکرؓ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوتے تھے تا کہ جو کوئی آپؐ پر حملہ کرے اس کے سامنے اپنا سینہ کر دیں۔ چنانچہ جب بدر کے موقع پر کفار سے مڈھ بھیڑ ہوئی تو صحابہؓ نے آپس میں مشورہ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عرشہ تیار کر دیا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسولَ اللہؐ! آپ اس عرشہ پر تشریف رکھیں اور ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں دشمنوں سے ہم خود لڑیں گے۔ پھر انہوں نے کہا یا رسولَ اللہؐ! ہم آپ کویقین دلاتے ہیں کہ گو ہمارے اندر بھی اخلاص پایا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو مدینہ میں بیٹھے ہیں وہ ہم سے بھی زیادہ مخلص اور ایماندار ہیں۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ کفار سے جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ لوگ بھی اس لڑائی میں ضرور شامل ہوتے۔‘‘ جنگِ بدر کا پہلے باقاعدہ پتہ نہیں تھا تو وہ بھی شامل ہو جاتے۔

’’یا رسولَ اللہؐ! اگر خدانخواستہ اس جنگ میں ہمیں شکست ہو تو ہم نے ایک تیز رفتار اونٹنی آپ کے پاس باندھ دی ہے اور ابوبکرؓکو آپ کے پاس کھڑا کر دیا ہے۔ ان سے زیادہ بہادر اور دلیر آدمی ہمیں اپنے اندر اَور کوئی نظر نہیں آیا۔

یا رسولَ اللہؐ! آپؐ فوراً ابوبکر کے ساتھ اس اونٹنی پر بیٹھ کر مدینہ تشریف لے جائیں اور وہاں سے ایک نیا لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے لے آئیں جو ہم سے بھی زیادہ مخلص اور وفادار ہو گا۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس واقعہ سے اندازہ لگا لو کہ ابوبکرؓ کتنی قربانی کرنے والا انسان تھا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 39 صفحہ 220۔221)

پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ بعض لوگوں نے صحابہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے زیادہ دلیر اور بہادر کون شخص تھا۔ جس طرح آج کل شیعہ سنی کا سوال ہے اسی طرح اس زمانہ میں بھی جس کسی کے ساتھ تعلق ہوتا تھا لوگ اس کی تعریفیں کیا کرتے تھے۔ جب صحابہؓ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے سب سے بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوتاتھا۔ یہ نکتہ ایک جنگی آدمی ہی سمجھ سکتا ہے دوسرا آدمی نہیں‘‘ سمجھ سکتا۔ جس کو جنگ کا صحیح پتہ ہو اور جنگ کے خطرات کا پتہ ہو اسی کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ بہادری کیسی ہے جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہو وہاں کھڑے ہونا۔ تو فرماتے ہیں کہ ’’بات یہ ہے کہ جو شخص ملک اور قوم کی روح رواں ہو دشمن چاہتا ہے کہ اسے مار ڈالے تا کہ اس کی موت کے ساتھ تمام جھگڑا ختم ہو جائے۔ اس لئے جس طرف بھی ایسا آدمی کھڑا ہو گا دشمن اس طرف پورے زور کے ساتھ حملہ کرے گا‘‘ جو مرکز ہو کسی چیز کا اسی کی طرف دشمن زیادہ حملہ کرتا ہے ’’اور ایسی جگہ پر وہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔‘‘ یعنی اس کی حفاظت کے لیے، اس مرکز کی حفاظت کے لیے ’’وہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے جو سب سے زیادہ بہادر ہو۔ پھر صحابہؓ نے کہا کہ

آپؐ کے پاس اکثر حضرت ابوبکرؓکھڑے ہوا کرتے تھے اور ہمارے نزدیک وہی سب سے زیادہ بہادر تھے‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ 366)

پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورة بنی اسرائیل کی دوسری آیت کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ سے ظاہر ہوتاہے کہ چلانے والا کوئی دوسرا تھا۔ اوراسمیں چلنے والے کااپنا اختیار نہ تھا۔ ہجرت کاواقعہ بھی اسی طرح ہؤا کہ آپؐ رات ہی کونکلے۔ اوریہ نکلنا اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اس وقت مجبور ہوکر آپؐ نکلے جبکہ کفار نے آپؐ کے قتل کرنے کے لئے آپؐ کے گھر کامحاصرہ کرلیاتھا۔ پس اس سفر میں آ پکی مرضی کادخل نہ تھا بلکہ خداتعالیٰ کی مشیت نے آپؐ کو مجبورکیاتھا‘‘ یعنی آپؐ کو چلانے والا، آپؐ کو باہرنکالنے والا، آپؐ کو ہجرت کی طرف لے جانے کے لیے کہنے والا اللہ تعالیٰ تھا اور اس کی مشیت کی وجہ سے آپؐ مجبور ہو کر نکلے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’پھر

جس طرح رؤیا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپؐ کے ساتھ تھے ہجرت میں ابوبکرؓ آپؐ کے ساتھ تھے جوگویا اسی طرح آپؐ کے تابع تھے جس طرح جبریل خداتعالیٰ کے تابع کام کرتا ہے۔

اورجبریل کے معنے خداتعالیٰ کے پہلوان کے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص بندے تھے اوردین کے لئے ایک نڈ رپہلوان کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ 296)

پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ایک جگہ کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان کے ہوتے ہوئے انسانی قلب میں مایوسی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کامل ہو تو دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حالت مثلاً غارِ ثور میں ہوئی اس کے بعد کون سی امید کی حالت باقی رہ جاتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کی تاریکی میں اپنے گھر کو چھوڑ کر غارِ ثورمیں جا چھپے۔ ایک ایسی غار میں جس کا منہ بہت بڑا کھلا تھا اور ہر انسان آسانی سے اس کے اندر جھانک سکتا تھا اور کُود سکتا تھا۔ صرف ایک ساتھی آپؐ کے ہمراہ تھا اور پھر دونوں بغیر ہتھیاروں اور بغیر کسی طاقت کے تھے۔ مکہ کے مسلح لوگ آپؐ کے تعاقب میں غارِ ثور پر پہنچے اور ان میں سے بعض نے اصرار کیا کہ ہمیں جھک کر اندر بھی ایک دفعہ دیکھ لینا چاہئے تا کہ اگر وہ اندر ہوں تو ہم ان کو پکڑ سکیں۔ دشمن کو اتنا قریب دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! دشمن تو سر پر پہنچ گیا ہے۔ آپؐ نے اس وقت بڑے جوش سے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ ابوبکر ڈرتے کیوں ہو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ دیکھو گھبراہٹ کے لحاظ سے کتنی انتہائی چیز اس وقت آپ کے سامنے آئی اور اس واقعہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل یا آپ کی گرفتاری میں کون سی کسر باقی رہ گئی تھی۔ مگر باوجود اس کے کہ دشمن طاقتور تھا، سپاہی اس کے ساتھ تھے، ہتھیار اس کے پاس موجود تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالکل نہتے صرف ایک ساتھی کے ساتھ غار میں بیٹھے تھے۔ نہ ہتھیار آپؐ کے پاس تھا نہ حکومت آپؐ کی تائید میں تھی۔ نہ کوئی جتھا آپؐ کے پاس تھا۔ آپ کثیر التعداد دشمن کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے کے باوجود فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ تم کیوں یہ کہتے ہو کہ دشمن طاقتور ہے۔ کیا وہ خدا سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ جب خدا ہمارے ساتھ ہے تو ہمارے لئے گھبراہٹ کی کون سی وجہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓکی یہ گھبراہٹ بھی اپنے لئے نہیں تھی بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’بعض شیعہ لوگ اس واقعہ کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ نعوذباللہ بے ایمان تھا۔ وہ اپنی جان دینے سے ڈر گیا۔ حالانکہ تاریخوں میں صاف لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ تو حضرت ابوبکرؓنے کہا

یا رسول اللہؐ! میں اپنی جان کے لئے تو نہیں ڈرتا۔ میں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا۔ میں تو آپؐ کے لئے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپؐ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مٹ جائے گی۔‘‘

(خطبات محمودجلد28صفحہ416-417)

پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات انبیاء سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ان سے اتر کر بھی

اپنے اپنے زمانے میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جو کام انہوں نے اس وقت کیا

وہ ان کا غیر نہیں کر سکتا تھا۔

مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو لے لو۔ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی کسی وقت اپنی قوم کی قیادت کریں گے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آپؓ کمزور طبیعت، صلح کل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جنگوں کو دیکھ لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بڑی جنگ میں بھی حضرت ابوبکرؓ کو فوج کا کمانڈر نہیں بنایا۔ بےشک بعض چھوٹے چھوٹے غزوات ایسے ہیں جن میں آپؓ کو افسر بنا کر بھیجا گیا مگر بڑی جنگوں میں ہمیشہ دوسرے لوگوں کو ہی کمانڈر بنا کر بھیجا جاتا تھا۔ اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی آپ کو انچارج نہیں بنایا جاتا تھا۔ باقی قرآن کریم کی تعلیم ہے یا قضا وغیرہ کا کام ہے یہ بھی آپ کے سپرد نہیں کیا گیا۔ (حضرت ابوبکرؓ کے سپرد نہیں کیا گیا) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جب ابوبکر کا وقت آئے گا تو جوکام ابوبکر کر لے گا وہ اس کا غیر نہیںکر سکے گا۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوئے اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ کون خلیفہ ہو اس وقت حضرت ابوبکرؓ کے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے۔ آپ سمجھتے تھے کہ حضرت عمرؓ وغیرہ ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں۔ انصار میں جو جوش پیدا ہوا اور انہوں نے چاہا کہ خلافت انہی میں سے ہو کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہیں اور اب خلافت کا حق انصار کا خیال تھا کہ ہمارا ہے اور ادھرمہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک جھگڑا برپا ہو گیا۔ انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو۔ آخر انصار کی طرف سے جھگڑا اس بات پرختم ہوا کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو اور ایک خلیفہ انصار میں سے ہو۔ اس جھگڑے کو دُور کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت مَیں نے سمجھا کہ حضرت ابوبکرؓ بےشک نیک اور بزرگ ہیں لیکن اس گتھی کو سلجھانا ان کا کام نہیںہے۔ (یہ بہت مشکل کام ہے ان کے لیے۔) اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ مَیں ہی ہوں۔ یہاں طاقت کا کام ہے۔ نرمی اور محبت کا کام نہیں۔ (اور حضرت ابوبکرؓ تو نرمی اور محبت دکھانے والے ہیں۔) چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں مَیں نے سوچ سوچ کر ایسے دلائل نکالنے شروع کیے جن سے یہ ثابت ہو کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے اور یہ کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے یہ بالکل غلط ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیںنے بہت سے دلائل سوچے اور پھر اس مجلس میں گیاجو اس جھگڑے کو نپٹانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ بھی میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے چاہا کہ تقریر کروں اور دلائل سے جو مَیں سوچ کر گیا تھا لوگوں کو قائل کروں۔ مَیں سمجھتا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس شوکت اور دبدبے کے مالک نہیں کہ اس مجلس میں بول سکیں لیکن مَیں کھڑا ہونے ہی لگا تھا (حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں کھڑاہونے ہی لگا تھا) کہ حضرت ابوبکرؓ نے غصہ سے ہاتھ مار کے مجھ سے کہا بیٹھ جاؤ اور خود کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ

خدا کی قسم! جتنی دلیلیں مَیں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابوبکرؓ نے بیان کر دیں اور پھر اَور بھی کئی دلائل بیان کرتے چلے گئے اور بیان کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انصار کے دل مطمئن ہو گئے اور انہوں نے خلافتِ مہاجرین کے اصول کو تسلیم کر لیا۔

