پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

جولائی2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

احمدی کو فوج سے نکال دیا گیا…مسئلہ: ان کا ایمان

TDA 427، ضلع لیہ؛ جولائی 2021ء :لئیق احمد نے 2009ءمیں پاک فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔ شمولیت پر انہوں نے اپنے بنیادی عقیدے کے مطابق اپنی شناخت ایک مسلمان کے طور پر ظاہر کی، لیکن انہیں اس کے قانونی مضمرات کا ادراک نہیں تھا۔ گیارہ سال بعد انتظامیہ نے اس معاملے کی چھان بین شروع کی اور انہیں اپنے عقیدے کا غلط اظہار کرنے کا الزام لگاکر فوج سے فارغ کر دیا۔ جب موصوف نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے احمدی ہیں جبکہ انہوں نے خود کو مسلمان بتایا ہے۔ بقول ایک افسر کےاس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔

سادہ پولیس کیس کو بڑا جرم بنا دیا گیا

چک 3/S.P.ضلع اوکاڑہ؛ جولائی 2021ء: پولیس نے منصور احمد طاہر کے خلاف 31؍مارچ 2021ءکو پولیس اسٹیشن حویلی لکھا، ضلع اوکاڑہ میں،ایف آئی آر نمبر M.P.O۔16 217 کے تحت مقدمہ درج کیا اور انہیں گرفتار کیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ طاہر نے فیس بک کے ذریعے ان کی ایک مذہبی تقریب کے بارے میں منفی ریمارکس دیے۔مخالفین کے احتجاج اور ریلی کے نتیجے میں، ایس ایچ او نے چارج شیٹ میں سخت ترین دفعہ 295-Aکا اضافہ کیا۔ اس میں دس سال قید اور جرمانے کی سزا ہے۔ 23؍اپریل 2021ءکو نور عالم مجسٹریٹ نے طاہر کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے سیشن کورٹ میں درخواست دی۔ 14؍جون 2021ء کو ایڈیشنل سیشن جج محمد شفیق نے بھی ان کی ضمانت مسترد کر دی۔ ایڈیشنل سیشن جج لاہور سید علی عباس نے فیصلے کے خلاف طاہر کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کو ایف آئی اے سائبر کرائم کو فالو اپ کے لیے بھیج دیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم نے پی ای سی اے 2016ء کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر نمبر 112 کے ساتھ ایک نیا پولیس مقدمہ درج کیا اور اوکاڑہ جیل سے اپنی تحویل میں لے کر لاہور جیل منتقل کر دیا۔ منصور اے طاہر مذہب سے متعلق ایک چھوٹی سی غلطی پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اب انہیں 10سال قید کا سامنا ہے۔

ہائی کورٹ کے حکم کے بعد بھی احمدیوں کی جائیداد خطرے میں

کوٹ دیال داس، ضلع ننکانہ 15؍جولائی 2021ء:چند غیر احمدی شرپسندوں نے ایک احمدی نصیر احمد کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور دعویٰ کیا کہ بیس (20)کنال زمین ان کی نہیں بلکہ غیر احمدی قبرستان کا حصہ ہے کیونکہ یہ اس سے متصل ہے۔ آخر کار لاہور ہائی کورٹ نے نصیر احمد کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور مجسٹریٹ کو زمین موصوف کو منتقل کرنے کا حکم جاری کیا۔جب یہ مقدمہ زیر سماعت تھا تو غیر احمدیوں نے نصیر احمد کی زمین میں دو قبریں کھود دیں تا اپنے دعوے کو مضبوط کر سکیں جس پر موصوف نے ان سے کہا کہ وہ اپنے مردہ کو متنازعہ زمین میں دفن نہ کریں لیکن دوسرے فریق نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اب فیصلہ نصیر احمد کے حق میں ہو چکا ہے اور عدالت نے حکم دیا ہے کہ بیس (20)کنال کی پوری زمین انہیں دی جائے۔ اس کے بعد بھی نصیر احمد نے مزید جھگڑے سے بچنے کے لیے مخالفین کو دو کنال زمین بغیر کسی معاوضے کے دینے کی پیشکش کی جہاں یہ دو قبریں واقع ہیں۔ انہوں نےاس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنے بے بنیاد دعوے کی حمایت کے لیے مقامی انتظامیہ پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالتے رہے۔15؍جولائی کو مساجد میں اعلان کیا گیا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات، مولانا نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور اور چیئرمین اوقاف علاقے میں آرہے ہیں۔ لہٰذا لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ان کے سامنے احتجاج کیا جائے گا اورنصیر احمد کی زمین کھیل کے میدان وغیرہ کے لیے مختص کی جائے گی۔ اس کے لیے انہوں نے بینرز وغیرہ لگائے اور مذکورہ وزراکا انتظار کیا لیکن وہ نہ آسکے۔بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے پیغام بھیجا کہ وہ گاؤں نہیں جائیں گے مظاہرین ننکانہ شہر میں آ سکتے ہیں۔

