سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جورجسٹروہ اٹھاکرلائی وہ 1860ء اوراس کے بعد کے رجسٹر تھے اور ان رجسٹروں پرجابجا

John Taylor کانام اور دستخط ثبت تھے

آخری دلیل: آفتاب آمددلیلِ آفتاب

یہ بہت ایمان افروز بھی ہے اور ایک حیرت انگیز الٰہی تائیدونصرت کی شکل میں عملی اظہار بھی۔2011ء میں خاکساراپنے چندرفقاء کے ساتھ سیالکوٹ دومرتبہ گیااورمقصدیہ تھاکہ سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران کاکوئی ریکارڈ اگرمل سکے اور وہاں کے چرچ کی کوئی لائبریری یاریکارڈ مل سکے تو اس عرصہ کی بابت کوئی مزیدمعلومات جمع کی جاسکیں۔وہاں خاکسارکی ملاقات مس نکل( C. W. Nicol )سے ہوئی۔یہ سکاٹ لینڈسے کوئی چالیس پچاس سال قبل یہاں آئی تھیں اورتب سے کام کر رہی ہیں۔خاکسار کی ان سے گفتگوہوئی اوربعض دوسرے عیسائی سرکردہ منتظمین سے بات ہوئی جو ایک لمبے عرصہ سے وہاں موجودہیں اور کام کررہے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے چرچ سے تعلق رکھنے والے وہاں نئے پرانے تمام لوگ بٹلر نام کےکسی بھی پادری سے آشنانہیں۔جبکہ اس کے بالمقابل مرے کالج کے ریٹائرڈ پرنسپل سیموئیل لال دین صاحب ہوں یاکوئی اورپادری یاعیسائی کارکن حتی کہ مس نکل یہ سب ہنٹر،پیٹرسن اورٹیلرسے خوب آگاہ ہیں۔خاکسارنے انہیں بتایاکہ اس طرح ہم ایک ریسرچ کررہے ہیں کہ اس زمانہ میں آپ کے کون کون سے مشنری یہاں کام کرتے تھے۔ بہت اچھی طرح معلوماتی گفتگوہماری رہی اور اسے حیرت بھی ہوئی کہ ہماری تاریخ کے متعلق ان لوگوں کویعنی ہمیں اتناعلم ہے۔بہرحال کوئی ایک گھنٹہ کی گفتگوختم ہونے لگی توخاکسارنے کہاکہ آپ کے پاس کوئی پراناریکارڈ یاکوئی رجسٹروغیرہ ہوں کہ ہم دیکھ سکیں کہ کون کون مشنری تھے۔یہ سوال کرتے ہوئے مجھے بھی یقین نہیں تھاکہ اب کیاہونے والاہے۔وہ بوڑھی خاتون اپنی نشست سے خود اٹھیں اور ایک دوسرے کمرے میں گئیں اور چارپانچ بڑے بڑے رجسٹرخوداٹھائے ہوئے واپس آئیں۔