یہ وہی ابوبکر تھا جس کے متعلق حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ کسی جھگڑے پر بازار میں حضرت ابوبکرؓ کے کپڑے پھاڑ دیے اور مارنے پر تیار ہو گئے تھے۔ یہ وہی ابوبکر تھا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ کا دل رقیق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو وفات سے قبل آپؐ نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے) حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میرے دل میں بار بار یہ خواہش اٹھتی ہے کہ مَیں لوگوں سے کہہ دوں کہ وہ میرے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا لیں لیکن پھر رک جاتا ہوں کیونکہ میرا دل جانتا ہے کہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اس کے مومن بندے ابوبکر کے سوا کسی اَور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا آپؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپؓ رقیق القلب انسان تھے اور اتنی نرم طبیعت کے تھے کہ ایک دفعہ آپؓ کو مارنے کے لیے بازار میں حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور انہوں نے آپؓ کے کپڑے پھاڑ دیے لیکن وہی ابوبکر جس کی نرمی کی یہ حالت تھی ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت عمرؓ آپؓ کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ تمام عرب مخالف ہو گیا ہے۔ صرف مدینہ، مکہ اور ایک چھوٹی سی بستی میں نماز باجماعت ہوتی ہے۔ باقی لوگ نمازیں پڑھتے تو ہیں لیکن ان میں اتنا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں اور اختلاف اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ عرب کے جاہل لوگ جو پانچ پانچ چھ چھ ماہ سے مسلمان ہوئے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ زکوٰة معاف کر دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے کہاکہ یہ لوگ زکوٰة کے مسئلہ کو سمجھتے توہیں نہیں۔ اگر ایک دوسال کے لیے انہیں زکوٰة معاف کر دی جائے تو کیا حرج ہے؟ گویا وہ عمرؓ جو ہر وقت تلوار ہاتھ میں لیے کھڑا رہتا تھا اور ذرا ذرا سی بات بھی ہوتی تھی تو کہتا تھا یا رسول اللہ ؐ!حکم ہو تو اس کی گردن اڑا دوں وہ ان لوگوں سے اتنا مرعوب ہو جاتا ہے، اتنا ڈر جاتا ہے، اتنا گھبرا جاتا ہے کہ ابوبکر کے پاس آ کر ان سے درخواست کرتا ہے کہ ان جاہل لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے زکوٰة معاف کر دی جائے ہم آہستہ آہستہ انہیں سمجھا لیں گے۔ مگر وہ ابوبکر جو اتنا رقیق القلب تھا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ انہیں مارنے کے لیے تیار ہو گیا تھا اور بازار میں ان کے کپڑے پھاڑ دیے تھے۔ اس نے اس وقت نہایت غصہ سے عمر کی طرف دیکھا یعنی جب حضرت عمرؓ نے یہ بات ان سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ کہا جائے جو باغی ہو رہے ہیں، دو سال تک نہ زکوٰة لیں ہم آگے سمجھا لیں گے۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ بات کی تو حضرت ابوبکرؓ نے نہایت غصہ سے عمر ؓکی طرف دیکھا اور کہا عمرؓ !تم اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو خدا اور اس کے رسولؐ نے نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ حدیثُ الْعَہْد ہیں۔ دشمن کا لشکر مدینہ کی دیواروں کے پاس پہنچ چکا ہے۔ کیا یہ اچھا ہو گا کہ یہ لوگ بڑھتے چلے آئیں اور ملک میں پھر طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جائے یا یہ مناسب ہو گا کہ انہیں ایک دو سال کے لیے زکوٰة معاف کر دی جائے۔ یا طوائف الملوکی ہے یا یہ ہے کہ کسی طرح صلح کر لی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور اس کی گلیوں میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دے اور عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں انہیں زکوٰة معاف نہیں کروں گا۔

خدا کی قسم! اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے میں یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا بھی بطور زکوٰة دیتے تھے تو میں وہ بھی ان سے ضرور وصول کروں گا۔

