سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء کے افتتاحی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
’’اگر ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش نہیں کرتے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے، ہمارے عہد کھوکھلے ہیں، ہماری حالتیں قابل فکر ہیں‘‘
’’حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو‘‘
بجز تقویٰ کے اَور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا
مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:14)
جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے
تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے
کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے
خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے
یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور
اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں
(فرمودہ مورخہ05؍اگست 2022ء بروز جمعۃ المبارک بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یوکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج جس مقصد کے لیے ہم سب یہاں جمع ہیں اسے ہم سب جانتے ہیں یعنی اپنے دینی علم اور معلومات کو وسیع کرنا، اپنی معرفت کو بڑھانا، تقویٰ میں ترقی کرنا، آپس کی محبت و پیار اور تعلقات کو بڑھانا، حقو ق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا، اشاعتِ اسلام اور تبلیغ اسلام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا اور پھر عملی طور پر اسے سرانجام دینا۔ یہ ہیں وہ
وسیع مقاصد جن کے حصول کے لیے جلسہ منعقد کیا جاتا ہے
اور جس کے حاصل کرنے کے لیے ہم سب یہاں جمع ہیں۔ پس جیساکہ ان بیان کردہ عنوانات سے ظاہر ہے جلسہ کا مقصد کوئی دنیاوی مقصد نہیں ہے بلکہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں جہاں ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) کا نمونہ ہر جگہ نظر آتا ہے ہم نے اس زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی بیعت میں لاکر اپنی اصلاح کا عہد کیا ہے اور اپنی نسلوں کی اصلاح کا عہد کیا ہے اور اس کے لیے پھر اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ کُل انسانیت کی اصلاح کا عہد کیا ہے، صرف اپنے تک ہی نہیں۔ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنے کا عہد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام کا عہد کیا ہے۔
ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس فساد کے زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے۔ اس زمانے کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں۔ زمین بالکل مرچکی ہے۔ یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کامصداق ہو گیا ہے۔ جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔ جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہلِ کتاب ہیں۔ جاہل و عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے۔ جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے۔ روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیریں نظر آتی ہیں۔ اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ خدا پرستی اور خدا شناسی کا نام ونشان مٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے
ا س وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اورنورِ نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے۔
خدا تعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ444 ایڈیشن1984ء)
پس یہ ہے وہ زمانے کا نقشہ جس میں ہم ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمایا۔ یا ہم نے ان لوگوں میں شامل ہونے کا عہد کیا ہے جو اس آسمانی پانی سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر صرف اپنی حالتوں کو بدلنے اور اس نورِ نبوت سے فیض حاصل کرنے کا عہد ہی نہیں ہے بلکہ اپنی نسلوں اور کُل انسانیت کو اس نورِ نبوت سے آگاہ کرنے اور اس سے فیض پانے والوں میں شامل کرنے کا عہد کیا ہے۔ پس ایک بہت بڑا کام ہے، ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جسے ہم نے سرانجام دینا ہے، جسے ہم نے اداکرنا ہے۔ اپنے آپ کو ہی اس زمانے کے فساد سے بچانا کوئی آسان کام نہیں ہے کجا یہ کہ ہم یہ بھی اعلان کریں کہ ہم اپنی نسلوں کو بھی سنبھالیں گے اور جیساکہ ہم اپنے عہد بیعت میں دہراتے ہیں یہ ہمارا فرض ہے اور پھر صرف اپنی اولاد کو ہی نہیں بلکہ کُل دنیا کو توحید کے جھنڈے تلے لا کر اس روحانی مائدے سے فیض اٹھانے والا بنانا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں کیونکہ زمین بالکل مردہ ہو چکی ہے یعنی انسان کی عملی حالت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہم مردہ ہیں ہمیں روحانی زندگی کا پانی دو لیکن جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا
