پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

جولائی اور اگست2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ربوہ میں احمدیوں کےخلاف قربانی کا تیسرا مقدمہ درج

ربوہ، اگست 2021ء: ہم نے قبل از یں رپورٹس میں ذکر کیا تھا کہ ربوہ میں عید کے موقع پر احمدیوں کے خلاف قربانی اور کھالیں جمع کرنے کے الزام میں دو پولیس مقدمات درج کیے گئے تھے۔ 29؍جولائی کو پولیس نے ملا اسامہ رحیم کی درخواست پر ایف آئی آر نمبر348کے تحت 25 سے 30 نامعلوم افراد کے خلاف پی پی سی 188اور 427کے تحت ربوہ میں قربانی کی کھالیں جمع کرنےکی وجہ سے نیا مقدمہ درج کیا۔ ملا اسامہ رحیم کو ربوہ میں محض اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ وہ احمدیوں کو پولیس کیسوں میں پھنسائے۔

تین احمدی قاتلانہ حملے میں بچ گئے

43 جنوبی، ضلع سرگودھا؛ 21؍جولائی 2021ء: طیب احمد کو مسجد سے واپس آتے ہوئے ایک مخالف احمدیت موٹرسائیکل سوار نے پیچھے سے ٹکر مار دی۔موصوف حملے کا جواب دیے بغیر گھر چلے گئے۔ تاہم حملہ آور اس کے پیچھے گھر تک گیا،جہاں طیب احمد کے بڑے بھائی نے حملہ آور سے کہا کہ وہ طیب کو ہراساں کرنا بند کرے۔ حملہ آور انہیں کوستا ہوا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حملہ آور اپنے بھائیوں سمیت پستول اور لوہے کی سلاخیں اٹھائے ہوئے واپس آگیا۔ اور ان پر حملہ کرد یاجس کے نتیجے میں طیب احمد کو ٹانگوں میں تین گولیاں لگیں۔مقامی احمدی صدرجماعت اور ایک اَوراحمدی سیف اللہ پر بھی حملہ کیا گیاجنہوں نے لڑائی کو روکنے کے لیے مداخلت کی تھی۔ صدرصاحب جماعت کی ٹانگ میں گولی لگی جبکہ سیف اللہ کے سر پر چوٹ آئی۔ چنانچہ انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یہ گروہ عرصہ دراز سے شہر میں احمدیوں کے خلاف سرگرم ہے۔2013ءمیں انہوں نے دو احمدی اساتذہ کےخلاف مذہبی بنیاد پر ایک مسئلہ اٹھایا جس کے بعد انتظامیہ کو انہیں سکول سے نکالنے پر مجبور کیاگیا۔انہوں نے عید الفطر کے موقع پر طیب احمد کو ہراساں کیا ۔ پولیس کو دی گئی درخواست میں انہوں نے اس واقعے کو مذہبی رنگ میں تبدیل کر دیا۔ احمدیوں کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔

راجن پور میں احمدی خاندان کو ہراساں کیا گیا

راجن پور،اگست 2021ء: محمد عبداللہ اور ان کے خاندان نے 1996ء میں احمدیت قبول کی۔ 29؍جولائی 2021ء کو عبداللہ کا بہنوئی چند ملاؤں کے ساتھ ان کے گھر آیا۔ عبداللہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔اس نے بتایا کہ عبداللہ نے اس کی بہن کو زبردستی گھر میں رکھا ہوا ہے اور اسے مارا ہے۔چنانچہ وہ عبداللہ کی بیوی کو باہر گلی میں لے گئے اور شور مچایا کہ وہ بچوں کو باہر نہیں آنے دیں گے، اور پولیس کو بلایا۔ پولیس کے پہنچنے پر شرپسندوں نے پولیس کو بتایا کہ ان مرزائیوں[احمدیوں] نے بچوں کو زبردستی گھر میں بند کر رکھا ہے۔ پولیس گھر کے اندر گئی اور بچوں کو ساتھ تھانے لے گئی۔ وہاں، ایس ایچ او نے عبداللہ کی بچیوں پر زور دیا کہ وہ یہ بیان دیں کہ انہیں زبردستی احمدی بنایا گیا ہے لیکن انہوں نے ایسا کوئی بیان نہ دیا۔ پھر اس نے انہیں بتایا کہ ان کے والد اور بھائی کو گرفتار کر لیا گیا ہےتو وہ اب کہاں رہیں گی؟ اس پر لڑکیوں نے کہا کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ نہیں جائیں گی۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے لڑکوں اور لڑکیوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی اور بیانات لیے جس میں تمام بچوں نے بتایا کہ انہیں کسی نے زبردستی احمدی نہیں بنایا اور وہ اپنی مرضی سے احمدی ہیں نیز یہ کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ نہیں جانا چاہتے۔اس پر عبداللہ کی بیوی کو اس کے بھائی آ کر لے گئے اور بچے گھر واپس آگئے۔