پھر آپؓ نے فرمایا: عمر اگر تم لوگ ڈرتے ہو تو بےشک چلے جاؤ۔ میں اکیلا ہی ان لوگوں سے لڑوں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ اپنی شرارت سے باز نہیں آ جاتے۔ چنانچہ لڑائی ہوئی اور آپ فاتح ہوئے یعنی حضرت ابوبکرؓ فاتح ہوئے اور اپنی وفات سے پہلے پہلے آپؓ نے دوبارہ سارے عرب کو اپنے ماتحت کر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زندگی میں جو کام کیا وہ انہی کا حصہ تھا۔ کوئی اَورشخص وہ کام نہیں کر سکتا تھا۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 30صفحہ198تا 200)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مکہ کے رؤساء کو لوگوں میں سے اس قسم کی عزت اور عظمت حاصل تھی کہ لوگ ان کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے اور ان کے احسانات بھی لوگوں پر اس کثرت کے ساتھ تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ان کی اس عظمت کا پتہ اس وقت لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جس سردار کومکہ والوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے گفتگو کرنے کے لیے بھیجا اس نے باتوں باتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگا دیا۔ یہ دیکھ کر ایک صحابی نے زور سے اپنا تلوار کا کندہ، جو دستہ ہوتا ہے تلوار کا اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریشِ مبارک کو مت لگاؤ۔ اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تا کہ معلوم کرے کہ یہ کون شخص ہے جس نے میرے ہاتھ پر تلوار کا دستہ مارا ہے۔ صحابہؓ چونکہ خود پہنے ہوئے تھے اس لیے ان کو صرف آنکھیں اور ان کے حلقے ہی دکھائی دیتے تھے۔ وہ تھوڑی دیر غور سے دیکھتا رہا۔ پھر کہنے لگا کیا تم فلاں شخص ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں مَیں نے فلاں فلاںموقع پر تمہارے خاندان کو فلاں مصیبت سے نجات دی اور فلاں موقع پر تم پر فلاں احسان کیا۔ کیا تم میرے سامنے بولتے ہو؟ حضرت مصلح موعودؓ اس احسان کا، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج کل ہم دیکھیں تو احسان فراموشی کا مادہ لوگوں میں اس قدر عام ہو چکا ہے کسی پر شام کو احسان کرو تو صبح کو وہ بھول جاتا ہے اور کہتا ہے کیا مَیں اب ساری عمر اس کا غلام بنا رہوں؟ میرے پر احسان کر دیا تو کیا ہو گیا وہ ساری عمر کی غلامی چھوڑ ایک رات کے احسان کی قدر تک برداشت نہیں کر سکتا مگر عربوں میں احسان مندی کا جذبہ بدرجۂ کمال پایا جاتا تھا۔ اب یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا مگر جب اس نے اپنے احسانات گنوائے تو اس صحابی کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اور شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ احسان کی اتنی قدر ہوتی تھی۔اس پر پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنی شروع کر دیں اور کہا مَیں عرب کا باپ ہوں۔ مَیں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنی قوم کی عزت رکھ لو اور دیکھو یہ جو تمہارے ارد گرد جمع ہیں یہ تو مصیبت آنے پر فوراً بھاگ جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہاری قوم ہی آئے گی۔ پس کیوں اپنی قوم کو ذلیل کرتے ہو مَیں عرب کا باپ ہوں۔ وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار یہی کہتا تھا کہ مَیں عرب کا باپ ہوں۔ تم میری بات مان لو اور جس طرح میں کہتا ہوں اسی طرح عمرہ کیے بغیر واپس چلے جاؤ۔ اسی دوران میں اس نے اپنی بات پر زور دینے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منوانے کی خاطر آپؐ کی ریشِ مبارک کو پھر ہاتھ لگا دیا اور گو آپ کو، آپ کی ریشِ مبارک کو اس کا ہاتھ لگانا لجاجت کے رنگ میں تھا، بڑی منت کے رنگ میں کہنا چاہتا تھا اور اس لیے تھا کہ آپؐ سے وہ اپنی بات منوائے مگر چونکہ اس میں تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا تھا اس لیے صحابہؓ اسے برداشت نہ کر سکے اور جونہی اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگایا پھر کسی شخص نے زور سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریشِ مبارک کی طرف مت بڑھا۔ اس نے پھر آنکھیں اٹھائیں اور غور سے دیکھتا رہا کہ یہ کون شخص ہے جس نے مجھے روکا ہے اور آخر پہچان کر اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں۔

