سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدسؑ کا لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی اوررفاقت کا تعلق آخر دم تک قائم رہا اورانہوں نے بھی اسے خوب نبھایا

سرسیداحمدخان سے خط وکتابت

(گزشتہ سے پیوستہ) یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سرسیداحمدخان صاحب قوم کی ہمدردی اوراصلاح کاجذبہ اپنے دردمنددل میں لے کرکھڑے ہوئے۔اور مسلمانوں کا ایک محدودہی سہی لیکن پڑھالکھاطبقہ ان کی طرف مائل ہورہاتھا۔علامہ اقبال کے استادمحترم علامہ سیدمیرحسن صاحب بھی ان کے معتقدین میں سے ایک تھے۔ابھی جن صاحب مرزاموحدصاحب کا ذکرہواہے یہ بھی سرسیداحمدخان صاحب کے معتقدین میں سے تھے۔سیالکوٹ میں ہی ان کے متعلق حضرت اقدسؑ سے سرسیدکاغائبانہ تعارف کرایاگیا۔اورآپؑ نے یہیں سے انہیں ایک خط بھی لکھاجوکہ عربی زبان میں تھا۔علامہ سیدمیرحسن صاحب کی یہ روایت حیات احمدؑ اور سیرت المہدی میں موجودہے وہ بیان کرتے ہیں:’’چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے۔اور مراد بیگ نام جالندھرکے رہنے والے تھے۔مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے توراة وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط وکتابت کریں۔اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی۔ چنانچہ مرزا صاحب نے سر سید کو عربی میں خط لکھا۔‘‘(حیات احمد جلد اول صفحہ94)علامہ موصوف مزیدبیان کرتے ہیں:’’اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہنے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی۔تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی۔ جب میں اور شیخ الٰہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثنا گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا۔راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے۔فرمایا :’’کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں۔جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سُن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا۔‘‘(حیات احمد جلد اول صفحہ97)ایسابھی معلوم ہوتاہے کہ سرسیداحمدخان صاحب قرآن کریم کی جوتفسیرلکھناچاہ رہے تھے اس کے لیے وہ کسی گہرے دینی علم رکھنے والی شخصیت کی تلاش میں بھی تھےاور اس سلسلہ میں وہ حضرت اقدسؑ سے مددلیناچاہ رہے تھے لیکن حضرت اقدسؑ کو ان کااندازتفسیراورانداز فکرپسندہی نہ آیا۔لیکن سرسیدکے ساتھ ایک گونہ تعلق آپؑ کو رہااور ان کی ہمدردئ قوم وملت اور زیرکی ودانائی کی تعریف فرمائی۔

یہاں یہ ذکرخالی ازدلچسپی نہ ہوگا کہ سیدمیرحسن کے بڑےبھائی سیدعبدالغنی تھے جوکہ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔اور کچھ عرصہ دینانگرضلع گورداسپور میں پوسٹ ماسٹرکی حیثیت سے کام کیا۔ان کی سرسیدسے بھی خط وکتابت تھی۔سرسیدکاایک خط ان کے نام تھاجوملاحظہ کرنے کے قابل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’مخدومی مکرمی سیدعبدالغنی صاحب

آپ کاعنایت نامہ علی گڑھ سے ہوکرالٰہ آباد میرے پاس پہنچا…حضرت مرزا(غلام احمد) صاحب (قادیانی) کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے۔ایک بزرگ،زاہد،نیک آدمی ہیں۔جوکچھ خیالات ان کے ہوگئے ہوں،ہوگئے ہوں۔بہت سے نیک آدمی ہیں جن کواس قسم کے خیالات پیداہوچکے ہیں۔ہم کوان سے نہ کچھ فائدہ ہے نہ کچھ نقصان (مگر) ان کی عزت اوران کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اورنیکی کے لازم ہے۔ان کے خیالات کی صداقت وغیرصداقت سے بحث محض بے فائدہ ہے۔ہمارے لیے مفیدہمارے اعمال ہیں۔ان کے اچھے ہونےپر کوشش چاہیے۔فقط خاکسار سیداحمد

