سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

عبادت کےتمام طریق سورہ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں …اس سورۃ مقدسہ کے معارف بیان کیے جارہےہیں تاتُو خداپرستی کی حقیقت کوسمجھ لے

محترم لالہ بھیم سین صاحب کولکھے جانے والے دوخط

(گزشتہ سے پیوستہ) حضرت اقدس علیہ السلام کے اس فارسی مکتوب مبارک کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

(۱)تعریف صرف تجھے ہی زیبا ودرست ہے۔جوکوئی کسی کے بھی دروازے پرجائےتووہ تیرے ہی دروازہ پرہوگا۔

(۲)امّابعد! میرا مخاطب وہ شخص ہے جو طالب حقیقت اور صدق وعدل پرقائم رہتاہے۔

(۳)مغرور اورمتعصب لوگوں کی محفلوں میں نہیں بیٹھتا اوراستہزا اوربیہودہ باتوں پر کان نہیں دھرتا

(۴)اورمکاروں کی باتوں میں نہیں آتااورخداتعالیٰ کےارادہ کی پیروی کاخواہش مند ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ تجھےہدایت دے۔

(۵)قوم ہنود کی کتب میں تلاش حق اوربیان حقیقت گوئی کلیتاً نایاب(اور)وہم پرستی جابجا ہے

(۶)اوربیہودہ خیالی افسانےلکھےہیں۔ایک گروہ اس اعتقاد پرہے کہ ہم خدائے بےمثل کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔

(۷)ہم اس خیال سے برہما وبشن ومہادیو کو خداسمجھتے ہیں کہ خدائے بےمثل

(۸)ان تین پیکر سے مجسم ہوااوراس کا دامن وحدت غبارآلودہ نہ ہوا۔اورجوبیگانے

(۹)بت پرستی پرطعن کرتےہیں ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ہم ان تینوں(کے ملاپ سے مل کر بننےوالے ۔ مترجم) ایک پیکر کو

(۱۰)اپنی آنکھوں کےسامنے رکھتے ہیں تاکہ اویسہ کو پراگندگی سے روکیں اوردل جو خواہشِ دید رکھتا ہےاس آرزوکی تکمیل کریں

(۱)اور بتدریج مثال پرستی کو چھوڑتےہوئے دریائے حقیقت میں غوطہ زن ہوتے ہیں اورہمارے بت عبادت

(۲)کے وقت عینک کی طرح ہوتےہیں اس سے زیادہ (وقعت) نہیں (رکھتے)اورایک دوسراگروہ ہےوہ ان تینوں کو فرشتہ جانتےہیں

(۳)اورکہتےہیں کہ برہما جبرائیل سے تعبیرکیاجاتا ہے جو پیداکرنےوالا ہے اور بشن اسرافیل سے تعبیرکیاجاتا ہے

(۴)جو نگہبان ہے اوررُدّر یعنی مہادیو عزرائیل سے تعبیرکیاجاتا ہے جو کہ فناکرنےوالا ہے

(۵)اورعالمین کا خداکوئی اورہےجو تعدّدوجننے ومتولّدہونےسے برترہے اوریہ قوم خداکو

(۶)معدوم الصفات سمجھتی ہے واللہ اعلم اورخود کو بیدانتی کہتےہیں گوکہ یہ فرقہ بادی الرائے میں

(۷)ہندوؤں کےدوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ مائلِ صلاحیت ہے البتہ اگرکوئی صدقِ دل اورآزادیِ فکر سے غورکرے

(۸)تواسےمعلوم ہوگاکہ اس(اعتقاد)میں کتنےہی شبہات جھول رہےہیں اوردرحقیقت بیدانتیوں کامذہب

(۹)یہی ہےکہ دنیاکاکوئی صانع ہےلیکن وہ کوئی صفت نہیں رکھتا اورجوتأثیرات دنیامیں رونماہوتی ہیں