بےشک دنیا کی عملی حالت زبانِ حال سے روحانی پانی اور نورِ نبوت کو چاہتی ہے لیکن جو پانی اترا ہے اس سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے اورتھوڑے ہیں جو اس نورِ نبوت سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے والے ان تھوڑوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس نور سے فیض پایا اور آپؑ کی بیعت میں آنے کا اقرار و اعلان کیا لیکن جیساکہ میں نے کہا ہم نے اپنے تک ہی اس اقرار و اعلان کو محدود نہیں کرنا، نہیں رکھنا بلکہ دنیا کو بھی اس سے آگاہ کرنا ہے۔ انہیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے، انہیں بھی موحد بنانا ہے۔ پس اپنی حالتوں میں مستقل پاک تبدیلی قائم رکھنے کے لیے اور دنیا کی اصلاح کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہر وقت اپنی روحانی اور دینی حالتوں کی طرف نظر رکھیں، انہیں بہتر سے بہتر کرنے کے لیے کوشش کرتے چلے جائیں۔ زمانے کے امام کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کے لیے اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور یہ انقلاب پیدا کرنے کے لیے ان باتوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے، ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، ان کو مسلسل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔
پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ
اگر ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش نہیں کرتے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے، ہمارے عہد کھوکھلے ہیں، ہماری حالتیں قابل فکر ہیں۔
اگر سب سے پہلے ہم اپنے اندر اپنے اندرونے کی اصلاح نہیں کرتے تو ہم نے اپنی نسلوں کی اور دوسروں کی کیا اصلاح کرنی ہے؟۔ پس ہمارے لیے بہت خوف کا مقام ہے، بہت سوچنے کا مقام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیشہ یہ غور کرتے رہو کہ بیعت کرنے کا کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک اس طرف توجہ نہیں ہو گی بیعت فائدہ نہیں دے گی۔ آپؑ نے اس طرف توجہ دلائی کہ بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے جس کے معنی رجوع کے ہیں یعنی تمام برائیوں کو چھوڑ کر پاکیزگی اختیار کرنا۔ پھر کبھی پلٹ کر بھی اس طرف نہ آنا۔ توبہ یہ نہیں کہ آج گناہوں سے معافی مانگ لی اور کل پھر وہی باتیں دہرا دیں جو گناہ ہیں، جو برے کام ہیں، جن سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اور یہ چیز جو ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں ہم نے توبہ کر لی۔ لوگ کانوں پر ہاتھ رکھ کر اور ہاتھ جوڑ کر توبہ کا اظہار کر دیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے بھی بڑا گڑگڑاتے ہیںا ور چند دن بعد پھر وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے شایدچند دن کے لیے لوگوں کو تو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو نہیں۔ وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اس توبہ کو قبول کرتا ہے جو سچی توبہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس کی مثال دی کہ دیکھو وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے، بہت بھاری ہے، بہت تکلیف ہوتی ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اسے سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے۔ اپنا سب گھریلو سامان چھوڑ چھاڑ کر، اپنے ہمسایوں اور گلیوں کی یاد بھلا کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس سابقہ وطن میں کبھی نہیں آتا تو توبہ کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ اس کا نام توبہ ہے اور جب یہ سچی توبہ ہوتی ہے تو پھر ہی اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اسے ملتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نوازتا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری رضا کے لیے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی ہے تو میں بھی بے انتہا اسے نوازوں گا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ2-3 ایڈیشن1984ء)
پس یہ
تبدیلی پیدا کرنے کے لیے بیعت ضروری ہے اورجب یہ تبدیلی پیدا ہو تو تبھی بیعت کا فائدہ بھی ہے۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ توبہ بیعت کی جزو کیوں ہے؟ کیوں توبہ کو بیعت کے ساتھ لازمی رکھا گیا ہے؟ آپؑ فرماتے ہیں:’’بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے۔ جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو‘‘ یعنی وہ تبدیلی جو اسے عام انسانوں سے روحانی لحاظ سے ممتاز کر دیتی ہے۔ فرمایا ’’تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں ‘‘جو زمیندار ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک عام درخت میں، عام سادہ درخت میں کئی قسم کی پیوندیں لگا کر ان کے مختلف قسم کے پھل اس میں سے لیے جا سکتے ہیں۔ پس فرمایا کہ فائدہ تو تبھی ہے کہ ایسا پیوند ہو تبھی وہ فیوض و انوار ملیں گے اور فرمایا اسی طرح اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض و انوار آنے لگتے ہیں ’’(جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں) بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو، خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔‘‘ جس کے ساتھ پیوند جوڑا ہے اس کی خصوصیات بھی اپنانی ہوں گی بلکہ ’’اس کی شاخ ہو کر پیوند ہو جاوے۔ جس قدر یہ نسبت ہو گی اسی قدر فائدہ ہو گا۔‘‘ فرمایا ’’بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے۔‘‘ فرمایا ’’…جہاں تک ممکن ہو اس انسان‘‘ یعنی ’’(مرشد) کے ہمرنگ ہو۔‘‘ طریقوں میں بھی اس کے طریق کیا ہیں اس کے مطابق کرو ’’طریقوں میں اور اعتقاد میں۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ5 ایڈیشن1984ء)