از الٰہ آباد 14نومبر 1892ء‘‘

(علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء مولوی سیدمیرحسن۔حیات وافکار،مصنفہ ڈاکٹرسیدسلطان محمودحسین صفحہ 2)

لالہ بھیم سین

سیالکوٹ کایہ ذکر نامکمل رہے گا اگرہم ایک اورشخصیت کا ذکرنہ کریں۔اوروہ ہیں محترم لالہ بھیم سین صاحب۔یہ ہندوعقیدہ سے وابستہ تھے۔

آپ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے،سیالکوٹ کی علمی ادبی محفل اور قانونی دنیامیں ان کا نام تھا۔ اوربعدازاں ان کے بیٹے کنورسین نےتو ہندوستان بھرمیں شہرت پائی۔لالہ بھیم سین صاحب فارسی اورعربی کے بھی عالم تھے۔لالہ صاحب سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے۔ان کےنانا مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرااسسٹنٹ تھے اور اس زمانہ میں لالہ بھیم سین صاحب بٹالہ میں ہی اپنے نانا کے ہاں تھے جب کچھ دیرکے لیے حضرت اقدسؑ بٹالہ میں اپنے استاذ محترم مولوی گل علی شاہ صاحب سے پڑھاکرتے تھے۔یہیں مولوی محمدحسین بٹالوی اور لالہ بھیم سین صاحب بھی انہیں مولوی صاحب سے پڑھنے لگے اوریوں انہیں بھی حضرت اقدسؑ کے ہم مکتب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔اور حسن اتفاق یہ ہے کہ جب حضرت اقدسؑ ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو لالہ صاحب کے ساتھ دوستی اوررفاقت کا یہ تعلق اورمضبوط ہوتاچلاگیا۔وہاں جو علمی ومذہبی مجالس ہوتیں ان میں لالہ صاحب بھی شریک ہواکرتے۔جب سیالکوٹ سے حضرت اقدسؑ واپس تشریف لے آئے تواس زمانہ میں قانون کاایک امتحان ہواتھا جس میں حضرت اقدس ؑبھی شریک ہوئے [ایک روایت کے مطابق آپؑ نےتو امتحان دیاہی نہ تھا]اور لالہ صاحب بھی شریک ہوئے یہ ایک قسم کا وکالت کا ہی امتحان تھا اور اس میں پاس ہونے کے بعد امیدوارکو وکالت کی پریکٹس کی اجازت مل جایاکرتی تھی۔ لالہ صاحب نے یہ امتحان پاس کرنے کےبعد وکالت شروع کردی اور وکالت میں نام کمایا،انہوں نے اپنے ایک بیٹے لالہ کنورسین کو بھی وکالت کی اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے انگلینڈبھیجا اوران کے یہ صاحبزادے لاہورلاء کالج کے پرنسپل بھی رہے اوربعدازاں ریاست ہائے کشمیرجودھ پورالوروغیرہ میں چیف جسٹس وجوڈیشل منسٹرکے عہدوں پر فائزرہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ڈیرہ دون میں رہائش پذیرہوگئے۔1944ء کے ایک خط کے مطابق ان کا پتہ تھا: ’’کنورکنج‘‘کشمی ایونیو ڈیرہ دون،

Rai KanwarSain.M.A.Bar-at-Law“KanwarKunj”Lakshmi Avenue, Dehra Dun

حضرت اقدسؑ جو کہ عہددوستی کوایک قیمتی جوہرسمجھتے تھے اور الحب فی اللہ کے تحت قائم ہونے والے تعلقات میں وَ لَیْسَ فُؤَادِیْ فِی الْوِدَادِ یُقصِّرکے داعی تھے۔ ایسے تعلقات کو آپ کبھی بھی منقطع کرنے والے نہ تھے۔اورپھرتعلق بھی وہ جو قَدْغَرَسْنَاہُ فی الصَّبَا کامصداق ہو۔حضرت اقدس ؑکا لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی اوررفاقت کا تعلق آخر دم تک قائم رہا۔اورانہوں نے بھی اسے خوب نبھایا۔