(۱۰)وہ وسیلوں کےذریعے سےہوتی ہیں نہ اس کی ذات کےذریعے سے اوریوں معلوم ہوتاہےکہ فی الحقیقت تمام ہندوؤں کا مذہب یہی ہے بعدمیں جاہلوں میں سے

(۱۱)ایک گروہ نےان تینوں فرشتوں کوخداگمان کرکے بت پرستی میں اپنےآپ کو مبتلا کرلیا کیونکہ

(۱۲)ان مقامات میں مبالغہ آمیزی کرناعوام النّاس کا لازمہ ہے۔

(۱۳)اگرچہ عقیدہ ثانی کا نتیجہ بت پرستی ہے مگرخدائے کامل الصفات خالق مطلق کو

(۱۴)معدوم الصفات سمجھنا بھی بت پرستی سے کم نہیں۔لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا (ان میں سے ہر ایک پراللہ کی لعنت ہو)

(15)جہاں تک ہم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بت پرستی کی تعریف کیا ہے اوران لوگوں کو کونسی چیز بت پرست بناتی ہے ، لازم ہے کہ ان امور کو ہم بیان کریں۔جاننا چاہئے کہ عبادت، عقاید کا نتیجہ ہے اور اہل حق کے عقاید یہ ہیں کہ خدا ایک ہے اور اللہ جل شانہ کی صفات ہمیشہ سے قائم ودائم ہیں یعنی نہ اس کی صفات میں تبدّل ہے نہ ہی تغیّر اورنہ ابتداء ہےاورنہ انتہاہے۔سچااورحقیقی خدا ابدی اورازلی ہے کوئی مخلوق نہیں کہ متولّد ہواورایسی صفات سے برتر ہے جن کو تسلیم کرنے سے ہمارادل نفرت کرے۔اس کی صفات توہمارے دل کا قرار ہیں اورہمارا دل اس کی صفات سے مانوس ہے۔وہ ازل سے واحد ہے کونسا دل ہے جو اس کی وحدت کا منکر ہے۔ابد سے وہ ایک ہے اورکونسادل ہے جو اس کی تثلیث کا اقرار کرتاہے۔

اے بےخبرانسان راہ ِراستی سے باہر نہ جا۔ اپنے دل کی خواہش کو دیکھ کہ اس پر کیا تحریر کیا ہے۔جب تو اپنےدل کے آئینہ پرغورکرےگا تو بتدریج پاکیزگی کوحاصل کر لے گا۔

