خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء کے دوسرے روز مستورات کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

’’کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے۔ وہ پڑھا بھی سکتی ہے۔ وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے۔ او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے۔ او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔ مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں، اس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا۔‘‘

عبادتوں اور تعلق باللہ کے اعلیٰ معیارکے قیام، جان، مال، اولاد اور مال کی قربانیوں، تربیتِ اولاد، ایمان کی خاطر تکالیف برداشت کرنے اوراس پر قائم رہنے، دینی علم کے حصول کے بے مثال شوق نیز میدانِ عمل میں بہادری دکھانے سے متعلق قرونِ اولیٰ اوردورِ آخرین کی خواتین کے قابلِ تقلید نمونوں کا ولولہ انگیز بیان

(فرمودہ مورخہ06؍اگست 2022ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج میں آپ کے سامنے بعض عورتوں کی بعض مثالیں پیش کروں گا اور جوواقعات پیش کروں گا ان سے

ایک حقیقی مسلمان عورت کی دینی اور روحانی حالت

کا بھی پتہ چلتا ہے، دین کے لیے غیرت کا بھی پتہ چلتا ہے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اولاد کی تربیت کی فکر کا بھی پتہ چلتا ہے۔ غرض کہ بہت سی اور بھی باتیں ہیں جن سے

ایک حقیقی مسلمان عورت کا مقام

سامنے آتا ہے۔یہ واقعات مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کی سیرت سے بھی لیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے کی احمدی خواتین کے بھی ہیں۔ آپؑ کے بعد کے زمانے کی احمدی خواتین کے بھی اور اب تک موجودہ دَور کے بھی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے کے بعد خلافت خامسہ سے پہلے کے صرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کے بعض واقعات لیے ہیں۔ صحابیات سے لے کر اب تک ان واقعات کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ایک ایک دَور کے واقعات کو بیان کرنے کے لیے ہی کئی گھنٹے چاہئیں اور اگر لکھا جائے تو کتابوں کی کئی جلدیں چاہئیں اور پھر بھی شاید ختم نہ ہوں۔ ان واقعات کا یوں جمع کرنا ہماری تاریخ میں یہ بتاتا ہے کہ اسلام کی ابتدا سے عورت کا جو مقام تھا اس نے ان مثالوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو کوئی مقام نہیں دیتا۔

مسلمان عورت کا اسلام کی تاریخ میں ذکر اور اس کی عبادتوں کے معیار، جان مال کی قربانی اور اولاد کی تربیت کی مثالیں جو اب تک زندہ ہیں اور ان مثالوں کی بنیاد پر آئندہ جو عمارتیں استوار ہو رہی ہیں وہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عورت کا اسلام میں ایک مقام ہے۔ دنیا کے تاریخ دان تو اپنی تاریخ میں چند ایک عورتوں کی مثالیں محفوظ کیے ہوئے ہیں لیکن اسلام کی تاریخ میں صرف چند ایک بڑی نامور خواتین کے ہی نام محفوظ نہیں بلکہ بےشمار مثالیں عورتوں کی نیکی اور تقویٰ اور قربانیوں کے حوالے سے محفوظ ہیں اور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اب مزید کسی تمہید کے بغیر

مَیں بعض مثالیں اور واقعات پیش کرتا ہوں

لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ عورتیں کہتی ہیں کہ عورتوں کے بھی واقعات بیان کیا کریں۔ تو اگر صرف ان واقعات کو سن کر وقتی طور پر محظوظ ہونا ہے اور متاثر ہونا ہے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ان واقعات کو سننے کا فائدہ تو تبھی ہے جب ان نیک نمونوں کواپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنانے کی کوشش کریں۔

پس اس نیت سے انہیں سنیں اور غور کریں۔

عبادتوں اور تعلق باللہ کے معیار قائم کرنے کے لیے

جو کوششیں صحابیات عورتیں کرتی تھیں اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے:حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنی والدہ حضرت ام فضل ؓکا ذکر کرتے ہیں کہ میری والدہ کو روزے سے اس قدر محبت تھی کہ ہر پیر اور جمعرات کے دن وہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد8 صفحہ217 دارالکتب العلمیۃ بیروت )

پھر امّ المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ سے ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ حضرت زینب بنت جحشؓ نے کوئی بات کہی۔ حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹ دیا کہ بیچ میں کیوں بول رہی ہو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عمر! ان کو چھوڑ دو۔ وہ تو اَوَّاہ ہیں یعنی جوخوف خدا اور محبت کی وجہ سے بہت آہیں بھرتا ہو۔ ایک روایت میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کسی آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اَوَّاہکیا ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا اَلْخَاشِع ، اللہ سے ڈرنے والا۔ اَلدَّعَّاء، بہت دعائیں کرنے والا۔ اَلْمُتَضَرِّع، تضرع اختیار کرنے والا۔(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء زیر لفظ زینب بنت جحش جلد 2 صفحہ 49 حدیث 1494)تو ان عورتوں کا روحانی لحاظ سے یہ مقام تھا۔

جان و مال کی اور اولاد کی قربانی کی مثالیں

ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمارؓ کے والدین کا تاریخی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ ان دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے ان دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپؐ کا دل درد سے بھر آیا۔ آپؐ ان سے مخاطب ہو کر بولے

صَبْراً اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ، اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو!
خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے

اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوں میں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے۔‘‘ فوت ہو گئے۔ ’’مگر اِس پر بھی کفار کو صبر نہ آیا اور انہوں نے ان کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں ان کی ران پر زور سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا ان کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ195-196)

حضرت امِ شریکؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے مشرک رشتہ داروں نے ان کو ان کے گھر سے پکڑ لیا اور ان کو ایک بدترین مست اور شریر اونٹ پر سوار کر دیا اور ان کو شہد کے ساتھ روٹی دیتے رہے اور پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتے تھے اور انہیں سخت دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے جس سے ان کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ انہوں نے تین دن تک یہی سلوک روا رکھا اور پھر کہنے لگے کہ جس دین پر تو قائم ہے اس کو چھوڑ دے تو ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ حضرت ام شریک ؓکہتی ہیں کہ مَیں ان کی بات نہ سمجھ سکی۔ ہوش و حواس گم ہو گئے تھے اس لیے بات نہیں سمجھ سکیںلیکن کہتی ہیں ہاں چند کلمے سن لیے۔ پھر مجھے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا کہ توحید کو چھوڑ دو۔ فرماتی ہیں مَیں نے کہا

اللہ کی قسم! مَیں توحید پر قائم ہوں۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد8 صفحہ 123 دارالکتب العلمیۃ بیروت، ذکر ام شریک)

