خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 24؍جون2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے کی باغیوں کے خلاف مہمات کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خالدبن سعیدبن عاصؓ کا تعارف اور قبول اسلام کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کا تعارف یہ ہے کہ آپؓ کا نام خالد، کنیت ابوسعید تھی۔ آپؓ کے والد کا نام سعید بن عاص بن امیہ اور والدہ کا نام لُبَینہ بنت حباب تھا جو ام خالد کے نام سے مشہور تھیں۔حضرت خالدؓ بہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے….حضرت خالدؓ کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کا ذکر یہ ہے کہ آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ آگ کے کنارے پر کھڑے ہیں اور ان کا باپ انہیں اس میں گرانے کی کوشش کر رہا ہے اور آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ آپؓ کو کمر سے پکڑے ہوئے ہیں کہ کہیں آپ آگ میں گر نہ جائیں۔ حضرت خالدؓ اس پر گھبرا کر بیدار ہوئے اور کہا اللہ کی قسم! یہ خواب سچا ہے۔ پھر آپؓ کی ملاقات حضرت ابوبکرؓکے ساتھ ہوئی تو آپؓ نے اپنا خواب حضرت ابوبکؓرکو سنایا۔ ان سے ذکر کیا۔ حضرت ابوبکرؓنے کہا کہ تم سے بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں بچائے۔ یہ یعنی محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ان کی پیروی کر لو کیونکہ جب تم اسلام قبول کرتے ہوئے ان کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں آگ میں گرنے سے بچائے گا اور تمہارا باپ اس آگ میں پڑنے والا ہے۔ چنانچہ حضرت خالدؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ ﷺ مکہ میں اَجْیاد مقام پر تھے۔ اَجْیاد بھی مکہ میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے بکریاں چرائی تھیں۔ حضرت خالدؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اے محمدﷺ! آپؐ کس کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ ) اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور یہ کہ تم ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کون ان کی پوجا کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حضرت خالدؓ کے اسلام لانے پر بہت خوش ہوئے۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خالد بن سعیدبن عاصؓ کے اسلام لانے پر ان کی مخالفت کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:اسلام لانے کے بعد حضرت خالدؓ چھپ گئے۔ جب ان کے باپ کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو اس نے اپنے باقی بیٹوں کو جو اسلام نہیں لائے ہوئے تھے حضرت خالدؓ کی تلاش میں بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے آپؓ کو تلاش کیا اور انہیں اپنے باپ کے پاس لائے۔ان کا باپ حضرت خالدؓکو برا بھلا کہنے لگا اور مارنے لگا اور وہ سوٹا جو اس کے ہاتھ میں تھا اس کے ساتھ مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کے سر پر مار مار کر توڑ دیا اور کہنے لگا کہ تم نے محمد (ﷺ ) کی پیروی کر لی ہے حالانکہ تم اس کی قوم کی اس کے ساتھ مخالفت کو دیکھ رہے ہو اور اس کو بھی جو وہ ان لوگوں کے معبودوں کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور ان لوگوں کے آباؤ اجداد کی برائیاں بھی۔حضرت خالدؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں آپ ﷺ کی اتباع کر چکا ہوں۔ اس پر ان کا باپ سخت غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ اے بیوقوف! میری نظروں سے دُور ہو جاؤ اور جہاں چاہو چلے جاؤمیں تمہارا کھانا بند کر دوں گا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ اگر آپ میرا کھانا بند کر دیں گے تو اللہ میرے زندہ رہنے کے لیے مجھے رزق عطا فرمائے گا۔ چنانچہ آپؓ کے والد نے انہیں گھر سےنکال دیا اور اپنے بیٹوں سے کہہ دیا کہ ان میں سے کوئی اس سے بات نہیں کرے گا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ وہاں سے نکلے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی رہنے لگے۔ عمومی طور پر اپنے باپ سے چھپ کر مکہ کے نواح میں رہتے تھے کہ کہیں دوبارہ نہ پکڑ لے اور پھر سختی نہ کرے۔حضرت خالدؓ کا باپ مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کرنے والا تھااور مکہ کے معززین میں سے تھا۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوا تو مرض کی شدت کی وجہ سے اس نے کہا کہ اگر اللہ نے مجھے اس بیماری سے شفا دے دی ۔ پتانہیں اللہ کہا تھا یا اپنے معبودوں کا نام لیا تھا۔ بہرحال اس نے کہا کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہوگئی تو پھر ابنِ اَبی کَبْشَہ یعنی محمد ﷺ کے خدا کی عبادت مکہ میں نہیں ہو گی میں ایسی سختی کروں گا کہ یہاں سے سب مسلمانوں کو نکال دوں گا۔ جب حضرت خالدؓ کومعلوم ہوا تو انہوں نے اپنے باپ کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ! اس کو شفا نہ دینا۔ چنانچہ وہ اسی بیماری میں مر گیا۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت خالد بن سعیدؓکی مرتدین کے خلاف مہم کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے جب مرتدین کی سرکوبی کے لیے جھنڈے باندھے اور جنہیں منتخب کرنا تھا کر لیا تو ان میں سے ایک حضرت خالد بن سعیدؓ بھی تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو انہیں امیر مقرر کرنے سے منع کیا اور عرض کیا کہ آپؓ ان سے کوئی کام نہ لیں۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کی رائے سے اختلاف کیا اور حضرت خالدؓ کو تَیمَاء میں امدادی دستہ پر متعین کر دیا۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جب حضرت خالد بن سعیدؓ کو تَیمَاء جانے کا حکم دیا تو فرمایا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اطراف کے لوگوں کو اپنے سے ملنے کی دعوت دینا اور صرف ان لوگوں کو قبول کرنا جو مرتد نہ ہوئے ہوں اور کسی سے لڑائی نہ کرنا سوائے اس کے جو تم سے لڑائی کرے یہاں تک کہ میرے احکام پہنچ جائیں۔ حضرت خالدؓ نے تیماء میں قیام کیا اور اطراف کی بہت سی جماعتیں ان سے آملیں۔ رومیوں کو مسلمانوں کے اس عظیم الشان لشکر کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے زیرِ اثر عربوں سے شام کی جنگ کے لیے فوجیں طلب کیں۔ حضرت خالدؓ نے رومیوں کی تیاری اور عرب قبائل کی آمد کے متعلق حضرت ابوبکرؓ کو مطلع کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب لکھا کہ تم پیش قدمی کرو۔ ذرا مت گھبراؤاور اللہ سے مدد طلب کرو۔حضرت خالدؓ یہ جواب ملتے ہی دشمن کی طرف بڑھے اور جب قریب پہنچے تو دشمن پر کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سب اپنی جگہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اور بھاگ گئے۔ حضرت خالدؓ دشمن کے مقام پر قابض ہو گئے۔ اکثر لوگ جو حضرت خالدؓ کے پاس جمع تھے مسلمان ہو گئے۔ اس کامیابی کی اطلاع حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت علاءبن حضرمیؓ کا کیا تعارف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کا تعارف یہ ہے کہ آپؓ کا نام عَلَاء تھا۔ آپؓ کے والد کا نام عبداللہ تھا۔ آپ کا تعلق یمن کے علاقہ حَضرمَوت سے تھا۔ دعوتِ اسلام کے آغاز میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کا ایک بھائی عَمرو بن حَضْرَمِی مشرکوں کا وہ پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا تھا اور اس کا مال پہلا مال تھا جو بطورخُمس اسلام میں آیا۔ جنگِ بدر کے بنیادی اور فوری اسباب میں بھی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سبب یہ قتل بھی تھا۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کا ایک بھائی عامر بن حضرمی بدر کے دن بحالتِ کفر مارا گیا۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمنذربن ساوٰی حاکم بحرین کو دعوت اسلام کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:جب رسول اللہ ﷺ نےبادشاہوں کو تبلیغی خطوط ارسال فرمائے تو منذر بن ساوٰی حاکمِ بحرین کے پاس خط لے جانے کی خدمت حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کے سپرد ہوئی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو بحرین کا عامل مقرر فرما دیا۔حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ نے جب انہیں دعوتِ اسلام دی تو منذر بن ساوٰی نے اسلام قبول کر لیا۔ مُنْذِر کو جب اسلام کا پیغام ملا تو اس کا جواب یہ تھا کہ میں نے اس امر کے سلسلہ میں غور و فکر کیا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے تو میں نے دیکھا کہ یہ دنیا کے لیے ہے ۔آخرت کے لیے نہیں ہے یعنی جو کچھ میرے پاس ہے یہ دنیا داری ہے۔ آخرت کی تو میں نے کوئی تیاری نہیں کی اورمَیں نے جب تمہارے دین کے بارے میں غور و فکر کیا تو اسے دنیا و آخرت دونوں کے لیے مفید پایا۔ لہٰذا دین کو قبول کرنے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔اسلام کی سچائی کا مجھے یقین ہو گیاہے۔ اس دین میں زندگی کی تمنا اور موت کی راحت ہے۔ کہنے لگا کہ کل مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا تھا جو اس کو قبول کرتے تھے اور آج ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو اس کو ردّ کرتے ہیں۔ تعلیم کی خوبصورتی کا مجھے پتا لگا تو اب میری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کہنے لگا کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی عظمت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت جارودبن معلیؓ کی عبد القیس کے مرتدین کو دعوت تبلیغ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:مُنذِر بن ساوٰی کے اسلام قبول کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے اسے بدستور بحرین کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے اپنی قوم کو بھی دینِ حق کی دعوت دینی شروع کی اور جَارُوْد بن مُعَلّٰی کو دین کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہﷺکی خدمت میں روانہ کیا۔جَارُود نے مدینہ پہنچ کر اسلامی تعلیمات اور احکام سے واقفیت حاصل کی اور اپنی قوم میں واپس جاکر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا کام شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات یعنی گیارہ ہجری کے چند دن بعد مُنذِر کا انتقال ہو گیا۔ اس پر عرب اور غیرعرب سب نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ قبیلہ عبدالقیس نے کہا کہ اگر محمدﷺنبی ہوتے تو وہ کبھی نہ مرتے اور سب مرتد ہو گئے۔ اس کی اطلاع حضرت جَارُودؓ کو ہوئی۔ حضرت جَارُودؓ اپنی قوم کے اشراف میں سے تھے، جو تربیت حاصل کرنے مدینہ گئے تھے اور ان میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی اور ایک اچھے خطیب تھے۔حضرت جَارُودؓ نے اس بات پہ ان سب لوگوں کو جمع کیا جو مرتد ہو گئے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کیوں ہوئی اور تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے عبدالقیس کے گروہ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ اگر تم اسے جانتے ہو تو مجھے بتا دینا اور اگر تمہیں اس کا علم نہیں تو نہ بتانا۔ انہوں نے کہا جو چاہو سوال کرو۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا جانتے ہو کہ گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبی دنیا میں آچکے ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا تمہیں ان کا علم ہے یا تم نے ان کو دیکھا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن ہمیں اس کا صرف علم ہے۔ یہ لوگوں کا جواب تھا۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا پھر انہیں کیا ہوا؟ تو لوگوں نے کہا کہ وہ فوت ہو گئے۔ تو حضرت جَارُودؓ نے کہا اسی طرح محمد ﷺ بھی فوت ہو گئے جس طرح وہ سب فوت ہو گئے اور مَیں اعلان کرتا ہوں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور یقیناً محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ان کی قوم نے ان کی یہ تقریر سننے کے بعد، سوال جواب کے بعد کہا کہ ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں اوربےشک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور ہم تم کو اپنا برگزیدہ اور اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اور ارتداد کی وبا ان تک نہ پہنچی۔

سوال نمبر9:حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علاءبن حضرمیؓ کو عبد القیس کی طرف روانگی کا حکم دیتے ہوئے کیا ہدایت فرمائی؟

جواب: فرمایا:آپؓ نے حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو طلب فرمایا اور لشکر کی کمان ان کے سپرد کی اور دو ہزار مہاجرین و انصار کے ساتھ بحرین کی طرف عبدالقیس کی مدد کے لیے روانگی کا حکم دیااور ہدایت فرمائی کہ عرب کے قبائل میں سے جس قبیلے کے پاس سے تم گزرو تو اسے بنو بکر بن وائل سے جنگ کی ترغیب دلانا کیونکہ وہ ایران کے بادشاہ کسریٰ کے مقرر کردہ منذر بن نعمان بن منذر کے ساتھ آئے ہیں۔ انہوں نے یعنی اس بادشاہ نے اس کے سر پر تاج رکھا ہے اور اللہ کے نور کو مٹانے کا ارادہ کیا ہے اور اولیاء اللہ کو قتل کیا ہے۔پس تم لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّابِاللّٰہ۔ یعنی نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کی طاقت ہے مگر اللہ کے ذریعہ، پڑھتے ہوئے روانہ ہو جاؤ۔

سوال نمبر10:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت علاءبن حضرمیؓ کے لشکرکی قبولیت دعا کاکیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت عَلَاءؓ کا لشکر دَھْنَا کے راستے بحرین کی طرف چلا۔ عَلَاءؓ اپنے لشکر کو دھنا کے راستے بحرین کی طرف لے کر چلے۔ وہ کہتے ہیں جب ہم اس کے درمیان پہنچے تو انہوں نے ہمیں پڑاؤ کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں اونٹ بے قابو ہو کر بھاگ گئے۔ ان میں سے کسی کے پاس نہ کوئی اونٹ رہا نہ توشہ نہ توشہ دان نہ خیمہ۔ سب کا سب اونٹوں پر ریگستان میں غائب ہو گیا یعنی اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ اونٹ چلے گئے تو کچھ بھی پاس نہیں رہا اور یہ واقعہ اس وقت ہوا جب لوگ سواریوں سے اتر چکے تھے لیکن ابھی اپنا سامان نہ اتار سکے تھے۔ اس وقت وہ رنج و غم میں مبتلا ہوئے۔ سب اپنی زندگیوں سے مایوس ہو کر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے۔ اتنے میں حضرت عَلَاءؓ کے منادی نے سب کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ سب ان کے پاس جمع ہوئے۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا مَیں یہ کیا پریشانی اور اضطراب تم میں دیکھ رہا ہوں اور تم لوگ اس قدر فکر مند کیوں ہو۔ لوگوں نے کہا یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر ہمیں موردِ الزام قرار دیا جائے۔ ہمارے اونٹ دوڑ گئے ہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر اسی طرح صبح ہو گئی تو ابھی آفتاب اچھی طرح طلوع بھی نہیں ہونے پائے گا کہ ہم سب ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا:اے لوگو! ڈرو نہیں ۔کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ کیا تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نہیں آئے؟ کیا تم اللہ کے مدد گار نہیں ہو؟ سب نے کہا بےشک ہم ہیں۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا کہ تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ ہرگز ایسے لوگوں کو جس حال میں تم ہو کبھی نہیں چھوڑے گا۔طلوعِ فجر کے ساتھ صبح کی نماز کی اذان ہوئی۔حضرت عَلَاءؓ نے نماز پڑھائی۔ بعض لوگوں نے تیمم کر کے نماز پڑھی، پانی نہیں تھا۔ بعض کا ابھی تک سابقہ وضو باقی تھا۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عَلَاءؓ اپنے دونوں گھٹنوں کے بل دعا کے لیے بیٹھ گئے اور سب لوگ بھی اسی طرح دو زانو دعا کے لیے بیٹھ گئے اور آہ و زاری کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا میں لگ گئے۔ لوگوں نے بھی اسی طرح کیا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ جب سورج کی تھوڑی سی روشنی مشرقی افق میں نمودار ہوئی تو حضرت عَلَاء صف کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کوئی ہے کہ جا کر خبر لائے کہ یہ روشنی کیا ہے؟ ایک شخص اس کام کے لیے گیا۔ اس نے واپس آ کر کہا کہ یہ روشنی محض سراب ہے۔ جہاں روشنی پڑی وہاں چمک پیدا ہو رہی تھی وہ پانی نہیں تھا بلکہ سراب ہے۔ حضرت عَلَاءؓ پھر دعا میں مصروف ہو گئے۔ دوسری مرتبہ پھر وہ روشنی نظر آئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سراب ہے۔ تیسری مرتبہ پھر روشنی نمودار ہوئی۔ اس مرتبہ خبر دینے والے نے آ کر کہا کہ پانی ہے۔ حضرت عَلَاءؓ کھڑے ہو گئے اور سب لوگ بھی کھڑے ہو گئے اور پانی کے پاس پہنچے سب نے پانی پیا اور غسل کیا۔ وہاں کوئی چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔ابھی دن نہیں چڑھا تھا کہ لوگوں کے اونٹ ہر سمت سے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آتے ہوئے نظر آئے۔ وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ہر شخص نے اپنی سواری کو پکڑ لیا اور ان کے سامان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوئی۔دعا کا یہ معجزہ وہاں ہوا کہ پانی بھی اللہ تعالیٰ نے نکال دیا۔ اونٹ بھی واپس آ گئے لوگوں نے ان کو بھی پانی پلایا۔ پھر دوسری مرتبہ خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ان جانوروں کو بھی پلایا اور اپنے ساتھ پانی کا ذخیرہ بھی لے لیا اور پھر خوب آرام کیا۔

سوال نمبر11: حضرت علاءبن حضرمیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں کیا خط تحریرکیا اورآپؓ نے کیا جواب دیا؟

جواب: فرمایا:حضرت عَلَاءؓنے حضرت ابوبکرؓ کوایک خط لکھا تھا جو یہ ہے کہ امّا بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وادیٔ دَھْنَا میں پانی کا ایک چشمہ جاری کر دیا تھا…..حالانکہ وہاں چشمہ کے کوئی آثار نہ تھے اور سخت تکلیف اور پریشانی کے بعد ہم کو اپنا ایک معجزہ دکھایا….جو ہم سب کے لیے نصیحت کا باعث ہے اور یہ اس لیے کہ اس کی حمد و ثنا کریں۔ لہٰذا اللہ کی جناب میں دعا مانگیے اور اس کے دین کے مددگاروں کے لیے نصرت طلب کیجیے۔ حضرت عَلَاءؓ پانی ملنے کے بعد، واقعہ ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو یہ رپورٹ بھجوا رہے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی۔ اس سے دعا مانگی اور کہا کہ عرب ہمیشہ سے وادیٔ دَھْنَا کے متعلق یہ بات بیان کرتے آئے ہیں کہ حضرت لقمان سے جب اس وادی کے لیے پوچھا گیاکہ آیا پانی کے لیے اسے کھودا جائے یا نہیں توا نہوں نے اسے کھودنے کی ممانعت کی اور کہا کہ یہاں کبھی پانی نہیں نکلے گا تو اس وجہ سے اس وادی میں چشمہ کا جاری ہو جانا اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے جس کا حال ہم نے پہلے کسی قوم میں نہیں سنا تھا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button