پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

ستمبر2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ضلع ننکانہ صاحب میں احمدی کا قتل

ننکانہ صاحب چک 33 دھارووالی، 2؍ستمبر 2021ء: ایک پینتالیس سالہ احمدی مقصود احمد کو 2؍ستمبر2021ءکو ان کے گاؤں میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولی ماری جس سے آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ پاک فوج سے ریٹائرڈہو کر برطانیہ میں مقیم تھے۔ موصوف پاکستان آئے ہوئے تھے۔2؍ستمبر2021ءکو نامعلوم حملہ آوروں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔انسانی حقوق کے کارکن یاسر لطیف ہمدانی نے اس واقعہ پر ٹویٹ کیا۔

احمدیہ مسجد شدید خطرے میں

بیٹ نصیر آباد، ضلع مظفر گڑھ؛ ستمبر 2021ء: اس گاؤں میں کچھ عرصے سے احمدیوں کی مخالفت زور پکڑ گئی ہے۔ مخالفین نے جون 2021ء میں احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ مخالفین نے انہیں توڑنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احمدیوں کو حکم دیا کہ ان کو گرا دیں۔ احمدیوں نے پولیس کو بتایا کہ قانون انہیں مینار اور محراب بنانے سے منع نہیں کرتا۔ اس پر پولیس نے معاملہ اپنے قانونی دفتر کو بھیج دیا۔ انہوں نے اپنا فیصلہ دیا کہ احمدی اپنی مسجد میں مینار اور محراب نہیں بنا سکتے۔ چنانچہ پولیس نے احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ان کو شہید کر دیں۔

ایک احمدیہ مسجد میں کلمہ کو پینٹ کر دیا گیا

منوالہ، ضلع فیصل آباد 13؍ستمبر 2021ء: پولیس نے 13؍ستمبر2021ءکو احمدیہ جماعت کے مقامی صدر کو بلایا اور بتایا کہ کسی نے احمدیہ مسجد پر لکھے گئے کلمہ کے خلاف خفیہ ایجنسیوں کو شکایت کی ہے۔ اس لیے مسئلے سے بچنے کے لیے انہیں خود ہی کلمہ کو مٹا دینا چاہیے۔ صدر نے جواب دیا کہ وہاں کلمہ 1960ء میں لکھا گیا تھا۔احمدی خود اس معاملے میں کوئی اقدام نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو اس کو ختم کرنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم اگر پولیس ایسا کرتی ہے تو احمدی مزاحمت نہیں کریں گے۔ اس پر پولیس نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مقامی چیئرمین سے ملاقات کریں گے۔ صدر نے چیئرمین سے ملاقات کی جنہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ تاہم اس رات ایک بجے کے قریب ایک پولیس اہلکار چند اور لوگوں کے ساتھ احمدیہ مسجد میں آئے اور کلمہ کے اوپر کالے رنگ کا پینٹ کر دیا۔

ضلع شیخوپورہ میں پانچ احمدیوں کی قبریں مسمار کر دی گئیں

شیخوپورہ نارنگ منڈی۔ ستمبر 2021ء: مقامی احمدیہ جماعت کو پچھلے دو سالوں میں اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ 15؍ستمبر کو ایک احمدی نصیر احمداپنے رشتہ داروں کی قبروں پر دعا کرنےکے لیے یہاں آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ پانچ احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔

احمدی سرکاری ملازمین کو اپنی ڈیوٹی کرنے سے روک دیا گیا

ضلع چکوال، پنجاب؛ ستمبر 2021ء: ڈاکٹر وسیم احمد بطور سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہیلتھ ضلع چکوال اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے، جبکہ محترمہ عائشہ کنول کو انچارج دارالامان، ضلع چکوال تعینات کیا گیا تھا۔ کچھ عرصے سے مخالفین ان دونوں عہدیداروں کے خلاف سرگرم ہیں۔ مخالفین نے دونوں کو ہٹانے اور انہیں ضلع سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ روزناموں میں درج ذیل اشتعال انگیز بیانات چھپے:

