سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

آسمانی بجلی کاگرنا اورمعجزانہ حفاظت

(گذشتہ سے پیوستہ)ایسا ہی اس ڈائری میں ایک اور واقعہ یوں ہے:’’حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی، جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد د یوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا۔دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اسکو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر236)

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے اور پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی ہمارے ساتھ تھے۔ دفعتاً بجلی اس مکان کے دروازے پر پڑی اور دروازے کی شاخ کو دوٹکڑے کر دیا اور مکان دھواں دھار ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بڑی کثرت سے گندھک جلائی گئی ہے۔ پھر چند منٹ کے بعد ہی ایک دوسرے محلے میں ایک مندر تھا اور اس کے پیچ در پیچ راستے تھے۔

چنانچہ اس موقعہ پر آپ نے کھڑے ہو کر اپنے دست مبارک کی لکڑی سے زمین پر ذیل کی صورت کا ایک نقشہ کھینچا

اور فرمایاکہ اس قسم کے پیچ در پیچ راستوں سے ہو کر وہ بجلی اندر مندر میں گئی اور وہاں ایک سادھو بیٹھا تھا اس پر جا کر گری چنانچہ وہ سادھو ایک چو ( پنجابی میں جلی ہوئی لکڑی کو کہتے ہیں)کی طرح ہوگیا ہوا تھا۔‘‘ (ملفوظات جلد10صفحہ 233،الحکم14؍اپریل 1908ء جلد12 نمبر27 صفحہ3)راجہ تیجا سنگھ کے اس مندرکی کچھ مزیدتفصیل کے طورپرعرض ہے کہ ایک سکھ سردار تیجا سنگھ جوکہ ایک مخیراور بہادر ماہرفن تعمیرات تھا۔اس کی سیالکوٹ کے محلہ دھارووال میں رہائش تھی، جسے آج کل گلی بدھ سنگھ بھی کہتے ہیں۔اس سردارنے اسی محلہ میں ایک شاندارشوالہ تیار کرایا۔ ا س کاکلس کئی سیرسونے سے تیار کرایا گیا۔یہ شوالہ صرف شاہی افراد کے لیے مخصوص تھا۔ایک بار جوا س کلس کا یہ سونا چوری ہوگیا تواس پرسونے کے پتروں کی بجائے سونے کاپانی چڑھادیاگیا۔ اس راجہ نے قلعہ سیالکوٹ سے شوالہ تک ایک سڑک بھی بنوائی جسےآج کل دودروازہ روڈ یااقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ راجہ تیجا سنگھ کے بعد اس کابیٹا سرداراجیت سنگھ سیالکوٹ کاحاکم بنا۔[راجہ صاحب کے بارےمیں یہ معلومات اشفاق نیاز کی تصنیف ’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ کے صفحات 61-63سے لی گئی ہیں۔ایڈیشن پنجم 2009ء ] یہ شوالہ جس جگہ ہے آج کل اس کو ’’محلہ شوالہ پارک‘‘ کہاجاتاہے۔

خاندانی معززشریف افسر

پنڈت دیوی رام جو کہ حضرت اقدسؑ کی جوانی کے زمانہ میں قادیان کے ایک سکول میں مدرس کے طورپر متعین رہے ان کا ایک تفصیلی بیان سیرت المہدی میں درج ہے اس میں وہ ایک جگہ آپؑ کے زمانہ ٔسیالکوٹ کے متعلق کچھ باتیں بیان کرتے ہیں جوکہ بقول ان کے انہیں حضرت اقدسؑ نے خود بیان فرمائی تھیں۔وہ بیان کرتے ہیں :’’کچھ مدّت اس سے قبل سیالکوٹ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ رہے تھے۔ انہی ایام میں ایک گوپی ناتھ مرہٹہ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا۔ اس کے متعلق گورنمنٹ کا حکم تھا۔ کہ اگر اس کو تحصیلدار پکڑے تو اس کو اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈپٹی کمشنر پکڑے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ مرہٹہ مرزا صاحب کی ملازمت کے ایام میں ایک ڈپٹی کمشنر کے قابو آیا۔ اس کا بیان مرزا صاحب نے قلمبند کیا۔ کیونکہ اس مرہٹہ کا مطالبہ تھا کہ مَیں اپنا بیان ایک خاندانی معزز شریف افسر یا حاکم کو لکھواؤں گا۔ اور اس نے خاندانی عزت و نجابت کے لحاظ سے مرزا صاحب کو منتخب کیا۔ یہ حالات مرزا صاحب نے خود اپنی زبان سے سُنائے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 759)

بغیرمنڈیرکی چھت پر نہ سونا

حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب عملاً بھی اس حدیث کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 820) غالباً 1904ء کے سفرسیالکوٹ میں جس مکان پرآپؑ کی رہائش تھی اس کی چھت بغیر منڈیرکے تھی جہاں آپؑ کی چارپائی بچھائی گئی تھی۔اورحضرت اقدسؑ کے جگہ بدلوانے پراسی دن اس چھت کی منڈیربنوائی گئی۔

ترجمان عربی

علامہ سیدمیرحسن صاحب نے قیام سیالکوٹ کے اس زمانے کا ایک اورواقعہ بیان کیاہے وہ لکھتے ہیں :’’اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہواتو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پرکسن تھا۔اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے۔)۔[اس کانام پرکنس (Perkins)یا پرکنزتھا ]۔محمدصالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ترجمان کی ضرورت تھی۔مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو۔اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھو اتے جاؤ۔مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا۔ آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہو ئی۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ92)

