سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سیالکوٹ قیام کے دوران بعض شخصیات سے ملاقات کا ذکر

ایک اورٹیلر

(گذشتہ سے پیوست) اس اقتباس سے یہ حتمی نتیجہ نکالناکہ یہ وہی پادری ٹیلرتھاجو1860ء تا 1867ء سیالکوٹ میں حضرت اقدسؑ سے ملتارہا….ابھی مزیدتحقیق طلب ہے۔کیونکہ ابھی ہمارے سامنے سیالکوٹ کے اُس پادری ٹیلرکی کتابیں یااس کی کوئی کتاب نہیں ہے۔اورنہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہواہے کہ اس نے کوئی کتاب بھی لکھی ہے۔اورنہ ہی اِس پادری ٹیلرکے مضمون یاکتاب کاکوئی اصل حوالہ ہمارے سامنے ہے کہ جس سے پتہ چل سکے کہ یہ کون ساٹیلرہے۔محض نام کی مشابہت سے حتمی طور پر نہیں کہاجاسکتاکہ یہ بھی وہی ٹیلرہی ہے۔کیونکہ اگراحتمال اُس ٹیلرکاہوسکتاہے تویہ بھی احتمال ممکن ہے کہ یہ ٹیلرکوئی ایساپادری ہے جس سے حضرت اقدس ؑکوئی ذاتی تعارف ایسانہیں رکھتے۔ کیونکہ آپؑ فرماتے ہیں:’’پادری ٹیلرصاحب جوباعتبارعہدہ ونیزبوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتازآدمی معلوم ہوتے ہیں‘‘۔( مکتوبات احمدجلداوّل صفحہ 133-134مکتوب نمبر2)یعنی یہ کوئی ایساٹیلرہے جسے حضورجانتے نہیں….جبکہ سیالکوٹ والے ٹیلرکوتوحضرت اقدس اس کی نسبت اچھی طرح جانتے تھے۔آئے دن ملاقاتیں اورمباحثے ہواکرتے تھے اوردوسرایہ کہ اُس پادری کوتومرے ہوئے بھی پچیس سال گزرچکے تھے جب حضورؑ یہ تحریرفرمارہے ہیں۔’’معلوم ہوتے ہیں۔‘‘بہرحال حضرت اقدس مسیح موعودؑکی اس تحریرکوسیالکوٹ کے پادری ٹیلرکی تائید میں پیش کرنے کے لیے مزیدتحقیق کرلینابہترہوگا۔واللہ اعلم بالصواب۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ ایک ٹیلرکاذکرروحانی خزائن جلد9صفحہ343پربھی فرماتے ہیں۔چنانچہ آپؑ عیسائیت کی بدچلنیوں اوربگاڑکاذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’…یہ باتیں ہم نے اپنی فطرت سے نہیں کہیں۔خودبڑے بڑے مؤرخ انگریزوں نے اس کی شہادتیں دی ہیں۔اوراب بھی دے رہے ہیں بزرگ پادری باس ورتھ اورفاضل قسیس ٹیلرنے حال ہی کے زمانہ میں کس صفائی سے انہیں باتوں پرلیکچر دئیے ہیں اورکس زورسے اس بات کوثابت کیاہے کہ عیسائی مذہب کی قدیم بدچلنیوں نے اس کوہلاک کردیاہے …‘‘اس اقتباس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ وہی ٹیلرہوگاجس کاذکرمکتوبات احمد میں ہے۔اوریہ حال ہی کے زمانہ کے ہیں۔

بہرحال ابھی تک جتنی بھی تحقیق ہوسکی اور جتنے قرائن بھی مل سکے ان کی روشنی میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سیالکوٹ میں جس سکاچ پادری کو حضرت اقدس ؑکے ساتھ گفتگوکرنے کی سعادت نصیب ہوتی رہی اور جواس مسیح محمدی سے عقیدت واحترام کاایک تعلق رکھے ہوئے تھا وہ ریورنڈ جان ٹیلرتھا۔بٹلرنام سہوکتابت معلوم ہوتاہے۔واللہ اعلم بالصواب

