سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا ویں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں۔

وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں

محترم لالہ بھیم سین صاحب کولکھے جانے والے دوخط

14؍ جون 1903ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لالہ بھیم سین کو ایک خط لکھا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتاہے:

’’آپ نے اپنے خط میں کچھ مذہبی رنگ میں بھی نصائح تحریر فرمائی تھیں۔ مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس عظیم الشان پہلو سے بھی دلچسپی ہے۔ درحقیقت چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سب لوگ اصلی گھر کی طرف واپس کئے جائیں گے۔ اس لئے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ دین اور مذہب کے عقائد کے معاملہ میں پورے غور سے سوچے پھر جس طریق کو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق پاوے اُسی کے اختیار کرنے میں کسی ذلّت اور بدنامی سے نہ ڈرے اور نہ اہل و عیال اور خوشیوں اور فرزندوں کی پروا رکھے۔ ہمیشہ صادقوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ سچائی کے اختیار کرنے میں اُنہوں نے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے۔

یہ تو ظاہر ہے کہ خواہ عقائد ہوں یا اعمال، دو حال سے خالی نہیں۔ یا سچے ہوتے ہیں یاجھوٹے۔ پھر جھوٹے کو اختیار کرنا دھرم نہیں ہے۔ مثلاً وید کی طرف یہ ہدایت منسوب کی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت کے چند سال تک بیٹا نہ ہو، بیٹیاں ہی ہوں تو اس کا خاوند اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا سکتاہے۔ اور ایسا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ایک بیگانہ مرد کے نُطفہ سے گیارہ فرزند نرینہ پیدا ہو جائیں۔ اور شاکت مت میں جو وید کی طرف ہی اپنے تئیں منسوب کرتے ہیں یہ ہدایت ہے کہ اُن کے خاص مذہبی میلوں میں ماں اور بہن سے بھی جماع درست ہے اور ایک شخص دوسرے کی عورت سے زنا کر سکتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہزار ہا ایسے مذہب ہیں کہ اگر ان کا ذکر کیا جاوے تو آپ انگشت بدنداں رہیں گے۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان صلح کاری اختیار کرکے اُن لوگوں کی ہاں سے ہاں ملاوے۔ ایسا ہی عقائد کا حال ہے۔ بعض لوگ دریاؤں کی پوجا کرتے ہیں، بعض لوگ آگ کی، بعض سورج کی، بعض چاند کی، بعض درختوں کی، بعض سانپوں اور بلیوں کی۔ اور بعض انسانوں کو درحقیقت خدا سمجھتے ہیں۔ تو کیا ممکن ہے کہ ان سب کو راستباز سمجھا جاوے؟

جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا ویں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں۔ وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی راستباز کو چند ڈاکو یا چور یہ ترغیب دیں کہ بذریعہ ڈاکو یا کیسہ بری یا نقب زنی کے کوئی مال حاصل کرنا چاہئے تو کیا جائز ہوگا کہ وہ راستباز اُن کےساتھ ہو کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرے؟ پس مذہب کس چیز کا نام ہے۔ اسی بات کا نام تو مذہب ہے کہ جو عقائد یا اعمال بُرے اور گندے اور ناپاک ہوں اُن سے پرہیز کیا جاوے اور ایسی کتابیں جو ناپاک عقائد یا اعمال سکھلاتی ہیں اُن کو اپنا پیشوا اور رہبر نہ بنایا جاوے۔ میں اس بات کو کسی طرح سمجھ نہیں سکتا کہ ہر ایک مذہب سے صلح رکھی جاوے اور اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جاوے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاوے تو دنیا میں کوئی بدی بدی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے بدعقائد اور بداعمال ان نیکیوں میں داخل ہو جائیں گے۔ حالانکہ جو شخص ایک نظر دنیا کے مذاہب پر ڈالے تو اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا شناسی ہی کے بارے میں کئی عقائد ہیں۔ بعض ناستک مت یعنی دہریہ ہیں۔ وہ خدا کے قائل نہیں ہیں اور بعض انسانوں یا حیوانوں یا اجرام سماوی یا عناصر کو خدا بناتے ہیں۔ خاص آریہ سماجی جو اپنے تئیں ویدوں کے وارث ٹھہراتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہ کیا اور نہ ارواح پیدا کئے بلکہ یہ تمام چیزیں اور ان کی تمام قوتیں خود بخود ہیں۔ پرمیشور کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں۔ مگر مجھے ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک راستباز کے لئے ممکن نہیں کہ ان تمام متناقض امور کو مان لے اور اُن پر ایمان لے آوے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید اور قدرت کاملہ پر داغ لگایا ہے یا بدکاری کو جائز رکھا ہے میں اس جگہ اُن کی نسبت اور اُن کی کتاب کی نسبت کچھ نہیں کہتا۔ صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ انسان کے لئے ممکن نہیں کہ ناپاک کو بھی ایسا ہی تسلیم کرے جیسا کہ پاک کو کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ پاک ہونے سے خدا ملتا ہے۔ لیکن ایسے طریقوں سے جو ناپاک عقائد اور ناپاک اعمال پر مشتمل ہیں کیونکر خدا مل سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بہشتی زندگی تک پہنچاتا ہے لیکن جو شخص راجہ رام چندر یا راجہ کرشن یا حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا ہے یا خدائے قیوم کو ایسا عاجز اور ناقص خیال کرتا ہے کہ ایک ذرّہ یا ایک روح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں، وہ کیونکر اس پاک ذوالجلال کی حقیقی محبت سے حصہ لے سکتا ہے۔ حقیقی اور سچے خدا کو اُس کی پاک اور کامل صفات کے ساتھ جاننا اور اُس کی پاک راہوں کے مطابق چلنا ہی حقیقی نجات ہے اور اُس حقیقی نجات کے مخالف جو طریق ہیں۔ وہ سب گمراہی کے طریق ہیں پھر کیونکر ان طریقوں میں پھنسے رہنے سے انسان حقیقی نجات پاسکتا ہے۔

دنیا میں اکثر یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہر ایک شخص اُن خیالات پر بہت بھروسہ رکھتا ہے جن خیالات میں اس نے پرورش پائی ہے یا جن کو سننے کا اُس کو بہت موقعہ ملا ہے۔ چنانچہ ایک عیسائی بے تکلّف کہہ دیتا ہے کہ عیسیٰ ہی خدا ہے اور ایک ہندو اس بات کے بیان کرنے سے کچھ شرم نہیں کرتا کہ رام چندراور کرشن درحقیقت خدا ہیں یا دریائے گنگ اپنے پرستاروں کو مرادیں دیتا ہے یا اُن کا ایک ایسا خدا ہے جس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا، صرف موجودہ اجسام یا اراوح کو جو کسی اتفاق سے خودبخود قدیم سے چلے آتے ہیں جوڑنا اس کا کام ہے۔ لیکن یہ تمام بھروسے بے اصل ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ زندہ خدا کو خوش کرنا نجات کے طالب کا اصول ہونا چاہئے۔دنیا رسوم و عادات کی قید میں ہے۔ ہر ایک شخص جو کسی مذہب میں پیدا ہوتا ہے اکثر بہرحال اُسی کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ طریق صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ بات ہے کہ جس مذہب کی رو سے زندہ خدا کا پتہ مل سکے اور بڑے بڑے نشانوں اور معجزات سے ثابت ہو کہ وہی خدا ہے، اس مذہب کو اختیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر درحقیقت خدا موجود ہے اور اُس کی ذات کی قسم کہ درحقیقت وہ موجود ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرے اورانسان جو محض اپنی اٹکلوں سے خیال کرتا ہے کہ اس جہان کا ایک خدا ہے اور وہ اٹکلیں سچی تسلّی دینے کیلئے کافی نہیں اور جیساکہ ایک محجوب اُن روپوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُس کے صندوق میں بند ہیں اور اُس زمین پر جو اُس کے قبضہ میں ہے اور اُن باغات پر جو ہمیشہ صدہا روپیہ کی آمدنی نکالتے ہیں اور اُن لائق بیٹوں پر جو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز ہیں اور ماہ بماہ اپنے باپ کو ہزار ہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں وہ محجوب ایسا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس کا کیا سبب ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُس پر حقیقی ایمان نہیں۔ ایسا ہی ایک غافل جیسا کہ طاعون سے ڈرتا ہے اور اُس گاؤں میں داخل نہیں ہوتا جو طاعون سے ہلاک ہو رہا ہے اور جیسا کہ وہ سانپ سے ڈرتا ہے اور اُس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں سانپ ہو یا سانپ ہونے کا گمان ہو اور جیسا کہ وہ شیر سے ڈرتا ہے اور اُس بَن میں داخل نہیں ہوتا جس میں شیر ہو۔ ایسا ہی وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور دلیری سے گناہ کرتا ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ اگرچہ وہ زبان سے کہتا ہے مگر دراصل خدا تعالیٰ سے غافل اور بہت دور ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ بلکہ جب تک خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ ہوں اُس وقت تک انسان سمجھ بھی نہیں سکتا کہ خدا بھی ہے۔ گو تمام دنیا اپنی زبان سے کہتی ہے کہ ہم خداپر ایمان لائے مگر اُن کے اعمال گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائے۔ سچا ایمان تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً جب انسان باربار کے تجربہ سے معلوم کر لیتا ہے کہ سمّ الفار ایک زہر ہے جو نہایت قلیل مقدار اُس کی قاتل ہے تو وہ سمّ الفار کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ تب اُس وقت کہہ سکتے ہیں کہ وہ سمّ الفار کے قاتل ہونے پر ایمان لایا۔ سو جو شخص کسی پہلو سے گناہ میں گرفتار ہے وہ ہنوز خدا پر ایمان ہرگز نہیں لایا اور نہ اس کو شناخت کیا۔