ایک رجسٹر ان لوگوں کا تھاجنہوں نے بپتسمہ لیایعنی عیسائیت قبول کی اس میں ان کے نام ولدیت،قوم، عمراورسکونت،سابقہ مذہب اورپیشہ وغیرہ سب درج تھا۔اورجس کے ہاتھ پربپتسمہ لیا گیا ہے اس کانام اوردستخط وغیرہ۔ایک دوسرارجسٹرتھا فوت ہونے والے عیسائیوں کاجس میں اسی طرح سارے کوائف تھے اورساتھ یہ بھی لکھاتھاکہ وفات کس طرح ہوئی کوئی بیماری وغیرہ یاطبعی طور پراورایک تیسرارجسٹرتھا جس میں چرچ میں ہونے والی شادیوں کاساراریکارڈتھا۔اورہراندراج کے ساتھ متعلقہ مشنری کے دستخط اورتاریخ درج تھی۔اور خداکی قدرت ومہربانی پرشکرسے لبریز جذبات اس لیے تھے کہ یہ خاتون جورجسٹراٹھاکرلائی وہ سارے کے سارے 1860ء سے لے کر 1890ء تک کے عرصہ کے تھے۔یہ حیرت اورتعجب بھی تھا کہ اتناپراناریکارڈ اوراس طرح مرتب کر کے رکھاہوا۔یہ تعجب توتھاہی لیکن اصل تعجب یہ تھا کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے اسے مجبور کیا کہ وہ لازماً 1860ء والے رجسٹرہی لائے جوپرانے اورکافی پرانے ہوچکے تھے وہ 1900ء کاریکارڈبھی لاسکتی تھی،1880کاریکارڈ بھی لاسکتی تھی وہ بھی بہت پراناکہلاسکتاتھا….لیکن اس خداکے پیارے مسیح کا کام تھا۔اس مسیح کے خلیفہ کی دعائیں ساتھ تھیں۔اس لیےیقینی طورپرخداتعالیٰ کی غیبی قوت کا ہاتھ تھا جو اس کے پیچھے کام کررہاتھا۔کیونکہ جو رجسٹر وہ اٹھاکرلائی وہ 1860ء اوراس کے بعد کے رجسٹر تھے اور ان رجسٹروں پرجابجاJohn Taylor کانام اور دستخط ثبت تھے۔ان کی اجازت سے ان صفحات کے کیمرہ امیجزلیے گئے۔اوریوں ایک اورحتمی ثبوت ہمیں مل گیاکہ اس زمانے میں آنے والے سکاچ مشن کے پادریوں میں سے بٹلرنام کے کسی پادری کاکوئی وجود نہ تھا اس وقت دوہی سکاچ مشن کے پادری تھے ایک ریورنڈ رابرٹ پیٹرسن اور ایک ریورنڈ جان ٹیلر…واللّٰہ اعلم بالصواب

REV. JOHN TAYLOR

مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں جان ٹیلرکامختصرتعارف بھی کرادیاجائے۔

جان ٹیلر Dreghorn, Ayrshireمیں یکم فروری 1837ء کوپیداہوا۔یہWilliam T.Merchant and Grace Reidکاسب سے بڑابیٹاتھا۔Kilmarnock Academy and Univ.of Glasgowمیں تعلیم پاتے ہوئے 1859ء میں ایم اے کیا۔24؍اگست 1859ء میں ہندوستان تقرری ہوئی۔3؍ستمبرکوہندوستان کے سفر کا آغاز کیا۔ 20؍جنوری کو بمبئی اور 18؍مارچ 1860ء کوسیالکوٹ پہنچا۔1858ء میں جان ٹیلر کی شادی Robert Brownکی بیٹی Margaret سے ہوئی۔جس سے ان کی اولاد میں ولیم William،رابرٹ Robert،گریس Grace،جیمز James، ایڈمنڈEdmondپیداہوئے۔

17؍مارچ 1868ء کو Neilstonکے مقام پروفات ہوئی جب وہ بیماری کی بنا پررخصت پرآیاہواتھا۔اور St. Andrew’s Churchyard, Kilmarnock میں تدفین ہوئی۔اس مقام پرا س کے شاگردوں نے اس کی یادمیں ایک صلیب بھی نصب کی تھی۔

ولیم بٹلر: Rev.Dr. William Butler

مضمون کے آغازمیں یہ ذکرکیاگیاتھا کہ ہم نے اس بات کابھی جائزہ لیاکہ کیا بٹلرنام کاکوئی اورپادری وغیرہ کبھی اس علاقہ میں آیا ؟ جب اس پہلوسے پرانے ریکارڈ کودیکھاگیاتو اس کی روشنی میں ایسانہیں کہاجاسکتا کہ بٹلرنام کاکوئی بھی مشنری ہندوستان میں نہیں تھا۔ہاں یہ یقین سے کہاجاسکتاہے کہ اول تو سکاچ مشن کاکوئی مشنری اس نام کانہیں تھا اور دوسرایہ کہ 1860ء تا 1867ء اس معین عرصہ میں خاص طور پرسیالکوٹ کے علاقہ میں بٹلرنام کاکوئی بھی مشنری موجودنہیں تھا۔