یہ تھی توحید کی حفاظت ان لوگوں کی۔

حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ شہادت سے دس دن پہلے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنی والدہ حضرت اسماءؓ کے پاس آئے۔ وہ بہت بیمار تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان کی خیریت دریافت کی تو حضرت اسماءؓ نے کہا مَیں تو سخت تکلیف میں ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ موت میں راحت ہے۔ انہوں نے دیکھا ایسی حالت ہے، قریب المرگ ہیں انہوں نے تسلی دی کہ اب یہی ہے، موت ہی ہے اور اسی میں راحت ہے، اسی میں سکون ملے گا۔ حضرت اسماءؓ نے بیٹے کو فوراً جواب دیا کہ شاید تم میرے لیے موت کی خواہش کر رہے ہو۔ مَیں اس وقت تک نہیں مروں گی جب تک مَیں دو صورتوں میں سے ایک صورت نہ دیکھ لوں۔ (یہ ایمان تھا، یقین بھی تھا۔) یا تو تم شہید ہو جاؤ، تمہیں شہید ہوتا دیکھ لوں اور مَیں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھوں اور یا تم اپنے دشمن پر قابو پا لو اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ حضرت عروہؓ فرماتے ہیں یہ سن کر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے اور جس دن انہیں شہید کیا گیا وہ مسجد حرام میں اپنی والدہ سے ملاقات کے لیے آئے تو آپ کی والدہ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ بیٹا قتل ہونے کے ڈر سے کوئی ایسا راستہ قبول نہ کرنا جس میں ذلّت ہو کیونکہ عزت کے ساتھ تلوار کا وار قبول کرنا ذلت کے کوڑوں سے بہتر ہے۔(الاستيعاب في معرفۃ الأصحاب جلد 3 صفحہ 41 عبد اللہ بن زبیر اشاعت 2010ء)یہ جرأت تھی ان عورتوں میں، یہ قربانی کا مادہ تھا اپنی اولاد کے لیے بھی۔

قرون ِاولیٰ کی مسلمان خواتین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذؓ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آ رہے تھے۔شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ احد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ اس بڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر ادھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدبن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اسے صدمہ ہو گا۔ اس لیے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں اور تسلی دیں۔ اس لیے جونہی ان کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا: یا رسو ل اللہؐ !میری ماں، یارسول اللہؐ !میری ماں۔آپؐ نے‘‘ افسوس کرتے ہوئے اس بڑھیا سے جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی ’’فرمایا: بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر ادھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی

یارسول اللہؐ! جب مَیں نے آپؐ کو سلامت دیکھ لیا ہے توآپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔

اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔‘‘ ایک جوان بیٹا جو اس کا سہارا تھا وہ ختم ہو گیا۔ ’’کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو مَیں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشان قربانی تھی جس سے اسلام دنیا میں پھیلا۔‘‘

(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ، انوارالعلوم جلد25 صفحہ 441)

حضرت زِنِّیْرَہؓ رومی اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اسلام کے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ مشرکین آپؓ کو اذیتیں دیتے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپؓ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابوجہل آپ کو اذیت دیا کرتا تھا اور یہ کہا جاتا ہے کہ آپ بنو عبدالدار کی لونڈی تھیں۔ یا اس کی یا اس کی بہرحال وہ لونڈی ہی تھیں۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی بینائی چلی گئی۔ اس پر مشرکین نے کہا کہ لات اور عزیٰ نے جو ان کے دو بڑے بت ہیں۔ ان دونوں کے انکار کرنے کی وجہ سے زِنِّیْرَہکو اندھا کر دیا ہے، انہوں نے اس لیے اس کو اندھا کر دیا ہے، اس کی نظر خراب ہو گئی ہے کہ یہ مسلمان ہو گئی ہے۔ اس پر حضرت زِنِّیْرَہؓنے کہا کہ

لات اور عزیٰ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان دونوں کی عبادت کون کرتا ہے۔

بڑا مضبوط ایمان تھا۔ یہ تو آسمان سے ہے، یعنی خدا کی منشا ہے، مَیں بیمار ہوئی، تکلیف ہوئی، میری نظر چلی گئی، لوگوں کی ہوتی ہے، اور میرا رب میری بینائی لوٹانے پر قادر ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ تم کہتے ہو میری بینائی اس وجہ سے چلی گئی تو پھر میرا رب بھی قادر ہے کہ میری بینائی لوٹا دے۔ میں اس واحد خدا کو نہیں چھوڑوں گی۔ اگلے دن انہوں نے اس حالت میں صبح کی، پھر اللہ تعالیٰ کا بھی سلوک دیکھیں کہ اگلے دن صبح جب وہ اٹھی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی بینائی لوٹا دی تھی، نظر بالکل ٹھیک ہو گئی تھی۔ اس پر قریش نے کہا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جادو کی وجہ سے ہے کہ محمدؐ نے جادو کر دیا ہے اس لیے بینائی آگئی ہے اور کوئی وجہ نہیں۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے ان کی تکالیف دیکھیں جو آپؓ کو پہنچائی جاتی تھیں تو انہوں نے ان کو خریدا اور آزاد کر دیا۔

(اسد الغابہ جلد 7 (النساء) حرف الزای زِنیرہ الرومیہ صفحہ 124۔ دار الکتب العلمیۃ 2011ء)

یہ لوگ دین کی خاطر سختیاں کس طرح برداشت کرتے تھے،

ایک روایت ہے حضرت ابوبکرؓ ایک دفعہ بنو مؤمل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے۔ بنو مُؤَمَّلجو بنو عدی بن کعب کا ایک قبیلہ ہے۔ بہرحال وہ لونڈی مسلمان تھی۔ عمر بن خطاب ان کو ایذا دے رہے تھے تا کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں ابھی مشرک تھے، اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں پر سختیاں کیا کرتے تھے اور اس عورت کو مارا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ جب تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مَیں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ اتنی سخت جان تھیں، اتنی سختیاں برداشت کرتی تھیں کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان مار مار کے تھک جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے دین کو نہیں چھوڑا۔ آخر وہ خود تھک کے چھوڑ دیتے تھے۔ اس پر وہ حضرت عمرؓ کو جواب دیتیںکہ اللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا۔

(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 166 ذکر عدوان المشرکین علی المستضعفین ممن اسلم بالاذی و الفتنة ۔ مکتبہ العصریۃ 2011 ء)

لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت عمرؓ کی کوئی نیکی پسند آئی تھی اس کی وجہ سے ان کو اسلام قبول کرنے کی سعادت دے دی اور وہ سلوک نہیں ہوا۔

