ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر119)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

’’مقام لقاء ‘‘

ا س کے آگے جو لقاء ہے وہ امر کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے۔ اس کاروبار کا انتہا مرنا ہے اور یہ تخمریزی ہے۔ اس کے بعد روئید ن یعنی پیدا کرنا وہ فعل خدا کا ہے۔ایک دانہ زمین میں جاکر جب بالکل نیست ہوتا ہے تو پھر خد ا تعالیٰ اسے سبزہ بنا دیتا ہے مگر یہ مرحلہ بہت خوفناک ہے۔ بالکل ٹھیک کہا ہے؎

عشق اول سرکش و خونی بود

تا گریزد ہر کہ بیرونی بود

جب آدمی سلوک میں قدم رکھتا ہے تو ہزارہا بلااس پر نازل ہوتی ہیں جیسے جنات اور دیو نے حملہ کردیا ہے۔مگر جب وہ شخص فیصلہ کرلیتا ہے کہ میں اب واپس نہ ہوں گااور اسی راہ میں جان دے دوں گا تو پھر وہ حملہ نہیں ہوتا اور آخر کار وہ بَلا ایک باغ میں متبدل ہوجاتی ہے اور جو اس سے ڈرتاہے اس کے لئے وہ دوزخ بن جاتی ہے ۔اس کا انتہائی مقام بالکل دوزخ کا تمثل ہوتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ اسے آزماوےجس نے اس دوزخ کی پروا نہ کی وہ کامیاب ہوا۔یہ کام بہت نازک ہے۔ بجز موت کے چارہ نہیں ۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر184)

تفصیل: اس حصہ میں آمدہ فارسی شعر جلال الدین محمد بلخی معروف بہ مولانا،مولوی و رومی کا ہے۔

عِشْقْ اَوّل سَرْکَشْ و خُوْنِیْ بُوَدْ

تَا گُرِیْزَدْ ہَرْ کِہْ بِیْرُوْنِیْ بُوَدْ

ترجمہ: شروع میں عشق بہت منہ زور اور خون خوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صر ف تماشائی ہے بھاگ جائے ۔

مولانا کے دیوان میں ہی یہ شعر ایک لفظ ’’از‘‘کے اضافہ کےساتھ اس طرح بھی ملتا ہے۔

عِشْق اَزْ اَوَّل سَرْکَشُ و خُوْنِی بُوَدْ

تَا گُرِیْزَدْ ہَرْ کِہْ بِیْرُوْنِیْ بُوَدْ

ترجمہ:عشق شروع سے ہی بہت منہ زور اور خون خوار ہوتاہے تا وہ شخص جوصرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔ مثنوی میں مولانا نے اس مضمون کو اس طرح بھی بیان کیا ہے۔

عِشْق اَزْ اَوَّل چِرَا خُوْنِی بُوَدْ؟

تَا گُرِیْزَدْ ہَر کہ بِیْرُوْنِیْ بُوَدْ

ترجمہ :شروع میں عشق کیوں منہ زور اور خونخوا ر ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button