اس مسئلہ میں ایک تحقیقی رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ نے اس رپورٹ پرصادفرماتے ہوئے جوارشاد فرمایا وہ اس وقت الفضل، بدراوردیگر اخبارات ورسائل میں شائع بھی ہوگیا۔وہی ارشادمبارک برکت اور ایک تاریخی ریکارڈ کی خاطر یہاں درج کیاجاتاہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد مبارک

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بخدمت مکرم و محترم انچارج صاحب ریسرچ سیل

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ قیام سیالکوٹ میں جس پادری کا ذکر ملتا ہے اس کا نام ’’بٹلر‘‘ نہیں بلکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس کا نام ’’ٹیلر‘‘ تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرما یا ہے کہ جہاں جہاں جماعتی لٹریچر میں اس پادری کا ذکر ملتا ہے اس کی حاشیہ میں درستی کر دیں۔

بغرض تعمیل حضور کا ارشاد ارسال ہے۔

والسلام خاکسار

ناظر اشاعت

صدر انجمن احمدیہ پاکستان‘‘

مضمون کے تسلسل کوجاری رکھتے ہوئے سیالکوٹ کی کچھ اورشخصیات کاذکرکرتے ہیں۔

مرزامرادبیگ آف جالندھر

سیالکوٹ میں قیام کے دوران ایک اورصاحب جن کاذکرملتاہے وہ مرزامرادبیگ صاحب ہیں۔یہ جالندھر کے رہنے والے تھے۔مرزاشکستہ تخلص رکھتے تھے۔عیسائیوں کے ساتھ بحث کرتے تھے اوراسی وجہ سے انہوں نے بعدازاں اپناتخلص مؤحد رکھ لیاتھا۔یہ بھی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہواکرتے تھے۔حضرت عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’مرزا مراد بیگ صاحب جالندھر کے رہنے والے تھے۔ان کا تخلص ابتداءً مرزا شکستہ تھا لیکن بعد میں جب عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کا سلسلہ انہوں نے وسیع کیا۔ اور عیسائیت کی تردید میں مضامین لکھنے شروع کئےتو انہوں نے اپنا تخلص مرزا موحد رکھ لیا۔چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کے عیسائیوں سے مباحثات سیالکوٹ میں وقعت اور عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔آپؑ کے طریق استدلال پر لوگ عش عش کرتے اور خود پادری صاحبان بھی آپؑ کی علمی عظمت اور اخلاقی قوت کا احترام کرتے تھے۔ مرزا موحّد کو بھی آپؑ سے تعلقات بڑھانے کا شوق ہوا۔وہ اکثر آپؑ کی خدمت میں آتے اور عیسائیوں کے اعتراضات کو پیش کرتے۔ان کے جوابات سنتے اور پھر اپنے رنگ میں ان کو اخبارات کے ذریعہ شائع کرتے۔حضرت مسیح موعودؑ کی فطرت میں یہ بات واقع ہوئی تھی کہ آپؑ عیسائی مذہب کی غلطیوں اور باطل عقائد کی تردید کے لیے انتہائی جوش رکھتے تھے۔اور اگر کسی شخص کو اس میں ذرا بھی دلچسپی لیتے دیکھتےتو ہر طرح اس کے شوق اور دلچسپی بڑھانے میں مدد دیتے۔اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ آپؑ کے طرز عمل سے پایا جاتا ہےکہ آپؑ اس باطل عقیدہ کفارہ و تثلیث و الوہیت مسیح وغیرہ کے ابطال کے لیے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔مرزا موحّد کے دل میں اس بات نے آپؑ کے لیے ایک خاص عظمت پیدا کر دی تھی۔اور جب آپؑ سیالکوٹ سے قطع تعلق کر کے قادیان آگئےتو بھی مرزا موحّد صاحب آپؑ کی ملاقات کے لیے قادیان تشریف لایا کرتے تھے۔اور آپؑ سے استفادہ کیا کرتے۔