مسلمان عورتوں کے اولاد کی قربانی کے معیار

کیا تھے۔ حضر ت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا۔ اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا اور بہت سے مسلمان مارے گئے۔ آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں۔ ایک عورت حضرت خنساءؓ اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدانِ جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو! تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد تباہ کردی تھی …… اور جب تمہارا باپ مرا تو اس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔‘‘ بڑی غربت کی حالت تھی۔ ’’مَیں اس وقت جوان تھی۔ تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی۔ پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسنِ سلوک بھی نہیں کیا تھا‘‘ کہ مَیں کہوں کہ اس کی عزت کی خاطر اس کے بچوں کی حفاظت کروں، کوئی حسنِ سلوک نہیں کیا تھا اس نے میرے سے اور ’’اگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکار ہو جاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی۔‘‘ اس وقت رواج تھا، اس طرح کھلی عورتیں تھیں، بے حیائیاں عام تھیں۔ اب بھی معاشرے میں بے حیائیاں عام ہو رہی ہیں مگر کہتی ہیں کہ ’’مگر مَیں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گزاری۔ اب‘‘ کہنے لگیں اپنے بیٹوں کو کہ ’’کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے۔ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں۔

کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کیے بغیر واپس آئے تومیں خداتعالیٰ کے حضورکہوں گی کہ مَیں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی۔

اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا اورپھر گھبراکر‘‘ آخر بیٹے تھے ان کا پیار بھی غالب آ گیا تو گھبرا کر ’’خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اور رو روکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگی اور دعا یہ کی کہ اے میرے خدا! مَیں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کے لئے بھیج دیاہے لیکن تجھ مَیں یہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہو گئی اور اس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے۔

یہ جرأت او ر بہادری ایمان بالآخرة ہی کا نتیجہ تھی۔

یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد7صفحہ338-339)

مالی قربانی کی مثالیں

ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ ان سے پہلے اور بعد میں آپؐ نے کوئی نوافل ادا نہیں کیے۔ پھر آپؐ عورتوں کی طرف گئے۔آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ پھر آپؐ نے عورتوں کو نصائح فرمائیں اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ عورتیں اپنی بالیاں اور کنگن اتار اتار کر دینے لگیں۔(بخاری کتاب الزکاۃ باب التحریض علی الصدقہ والشفاعۃ فیھا حدیث 1431)جو زیور انہوں نے پہنا ہوا تھا اتار کر دے دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔

حضرت عائشہ ؓکی سخاوت اور ان کی ذاتی سادگی کے بارے میں ان کی زندگی کے واقعات ملتے ہیں ۔

حضرت عروہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عائشہ ؓکو ستر ہزار درہم تقسیم کرتے دیکھا ہے۔ اس قدر مال و دولت ہونے کے باوجود آپؓ اپنی قمیض کے گریبان پر پیوند لگاتی تھیں۔

(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء لابی نعیم جلد 2 صفحہ 43 ،44روایت نمبر 1472مکتبہ الایمان المنصورہ 2007ء)

اپنی کوئی پروا نہیں کرتی تھیں۔ ایک واقعہ حضرت عائشہ ؓکا حضرت مصلح موعودؓنے بیان کیا کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؓ کے تعلق کی وجہ سے صحابہ آپؓ کی خدمت میں اکثر ہدایا بھجواتے رہتے تھے۔‘‘ تحفے بھجواتے رہتے تھے ’’لیکن وہ بھی اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزارہا روپیہ آپؓ کے پاس آیا مگر آپؓ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ اِس پر ایک سہیلی نے کہا، آپؓ روزہ سے تھیں، افطاری کے لیے چار آنے تو رکھ لیتیں‘‘ کچھ تو پاس ہوتا، افطاری ٹھیک طرح کر لیتیں۔ ’’آپؓ نے فرمایا تم نے پہلے کیو ں نہ یاد دلایا۔‘‘یہ صرف اس کو ٹالنے کے لیے بات کی۔ ’’ان کی عادت کو دیکھ کر‘‘ کہ بڑی اس طرح غریب پروری کرتی ہیں کوئی پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتیں ’’ایک دفعہ ان کے بھانجے نے جس نے ان کے مال کا وارث ہونا تھا کہیں کہہ دیا کہ حضرت عائشہ ؓتو اپنا سارا مال لٹا دیتی ہیں۔ یہ خبر جب حضرت عائشہ ؓکو پہنچی تو آپؓ نے اپنے گھر میں اس کا آنا جانا بند کر دیا اور قسم کھا ئی کہ اگر مَیں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجا زت دی تو مَیں اس کا کفارہ ادا کروں گی۔ کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپؓ اس کا قصور معاف فرما دیں۔ چنانچہ ان کے زور دینے پر حضرت عائشہؓ نے ان کو معاف کر دیا‘‘ بھانجے کو معاف تو کر دیا ’’مگر فرمایا کہ چونکہ مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگرمَیں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروں گی اس لئے مَیں اس کا کفارہ یہ قراردیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ مَیں سب کی سب غرباء اور یتامٰی اورمساکین کی بہبودی کے لئے تقسیم کر دیا کروں گی۔‘‘

(سیرِروحانی(6)،انوارالعلوم جلد22صفحہ578-579)

ام عمارہ کی بہادری اور بچوں کی تربیت اور ایمان پر قائم رہنے

کے واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے، اس کو پڑھیں اور دیکھیں اور سوچیں تو پتہ لگتا ہے کہ کس شان کی عورت تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ ’’آدھی رات کے بعد پھر وادی عقبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔‘‘ یہ شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے۔ ’’اب آپؐ کے ساتھ آپؐ کے چچا عباسؓ بھی تھے۔‘‘ مدینہ کے لوگ آئے ان کو ملنے کے لیے گئے۔ ’’اس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد تہتر تھی۔ ان میں باسٹھ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی امِ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعب کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے۔ بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ امِ عمارہؓ جو اس دن شامل ہوئیں انہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ ان کا بیٹا خبیبؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اسے بلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔‘‘ جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ دو۔ ’’تب مسیلمہ نے پھر ان سے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔‘‘ اب ایک بازو کٹ گیا یا کوئی عضو کٹ گیا اس کے بعد پھر وہی بات کی۔ ’’پھر اس نے آپؓ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دے دیا۔‘‘ دوسرا بازو کاٹ دیا یا ٹانگ کا حصہ کاٹ دیا۔ ’’ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور خبیبؓ کہتا تھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اس کے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔‘‘یہ سب تربیت تھی ام عمارہؓ کی۔ جس کی وجہ سے ان کایہ مضبوط ایمان تھا۔ ’’خودامِ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئی ہیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد20صفحہ220-221)