بَلاَّ سنگھ سے دوڑ

’’دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے۔مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپؑ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی۔اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے۔تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا۔ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔آخر ایک شخص بلّا سنگھ نام نے کہا۔کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو۔تو ثابت ہو جائے گا۔کہ کون بہت دوڑتا ہے۔آخر شیخ الٰہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا۔کہ یہاں سے شروع کر کے اس پُل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاوٴں دوڑو۔جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں۔اورپہلے ایک شخص اس پُل پر بھیجا گیا۔تاکہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا۔اور پہلے پُل پر پہنچا۔مرزا صاحب اور بلّا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب پُل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے۔اور بلّا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر280)دوڑکایہ مقام توآج کل چاروں طرف سے بازاروں میں گھراہواہے۔سیالکوٹ کے احباب اس جگہ کی نشاندہی کرنے کی ایک کوشش کرتے ہیں کہ وہ جگہ اس بازارکے چوک میں بنتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب

وکالت کا امتحان

سیالکوٹ میں قیام کے دوران کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے یہ تاثرملتاہے کہ آپؑ نے اس ملازمت کو ترک کرنے کا خیال کیاہوگا اور بنی نوع انسان کی اورخصوصاً اس طبقے کی کہ جو تھانے کچہریوں کے چکروں میں اس طرح پھنس کے رہ جاتے ہیں کہ باوجودمستحق ہونے کے اپنے حقوق سے محروم رہتے ہیں یا اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے طرح طرح کے ناجائز طریق اختیارکرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔یہ سب کچھ آپؑ نے خود کچہری میں رہ کر مشاہدہ کیاہوگا اور بالآخر یہ فیصلہ کیاکہ کیوں نہ وکالت کاامتحان دے کروکیل کے طورپر ان مظلوموں کی دادرسی کی جائے اور ان کے حقوق دلوائے جائیں اور ظلم واستبدادسے ان کی جان چھڑائی جائے۔اور یوں یہ ملازمت بھی چھوٹ جائے گی اور مخلوق کی ہمدردی کا اس سے بہترموقع بھی مل سکے گا۔اور اس کے لیے دراصل ایک دومواقع ایسے سامنے آئے کہ معلوم ہوتاہے کہ ان کی وجہ سے یہ تحریک پیداہوئی ہوگی۔لیکن خداتعالیٰ نے توساری دنیاکے مظلوموں اور محروموں کی دادرسی کے لیے آپ کو منتخب کرلیا ہوا تھا اور صرف جسم تو کیاان کی روحوں کے نجات دہندہ کے طورپر آپؑ کاانتخاب ہوچکاتھا۔ اس لیے آپؑ کو وکالت وغیرہ کی ضرورت نہ پڑی۔

بہرحال اس ضمن میں جوروایات ملتی ہیں ان پرایک نظرڈالتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کیاآپؑ نے یہ امتحان دیابھی تھاکہ نہیں۔کیونکہ ایک طبقہ جومخالفین کاطبقہ ہے اوروہ صرف مخالف ہی نہیں بلکہ حضرت اقدسؑ کی مخالفت میں حق وانصاف کابھی خون کرنے پرتیارہوجاتاہے اورآزادانہ تحقیق کی بجائے جان بوجھ کرجھوٹ اور تمسخرکی سیاہی شامل کرتے ہوئے لکھ دیتاہے کہ مرزاصاحب نے اس طرح کاایک امتحان بھی دیاتھا اور اس میں بری طرح فیل ہوگئےاوربعض کمینہ فطرت تویہ پھبتی بھی کستے ہیں کہ آپ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے اورفیل ہوگئے۔لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔…يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۔(یٰس:31)ایسے محقق اصل میں خودتوکوئی تحقیق کرتے نہیں بس مکھی پرمکھی مارتے چلے آتے ہیں۔ ایک نے کچھ لکھاتواسی قے کوچاٹتے رہے۔اور تعصب اور بغض اس پرسوا…حالانکہ دیکھنے اورسوچنے والی بات ہے کہ اول تو انسان جب کوئی کوشش کرتاہے تواس میں کامیابی اور ناکامی تومقدرہواہی کرتی ہے۔اگرکبھی ناکامی ہوجائے تو اس میں کون سی تمسخراورہنسی کی بات ہے۔کیالوگ کبھی ناکام نہیں ہوئے۔ اورکبھی کبھی تو خداخوداپنے پیاروں کوآزمائش کے طور پر نتائج وثمرات کے حصول میں کامیاب نہیں کیاکرتا۔جیساکہ فرماتاہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۔ کہ یادرکھو ہم تمہیں خوف،بھوک اوراموال و اولاد کی کمی اور پھلوں اورثمرات محنت کے نتائج سے ناکام کرتے ہوئے آزمائیں گے۔اوراس آزمائش میں صبرورضاپرقدم مارنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔

خیریہ توایک اصولی بات تھی۔اب رہی بات کہ حضرت مرزاصاحبؑ نے کوئی امتحان دیا بھی تھا کہ نہیں ؟ یہ توخودایک تحقیق طلب امرہے۔جوقرائن اس بات کے شاہدہیں کہ امتحان دیا تھا ویسے ہی شواہدیہ بھی ہیں کہ آپ نے ایساکوئی امتحان دیاہی نہ تھا اور اگرکوئی ایساامتحان ہوابھی تھا کہ جس میں حضورؑ شامل ہوئے تو اس کارزلٹ روک لیاگیا تھا اور اس امتحان کوکالعدم قراردیتے ہوئے دوبارہ امتحان لیاگیا اور اس دوسرے امتحان میں حضرت اقدس ؑنے شمولیت اختیارنہیں فرمائی۔اس کے لیے ہم ان روایات کابنظرغائر جائزہ لیتے ہیں۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button