ہندوستان میں آنے والے ’’بٹلر‘‘نام کے 2مشنری ملتے ہیں۔

ایک پادری ولیم بٹلر Rev. Dr. William Butler کاذکرملتاہے۔یہ ڈبلن آئرلینڈ میں1819ء میں پیداہوا۔کچھ عرصہ بعدیہ امریکہ چلاگیااوروہاں بطورمشنری کام کرناشروع کیا۔ میتھوڈسٹ چرچ کایہ پادری 1856ء میں ہندوستان آیااورGanges Valley یعنی شمالی ہندکے اضلاع متحدہ آگرہ، اودھ وغیرہ میں مشن کاکام شروع کیااور1864ء میں امریکہ واپس چلا گیا۔ 1872-79ء میں میکسیکومیں مشنری کے طورپرکام کیااور1899ء میں Old Orchard Melrose امریکہ میں جمعہ کی شب وفات پائی۔

Missionary Compendium, The Land of Veda, Mexico from the Conquest to1880

جیسی کئی کتابوں کامصنف تھا۔یہ معلومات 20؍اگست 1899ء کے اخبارنیویارک ٹائمز کے شمارہ سے لی گئی ہیں۔

II: پادری خورشیدعالم کی تصنیف ’’تاریخ بشارت الہندوپاکستان‘‘شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی۔ انارکلی لاہور1949ء کے صفحات 252-253پر’’امریکن میتھوڈسٹ مشن ‘‘کے عنوان سے بھی کم وبیش بٹلرکے بارے میں یہ معلومات ملتی ہیں۔

III:اسی طرح وی۔سٹیسی کی تصنیف ’’ہنری مارٹن‘‘ شائع کردہ مسیحی اشاعت خانہ لاہور1998ء کے آخری صفحات پرBibliographyکی فہرست میں ایک نام یوں لکھاہواہے :

The Life and work of Henry Martyn, Chaplin, Missionary and translator Rev E.T Butler. Calcutta CLC for India 1922

ایک اَورٹیلر

حضرت مسیح موعودؑکی تحریرات میں ایک ٹیلرنامی شخص کاذکربھی ملتاہے۔ ایک توحضورؑ کے ایک اپنے مکتوب میں ہے جو مکتوبات احمدیہ جلدسوم صفحہ55پر ہے۔مکتوبات احمدیہ کی یہ جلد10؍جنوری 1914ء میں شائع ہوئی۔ یہ مکتوب دراصل اس کتاب میں ہے جو پہلی مرتبہ انجمن حمایت اسلام نے ’’ایک عیسائی کے تین سوال اوران کے جوابات‘‘کے نام سے شائع کی تھی۔اس میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ’’… پادری ٹیلرصاحب جوباعتبارعہدہ ونیزبوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتازآدمی معلوم ہوتے ہیں وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیحؑ کی روحانی تربیت بہت ضعیف اورکمزورثابت ہوتی ہے اوران کے صحبت یافتہ لوگ جوحواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اورانسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کانمونہ دکھلانہ سکے……‘‘(ایک عیسائی کے تین سوال اوران کے جوابات، روحانی خزائن4صفحہ452،مکتوبات احمدجلداوّل صفحہ 133-134 مکتوب نمبر2)

(مئی /جون 1889ء میں ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے انجمن حمایت اسلام لاہورکواسلام کے بارہ میں تین سوالات لکھ کربھیجے۔انجمن حمایت اسلام نے یہ سوالات حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاولؓ ) اور حضرت مسیح موعودؑ اور مولوی غلام نبی امرتسری کی خدمت میں بغرض جواب ارسال کیے۔اوران کے جواب موصول ہونے پر انجمن حمایت اسلام نے یہ سوال اورجواب ’’ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جواب‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع کردیے۔حضرت مسیح موعودؑکے جوابات میں سے ایک سوال کاجواب مکتوبات احمدیہ میں شائع ہوا اور ان تمام سوالوں کے جواب ’’تصدیق النبی‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔اوراب یہ مکمل مضمون نئے کمپیوٹرائزڈ روحانی خزائن جلد4کے صفحات 419 تا 482میںشامل ہے۔اس میں صفحہ نمبر 452 پر ٹیلرکانام مذکورہے)۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button