نیکیوں کے معیار کے بارے میں ایک روایت ہے، ابن ابی مُلَیکہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماءؓ نے کہا مَیں حضرت زبیرکے گھر کام کاج کیا کرتی تھی۔ ان کا ایک گھوڑا تھا جس کی میں نگہداشت کرتی۔ گھوڑے کی دیکھ بھال سے زیادہ مشکل مجھے کوئی اَور کام نہ لگتا تھا۔ مَیں اس کے لیے گھاس لاتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی اور اس کا خیال رکھتی۔ یہ راوی کہتے ہیں پھر انہیں ایک خادمہ ملی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے تو آپؐ نے انہیں ایک خادمہ عطا کی۔ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں اس نے مجھے گھوڑے کی دیکھ بھال سے مستغنی کر دیا اور مجھ سے یہ بوجھ اتار دیا۔ پھر میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے ام عبداللہ! مَیں ایک غریب آدمی ہوں مَیں چاہتا ہوں کہ تمہارے گھر کے سائے میں کاروبار کروں۔ حضرت اسماءؓ نے کہا کہ اگر مَیں تمہیں اجازت بھی دوں گی تو حضرت زبیرؓ انکار کر دیں گے۔ پس تم آنا اور مجھ سے زبیر کی موجودگی میں پوچھنا۔ وہ شخص آیا اس نے کہا ام عبداللہ! مَیں ایک غریب آدمی ہوں۔ چاہتا ہوں کہ آپ کے گھر کے سائے میں کاروبار کروں۔ انہوں نے کہا کیا تجھے مدینہ میں میرا ہی گھر نظر آیا ہے؟ حضرت زبیرؓ نے انہیں کہا تمہیں کیا ہوا ہے تم ایک غریب آدمی کو کاروبار سے منع کرتی ہو؟ پھر بہرحال اس کو اجازت دے دی تجارت کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کچھ کمائی کر لی اور کہتی ہیں کہ میں نے اپنی خادمہ اس کے ہاتھ بیچ دی۔ حضرت زبیرؓ میرے پاس آئے تو اس کی قیمت میری گود میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پیسے ہبہ کر دو۔ حضرت اسماءؓ نے کہا کہ یہ رقم جو مجھے آئی ہے یہ تو میں پہلے ہی صدقہ کر چکی ہوں۔

(صحیح مسلم کتاب السلام باب جواز ارداف المرأۃ الاجنبیۃ۔۔۔ حدیث نمبر5693)

کام کرنے کے لیےایک عورت ملی، اس سے ان کا بوجھ ہلکا ہوا لیکن کیونکہ ضرورت تھی اس کو بیچ دیا۔ بیچنے کے بعد جو رقم آئی اس کو اپنے اوپر خرچ نہیں کیا۔ خاوند نے مانگا تو اس کو بھی نہیں دیا۔ انہیں کہا یہ تو مَیں نے صدقہ کر دیا ہے۔ پس اس شخص کی غریب پروری بھی کر دی، خاوند کے گھر کی حفاظت کا جو معیار قائم کرنا تھا وہ بھی قائم رکھا اور مال سے بے رغبتی کا اظہار بھی کر دیا۔ تو یہ نمونے تھے۔

ان لوگوں کی دینی علم بڑھانے کی طرف توجہ اور دین سیکھنے کی طرف توجہ

کس طرح تھی۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ سے ملنے میں مرد ہم پر غالب آ گئے ہیں توآپؐ ہمارے لیے اپنے ساتھ کوئی دن مقرر فرما دیں چنانچہ آپؐ نے ان کے لیے ایک دن مقرر کیا۔(صحیح البخاری کتاب العلم باب ھل یجعل للنساء یوم۔۔۔ حدیث نمبر101)جس میں آپؐ ان سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ان کو دین سکھایا کرتے تھے۔ یہ بھی ان کو شوق تھا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اپنی تفسیر میں سورہ نور کی آیت 32کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں ۔جنگوں میں شامل ہوتی تھیں ۔زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں۔ سواری کرتی تھیں۔ مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپؓ مردوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں … غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی۔ صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنے سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے ۔‘‘ اسلام یہ نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہو جاؤ ’’اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہوا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپ امن کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ سے ہمیشہ دوستانہ مقابلے کروایا کرتے تھے جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے۔‘‘

اب ہم یہ صرف مثال پیش کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی کہ دیکھو جی بیوی کے جذبات کا خیال رکھا اور اسے دکھایا۔ صرف اتنی سی بات نہیں ہے اس میں اَور گہرائی ہے۔ ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنون حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے۔‘‘ یہ دکھایا اس لیے بھی گیا تھا کہ ان کو پتہ لگے کہ تلوار کس طرح چلائی جاتی ہے اور جنگی صورت میں کیا کرتب دکھائے جاتے ہیں ’’تا کہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں۔‘‘ یہ ایک ٹریننگ تھی۔ صرف محبت کا یا جذبات کا خیال نہیں تھا۔ ’’اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر اس کا خوں خشک ہو جاتا ہے‘‘ عورت کا دل ’’تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی‘‘ وہ تو ڈرتی رہے گی ’’اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 303)

عورتوں کی بہادری کے بارے میں بھی اسلام کی تاریخ سے واقعات

لکھتے ہوئے آپؓ نے بیان کیا کہ عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ کام کیے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔

’’ اسلامی جنگوں میں‘‘ عورتوں نے ’’وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔‘‘ لوگ کہتے ہیں جی پردہ روک ہے، پردہ کوئی روک نہیں۔ ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں حضرت ضرارؓ جوایک بہادر صحابی تھے غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے۔ ان کی بہن خولہؓ کواس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ اور سامانِ جنگ لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس وقت رومی سلطنت طاقت وقوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی آج کل انگریزوں کی حکومت ہے۔‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انڈیا اور برصغیرمیں انگریزوں کی حکومت تھی اور دنیامیں اکثر جگہوں پر تھی ’’مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کرکے لے گئی تو ان کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو ان کی قید سے چھڑا لائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی۔‘‘

(قرونِ اُولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، انوارالعلوم جلد 25 صفحہ427-428)

حضرت ام عمارہ ؓکی بہادری کا تھوڑا ذکر بھی پہلے ہوا تھا اور پھر جنگوں میں بھی انہوں نے بعض دفعہ حصہ لیا تو یہ واقعہ جنگ احد کا ہے۔ حضرت ام عمارہؓ جنگ احد میں شریک ہوئیں، نہایت پامردی سے لڑیں۔ جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں۔ جب پلڑا مسلمانوں کی طرف بھاری تھا، اس طرف مسلمان جیت رہے تھے تو وہ یہ خدمت کر رہی تھیں کہ جنگی فوجیوں کو پانی پلا رہی تھیں لیکن جب شکست ہوئی، بعض لوگوں کی غلطی کی وجہ سے جب فتح شکست میں بدل گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور پھر وہاں سینہ سپر ہو گئیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکے کھڑی ہو گئیں۔ سب سے خطر ناک جگہ تو وہی تھی۔ کفار جب آپؐ کی طرف بڑھتے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔

ابن قَمِئہ جب تیزی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو حضرت ام عمارہؓ نے بڑھ کر روکا۔ چنانچہ ان کو اس جنگ میں کندھے پر گہرا زخم آیا۔ انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی۔(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام زیر ذکر شأن عاصم بن ثابت صفحہ 534)(طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 305 دار الکتب العلمیۃ بیروت) اور ام عمارہ زخمی ہوگئیں۔ ان کا وار اتنا کارگر نہیں ہوا۔ تو یہ تھا صحابیات کا کچھ ذکر۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے کی خواتین کا ذکر

حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے ذکر سے شروع کرتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں۔ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے یہ ایسی جنگوں کا زمانہ تو نہیں جو پہلے زمانے میں ہوتی تھیں۔ یہ تو مالی قربانیوں کا زمانہ ہے۔ یہ علمی خزانے لٹانے کا زمانہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے فرمودات سے آپؑ کی کتب سے، آپؑ کے لٹریچر سے یہ فیض اٹھا کر دشمن کا علمی لحاظ سے منہ بند کرنے کا زمانہ ہے اور یہی دشمن بھی ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور اسی کو ہم نے استعمال کرنا ہے۔ مالی قربانیوں کا زمانہ ہے کیونکہ اس کے لیے مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کا زمانہ ہے۔ دعاؤں سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہماری جیت دعاؤں سے ہی ہو گی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایک روایت بیان کرتے ہیں، آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ نمازوں کا تو کیا کہنا،حضرت اماں جانؓ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کیا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی تھی بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ پھر دعا میں بھی حضرت اماں جانؓ کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور ساری جماعت کے لیے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں، بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا کیا کرتی تھیں اور احمدیت کی ترقی کے لیے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔ اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ ان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ۔ یعنی اے میرے زندہ خدا! اور اے میرے زندگی بخشنے والے آقا! مَیں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں۔

حضرت اماں جانؓ کی رمضان المبارک کے مہینے کی کیفیت کے بارے میںحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں آپؓ بہت زیادہ خیرات دیتی تھیں۔ تین چار آدمیوں کا کھانا اکثر اپنے ہاتھ سے پکا کر دیتی تھیں۔ ویسے نقدی اور جنس کی صورت میں بھی بےحد خیرات کرتی تھیں۔ رمضان المبارک کے علاوہ محرم میں بھی صدقہ و خیرات بہت فرماتیں اور گھر میں بھی نوکروں وغیرہ کو اچھا کھلاتیں۔ فرماتیں سال شروع ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ جو شروع سال میں خیرات کرے گا اور اپنے پر فراخی کرے گا اس کو سال بھر فراخی رہے گی۔

(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 22 مارچ 2019ء اور 29 مارچ 2019ء(خصوصی اشاعت) صفحہ 44)

تو یہ اصول بھی آپ نے بتایا کہ

سال کے شروع میں صدقہ و خیرات کرو تو یہ بھی آزمالو کہ اللہ تعالیٰ پھر سارا سال فراخی سے گزارتا ہے۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کا ذکر آتا ہے۔ ان کی بیعت کا واقعہ ہے۔چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’جب والد صاحب کچہری سے واپس آئے تو انہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا: کیا آپ مرزا صاحب کی زیارت کے لیے گئے تھے؟‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں گئے ہوئے تھے۔ ’’والدہ صاحب نے جواب دیا گئی تھی۔ والد صاحب نے پوچھا بیعت تونہیں کی؟ والدہ صاحبہ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا الحمد للہ کہ مَیں نے بیعت کر لی ہے۔ اس پر والد صاحب نے کچھ رنج کا اظہار کیا‘‘ غصہ کا اظہار کیا۔ ’’والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے اس میں آپ کی خفگی مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتی اگر یہ امر آپ کو بہت ناگوار ہے تو آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں‘‘ پھر جو چاہیں فیصلہ کر دیں۔ یہ ایمان کا معاملہ ہے میں تو اس کو نہیں چھوڑوں گی اور پھر کہنے لگیںکہ

’’جس خدا نے اب تک میری حفاظت اور پرورش کا سامان کیا ہے وہ آئندہ بھی کرے گا۔‘‘

(میری والدہ تالیف حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ صفحہ 27)

اتنا زیادہ ایمان تھا ان میں کہ ایک عورت ان کو ہمیشہ ڈرایا کرتی تھی کہ میری بددعا سے تمہارے بچے مر جائیں گے لیکن دو بچے فوت ہوئے اور یہ لمبا قصہ ہے لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں مانی اور انہوں نے کہا کہ توحید کو مَیں نہیں چھوڑوں گی، دو بچے قربان کر دیے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹوں سے نوازا بھی۔

(ماخوذ از میری والدہ تالیف حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ صفحہ 8تا 14)

اسی طرح امۃ اللہ بشیر صاحبہ اپنی والدہ فخر النساء صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ ’’مرحومہ‘‘ فخر النساء ’’حیدرآباد دکن کے ایک مشہور و ممتاز خاندان کی فرد تھیں…مرحومہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ مَیں نے اپنے شوہر کا دل خوش کرنے یا ان کا ساتھ دینے کے لئے بیعت نہیں کی تھی بلکہ پوری طرح احمدیت کی صداقت منکشف ہو جانے پر کی تھی اور اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح سناتیں کہ جب ان کے شوہر نے واپسی قادیان کے بعد انہیں تبلیغ کی تو وہ یہ کہنے لگیں کہ میں زیادہ علم نہیں رکھتی اس لئے مَیں چاہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمانی تائید سے میری تفہیم فرمائے تاکہ میں مطمئن ہو جاؤں چنانچہ چند سالوں کی دعا کے بعد ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ صحن مکان میں آسمان سے کاغذ کی پرچیاں کثیر تعداد میں گر رہی ہیں اور ‘‘کہتی ہیں ’’جس پرچی کو مَیں اٹھا کر دیکھتی ہوں اس پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھا ہوا پاتی ہوں۔ اس رؤیا کے بعد اطمینان حاصل ہو گیا اور صدق دل سے 1900ء میں بیعت کر لی۔

مرحومہ کا چونکہ کوئی بھائی نہ تھا اس لیے ان کے والد نے ان کو اپنے ہی گھر میں رکھا ہوا تھا۔ بیعت کرنے کے بعد والد نے شدید مخالفت شروع کر دی مگر مرحومہ ثابت قدم رہیں اور امرِ حق کے کہنے اور سچ بولنے سے کبھی دریغ نہ کیا۔ آخر جب والد فوت ہو گئے تو اپنی والدہ ماجدہ اور اپنی دونوں چھوٹی بہنوں اور ان کے بعض بچوں کو بھی اپنے نیک نمونہ سے داخل احمدیت کر لیا۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان دار الامان مؤرخہ یکم اگست 1936ء صفحہ 8)