پس جب ہمارا یہ مقام ہو جائے گا تو ہمیں بیعت حقیقت میں فائدہ دے گی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ336 ایڈیشن1984ء)
اس مقام کو کس طرح حاصل کرنے کی کوشش کی جائے؟ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں نصائح فرمائی ہیں۔ ہم سے جو توقعات رکھی ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آپؑ ہم سے، اپنی بیعت میں آنے والوں سے کیا چاہتے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا کہ
’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘
ہم کس طرح نمونہ بن سکتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’…اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔‘‘ یہ بنیادی بات یاد رکھو۔ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو، نہ تیزی کرو، نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ9 ایڈیشن1984ء)
پھر تقویٰ کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:’’اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ
بجز تقویٰ کے اَور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:129)‘‘
پھر فرمایا ’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصا ًاس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دُنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے۔ خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ10 ایڈیشن1984ء)
پس فرمایا کہ گناہوں سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرو یہ نہ ہو کہ معصیت اور گناہ کا داغ تمہارے کُل چہرے کو سیاہ کر دے اور جب انسان کا چہرہ گناہوں سے سیاہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کے لیے صرف تباہی اور بربادی کے اَور کچھ نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ بےشک رحیم و کریم ہے لیکن وہ قہار اور منتقم بھی ہے۔ فرمایا کہ اگر وہ ایک جماعت کو دیکھے کہ دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں لیکن عمل کچھ نہیں تو پھر اس کا غیض و غضب بھڑکتا ہے۔ فرمایا کہ اپنی تاریخ دیکھ لو۔
جب مسلمانوں کے عمل نہیں رہے تو پھر کافروں نے انہیں تہ تیغ کر دیا۔
باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں سے مدد کا وعدہ تھا لیکن جب عمل نہیں رہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا قہر دکھاتا ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ10-11)پس بڑے خوف کا مقام ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر
جب دیکھے کہ اس کا قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ موردِ غضبِ الٰہی ہو گا۔
جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جاوے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔ ‘‘ فرمایا کہ ’’اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتا۔ بدر کی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی‘‘ مثال دی بدر کی فتح کی۔ فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی۔ ’’ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے؟‘‘ اتنا بے چین ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ11 ایڈیشن1984ء)مجھے پتہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پتہ نہیں اس فتح کے لیے کیا شرائط رکھی ہوں۔پس
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ تھا تو پھر ہماری کیا حیثیت ہے!
پس ہمیں اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حقیقی توبہ کی ضرورت ہے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے فیضیاب ہوں گے۔
تقویٰ کی راہوں میں سے ایک راہ غربت و مسکینی کی راہ ہے۔
اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں:’’اہلِ تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔
بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اورکڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔
عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ یعنی غصہ جو اُن کو آتا ہے وہ تکبر اور غرور کی وجہ سے آتا ہے۔ اور تکبر اور غرور کی وجہ سے انسان کو غصہ آتا ہے، اگر انسان میں یہ چیزیں نہ ہوں تو کیوں چھوٹوں پہ خاص طور پر اپنے سے کمزوروں پر غصہ میں آئے۔ فرمایا ’’کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندر حقارت ہے، ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔‘‘ جس طرح بیج لگاتے ہیں زمین میں تو پودا بنتا ہے، پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی اسی طرح بڑھتا ہے اور پھر آخر میں نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ کوئی پھلدار درخت نہیں ہوتا بلکہ وہ ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ فرمایا ’’بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔‘‘ اپنے سے بڑا دیکھا بڑی خوشامد کی، بڑی عاجزی سے پیش آئے ’’لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔‘‘ بڑائی کا تو تب پتا لگتا ہے کہ اپنے سے کمتر کی عزت کرو، اس کی عزت سے بات سنو، اس کو عزت دو۔’’اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الحجرات:12)تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فساق و فجار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔
مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:14)‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ36 ایڈیشن1984ء)
اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ بیعت کرنے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، ہم اپنے عملوں کے بارے میں زیادہ پوچھے جائیں گے۔ غیروں کی بھی ہم پر زیادہ نظر ہو گی، ان کے لیے بھی ہم نے نمونہ بننا ہے تاکہ اعتراض کی جگہ نہ رہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ
جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔
اہلِ بیت زیادہ مواخذہ کے لائق تھے۔ وہ لوگ جو دُور ہیں وہ قابلِ مؤاخذہ نہیں لیکن تم ضرور ہو۔ اگر تم میں ان پر کوئی ا یمانی زیادتی نہیں تو تم میں اوران میں کیا فرق ہوا۔ تم ہزاروں کے زیرِ نظر ہو۔ وہ لوگ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات کو، سکنات کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ سچے ہیں‘‘ یہ سب دیکھنے میں۔ ’’جب مسیحؑ کے ساتھی صحابہؓ کے ہم دوش ہونے لگے ہیں تو کیا آپ ویسے ہیں۔ جب آپ لوگ ویسے نہیں تو قابلِ گرفت ہیں۔ گویہ ابتدائی حالت ہے لیکن موت کا کیا اعتبار ہے۔ موت ایک ایسا ناگزیر امر ہے جو ہر ایک شخص کو پیش آتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر آپ کیوں غافل ہیں۔ جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا تو یہ امر دوسرا ہے لیکن جب آپ میرے پاس آئے، میرا دعویٰ قبول کیا اور مجھے مسیح مانا تو گویا من وجہٍ آپ نے صحابہ کرامؓ کے ہم دوش ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ تو کیا صحابہؓ نے کبھی صدق و صفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا۔ ان میں کوئی کسل تھا؟ کیا وہ دلآزار تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟ کیا وہ منکسر المزاج نہ تھے بلکہ ان میں پرلے درجہ کا انکسار تھا۔ سو دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ
تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔
اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔‘‘ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا صحابہ کی طرح کس طرح کرنی ہے۔ کیا صرف منہ سے دعائیں دہرا کر ہی مقصد پورا ہو جائے گا، نہیں۔ اس کے لیے محنت اور مسلسل کوشش اور صحابہ کی طرح قربانی کی روح پیدا کرنی ہو گی، عملی اظہار کرنا ہو گا۔ اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ اس کا طریق بھی آپؑ نے بیان فرما دیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بھی تدریجاً تربیت پائی‘‘ تھی، ایک دم نہیں کوئی نیک ہو جاتا۔ کوشش کرنے سے،مسلسل کوشش کرنے سے آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے۔ ’’وہ پہلے کیا تھے، ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپؐ نے ان کے لئے دعائیں کی۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے گا اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔ خدا تعالیٰ سے ناامید مت ہو۔
بر کریماں کارہا دشوار نیست‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ44-45 ایڈیشن1984ء)
یعنی نیک لوگوں کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا۔
کون سچا مومن ہے اور سچے مومن کی نشانی کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ خود یہ دیکھ کر کہے کہ یہ میرا ہی ہے اس وقت تک وہ سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایسا آدمی تو آل کے طور پر مومن یا مسلمان ہے۔ یعنی عرف عام میں وہ مومن یا مسلمان ہے جیسے چوہڑے کو بھی مُصلِّی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔ مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ (البقرۃ:113)کا مصدا ق ہو گیا ہو۔ وجہ منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔ فرمایا کہ مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی ۔ آپؑ واقعہ بیان فرما رہے ہیں کہ ایک مسلمان نے یہودی کو دعوت اسلام کی اور اسے کہا کہ تُو مسلمان ہو جا۔ مسلمان جو تھا جو دعوت دینے والا، اسلام کی تبلیغ کرنے والا، فرمایا کہ وہ خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔ یہودی اس کو جانتا تھا۔ یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تُو پہلے اپنے آپ کو تو دیکھ کہ تُو کیا چیز ہے؟ مجھے کیا کہہ رہا ہے اور تُو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تُو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے۔ یہودی نے یہ نصیحت کی کہ خداتعالیٰ تو اسلام کا مفہوم چاہتا ہے۔ تمہارے اندر ہے کیا؟ نہ نام اور لفظ۔ کہتے ہیں یہودی نے اپنا قصہ سنایا۔ قصہ بیان کیا کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا مگر دوسرے دن ہی مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا۔ فوت ہو گیا خالد نام سے کچھ نہیں ہوا۔ ہمیشہ رہنے والا تو نہ بن گیا۔ اگلے دن وہ کہتا ہے مجھے اس کو قبر میں گاڑنا پڑا۔ فوت ہو گیا، دفنانا پڑا۔ اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا۔ اگر کوئی مسلمان سے پوچھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تُو مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں الحمد للہ لیکن یہ جواب کافی نہیں ،عمل چاہیے۔ فرمایا پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لَسَّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:4) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جوکرتے نہیں۔
(ماخوذازملفوظات جلد1صفحہ76-77)