جس وقت وہ اپنے آپ کو ظاہر کرےگا تو کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہے او ر جب اس نے انسان کی فطرتِ حقیقی پر جلوہ کیاتھا تو اس نے اس کی الوہیت کا اقرار کیا اوراس کے کلام کو سنا اور وہ کلام دلوں میں دس بیٹھا اوردلوں میں گھر کرگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان اپنے دل کے ارادہ حقیقی کو پالے تو وہ جان لےگا کہ جب تک وہ اس واحد لطیف کا اقرار نہیں کرتا (اس وقت تک) گناہ گار ہے۔لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل کا استعمال چھوڑدیاہےاوروہم اورخیال نے اس کی پیروی میں جگہ لے لی اور اکثر امور کے سمجھنے سے عاجز وقاصر ہوکر ان کی عقل محض بصارت کی حد تک ہوکر رہ گئی تھی۔تا ہم وہم وخیال کی تاریکی میں مبتلا ان لوگوں کے لیے خدائے کریم نے اپنی بےنہایت رحمت سے اپنے آفتاب کلام کو بھیجا۔جاننا چاہیے کہ عقل کو خداتعالیٰ کی وحدانیت اوراس کے کلام حق کو پہچاننے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بےخبر جزیرہ نشین جن کے کانوں تک رسالت نبوی کی ندا نہیں پہنچی اس ایمان کے مکلف ہیں کہ خداتعالیٰ کو واحد جانیں اور اگر بت پرستی کریں گے تو عذاب الٰہی میں گرفتار ہوں گے اگرچہ رسالت نبویؐ کی ندا ان کے کانوں تک نہ بھی پہنچی ہو۔اب اس نعمت عظمٰی کا شکر ہم پرلازم ہے کہ ہم یاد حق سے غافل تھے اورہمارے حال پریہ مثال صادق آتی تھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کو کہا کہ فلاں شب کو فلاں محفل میں حاضر ہونا اوریاددہانی کے لیے میں تیرے دامن کو یہ گرہ دے رہاہوں۔ پس وہ دامن کی گرہ ہر وقت اس کو دوست کی یاد دلاتی گو وہ اس محفل میں پہنچ توگیا لیکن اندھیرے کی وجہ سے اپنے دوست کی ملاقات سے رکا رہا آخرکار اس کے دوست نے رحم کرتے ہوئے شمع بھیجی تا شمع کی راہنمائی سے آسانی کے ساتھ دوست کے دروازے تک پہنچ جائے۔پس جو نعمت عظمٰی خدائے کریم و رحیم نے ہم لوگوں پرفرمائی ہے اس کے شکر کوہی عبادت کہتے ہیں اور وہ نعمت یہ ہے کہ پہلے ہمیں عدم سے وجود میں لایا اوراس کے بعد اپنی ذات کا جلوہ دکھایا اپنی توحید کے اقرار کو ہمارے دلوں پر ثبت کیا اوراپنے کلام کو ہمارے کانوں تک پہنچایا پھر اپنے کلام کے آفتاب کو ہم پر بھیجا۔

اس امر کا جواب کہ ذات کامل الصفات کومخلوق کی ستائش سے کیا فخر ہوسکتا ہے یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات وصفات کی کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ ہر شخص جو ہرآن گھاٹے میں جارہا ہے وہ خداکےحضور اس طرح تذلّل اختیار کرے کہ اس طریق پر اس کے افضال مخلوق کی طرف اتریں اوروہ انواع مخلوقات کی بقا کا موجب بنیں۔پس عبادت اسی طرح حکمت کامل کی مقتضی ہےجس طرح نوع انسان کی ظاہری صورت۔اورعبادت کےتمام طریق سورہ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں یہی وجہ ہےکہ نماز کی ہررکعت میں اس کو پڑھنا واجب اور اس کو چھوڑنا نماز کوباطل کردیتاہے۔اب اس سورۃ مقدسہ کے معارف بیان کیے جارہےہیں تاتُو خداپرستی کی حقیقت کوسمجھ لے۔اللہ کاارشاد ہے اَلْحَمْدُللِّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن حمد صرف خدا کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا رب ہے۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم مہربانی پر مہربانی فرمانے والا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن عدالت کے دن کا بادشاہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتےہیں یعنی عبادت کرنا ہمارا کام اورقرب ومعرفت تک پہنچانا تیراکام ہے۔ اس کے بعد آنے والی آیت میں استعانت کے معنی کی تشریح ہے جس کی وہ خود تعلیم فرماتاہے۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ تو ہمیں راہ راست کی طرف ہدایت دے ان لوگوں کی راہ کی طرف جن کو تو نے معرفت کے درجہ تک پہنچایا ہے۔جن پر توناراض نہیں ہوتا اورجولوگ تجھ سےدور نہیں ہیں۔جاننا چاہئے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ سے پہلے والی آیات میں عبادت کے معانی تعلیم کیے گئے ہیں اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے بعد والی آیات میں استعانت کے معنی بتائے گئے ہیں، یعنی مدد چاہنا جوکسی صاحب بصیرت پرمخفی نہیں۔اب اس کلام کےذیل میں بت پرستوں کےاوہام کاازالہ تحریر کیاجارہاہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔اس رسالے کے پہلے صفحہ کی ساتویں اورآٹھویں سطر میں یہ کہتے ہیں کہ خدائے بے مثل ان تین اجسام سے مجسم ہوا پھر بھی اس وحدانیت کادامن غبار آلود نہیں ہوا۔