پس نیک نمونہ بھی رشتہ داروں میں بہت کام کرتا ہے، یہ بھی ایک تبلیغ کا ذریعہ ہے جس کو ہر عورت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے جن کے غیر احمدی رشتہ دار ہیں۔

محترمہ امیر بی بی صاحبہ جو میاں خیر الدین صاحب کی اہلیہ تھیں جن کے متعلق ان کے بیٹے مولانا قمر الدین صاحب لکھتے ہیں کہ ’’گاؤں کی بہت سی احمدی اور غیر احمدی لڑکیوں نے محترمہ والدہ صاحبہ سے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھا تھا۔ دینی مسائل اور عبادات میں شغف رکھتی تھیں۔ ہماری پھوپھی مائی کاکو کے ہمراہ جمعہ کی نماز پڑھنے قادیان جایا کرتی تھیں اور گاؤں کی دوسری مستورات بھی۔ ایک مرتبہ والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نمازِ مغرب کے متعلق سوال کیا کہ کھانا پکانے کا وقت ہوتا ہے،کیسے ادا کی جائے؟‘‘ سوال کر دیا کہ نماز مغرب کا وقت ہوتا ہے ادھر سے کھانا پکانے کا وقت ہوتا ہے، خاوند آ جاتا ہے گھر والے آ جاتے ہیں کھانا دو تو کس طرح ادا کروں؟ ’’حضور (علیہ السلام)نے فرمایا کھانا مغرب سے پہلے پکا لیا کرو اور نماز وقت پر پڑھیں۔ حضورؑ نے یہ ارشاد بڑی تاکید سے فرمایا۔‘‘ وقت پہ نماز پڑھنے کا ارشاد بڑی تاکید سے فرمایا۔

گھر کے کاموں کا بہانہ کر کے اپنی نمازوں کو آگے پیچھے نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہر عورت کو نوٹ کرنا چاہیے۔

کہتے ہیں کہ ’’محترمہ والدہ صاحبہ کو ہم نے پابندِ صوم و صلوٰة اور باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھنے والی پایا۔ آپ اخلاق فاضلہ سے متصف تھیں۔ آپ کی نیکی اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے بہت سی مستورات آپ سے دعا کراتی تھیں۔‘‘

(ماہنامہ مصباح ربوہ ۔ سالنامہ 1969ء بحوالہ سیکھوانی برادران تصنیف منیر الدین شمس صفحہ31-33)

حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ، جنہیں جماعت اُمّ طاہر کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا نام اُمّ طاہر (حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی والدہ) رکھ دیا تھا، ان کے دل میں خدا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ میں نے انہیں یہ حدیث سنائی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ایک صحابی نے قیامت کے متعلق سوال کیا جس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو، کیا اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے؟اس نے جواب دیا یا رسول اللہؐ! اگر تیاری سے نماز روزہ وغیرہ مراد ہے تو مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ جو ظاہری عبادت ہے میں کرتا تو ہوں اور میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ میری قبول ہو گئی ہے کہ نہیں۔ ’’ہاں میں یہ جانتا ہوں‘‘ ایک بات میں ضرور بتا دوں آپؐ کو ’’کہ میں اپنے دل میں خدا اور اس کے رسولؐ کی سچی محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ درست ہے‘‘ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت رکھتے ہو ’’تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا‘‘ پھر تم ضرور ان سے قیامت کے دن یا اگلے جہان میں ملو گے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے دیکھا کہ جب میں نے ہمشیرہ مرحومہ کو یہ حدیث سنائی تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ میں بھی اپنے دل کو ایسا ہی پاتی ہوں۔ میں نے کہا پھر آپ کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشخبری مبارک ہو کہ آپ بھی اپنی محبوب ہستیوں کے ساتھ جگہ پائیں گی۔‘‘

( سیرت حضرت سیدہ مریم النساء(ا م طاہر صاحبہ) صفحہ 10-11)

جان مال کی قربانیوں کے بارے میں

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے۔‘‘ یعنی فوج میں بھرتی کرنے کے لیے۔ رضاکار فورس کو بھرتی کرنے کے لیے گئے یا مستقل فوج کی بھرتی کرنے کے لیے گئے۔ وہاں ’’انہوں نے جلسہ کیا‘‘ ہمارے آدمیوں نے ’’اور تحریک کی ‘‘(فوج میں بھرتی کرنے کے لیے گئے تھے) کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے ’’کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں۔ جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اس کے افراد ایسے موقع پر عموماً اپنا نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں چنانچہ اِس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اٹھا۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر ہچکچانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کرکہا۔ او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں! تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ اِس پر وہ فوراً اٹھا اور اس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا۔ ‘‘ (اس وقت جنگ تھی پاکستان کی تو پاکستانی فوج کے لیے بھرتی ہو رہی تھی) ’’تب اس کو دیکھ کر اَور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ ’’وہ عورت زمیندار طبقہ سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا کہ جب کہ وہ بیوہ تھی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اسے کوئی بیٹا ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اٹھائی جا رہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے مجھے اِس آواز کا جواب دینا چاہیے۔ ‘‘ آپ لکھتے ہیں کہ ’’شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے انہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں مَیں نے یہ واقعہ پڑھا‘‘ اس عورت کا کہ کس طرح اس نے قربانی کی ہے ’’تو پیشتر اِس کے کہ میں اِس خط کو بند کرتا مَیں نے خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا۔

اے میرے رب! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے۔اے میرے رب! اِس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے رب! اِس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے۔‘‘

(آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو جانی و مالی قربانیوں میں حصہ لیں گی، انوارالعلوم جلد 21صفحہ 159-160)

حضرت مصلح موعودؓ نے یہ دعا کی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے 1953ء کے فسادات کے دوران میں ضلع سیالکوٹ سے ایک عورت پیدل ربوہ پہنچیں اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقہ سے کٹ چکا ہے اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے۔ اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں۔ اس وقت ایک فوجی افسر یہاں رخصت پر آیا ہوا تھا۔ اس کو مَیں نے ایک مقامی دوست کے ساتھ وہاں بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر احمدیوں کی امداد کرے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں ’’اب دیکھ لو کتنی بڑی ہمت کی بات ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اس وقت مرد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے مگر وہ عورت سیالکوٹ سے پیدل سمبڑیال کی طرف گئی۔ وہاں سے گوجرانوالہ کی طرف آئی اور پھر گوجرانوالہ سے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچی اورہمیں جماعت کے حالات سے آگاہ کیا اور ہم نے یہاں سے ان کو امداد کے لئے آدمی بھجوائے تو‘‘ فرماتے ہیں کہ دیکھو ’’خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔‘‘

