ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر122)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

نومبائعین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں کہنا پڑتاہے کہ جو شخص آتا ہے اور بیعت کرتاہے ہم پر فرض ہوتاہے کہ اسے کرنے اور نہ کرنے کے کاموں سے آگاہ کریں۔جیسا بے خبر آیا تھا ویسا ہی بے خبر واپس نہ جاوے۔ایسا ہونے سے معصیت کا خوف ہے کہ اسے کیوں نہ بتایا گیا ؟سو تم سوچ لو کہ مقدم امر دین ہی کا ہے۔دنیا کے دن تو کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاتے ہیں۔؂

شبِ تنور گذشت و شبِ سمور گذشت

غرباء اور مساکین بھی جن کو کھانے کو ایک وقت ملتا ہے اور دوسرے وقت نہیں ملتا اور آرا م کے مکان بھی نہیں ہوتے ان کی بھی گذر ہی جاتی ہے اور امراء اور پلاؤ زردے کھانے والے اور عمدہ مکانوں اور بالا خانوں میں رہنے والے بھی اپنے دن پورے کرہی رہے ہیںکسی کا دکھ دردسے اور کسی کا عیش میں گذارہ ہوتاہےمگر عاقبت کا دکھ جھیلنا بہت مشکل ہے۔اور وہ عذاب اور اس کے دکھ درد ناقابل برداشت ہوں گے لہٰذا دانا وہی ہے کہ جو اُس ہمیشہ رہنے والے جہان کی فکر میں لگ جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 236۔ایڈیشن1984ء)

تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی مصرع دراصل ایک فارسی ضرب المثل ہے۔جو ایرانی کتب میں موجود ہے۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سردیوں کی یخ بستہ رات میں ایک فقیر کو کوئی جگہ نہ ملی۔ اس نے ناچارایک تنور پر جسے تھوڑی دیر پہلے ہی تپایا گیا تھا پڑا ؤ ڈالا۔پہلو کے بل لیٹا تو وہ حصہ کچھ ہی دیر میں بہت گرم ہو گیاجبکہ دوسرا پہلو سردی کی وجہ سے بہت ٹھنڈا۔ تو کروٹ بدل لی ساری رات اسی طرح بے آرامی میں کروٹیں بدلتا رہا۔صبح اٹھا تو آواز بلند کی۔ اے بادشاہ !اِس سرد رات میں تو محل کے اندر شراب پی کر کمبل میں مزے کی نیند سویا۔ رات تیری بھی گذر گئی۔جب کہ ایک فقیر تیری ہمسائیگی میں ساری رات تنور پرتڑپتا رہا او ر تجھے اس کی خبر نہ ہوسکی۔رات اس کی بھی گذر گئی۔ اس حکایت کو اشعار میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔

شَنِیْدِہْ اِیْم کِہْ مَحْمُوْد غَزْنَوِیْ یِکْ شَبْ شَرَابْ خُوْرْد و شَبَشْ جُمْلِہْ دَرْسَمُوْر گُذَشْت

سننے میں آیا ہے کہ محمود غزنوی نے ایک را ت شراب پی اور اس کی ساری رات سمور( کمبل ) میں گذری۔

لَبِ تَنُوْربِہْ آنْ بِیْنَوَایِ عَوْر گُذَشْت

گَدَایِ گُوْشِہْ نَشِیْنِیْ لَبِ تَنُوْرْ خَزِیْد

ایک گوشہ نشین فقیر تنور پر کروٹیں بدلتا رہا۔ اس بےسروسامان کی رات وہاں گذر گئی۔

عَلَی الصّبَاحْ بِزَدْ نَعْرِہ اِیْ کِہْ اَیْ مَحْمُوْد

شَبِ سَمُوْر گُذَشْت و لَبِ تَنُوْر گُذَشْت

صبح ہوتے ہی اس نے نعرہ لگایا کہ اے محمود! تنور (پر سونے ) والی رات بھی گزر گئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزرگئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button