احمدی اہلکار کو عقیدے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا

اگست 2021ء: شوکت حیات مجوکہ ایک قابل سرکاری ملازم ہیں۔اپنے فرائض کی انجام دہی میں انہیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ان کی اس آزمائش کی کہانی جولائی 2021ء کی ماہانہ رپورٹ میں بیان کی گئی تھی۔

شوکت حیات مجوکہ کو تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) فتح جنگ اور جنڈ، ڈسٹرکٹ اٹک تعینات کیا گیا تھا۔ فرقہ وارانہ انتہا پسندوں نے ہوم سیکرٹری پنجاب کو خط لکھا کہ وہ احمدی ہیں جبکہ مقامی لوگ ختم نبوت پر یقین رکھنے والے سنی افرادہیں اس لیے ان کی تقرری بدنظمی کا باعث بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، ایک آدمی جو ختم نبوت پر مکمل یقین نہیں رکھتا مقامی لوگوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس پر ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔

بعد ازاںموصوف 16؍جولائی 2021ء کو ٹی ایم او میانوالی تعینات ہوئے۔ملاؤں اور سیاسی مفاد پرستوں نے احمدی ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی۔ اس طرح انہیں اپنا چارج سنبھالنے سے روک دیا گیا۔

13؍ اگست کو انہیں راولپنڈی منتقلی کے احکامات موصول ہوئے۔ وہاں کی احمدی مخالف لابی نے ان کی پوسٹنگ کے خلاف احتجاج کیا،احتجاجی ریلی نکالی اور ان کی پوسٹنگ کے خلاف 20؍اگست 2021ء کے خطبات جمعہ میں پراپیگنڈاکرنے کی کوشش کی۔ علاوہ ازیں مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں کچہری چوک پر دھرنا دینے کی دھمکی دی۔ اس مہم کا اہتمام ایکشن کمیٹی تحفظ ختم نبوت راولپنڈی نے کیاتھا۔

جب موصوف چارج لینے کے لیے ڈی سی راولپنڈی سے ملنے گئے تو وہاں بھی ملّا جمع ہو گئے اور احتجاج کیا تاہم ڈی سی نے انہیں چارج سنبھالنے دیا۔اس کے بعد مخالفین نے ٹوئٹر پر ان کے خلاف ہیش ٹیگ ’’Remove Qadiani Shaukat Hayat‘‘یعنی ’’قادیانی شوکت حیات کو ہٹاؤ‘‘ کے ساتھ ٹرینڈ شروع کیا۔ ملا نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی تقرری پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور مزید کارروائی اور احتجاج کی دھمکی دی۔ان حالات میں انتظامیہ نے انہیں 25؍اگست کو لاہور منتقل کر دیا۔

احمدی سکول ٹیچر اپنے عقیدے کی بنا پر فارغ

بہارہ کہو،اسلام آباد، 5؍اگست 2021ء: عطیة النصیر نبیل گذشتہ آٹھ سالوں سے The Rise International Schoolمیں پڑھا رہی ہیں۔ پچھلے تین سالوں سےوہ جونیئر سکول کی Coordinator کے طور پر تعینات تھیں۔ بہترین کارکردگی پر مئی 2021ء میں انہیں جونیئر کیمپس کےہیڈ کے طور پر ترقی دی گئی اور انہیں علیحدہ دفتر دیا گیا۔ان کے ساتھ ہمیشہ عزت سے پیش آیا گیا،ہر جگہ ان کی تعریف کی گئی اور ان کے مذہب کو ان کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔

5؍اگست 2021ء کو ایک شخص ان کے دفتر آیا اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں سکول سے نکالنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے اس شخص کے خلاف سی ای او (CEO) سے شکایت کی جس پر اسے طلب کیاگیا۔ اس نے اعتراض کیا کہ ایک قادیانی کو انچارج بنا دیا گیا ہے۔ اس نے سی ای او کے ساتھ ساتھ موصوفہ کو بھی دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ وہ ان کے گھر اور خاندان کی تمام تفصیلات جانتا ہے۔ اس کے بعداس شخص نے سی ای او کو احمدی موصوفہ کی بہن کے متعلق بتایا جو تقریباً 14سال قبل ایک اَورسکول میں پڑھاتی تھی اور اب جرمنی میں مقیم ہیں۔

