زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھاوہ حبس تھا کہ سانس بھی لینا عذاب تھا ہم جی رہے تھے تیری ہی رحمت کی گود میںسایہ فگن ترے ہی کرم کا سحاب تھا تیری عنایتوں کی نہ تھی کوئی انتہامیری خطاؤں کا بھی نہ کوئی حساب تھا تیرے ہی نور سے تھیں منوّر صداقتیںتُو ہی تھا ماہتاب، تُو ہی آفتاب تھا تھی خوشبوؤں میں بھی تری خوشبو ہی دلنوازپھولوں میں پھول تیرے ہی رُخ کا گلاب تھا نیکی ترے بغیر گناہِ عظیم تھیلمحہ جو تیری یاد میں گزرا ثواب تھا تُو ہی تھا وہ سوال جو اکثر کِیا گیاتُو ہی تھا وہ جواب کہ جو لاجواب تھا اے حسنِ تام! علم بھی تُو تھا، عمل بھی تُولوح و قلم بھی تُو ہی تھا، تُو ہی کتاب تھا صبحِ ازل مشیتِ یزداں تھی دیدنیجس صبح بزمِ کُن میں ترا انتخاب تھا اوّل بھی تُو، اخیر بھی تُو، تُو ہی درمیاںتُو تھا پسِ نقاب، تُو پیشِ نقاب تھا کام آ گئی غریب کے، مِدحت حضورؐ کیمضطرؔ کا آج کہتے ہیں یوم الحساب تھا