قادیانی افسر کی تعیناتی نا منظور، ختم نبوت کے منکرین 2 افسران فوری طور پر ضلع بدر کیے جائیں۔ عائشہ کنول نے 2010ءمیں پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا، انہیں محکمہ سماجی بہبود اور بیت المال کے لیے منتخب کیا گیاجس کے بعد ان کا تبادلہ دیگر عہدوں پر کر دیا گیا۔ 20؍اگست 2020ءسے وہ دارالامان ضلع چکوال کی سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ نومبر 2020ءمیں ان کے خلاف احمدی ہونے کی شکایت درج کرائی گئی۔ پچھلی سپرنٹنڈنٹ جسے اُس کی مبینہ بدعنوانی کی وجہ سے تبدیل کر دیا گیا تھانے یہ شکایت درج کی تھی۔ مخالفین نے عائشہ کنول کے ڈرائیور کو بلایا اور پیر عبدالقدوس نقشبندی (فضل الرحمان گروپ) سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ عائشہ کنول قادیانی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عائشہ کنول نے دو لڑکیوں کو احمدیت میں داخل کیا ہے اور ان کی شادی قادیانی مردوں سے کرائی۔ انہوں نے ان کے نام پوچھے، تاکہ وہ ان کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے سکیں۔ ڈرائیور نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی افسر ایک معزز خاتون ہے اور یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ اس کے بعد علماء نے دارالامان کے دیگر عملے سے رابطہ کیا اور ان سے عائشہ کنول کے بارے میں پوچھا جس پر سب نے ان کی حمایت کی۔ اس کے بعد پیر عبدالقدوس نقشبندی کی قیادت میں لوگوں کے ایک گروپ نے ڈی سی چکوال سے ملاقات کی۔ ڈی سی نے ثبوت مانگے اور وعدہ کیا کہ اگر شکایت درست ہوئی تو کارروائی کریں گے۔

جہاں تک ڈاکٹر وسیم احمد کا تعلق ہے تو انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے گریجویشن کی۔ وہ گذشتہ 25 سال سے سرکاری ملازمت میں ہیں۔ 20؍اگست 2021ءکو ان کا تبادلہ ضلع چکوال کر دیا گیا۔ ان کی تقرری کے خلاف احمدی مخالف عناصر نے احتجاج شروع کر دیا۔ پیر نقشبندی نے 26؍اگست 2021ءکو مجلس تحفظ ختم نبوت کا اجلاس بلایا جس میں تحصیل تلہ گنگ، لاوہ اور چوآ سیدن شاہ کے علماء نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں دونوں احمدی اہلکاروں کو ہٹانے کے لیے حکام کو 29 ؍اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ بعد میں اسے 2؍ستمبر تک بڑھا دیا گیا۔ اس دوران وکلاء اور تاجر علماء کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر وسیم کا تبادلہ 31؍اگست کو کیا گیا تھا، جب کہ عائشہ کنول کے حوالے سے معاملہ ابھی زیر التوا ہے اور ان کے خلاف مہم جاری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر حافظ عمار یاسر نے یہ معاملہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے سامنے اٹھایا۔ پرویز الٰہی نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے رابطہ کیا اور ڈاکٹر وسیم احمد کو ہٹانے کا کہا۔ ضلع چکوال میں مدارس کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ ان کو تعلیم کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے راہنمائی کرنے کے بجائے، حکمران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مقامی راہنما اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے ملاؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

احمدی اہلکار کو اس کے عقیدے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا …فالو اَپ

ستمبر 2021ء: ایک احمدی شوکت حیات مجوکہ تجربہ کار سرکاری ملازم ہیں۔ انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مذہبی اور سیاسی گروہوں کی جانب سے شدید مخالفت اور ایذا رسانی کا سامنا ہے۔ ان کی اس آزمائش کی کہانی جولائی اور اگست 2021ءکی ماہانہ رپورٹ میں درج کی گئی ہے۔

قبل ازیں مسٹر مجوکہ کا تبادلہ فتح جنگ، جنڈ ڈسٹرکٹ اٹک، چکوال، نور پور تھل، میانوالی اور پھرراولپنڈی میں بطور تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) کیا گیا۔ پنجاب حکومت نے اس فرض شناس اہلکار کے خلاف بے بنیادالزامات قبول کرنا زیادہ گوارا سمجھا اور ان کی تعیناتی کے احکامات منسوخ کر دیے۔ راولپنڈی میں احمدی مخالف عناصر نے ان کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کیا اور مزید کارروائی کی دھمکی دی۔ ان حالات میں انتظامیہ نے انہیں 25؍اگست کو لاہور منتقل کر دیا جہاں انہیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اب وہ چیف آفیسر تحصیل کونسل خوشاب تعینات ہیں۔25؍ستمبر 2021ءکو انہوں نے چارج سنبھالا۔ ان کے چارج سنبھالتے ہی مخالفین نے احتجاج شروع کر دیا اور مسلم لیگ (ق) پنجاب کے نائب صدر ملک الیاس اعوان نے ڈپٹی کمشنر خوشاب کے سامنے ان کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ اسی طرح علاقے کی ایم پی اے ساجدہ بیگم بھی ان کی تقرری کے خلاف احتجاج میں ملاؤں کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ مزید برآں، مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علمائے اسلام سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پوسٹس شیئر کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ڈی سی نے انہیں دفتر آنے سے منع کر دیا گیا۔