(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء ، انوارالعلوم جلد 26 صفحہ 270)

پھر ایک جگہ آپؓ نے فرمایا۔

’’بہت سے مبلغ ہیں جن کی قربانیوں کا صحیح اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگا سکتے

بالخصوص دو مبلغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں۔ ان میں سے ایک دوست تو نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ حکیم فضل الرحمٰن صاحب ان کا نام ہے۔ انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا۔ وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی۔ یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بےشرم اور بے حیا ہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کونہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے۔‘‘

( الفضل مورخہ یکم اکتوبر 1942ء صفحہ 2 کالم 3-4 جلد 30 نمبر229)

قرونِ اولیٰ کی عورتوں کی مثالیں دیتے ہوئے، اپنے زمانے کی عورتوں کی مثالیں دے کر بھی حضرت مصلح موعودؓ نے ہمیں بہت سی تاریخ سے آگاہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک واقعہ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیاگیا او ران کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آتی تھیں کہ جب سکھ اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے یہ بھگا دیتی تھیں۔ اورسب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی جس کو نگران بنایا گیا تھا اور ان کی سردار بنائی گئی تھی۔ اب بھی یہ عورت زندہ ہے لیکن اب بڑھیا اور ضعیف ہوچکی ہے۔ وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا ہے او رلڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی۔

اب یہاں یہ دین کے لیے کوئی لڑائی نہیں ہو رہی، یہ دوسری لڑائیاں ہو رہی تھیں جو آپس میں اختلافات کی وجہ سے لڑائیاں تھیں، قوموں کی لڑائیاں تھیں۔ اس میں مذہب کا اتنا دخل نہیں تھا لیکن بہرحال کچھ مذہب کا دخل بھی شامل کر لیا گیا ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے اس زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے بھی لیکن جہاں تک احمدیت کا سوال ہے احمدیت کا غلبہ لڑائیوں سے نہیں بلکہ عمل سے اور دعاؤں سے ہونا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے۔ بہرحال آپ لکھتے ہیں کہ غرض

کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے۔وہ پڑھا بھی سکتی ہے۔ وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے۔ او راگر مال اورجان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے۔ او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔ مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں، اس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا۔

(ماخوذ از قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، انوارالعلوم جلد 25 صفحہ 443-444)

اب وہ جو عورت کی مثال ہے جس نے اپنے بیٹے کو کہا تھا اسی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کس طرح اپنے بیٹے کو کھڑا کیا اور اس کی وجہ سے پھر اَور لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔ اب

اس زمانے کی بعض، ایک دو مثالیں

پیش کر دیتا ہوں کہ کس طرح عورتوں نے بیعت کے بعد ایمان اور علم میں ترقی کی ہے اور اپنے بچوں کی تربیت کی کوشش کی ہے، اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔

قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ لکھتے ہیں کہ عائزہ مکاشفہ صاحبہ ہیں۔ انہوں نے 2019ء میں بیعت کی، مسلمان فیملی سے تعلق رکھتی ہیں لیکن احمدیت میں شامل ہوتے ہی انہوں نے قرآن کریم ناظرہ سیکھنے کا ارادہ کیا۔ پہلے قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا تھا اور تقریباً چار چھ ماہ قرآن کریم ناظرہ سیکھ کر قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کیا۔ پھر عربی زبان سیکھنا شروع کی تا کہ قرآن کریم کے معانی کو سمجھ سکیں اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا بھی سیکھ رہی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کر رہی ہیں کہ ان کو قرآن کریم ناظرہ سکھا رہی ہیں نیز جماعت کی بعض دوسری لجنات کو بھی قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سکھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جماعت کی قرغیز ویب سائٹ کے لیے مسلسل وقت دیتی ہیں اور ان کے ذمہ لگائے گئے کاموں کو نہایت اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے چاہے وہ ان مغربی ممالک میں ہو۔

ایک عزیزہ ڈاکٹر ہیں لکھتی ہیں کہ جب میں انگلینڈ میں آئی تو یہاں ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے امتحان دینے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں وہ امتحان بھی مشکل مشہور تھے کہ مشکل سے پاس ہوتے ہیں۔ کہتی ہیں بہرحال پہلا پرچہ تحریری تھا اللہ کے فضل سے پاس ہو گیا۔ اب پریکٹیکل امتحان کی تیاری ہو رہی تھی جس میں کہ مختلف سٹیشن پر جا کر مریض کو دیکھنا ہوتا ہے اور ایک examinerآپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے، نمبر مارک کرتا ہے۔ پھر امتحان سے کچھ دن قبل ایک ساتھی کا فون آیا کہ تم امتحان کے روز کیا کپڑے پہن رہی ہو؟ کہتی ہیں سوال مجھے بڑا عجیب لگا کہ برقع کے نیچے تو جو کپڑے بھی پہنے ہوں گے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے استفسار پر اس نے کہا کیا تم حجاب اور برقع میں جاؤ گی؟ اس پر میں نے کہا ہاں۔اس نے کہا پھر تم کبھی پاس نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے کورس میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ سوٹ یا سکرٹ پہن کر آنا۔ میں نے اس کی بات سن تو لی لیکن اس کے بعد میں بہت روئی کیونکہ یہ تو مجھے پتا تھا کہ میں نے اپنا پردہ نہیں اتارنا۔ صدمہ صرف اس بات کا ہوا کہ اب اپنی ڈاکٹری پریکٹس جو ہے وہ نہیں کر سکوں گی۔ بہرحال خاوند کوبتایا، اس نے بھی اس طرح تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بہرحال گھبرائی ہوئی تھی۔ امتحان کا دن آیا، اسی طرح برقع اور حجاب میں امتحان دیا جو پاکستانی طرز کا برقع تھا۔ امتحان کا نتیجہ آیا اور الحمد للہ پاس ہو گئی اور جو میری ساتھی تھی وہ پاس نہیں ہو سکی جو بڑے اپنے آپ کو فیشن ایبل سمجھ رہی تھی۔ تو کہتی ہیں

میں آج تک اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ وہ امتحان میں نے ہرگزاپنی قابلیت یا محنت کی وجہ سے پاس نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا ہے کہ اگر تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گی تو میں تمہاری مدد کروں گا

اور پھر اس کے بعد ہر مقام پر پردے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے میرے پیشے کی مدد کی اور مجھے خدا کے فضل سے ہمیشہ ہر مقام پر عزت ملی۔ یہاں جو خیال ہوتا ہے ناں کہ پردے سے بعض حقوق نہیں ملتے اگر انسان کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو، دعا کرے اور دین پر قائم رہے اور کچھ عرصہ کے لیے اگر نقصان بھی اٹھانا پڑے تو اٹھا لے تو پھر اللہ تعالیٰ آخر کار کامیابی عطا فرماتا ہے۔