محترم لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی اور رفاقت کے تعلقات کی نسبت سیالکوٹ کے انہیں دنوں کے ایک چشمدیدراوی اور رفیق مجلس شمس العلماء محترم سیدمیرحسن صاحب بیان کرتے ہیں :’’حضرت مرزا صاحب1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے۔اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے۔ آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے۔اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لیے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا۔پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے۔اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 149) محترم لالہ بھیم سین صاحب کے انہیں تعلقات کاذکرکرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کے فرزندِارجمندحضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹی کے ساتھ حضرت مسیح موعوؑدکے بہت اچھے تعلقات تھے حتّی کہ آخری ایام میں بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکوکبھی کچھ روپے کی ضرورت ہوتی تھی تو ان سے بطور قرض منگا لیتے تھے چنانچہ وفات سے دو تین سال قبل ایک دفعہ حضرت صاحب نے لالہ بھیم سین صاحب سے چند سو روپیہ بطور قرض منگوایا تھا۔ حالانکہ اپنی جماعت میں بھی روپیہ دے سکنے والے بہت موجود تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 149) یہ روایت سیرت المہدی کی روایت نمبر 149ہے۔اس روایت کودرج کرنے کے بعد حضرت اقدسؑ کے صاحبزادے قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :’’خاکسار عرض کرتاہے کہ لالہ بھیم سین صاحب سے ابتداءً ملازمت سیالکوٹ کے زمانہ میں حضرت صاحب کے تعلقات پیدا ہوئے اور پھر یہ رشتہ ٴمحبت آخر دم تک قائم رہا۔لالہ صاحب حضرت صاحب کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی روایت ہے کہ جن ایام میں جہلم کا مقدمہ دائر ہو ا تھا۔ لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت صاحب کو تار دیا تھا کہ میرے لڑکے کو جو بیرسٹر ہے اجازت عنایت فرما ویں کہ وہ آپ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے مگر حضرت صاحب نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس لڑکے کی خدمات لالہ صاحب نے پیش کی تھیں ان کا نام لالہ کنور سین ہے جو ایک لائق بیرسٹر ہیں اور گذشتہ دنوں میں لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور آجکل کسی ریاست میں چیف جج کے معزز عہدہ پر ممتا ز ہیں۔نیز حضرت خلیفة المسیح ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جو چھت گرنے کا واقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب موصوف امتحان مختاری کی تیاری میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ شریک تھے۔چنانچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو کر مختار بن گئےمگر آپ کے لیے چونکہ پردہ غیب میں اور کام مقدر تھا اس لیے آپ کو خدا نے اس راستہ سے ہٹا دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب کی کامیابی کے متعلق بھی حضرت صاحب نے خواب دیکھا تھاکہ جتنے لوگوں نے امتحان دیا ہے ان میں سے صرف لالہ بھیم سین صاحب پاس ہوئے ہیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر149)محترم لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی کایہ تعلق حضرت اقدسؑ نے بھی آخرتک نبھایا۔ جب سیالکوٹ سے آپ ؑ واپس تشریف لے گئے تو ایک بار 1877ء میں آپؑ سیالکوٹ تشریف لائے تو لالہ بھیم سین صاحب کے ہاں ہی قیام فرمایا۔جیساکہ سیرت المہدی روایت نمبر 150میں بیان ہوا ہے:۔’’ایک دفعہ 1877ء میں آپ تشریف لائے۔اورلالہ بھیم سین صاحب کے مکان پرقیام کیااوربتقریب دعوت حکیم میرحسام الدین صاحب کے مکان پرتشریف لائے۔(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button