ان کے مضامین کا ایک بہت بڑا سلسلہ منشور محمدی میں طبع ہوا کرتا تھا۔خود انہوں نے بھی آخر میں سیالکوٹ سے وزیر ہند نام ایک اخبار نکال لیا تھا۔اگرچہ وہ زیادہ تر عام اخبار تھا۔تاہم اس میں کبھی کبھی عیسائیوں کے متعلق مضامین بھی نکل جایا کرتے تھے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 373،372)

محترم عبدالرحیم دردصاحب ؓاپنی کتاب Life of Ahmad میں لکھتے ہیں: (ترجمہ)’’مرزا مراد بیگ آف جالندھر جن کاتخلص مؤحد تھا۔انہوں نے حضرت احمدؑکوبتایاکہ سرسیداحمدخان آف علیگڑھ نے بائبل کی ایک تفسیر1862ءمیں لکھی ہے۔اوریہ کہ اگرحضرت احمدؑ ان کوخط لکھیں توان کے لیے مفیدہوسکتاہے۔لہذاحضرت احمدؑ نے سرسید احمدخان کوعربی میں ایک خط لکھا۔اوربعدازاں ان کی قرآن کریم کی وہ تفسیربھی پڑھی مگرانہیں پسندنہ آئی۔ان کویہ احساس ہواکہ سرسیداحمدخان نے شایدخلوص نیت سے معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیاہے کہ جیسے اسلام موجودہ سائنس اورجدیدعلوم کاسامنا نہیں کرسکتاتھا۔

مرزا موحد سیالکوٹ آیا کرتے تھے اور بعدازاں قادیان بھی آیاکرتے تھے۔اور حضرت احمدؑ سے مذہبی امور پرگفتگوکرنے کے لیے اکثروہ حضرت احمدؑ کے سامنے عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات پیش کرتے تھے۔اور ان کے جوابات پاکر منشورمحمدی میں مذہب کے دفاع میں مضامین لکھاکرتے۔ (Life of Ahmad by Dard,p.40)

نصراللہ عیسائی ہیڈماسٹر مشن سکول سیالکوٹ

جامع مسجد کے سامنے جس بیٹھک میں حضوراقدسؑ رہائش پذیرتھے اس کے قریب ایک شخص فضل دین نامی بوڑھے دوکاندارتھے جو رات کوبھی دکان پرہی رہاکرتے تھے۔کچھ دوست احباب شام کویہاں جمع ہوتے اور کبھی کبھی حضرت اقدس ؑ بھی تشریف لے جایاکرتے۔ علامہ سیدمیرحسن صاحب جو کہ ان شاملین میں سے ایک تھے بیان کرتے ہیں:’’بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دو کاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے۔ان کے اکثر احباب شام کے بعد ان کی دکان پر آجاتے تھے۔چونکہ شیخ صاحب پارسا آدمی تھے۔اس لیے جو وہاں شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے۔کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہِ گاہِ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔آجایا کرتے تھے۔مرزا صاحب اور ہیڈماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی۔ مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی،جلد اول روایت نمبر280)

یہ نصراللہ صاحب شکارپورسندھ کے مسلمان گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے،ان کاخاندان بمبئی منتقل ہوگیا۔28؍جولائی 1856ء کو انہوں نے بپتسمہ لیا۔پادری ٹامس ہنٹر چرچ آف سکاٹ لینڈ جب 1857ء میں بمبئی سے سیالکوٹ پہنچے تو انہوں نے نصراللہ کو بھی اپنی معاونت کے لیے سیالکوٹ بلالیالیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد فوجی بغاوت /غدرکی وجہ سے حالات خراب ہوجانے کی بنا پر یہ واپس بمبئی چلے گئے اور1861ء میں ان کی بیوی اوربیٹی نے بھی پادری جے شیرف کے ہاتھ سے بپتسمہ لے لیا۔اور اسی سال یہ گھرانہ سیالکوٹ آگیا اور چرچ آف سکاٹ لینڈ مشن سکول سیالکوٹ چھاؤنی میں سات سال تک کام کیا،جہاں جنوری 1863ء کو اس سکول کے ہیڈماسٹر مقررہوئے۔ (ماخوذاز ’’پادری ایم اسماعیل کے حالات زندگی‘‘ صفحہ 13-28 مصنفہ بشپ ولیم جی ینگ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button