لاہور میں سماجی سطح پر دشمنی کی اطلاعات

جولائی 2021ء: ایک احمدی مصور احمد کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے مالک مکان کے بیٹے نے انہیں قتل کی دھمکی دی ہے۔ جس پرمصور کو اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر بھیجنا پڑا۔ فریقین کے مابین تصفیہ کرانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔

لاہور کے سبزہ زار کے رہائشی ریاست علی نے دس سال قبل احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ وہ لاہور کے چوک یتیم خانہ میں کاروبار چلاتے ہیں۔ انہیں وہاں مخالفت کا سامنا ہے۔ مخالفین ان کے گاہکوں کو ان سے خریداری نہ کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں گو کہ وہ ان مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن ثابت قدم ہیں اور اس مخالفت کو دلیری سے برداشت کر رہے ہیں۔

احمدیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی آزادی کو روکنے کی کوشش

پنجاب؛21؍جولائی2021ء میںآنے والے عید الاضحی کے پیش نظر پاکستان میں احمدیوں کو مذہبی آزادی سے محروم کرنے کے لیےمخالفین نے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا اوراس موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے لیے منصوبہ بنایا۔ صوبے کے مختلف مقامات پر پنجاب پولیس کی طرف سے اس امر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا گیا جس سے ان کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔ اس سال انہوں نے اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ احمدی مخالف وکلاء کے ایک گروپ نے اپنے کارکنوں کے لیے مقامی تھانوں کے ایس ایچ اوز کو پیش کرنے کے لیے ایک درخواست تیار کی تھی جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکیں، بصورت دیگر احمدیوں اور ان کے راہنماؤں کے خلاف احمدی مخالف قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ڈرافٹ ایپلیکیشنکو واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے وائرل کیا گیا ۔ ان کی اس حرکت کا واحد مقصد احمدیوں کو مذہبی رسومات پر عمل کرنے سے روکنا تھا۔یہ ملک کے آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہی دنوں، سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے 19؍جولائی 2021ءکو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے ذریعے ’’منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے وکلاء کا کردار‘‘ کا بھی ذکر کیا۔ ریاست نے بظاہر ان بیہودہ حرکات میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

احمدیوں کے گھروں سے کلمہ ہٹا دیا گیا

گولارچی، ضلع بدین؛ جولائی 2021ء: ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) نے 9؍جولائی 2021ء کو پانچ مقامی احمدیوں کوبلا بھیجا، اس نے ان سے کہا کہ وہ اپنے گھروں سے مقدس تحریرات کو ہٹا دیں کیونکہ ملا محمد علی صدیق، محمد عاشق گولارچی، اور دیگر نے انہیں کہا ہے کہ قادیانیوں کو ان کے استعمال سے منع کیا جائے۔ ڈی ایس پی نے احمدیوں سے کہا کہ وہ ان تحرات کو ہٹا دیں یا انہیںڈھانپ دیں تاکہ وہ ملا کی تسلی کر سکیں۔ چنانچہ احمدیوں نے تحریروں کو کچھ اسٹیکرز سے ڈھانپ دیا۔ اگلے دن ملاؤں نے اس جگہ کی تصویریں لیں اور ڈی ایس پی کو بتایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان تحریرات کو چھپایا جائےبلکہ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں مکمل طور پر ہٹا دیا جائے۔ احمدیوں نے پولیس سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، لیکن اگر پولیس خود وردی میں ایسا کرنے آئے تو مداخلت نہیں کریں گے۔ چنانچہ پولیس 18؍جولائی کو تین بجے آئی۔ انہوں نے احمدیوں کے گھر سے کلمہ ہٹایا اور چلے گئے۔ ملّا دوبارہ ان کے پاس پہنچے تاکہ اسٹیکرز سے ڈھکی ہوئی تحریریں ہٹا دیں۔ دو پولیس والوں نے آکر بتایا کہ تحریر نظر نہیں آ رہی، لیکن ملا نےاسے ہٹانے پر اصرار کیا۔ پولیس اہلکاروں نے تحریرات کو پھاڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے بعد ملاؤں نے انہیں چھپانے کے لیے سیمنٹ فراہم کیا جو انہوں نے اس پر لگا دیا۔ اس کے بعد ملاؤں نے جشن منایا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ تاہم محلے والوں نے عمومی طور پر اس امر کو ناپسند کیا اور ملاؤں کو برا بھلا کہا۔