اسی طرح ناروے سے ایک خاتون لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہونا تھا۔ ٹکٹیں بک کروائیں، کام والے نے مجھے چھٹی نہیں دی، ناراض بھی ہو رہے تھے۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی، جلسہ پر ضرور جانا ہے چاہے مجھے جاب چھوڑنی پڑے۔ کہتی ہیں جاب والوں کو کہہ دیا کہ آپ چھٹی نہیں دیتے تو نہ دیں پھر میں جاب چھوڑ دیتی ہوں لیکن بہرحال دو تین دن کے بعد ہی اللہ کا فضل ہوا اور وہ افسر جس نے مجھے سختی سے بات کی تھی اس نے نہ صرف مجھے چھٹی دی بلکہ استفسار کیا کہ کہاں جانا ہے جس کے لیے کام چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئی ہو؟ میں نے اس کو بتایا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور میں نے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے انگلینڈ جانا ہے، یوکے جانا ہے۔ اس چیز سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ جب میں جلسہ سے واپس آئی تو مسجد بیت النصر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسلام تو اس نے پہلے بھی قبول کیا ہوا تھا لیکن مسجد میں کچھ دفعہ جانے کے بعد اس نے جماعت میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ پہلے اس کو کہا بھی کہ دعا کرو دل مطمئن ہو جائے پھر بیعت کرنا لیکن اس نے کہا جو سکون اور امن اور محبت یہاں ہے وہ کہیں اَور نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد اس نے اور اس کی بیٹی نے بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئی۔

تو یہ نمونہ اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا نمونہ جو ہے دوسری کا نہ صرف دل نرم کرنے کا باعث بنا بلکہ ہدایت کا بھی باعث بن گیا۔

امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ کیلی منجارو (Kilimanjaro) پہاڑ کے دامن میں ایک جماعت Machame کے مقام پر واقع ہے، وہاں ایک لجنہ جس کی عمر73برس ہے انتہائی ضعیف ہو چکی ہے مگر جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو خاص طور پر یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کی طبیعت کا کیا حال ہے اور پھر بڑی دعائیں دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ چونکہ مستقل بیماررہتی ہیں اس لیے علاقے کے لوگ آ کر انہیں کہتے ہیں کہ فلاں مولوی یا فلاں پادری سے علاج کروا لو یا دعا اور دم درود کروا لو لیکن یہ خاتون ہمیشہ اپنے علاقے والوں کو توحید کا پرچار کرتی ہیں ۔ جو توحید ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھائی ہے جو اسلام کی حقیقی توحید ہے جو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہیں اور ساتھ ساتھ ہر مہینے میں کچھ نہ کچھ ضرور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہیں۔

قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ لکھتے ہیں کہ ایک خاتون ہیں جولیا صاحبہ ایک عیسائی فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ 2013ء میں انہیں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت سے پہلے وہ حجاب نہیں اوڑھا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے اسلام احمدیت میں شمولیت کا ارادہ کیا تو حجاب لینا شروع کر دیا۔ بیعت کے بعد اسی سال جلسہ سالانہ قادیان میں بھی شرکت کی جہاں بہشتی مقبرہ کی بھی زیارت کی۔ جب انہیں نظام وصیت کے بارے میں بتایا گیا تو اسی وقت نظام وصیت میں شامل ہونے کا تہیہ کیا چنانچہ جلسہ سے واپس آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’الوصیت ‘‘کا مطالعہ کیا اور وصیت فارم فِل (fill)کر کے نظام وصیت میں شامل ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی مالی تحریکات میں حصہ لیتی ہیں۔

آئیوری کوسٹ سے وہاں کے لوکل معلم لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کی ایک ممبر ٹابا سوبا صاحبہ ہیں، برکینا فاسو کی ایمبیسی میں کام کرتی ہیں اور ہر چھٹی والے دن اپنا بیگ لے کر مختلف دیہاتوں میں نکل جاتی ہیں اور احمدیت کی تبلیغ کرتی ہیں۔ ایک دفعہ وہ گوبویو میں آئیں اور احمدیت کی تبلیغ کی۔ ان کے تبلیغ کرنے کا ایسا طریقہ ہے جیسے کوئی عالم تبلیغ کر رہا ہو۔ موصوفہ بڑے شوق سے تبلیغ کرتی ہیں اور اپنا فارغ وقت احمدیت کی تبلیغ میں گزارتی ہیں۔ وہ دوسرے ملک سے گئی ہوئی ہیں۔ بیگ میں لٹریچر رکھ لیتی ہیں اور تبلیغ کرتی رہتی ہیں۔

بعض عورتیں پوچھتی ہیں کہ ہم تبلیغ کس طرح کریں تو تبلیغ کے راستے تو خود تلاش کرنے ہوتے ہیں اگر شوق ہو تو۔

پس ان باتوں کو ہمیشہ دیکھیں۔ یہ چند ایک واقعات میں نے پیش کیے، ایسے خواتین کی جرأت اور بہادری کے بےشمار واقعات ہیں۔ اس زمانے میں بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بھی، تربیت اولاد کے بھی بعض تازہ واقعات میں وقتاً فوقتاً بیان کرتا بھی رہتا ہوں اسی طرح صحابہ کے واقعات میں بعض خواتین کا بھی ذکر آ جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے قربانیاں کیں اور قربانیوں کی مثالیں قائم کیں، دین کو دنیا پر مقدم کیا۔ پس

فائدہ تو تبھی ہے جب ان واقعات کو سن کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔

یہ واقعات وہ روح پیدا کرنے والے ہو جائیں جن کی قرون اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھی مثالیں قائم کی ہیں اور بعد کے زمانے کی نیک خواتین نے بھی مثالیں قائم کی ہیں۔ اگر ایک انقلابی تبدیلی ان باتوں کو سن کر پیدا ہو جائے، تقویٰ اور نیکی کے معیار قائم ہو جائیں، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنانے کی تڑپ پیدا ہو جائے، صرف دنیا داری کی باتیں نہ ہوں، صرف اپنے حقوق کی باتوں پر زیادہ زور نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف توجہ ہو اور ہر احمدی عورت یہ عہد کرے کہ اس نے ایک انقلاب پیدا کرنا ہے، ایک روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے، اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی تو یہ دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔ تبھی ایک انقلاب ہمارے اندر پیدا ہو گا اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور اس کی رضا حاصل کرنے والے ہم بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی زندگیوں کو اس نہج پر چلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم پر ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭٭دعا٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button