اس شخص نے جو کافروں کا نمائندہ بن کے آیا تھا جب اس نے پہچانا اس شخص کو تو آنکھیں نیچی کر لیں۔ دیکھا یہ تو ابوبکر ہیں تو کہنے لگا ابوبکر میں جانتا ہوں کہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں تم ایسے شخص ہو جس پر میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔

پس وہ دوسروں پر اس قدر احسانات کرنے والی قوم تھی کہ سوائے حضرت ابوبکرؓ کے جس قدر انصار اور مہاجر وہاں تھے ان سب پر اس ایک رئیس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا اور حضرت ابوبکرؓ کے سوا اَور کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ اس کے ہاتھ کو روک سکے۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد20صفحہ484-485)وہی واحد شخص تھے جن پر اس شخص کا کوئی احسان نہیں تھا۔

پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’زکوٰة تو ایسی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ(التوبۃ:103) اس میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ تُو لے۔ اب جب کہ آپؐ نہیں رہے تو اَور کون لے سکتا ہے؟ نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہو گا جو لے گا لیکن جہالت سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم زکوٰة نہیں دیں گے۔ ادھر تو لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکارکر دیا اور ادھر فساد ہو گیا قریباً سارا عرب مرتد ہو گیا اور کئی مدعی نبوت کھڑے ہو گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ نعوذ باللہ اسلام تباہ ہونے لگا ہے۔ ایسے نازک وقت میں صحابہؓ نے حضرت ابوبکرؓسے کہا کہ آپؓ ان لوگوں سے جنہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا ہے فی الحال نرمی سے کام لیں۔ حضرت عمرؓ جن کو بہت بہادر کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ گو مَیں کتنا ہی جری ہوں مگر ابوبکرؓجتنا نہیں کیونکہ مَیں نے بھی اس وقت یہی کہا کہ ان سے نرمی کی جائے۔ پہلے کافروں کو زیر کر لیں پھر ان کی اصلاح کر لیں گے لیکن ابوبکرؓنے کہا ابن قحافہ کی کیا حیثیت ہے؟ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے حکم کو بدلائے میں تو ان سے اس وقت تک لڑوں گا جب تک کہ یہ لوگ پوری طرح زکوٰة نہ دیں اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اونٹ باندھنے کی ایک رسی جو دیتے تھے‘‘ وہ بھی نہ دیں ’’وہ بھی ادا نہ کر دیں۔

اُس وقت صحابہؓ کو پتہ لگا کہ خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ کس قدر جرأت اور دلیری رکھتا ہے؟

آخر حضرت ابوبکرؓنے اُن کو زیر کیا اور اُن سے زکوٰة لے کر چھوڑی۔‘‘

(اصلاح نفس، انوارالعلوم جلد5صفحہ452)

حضرت ابوبکرؓ کی مالی قربانی کے بارے میں

آتا ہے، ایک مصنف لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ جب ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم کی خطیر رقم موجود تھی اور ظاہر ہے کہ مالِ تجارت، اسباب و املاک اس کے علاوہ تھے۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق تو ان کے پاس ایک ملین یعنی دس لاکھ درہم کی رقم موجود تھی۔ مکہ میں عام مسلمانوں کی اعانت اور غریب مسلمانوں کی کفالت پر ہزارہا درہم خرچ کر دیے تاہم جب انہوں نے ہجرت کی تو پانچ چھ ہزار درہم نقد ساتھ تھے۔ ایک روایت کے مطابق وہ یہ ساری رقم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کے لیے بچا کر رکھتے گئے اور بوقتِ ہجرت مدینہ لے کر آئے تھے۔ اسی رقم سے انہوں نے ہجرت کے دوران سفر کے اخراجات کے علاوہ بعد ہجرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان میں سے بعض کے سفر کے اخراجات دیے تھے اور مدینہ میں مسلمانوں کے لیے کچھ زمین بھی خریدی تھی۔

(مقالات سیرت از ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس جلد 2 صفحہ 433-434مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء)

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 128 ’’ابوبکر الصدیق‘‘ ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں کہ جس میں آپؐ کی وفات ہوئی آپؐ باہر تشریف لائے اور آپؐ نے اپنا سر ایک کپڑے سے باندھا ہوا تھا۔ آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال کے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الخوخۃ والممر فی المسجد، روایت نمبر 467)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مجھے کسی مال نے کبھی وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو مجھے ابوبکر کے مال نے فائدہ پہنچایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کے رو پڑے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں اور میرا مال تو صرف آپؐ ہی کے لیے ہیں اے اللہ کے رسول!