دنیا بہت سی فضولیوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ ایک جھوٹی منطق پر راضی ہو رہے ہیں۔ مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھلاتا ہے اور خدا سے ایسا قریب کر دیتا ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھتا ہے۔ اور جب انسان یقین سے بھر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ سے اس کا خاص تعلق ہو جاتا ہے۔ وہ گناہ سے اور ہر ایک ناپاکی سے خلاصی پاتا ہے اور اس کا سہارا صرف خدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص نشانوں سے اور اپنی خاص تجلی سے اور اپنے خاص کلام سے اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں موجود ہوں تب اس روز سے وہ جانتا ہے کہ خدا ہے اور اسی روز سے وہ پاک کیا جاتا ہے اور اندرونی آلائشیں دور کی جاتی ہیں۔ یہی معرفت ہے جو بہشت کی کنجی ہے۔ مگر یہ بغیر اسلام کے اور کسی کو بھی میسر نہیں آتی۔ یہی خدا تعالیٰ کا ابتداء سے وعدہ ہے جو وہ اُنہی پر ظاہر ہوتا ہے جو اُس کے پاک کلام کی پیروی کرتے ہیں۔ تجربہ سے زیادہ کوئی گواہ نہیں۔ پس جبکہ تجربہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے تئیں بجز اسلام کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور کسی سے ہمکلام نہیں ہوتا اور کسی کی اپنے زبردست معجزات سے مدد نہیں کرتا تو ہم کیونکر مان لیں کہ دوسرے مذہب میں ایسا ہو سکتاہے۔

ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا، قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور کئی اور ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اور ناپاک تعلیم ہے اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔ پس بہت سہل طریق یہ ہے کہ تم وید والے خدا سے میری نسبت کوئی پیشگوئی کرو اور میں قرآن شریف والے خدا سے وحی پا کر پیشگوئی کروں گا۔ پس اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کی کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ کی بیماری سے مر جائے گا۔ اور میرے خدانے یہ ظاہر کیا کہ چھ برس تک لیکھرام بذریعہ قتل نابود ہو جائے گا کیونکہ وہ خدا کے پاک نبی کی بے ادبی میں حد سے گزر گیا۔ اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس کے مرنے کے تھوڑی مدت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی۔ تمام پیشگوئی میں نے اپنی کتابوں میں بار بار شائع کر دی اور یہ بھی شائع کر دیا کہ وید درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اَب آریہ سماج والوں کو چاہئے کہ لیکھرام کی نسبت اپنے پرمیشور سے بہت دعا کریں تا وہ اُس کو بچا لے کیونکہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا پرمیشور اِن کو بچا نہیں سکے گا اور ایسا ہی لیکھرام نے بھی میری نسبت اپنی کتاب میں شائع کر دیا کہ یہ شخص تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہو جائے گا۔ آخر لیکھرام اپنے قتل ہونے پر گواہی دے گیا کہ وید خدا کی طرف سے نہیں ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button