میں کہتا ہوں کہ خدائےتعالیٰ کاواحد ہونا اوراس کا تمام موجودات پرمحیط ہونا اوراس کا غیر محدود ہونا اورازل سےابد تک اس کا یکساں ہونا اورسب سے بزرگ تر ہونا وغیرہ جوصفات رکھتا ہے اس کی یہ تمام صفات روزِاوّل سے ہمارے دل پر نقش ہیں اورہماری روحیں اورقلوب اس کی قرارگاہ اورآرام گاہ ہوچکے ہیں اوراس کی تمام صفات ہمارےدل کامرجع اورہمارے دل ان صفات سے مانوس ہیں۔اورکفار کاخدا کے مجسم اورتین وجود ماننا اور انہیں بیوی بچوں اورماں باپ والا کہنا ان کا صرف زبانی دعویٰ ہے اوردل کو اس کے تسلیم سے کچھ حصہ نہیں۔ پس اس سے بڑھ کرتکلیف دہ بات اورکیاہوگی کہ وہ جن امور کوحق تعالیٰ کی ذات میں گمان کرتےہیں،دل کی شہادت اس پر نہیں ہے اوراگر اس غبار سے مراد وہ غبار ہےجو تودۂ خاک سے حاصل ہوتاہے تو یہ امر دیگر ہے۔

واضح ہوکہ ایمان لانے کے لیے دل کی شہادت ضروری ہے کیونکہ روایات کادامن کذب سے آلودہ ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے اورربانی کلام کی نشانی یہی ہے کہ اس کی تعلیمات کی سچائی پردل گواہی دے۔ پس خدائے کریم و رحیم جوکہ عادل ومنصف ہے اس طرح کی تکلیف مالایطاق کوجس کے صدق وکذب کا دل پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا کس طرح تجویز کرے گا باوجودیکہ اس اعتقاد پر تمام ہندو متفق نہیں ؟ ہندو مؤرخین یہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں اشخاص ہم عصر تھے اورلوگوں کے ساتھ ملتے جلتے ،کھاتے پیتے،بول و براز کرتےتھے اوراپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرتے نیز ان سے امور فواحش بھی سرزد ہوئے۔چنانچہ ہنود کی کتب کے مطالعہ کرنےوالوں پر یہ تمام بیان مخفی نہیں ہے۔اوراس قوم کے تأویل کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ تینوں فرشتے تھے جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اوران کے دانشور کہتے ہیں کہ یہ تینوں زمانہ کے نام ہیں اوروہ زمانہ کو تین جزو میں تقسیم کرتےہیں۔ملل ونحل اورمصنف اوردبستان کے مصنفین یہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں میں سے ایک فرقہ ان تینوں اشخاص کے بارہ میں کہتا ہے کہ یہ خصیتین وآلۂ تناسل سے تعبیر ہیں اورپھر وہ دلائل میں دوسروں کوساکت کردیتاہے۔ہاں!وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (یوسف :77)

صفحہ اوّل کی نویں سطر میں تحریر ہے کہ یہ لوگوں کو کہتے ہیں کہ بت پرستی پر طعن کرنا غلط ہے (کیونکہ) اہل اسلام ہمارے عقائد کی حقیقت کونہیں سمجھتے۔ہم ان ہرسہ میں سے ہرایک کو مظہر الوہیت اوراپنی توجہات کامرکز قرار دیتے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ کومجسم ماننے کاعقیدہ ہمیشہ سےباطل ہے پس ایسا خیال کرنافاسد پر فاسد کی بنا رکھنے کی طرح ہے۔صفحہ اول دسویں سطر۔ہندو یہ کہتے ہیں کہ ان بتوں کوآنکھوں کےسامنے رکھنا اس وجہ سے ہے کہ تا دل کوہم پراگندگی سے بچائیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button