اس کے بعد، سی ای او نے عطیة النصیر کو فون کر کے انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں بےبس ہیںاور انہیں تین ماہ تک غائب رہنے اور ان سے رابطہ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

نئے تعینات ہونے والے سی ای او (CEO)ہیلتھ ڈسٹرکٹ چکوال کو احمدی ہونے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا

لندن: یکم ستمبر 2021ء: بین الاقوامی انسانی حقوق کمیٹی نے درج ذیل پریس ریلیز جاری کی (اقتباسات):

نئے تعینات ہونے والے سی ای او ہیلتھ چکوال ڈاکٹر وسیم احمد کو احمدی ہونے کی وجہ سے ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وسیم احمد کو 20؍اگست 2021ء کو سی ای او ہیلتھ چکوال تعینات کیا گیا جنہوں نے 24؍اگست 2021ء کو اس عہدے کا چارج سنبھالا۔

چارج سنبھالنے کے فوراً بعد ان کے خلاف ایک منصوبے کے تحت نفرت انگیز مہم شروع کر دی گئی جس میں نہ صرف مذہبی تنظیموں بلکہ مقامی میڈیا اداروں اور وکلاء کی تنظیموں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ڈاکٹر وسیم احمد کو صرف ان کے عقیدے کی بنا پر حکومت پنجاب کے ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ سے ہٹانے کا متفقہ مطالبہ کیا گیا۔

پاکستان میں احمدیوں کے خلاف عدم برداشت اور نفرت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کی دہائیوں پر محیط تاریخ ہے جو ریاست کی نگرانی میں روز بروزبڑھتی جا رہی ہے۔زندگی کے تمام شعبوں میں احمدیوں کو منظم طریقے سے ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے حیثیت نہ دینا قابل مذمت نہیں سمجھا جاتا اور احمدیوں کو ایک ایسا طبقہ سمجھا جا تا ہے جس کے کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں ہیں اور ضلع چکوال کے حالیہ واقعہ نے ان حقائق کو ثابت کر دیا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مقامی ممبر صوبائی اسمبلی اور پنجاب حکومت کے وزیر،حافظ عمار یاسر نے یہ مسئلہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی کے سامنے اٹھایا۔پرویز الٰہی نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے رابطہ کیا اور ان سے ڈاکٹر وسیم احمد کو سی ای او ہیلتھ چکوال کے عہدے سے ہٹانے کا کہا۔اس کے بعد ان کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی اس احمدی اہلکار کا تبادلہ کر دیا گیا۔یہ واقعہ احمدیوں کے خلاف معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرت کا ایک اور ثبوت ہے جنہیں محض اس وجہ سے ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے کہ اکثریت ان کے مذہبی عقائد سے خوش نہیں ہے۔

13؍جولائی 2021ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے دنیا بھر میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر توجہ نہ دینے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ احمدیوں پر ظلم کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کرے۔

پنجاب میں پرائمری کلاسز میں ختم نبوت کے موضوع پر وقتاً فوقتاً درس دیا جائے گا

سیالکوٹ، اگست 2021ء: ہمیں چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ سیالکوٹ کے خط کی ایک کاپی موصول ہوئی ہے جو مستقبل میں حوالے کے طور پر پیش کرنے کے قابل ہے۔اس پر ابھی تبصرہ کیا جاتا ہے۔ہم ذیل میں اس خط کا اصل متن پیش کرتے ہیں:

’’از دفترچیف ایگزیکٹو آفیسر (DEA) سیالکوٹ

بنام۔جملہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز ضلع سیالکوٹ

مراسلہ نمبر: 3568تاریخ: 17؍اگست 2021ء

عنوان: ضروری ہدایات برائے سربراہان ادارہ جات

  1. تمام تعلیمی ادارہ جات کے سربراہان کو پا بند کریں کہ اسلامیات اور عربی کا مضمون صرف اس مسلمان ٹیچر کو تفویض کریں جو دین اسلام کا اچھا فہم رکھتا ہو۔
  2. اسلامیات اور عربی کے پیریڈ میں ختم نبوتﷺ کے موضوع پر طلباو طالبات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں وفتاً فوقتاً درس دیا جائے۔
  3. سکول کی نمایاں اور محفوظ جگہ پر درج ذیل حدیث کو مع ترجمہ لکھوائیں:انا خاتم النبیین لا نبی بعدی (ترمذی شریف) ترجمہ:میں نبیوں میں سے آخری ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

چیف ایگزیکٹیو آفیسر (DEA) سیالکوٹ‘‘

اس خط کے اجرا کا کیا پس منظر ہے نیز اس خط کے مندرجات پر تبصرہ آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button