(سنن ابن ماجہ، مقدمہ، باب فی فضائل اصحاب رسول اللّٰہﷺ حدیث نمبر94)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں۔ آج مَیں ان سے بڑھوں گا۔ یہ خیال کر کے مَیں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لے آیا۔ وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دَور تھا ۔لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے‘‘ ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’حضرت ابوبکرؓاپنا سارا اثاثہ حتی ٰکہ لحاف اور چارپائیاں بھی اٹھا کر لے آئے۔‘‘ بہرحال ’’اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔‘‘ سارا مال۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابوبکرؓ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسولؐ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور مَیں نے سمجھا کہ آج مَیں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓسے بڑھنا چاہا تھامگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓبڑھ گئے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا۔ وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے۔‘‘ (فضائل القرآن(3)، انوارالعلوم جلد11 صفحہ577)(خطبات محمود جلد37صفحہ 134-135) بلکہ وہ گھر کا سامان لے کے آئے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

’’اس واقعہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو کمال ظاہر ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ قربانی میں سب سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے یہ کہ باوجود اپنا سارا مال لانے کے پھر سب سے پہلے پہنچ گئے

اور جنہوں نے تھوڑا دیا تھا وہ اس فکر میں ہی رہے کہ کتنا گھرمیں رکھیں اور کتنا لائیں۔ مگر باوجود اس کے حضرت ابوبکرؓکے متعلق یہ کہیں نہیں آتا کہ انہوں نے دوسروں پر اعتراض کیا ہو۔‘‘ سارا کچھ لے آئے لیکن یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے اعتراض کیا۔ دیکھو مَیں لے آیا ہوں اور وہ دوسرے نہیں لے کے آتے۔

’’حضرت ابوبکرؓ قربانی کرکے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا مَیں دیندار ہوں اور مَیں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی‘‘ ہے۔

(خطبات محمود جلد17 صفحہ 580)

پس حضرت مصلح موعود ؓاس ضمن میں بیان فرما رہے ہیں کہ مالی قربانی کرنے والوں کو اپنا دیکھنا چاہیے۔ ان منافقوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو خود بھی چندہ نہیں دیتے اور اگر تھوڑا سا دے دیں تو دوسروں پہ اعتراض کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے کم دیا اور فلاں نے اتنا دیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’صحابہؓ کی تو وہ پاک جماعت تھی۔ جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑا ہے۔ کیا آپ لوگ ایسے ہیں؟ جب خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے۔ جو صحابہؓ کے دوش بدوش ہوں گے۔ صحابہؓ تو وہ تھے۔ جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہِ حق میں دے دیا۔ اور سب کچھ چھوڑ دیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا۔ ایک دفعہ جب راہِ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھرکا کل اثاثہ لے آئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے۔ تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔

رئیس مکہ ہو اور کمبل پوش۔ غربا کا لباس پہنے۔ یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے۔

ان کے لئے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں (تلواروں) کے نیچے بہشت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 43 ایڈیشن 1984ء) یعنی تلواروں کے نیچے بہشت ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’صحابہؓ کی حالت دیکھو! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا. اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سب سے اوّل کمبل پہن کر آ گئے۔ پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی‘‘ یعنی کہ سب کچھ لے آئے اور صرف ایک کمبل اوڑھ لیا اپنے اوپر۔ اللہ تعالیٰ نے کیا جزا دی ’’کہ سب سے اوّل خلیفہ وہی ہوئے۔‘‘ فرمایا ’’غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی،‘‘ یعنی سب سے اوّل کام کرنا۔ کہ ’’خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آ سکتا ہے۔ جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ 210-211 ایڈیشن 1984ء)

ان شاء اللہ تعالیٰ باقی ذکر آئندہ۔

(الفضل انٹرنیشنل 16؍دسمبر2022ءصفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button