پس حقیقی مومن بننے کے لیے، ایمان کا دعویٰ سچا ثابت کرنے کے لیے اپنے قول و فعل کو ہمیں ایک کرنا ہو گااور جب یہ ہو گا جب ہی ہم حقیقی مسلمان ہوں گے، جب ہی ہم اسلام کی خدمت کا دعویٰ کرنے میں سچے ہوں گے۔
پس اس کے لیے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تقویٰ کی ضرورت ہے۔ یہ حالت پیدا کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے۔‘‘ یعنی گھوڑوں کی فوج ہو۔ وہاں جو اس زمانے کا طریقہ تھا تاکہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے ’’اسی طرح تم بھی تیار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے۔‘‘ فرمایا ’’میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ
اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہوتو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو۔
جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکواور پھر تم کواس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔‘‘ پھر تمہیں اس خدمت کا شرف و استحقاق حاصل ہو۔ فرمایا ’’تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت وحقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔‘‘ تم مسیح موعود ؑکی بیعت میں آنے کا دعویٰ کر رہے ہو۔ تم نے بھی ویسے ہی عمل کرنے ہیں تو پھر مسلمانوں کا جو حال ہے وہ ہم آج کل دیکھ ہی رہے ہیںکہ کیا ہو رہا ہے۔ ہر جگہ بدنام ہو رہے ہیں۔کوئی طاقت ان کے پاس نہیں۔ فرمایا کہ ’’تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے۔ بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔ کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلافِ شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفسِ اسلام تک پہنچتا ہے۔‘‘ اسلام کو وہ بدنام کر رہا ہوتا ہے۔ فرمایا ’’مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے۔‘‘ سخت افسوس ہوتا ہے۔ ’’جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے موردِ عتاب ہوئے۔ دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں۔ اپنی بد اعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے۔‘‘ تعلیم تو صراط مستقیم کی ہے لیکن اپنی بےاعتدالیوں کی وجہ سے یہ حالت ہو رہی ہے اور صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے ’’بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’…میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جونہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں۔ پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو‘‘ ہمیں فرمایا کہ ’’اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے۔‘‘کہیں ایک مسلمان اگر کوئی حرکت کرتا ہے تو اسلام کے نام پر بات کی جاتی ہے۔ وہی حرکت اگر ایک عیسائی کرتا ہے تو اس کو کہہ دیتے ہیں اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا یا اس کو دورہ پڑ گیا تھا یا بیمار تھا لیکن اسلام کا، مسلمان کا جہاں سوال آتا ہے تو پورے اسلام کو بدنام کرنے کی پورا میڈیا بھی کوشش کرتا ہے اور حکومتیں بھی کوشش کرتی ہیں۔ پس ہمارے لیے بہت سوچنے کا مقام ہے۔
پس یہ ہے ایک احمدی کی ذمہ داری اور اس کا کام۔ کس درد سے آپؑ نے فرمایا ہے کہ اسلام کو ایسے لوگ بدنام کرتے ہیں جن کے عمل ان کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا، ہمیں فرمایا کہ تم اپنے عمل کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالو تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیاکے سامنے پیش کرنے والے بن سکو۔
پھر فرماتے ہیں کہ’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان پوچھنے پر الحمدللہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے۔ اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو۔ کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ77-78 ایڈیشن1984ء)
پھر
جماعت کو اخلاقی ترقی کی طرف توجہ
دلاتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ اخلاقی ترقی کریں کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْکَرَامَةِ مشہور ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدّد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔ انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔ امّارہ، لوّامہ، مطمئنہ۔ امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے مگر حالت لوامہ میں سنبھال لیتا ہے۔ مجھے ایک حکایت یاد آئی‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی‘‘ وہاں موجود۔ ’’وہ بولی‘‘ کتے نے آپ کو کاٹا تو ’’آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اس نے جواب دیا‘‘ اس شخص نے۔ ’’بیٹی! انسان سے کت پن نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے
انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے
نہیں تو وہی کت پن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ (الاعراف:200) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسانِ کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بُری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلقِ مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے۔ اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ غرض یہ صفت لوامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ روزمرہ کی بات ہے۔ اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے۔ جس قدر اس سے اعراض کرو گے اسی قدر عزت بچا لو گے اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلت خرید لو گے۔ نفس مطمئنہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا اور ماسوی اللہ سے بکُلی انقطاع کر لیتا ہے۔ وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا۔ جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اَور ہی ہوتی ہے۔ وہاں کا آسمان اور زمین اَور ہوتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو پاک کر کے اپنی خالص محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے،
دنیا داری کبھی ہماری ترجیح نہ ہو اور جب یہ ہو گا تبھی ہم اپنے اندر ایک انقلاب لانے والے کہلا سکیں گے۔ جب ایسی حالت پیدا کر لیں گے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ آپؑ کے ماننے والے دنیا میں غلبہ پانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پناہ میں لے لے گا۔ چنانچہ اس بات کو کھولتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (آل عمران:56) یہ تسلی بخش وعدہ ناصرت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا۔ مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سن لو۔ مَیں پھر ایک بار ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر نہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدا تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صور ت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ
یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔
اس سے زیادہ اَور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ102-105 ایڈیشن1984ء)
جس درد سے آپؑ نے یہ الفاظ ادا فرمائے ہیں ہمیں اسے محسوس کرنا چاہیے ۔ اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ان لوگوں میں سے بنیں جو مکفرین پر قیامت تک غالب رہنے والے ہوں اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اپنی حالتوں کو بھی وہ معیار حاصل کرنے والا بنائیں گے جو ایسے لوگوں کی حالتیں ہوتی ہیں۔ وہ معیار جو نفس مطمئنہ کی حالت پیدا کرنے والا ہے اگر نہیں تو ہم یہ چیز حاصل نہیں کر سکتے۔
پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہیے۔
اعلیٰ حالت حاصل کرنے،ایمان میں بڑھنے کے طریق کے حصول کی طرف راہنمائی
کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپنا ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا ردّ نہیں کرتا ہے۔ پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدق نیت سے مانگو۔ میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا ہی اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں کراماتی بننا نہیں چاہتا تو یہ یاد رکھے کہ شیطان اسے دھوکہ میں ڈالتا ہے۔ کرامت سے عُجب اور پندار مراد نہیں ہے۔ کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے۔ میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ عُجب اور پندار تو کرامتِ اخلاقی میں داخل ہی نہیں ہے۔ پس یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ دیکھو یہ کروڑ ہا مسلمان جو روئے زمین کے مختلف حصص میں نظر آتے ہیں کیا یہ تلوار کے زور سے جبرو اکراہ سے ہوئے ہیں؟ نہیں! یہ بالکل غلط ہے۔ یہ اسلام کی کراماتی تاثیر ہے جو اُن کو کھینچ لائی ہے۔
کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے۔
انہوں نے جومسلمان ہوئے صرف راستبازوں کی کرامت ہی دیکھی اور اس کا اثر پڑا۔ انہوں نے اسلام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا نہ تلوار کو دیکھا۔
بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلام کی سچائی کی روح ہی ایسی قوی ہے جو غیرقوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘
پس دنیا کی اصلاح کے لیے، اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے، دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لیے جہاں اپنی روحانی حالت میں ترقی کی ضرورت ہے وہاں عملی حالت میں ترقی کی بھی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے تبھی کرامات بھی ظاہر ہوتی ہیں اور یہی بہترین تبلیغ کا ذریعہ بھی ہے۔
پھر ایک جگہ افرادِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے کہ
ایک احمدی کی کیا حالت ہونی چاہیے
آپؑ فرماتے ہیں:’’جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔ اس کا اثر ہمسایہ پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے اور تہمت لگاتے ہیں کہ افتراء غیظ و غضب میں مبتلا ہیں۔‘‘یعنی لوگ جو احمدی ہیں ان میں کیا ترقی، کیا تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ پھر دوسری طرف افترا بھی باندھتے ہیں کہ غیظ و غضب میں مبتلاہیں۔ ’’کیا یہ ان کے لئے باعثِ ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا۔ جیساکہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔ اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کہا ہے گویا کہ حضورؐ عامة المؤمنین کے باپ ہیں۔ جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے اور حیاتِ ظاہری کا باعث مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا ہے اور اس مرکزی اصل کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے، طوائف کے ہاں جاوے اور قمار بازی کرتا پھرے۔ شراب پیوے یا اَور ایسے افعالِ قبیحہ کا مرتکب ہوجو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں‘‘ فرمایا ’’میں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے تو پھر زبان خلق بند نہیں ہو سکتی۔ لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بد کام کرتا ہے۔ پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح پر
جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہو تا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے۔
کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لئے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔ پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آجاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ
خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے۔‘‘
اللہ میاں ضرور دعائیں قبول کرتا ہے۔ ’’ہم تجربہ سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔‘‘
فرمایا ’’یہ ایک یقینی بات ہے اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لئے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے۔ اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے تو میرا فرض ہے کہ میں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں۔ اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔
کس بشنود یا نشنود من گفتگوئے می کنم۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ145-147)
کوئی سنے یا نہ سنے میں بات کرتا رہوں گا۔
پھر
جماعت کو نصیحت
کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اوراس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے‘‘ کوشش کرو گے ’’تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پرواہ نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھاوے یا کوئی لکڑہارا اُن کو کاٹ کر تنور میں ڈال دیوے۔ سو ایسا ہی تم بھی
یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پرواہ نہیں۔
ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں روز ذبح ہوتی ہیں پر ان پر کوئی رحم نہیں کرتا۔ اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پرس ہوتی ہے۔ سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بے کار اور لاپرواہ بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکے کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں ہو سکتی۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ لوگ تمہاری مخالفت کریں گے… پر تم ان کو نرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ۔ یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ266-268)
پھر اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ
ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ پس عمدہ حالت میں اس دنیا سے کوچ کرنا چاہیے
آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں پھر پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ وہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کوصرف ایک قصہ گو یا داستان کی کہانیوں ہی کا رنگ نہ دیں بلکہ میں نے یہ ساری باتیں نہایت دلسوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے کی ہیں۔ ان کو گوش دل سے سنو اور ان پر عمل کرو! ہاں خوب یاد رکھو اور اس کو سچ سمجھو کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ پس اگر ہم عمدہ حالت میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو ہمارے لئے مبارکی اور خوشی ہے ورنہ خطر ناک حالت ہے۔ یاد رکھو کہ جب انسان بری حالت میں جاتا ہے تو مکان بعید اس کے لئے یہیں سے شروع ہو جاتا ہے یعنی نزع کی حالت ہی سے اس میں تغیر شروع ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰى (طٰہٰ:75) یعنی جو شخص مجرم بن کر آوے گا اس کے لئے ایک جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔ یہ کیسی صاف بات ہے۔ اصل لذت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میں ہے بلکہ اسی حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن و آرام میں ہو۔ اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مُردوں سے بد تر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ زندہ ہی کہلا سکتا ہے۔ پس اسی پر قیاس کر لو‘‘ اسی کو دیکھ لو، سوچ لو ’’کہ جہنم کے دردناک عذاب میں کیسی بری حالت ہو گی‘‘انسان کی۔(ملفوظات جلد1صفحہ142-143)یہاں کی ہلکی تکلیفیں انسان برداشت نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا بناتے ہوئے آپ علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک پاک تبدیلی ہم اپنے دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں۔ اپنے عملی نمونوں کے ساتھ اپنی نسل کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم پر چلنے والا بنانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ دنیا کی چمک دمک کبھی ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمانوں میں کمزوری پیدا کرنے والی نہ ہو۔ اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہم دنیاکے کونے کونے میں پھیلانے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ جلسہ کی تمام برکات سے ہمیں فیض پانے والا بھی بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
٭٭دعا٭٭