ایک نو مبائع احمدی کی آزمائش

گلستان کالونی، ضلع فیصل آباد۔ محمد رضوان باری نے 2011ء میں احمدیت قبول کی اور ان کے رشتہ داروں نے ان کی مخالفت شروع کر دی۔ ان کے والد نے انہیں وراثت میں حصہ نہیں دیا۔ دو سال قبل وہ صلح کے بعد واپس گلستان کالونی میں اپنے گھر شفٹ ہو گئے لیکن مخالفت جاری رہی۔ ان کے والد نے اپنے پیرکو اٹک سے بلایا اور ان سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ پیر نے ان سے احمدیت چھوڑنے کو کہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ پیر نے پھر ان کے والد سے کہا کہ انہیں گھر سے نکال دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رضوان باری استعمال شدہ کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ مذکورہ پیر اور اس کے پیروکاروں نے ان کی دکان کے باہر دھمکی آمیز پمفلٹ لگا کر اور بازار میں یہ مشہور کر کے کہ باری احمدی ہو گیا ہے ان کی سخت مخالفت شروع کر دی اور ان کے ساتھ کاروبار کرنا حرام قرار دے دیا۔ دکانداروں نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ ایک دن چند متعصبوں نے ان کے گودام پر حملہ کیا اور ان کے ملازمین کو مارا۔ انہیں بالآخر کاروبار بند کرنا پڑا۔

رضوان باری کے سسر پیر کے حکم پر ان کی مرضی کے خلاف ان کی بیوی اور بچوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے مقامی مسجد کے امام کو یہ بھی بتایا کہ وہ کافرہو گیا ہے۔ ان کے والد نے اس کی شادی میں دی گئی رقم اور جائیداد واپس کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ اس کے لیے اس نے موصوف کو قانونی نوٹس بھیجا۔اسی طرح مذکورہ پیر کے پیروکاروں میں سے ایک رضوان کا بزنس پارٹنر تھا جس نے موصوف کو کچھ رقم ادا کرنی تھی، لیکن اس نے مذکورہ رقم سے انکار کر دیا۔ اس نے اخبار میں ایک رپورٹ شائع کی کہ رضوان باری مرتد ہو چکے ہیں، شریعت محمدی کے خلاف تبلیغ کر رہے ہیں، لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں اور انہیں احمدی بنا رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے موصوف کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔جبکہ مذکورہ پیر نے رضوان باری کو واجب القتل قرار دے دیا۔ ان حالات میں موصوف کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کی جان خطرے میں ہے۔ ان کا کاروبار، گھر اور خاندان بھی سخت متاثر ہوئے ہیں۔

ایک احمدی کو سخت مشکلات کا سامنا

گرین ٹاؤن لاہور؛ ستمبر 2021ء: عبدالعزیز نے 2003ءمیں احمدیت قبول کی، اس کے بعد انہیں اپنے رشتہ داروں کی طرف سے شدید اذیتوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عزیز 2004ءمیں قادیان میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے گئے۔واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے رشتہ دار ان کے گھر آئے ہیں اور انہوں نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ عزیز کو گھر میں داخل نہ ہونے دیں۔ ایک دن ان کا بھائی کچھ مقامی ملاؤں کو مذہبی بحث کرنے کی خاطر گھر لے آیا۔ دوسرے دن ان کے چچا نے انہیں بلایا۔جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں ایک مولوی پہلے سے موجود تھا،جس نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بد زبانی کی۔ عزیز مزید وہاں نہ ٹھہر سکے اور انہیں وہاں سے جانا پڑا۔ پھر ملا نے ان کے چچا اور بھائیوں کو مشورہ دیا کہ وہ انہیں قتل کر دیں۔ ان کے چند رشتہ داروں نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔ ایک بار انہوں نے اپنے کتے کو ان پر چھوڑ دیا۔ عبدالعزیز کی بیٹی مذہبی عداوت کی وجہ سے دو سال تک سکول نہیں جا سکی۔ بالآخر انہیں وہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ ان کا اپنے قصبے میں مویشیوں کا فارم تھا جہاں سے علاقہ کے مکین دودھ خریدتے تھے۔ ان کے پڑوسیوں نے اعلان کیا کہ عبدالعزیز ایک ’مرازئی‘ اورنعوذ باللہ کافرہے اس سے دودھ نہ خریدا جائے۔ اس کے بعد مخالفین نے ان کے ڈیرے کی چھت کو آگ لگا دی۔ انہیں اپنے مویشیوں کو کہیں اَور منتقل کرنا پڑا۔ وہاں بھی ان کے مخالفین نے انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین نے ان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے بینرز لگائے اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھر کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ایک دوست نے انہیں اطلاع دی ہے کہ ان کے سسرال اور بھائیوں نے ان کے سر پر دس لاکھ کا انعام رکھا ہے۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button