احمدیہ مسجد کو خطرہ

گوکھووال، ضلع فیصل آباد؛ جولائی 2021ء: ایک مقامی مولوی نے نوجوانوں کے ساتھ میٹنگ کی جس میں اس نے انہیں احمدیہ مسجد سے مینار اور کلمہ ہٹانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ احمدیوں نے نوجوانوں کے والدین سے رابطہ کیا اور اس منصوبے کے خلاف ان سے مداخلت کی درخواست کی۔ والدین نے انہیں بتایا کہ احمدی ان کے ساتھ اس گاؤں میں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں اور کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔وہ گاؤں کے امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔ احمدیوں نے مقامی ایم پی اے سے رابطہ کیا جنہوں نے ان کی حمایت کا یقین دلایا۔ صورت حال فی الحال قابو میں ہے۔

ایک اَور احمدیہ مسجد خطرے میں

332 JBضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ جولائی 2021ء: علماء کے ایک گروپ نے مقامی مسجد کا دورہ کیا اور عوام کو احمدیہ مسجد کے مینار اورمحراب کو شہید کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ مقامی لوگوں نے جواب دیا کہ یہ مناسب نہیں اور چونکہ ایسا جھگڑا نقصان دہ ہو سکتا ہے اس لیے وہ احمدیہ مسجد میں نہیں جائیں گے۔نیز کہا کہ یہ مولویوں پر منحصر ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ ملاؤں نے انہیں سمجھایا کہ انہوں نے فیصل آباد کی احمدیہ مسجد سے مینار گرا دیا ہے اور یہاں بھی مینار نہیں رہنے دیں گے۔ تاہم مقامی لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

جائیداد میں حصہ ایک مذہبی مسئلہ بن گیا

جلال آباد ضلع مظفرآباد؛ جولائی 2021ء: شیخ نثار احمد ایک غیر احمدی ہیں اور ڈاکٹر نصیر احمد شیخ (احمدی) کے چھوٹے بھائی ہیں۔ مکان کی ملکیت پر ان کا خاندانی جھگڑا ہے۔ شیخ نثار احمد نے تنازعہ کو مذہبی رنگ دے کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔چنانچہ اس نے جلال آبادضلع مظفرآباد میں احمدیہ مخالف پوسٹرز چسپاں کیے،ان پوسٹرز کو مقامی اخبار روزنامہ شمال میں شائع بھی کیا۔ سنی تحریک نے ڈی سی مظفرآباد کو خط لکھا اور تنازعہ کو مذہبی معاملہ قرار دیا۔ سوشل میڈیا/فیس بک پر بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان مظفرآباد کے واٹس ایپ گروپ پر احمدیہ مخالف پوسٹر کی تصویر بھی شیئر کی گئی۔ پولیس نے خود ہی 29؍جون 2021ء کو پوسٹرز کو چسپاں کرنے کے فوراً بعد انہیں ہٹا دیا اور صلح کرنے کے لیے دونوں بھائیوں سے رابطہ کیا۔ پولیس نے نثار سے کہا کہ وہ مذہبی منافرت پھیلانا بند کریں اور ڈاکٹر نصیر احمد کو کہا کہ اپنی رہائش گاہ پر جمعہ کی نماز ادا کرنے سے رک جائیں۔ پولیس نے ان سے کہا ہے کہ وہ جائیداد کے معاملے کو عدالت میں باہمی طور پر حل کریں۔اطلاعات کے مطابق شیخ نثار نے یہ مقدمہ عدالت میں دائر کیا ہے۔ اس معاملے کو مذہبی رُخ دینے کی وجہ سے صورت حال سنگین ہو گئی ہے۔ڈاکٹر نصیر احمد نے احتیاط کے پیش نظر حکام سے قانون کے مطابق صورت حال کو سنبھالنے اور انہیں مطلوبہ سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔

بازاروں میں احمدیوں کے خلاف نفرت

ٹویٹ؛ 10؍جولائی 2021ء: کئی بار ہم نے ماضی کے واقعات کی اطلاع دی جس میں گروسری اسٹورز اور دیگر سٹورز نے احمدیوں کے ساتھ بزنس کرنے سے انکار کیا۔ اس بار @Khurram_zakir کے ٹویٹر ہینڈل نے اس موضوع پر ٹویٹ کیا۔ ہم اس کی کاپی اور ترجمہ فراہم کرتے ہیں۔ ’’ہم کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ سوچا کہ یہ تصویریں فوٹوشاپ کی گئی ہیں۔ آج میں نے خود یہ نوٹس ایک دکان میں دیکھا۔ قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔‘‘چند بڑے شہروں کے بازاروں میں اس طرح کے نوٹسز ایک معمول بن چکے ہیں۔ دکاندار احمدیوں کے ساتھ سودا کرنے سے انکاری ہیں۔اکثر احمدی خواتین کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنے حجاب کے طرز سے پہچانی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button