سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

سیالکوٹ کے رہنے والے ،آپ کے ہمسائے یا ہم نشین، کچہری کے ملازمین یا افسران بالا سب آپ کی نیکی ،تقویٰ اور امانت ودیانت کے معترف تھے، دل سے قائل تھے اور زبان سے اس کا اظہاربھی کرتے تھے

سیالکوٹ میں آپؑ کی مصروفیات

اپنے مفوضہ فرائض کی احسن رنگ میں ادائیگی کے علاوہ آپؑ کی اس زمانے میں اورکیا مصروفیات رہتی ہوں گی جو روایات ہمارے سامنے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہت ہی محتاط اندازے کے مطابق آپؑ کی مصروفیات کی ایک دھندلی سی جھلک کچھ اس طرح سے نظر آتی ہے :

  1. مفوضہ فرائض کی ادائیگی
  2. عبادت وتلاوت قرآن کریم
  3. خدمت خلق اور درس وتدریس
  4. علمی ودینی گفتگو، مذہبی مناظرے اور علمی مجالس عرفان
  5. بزرگوں سے ملاقات

مفوضہ فرائض کی ادائیگی

جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضورعلیہ السلام ڈپٹی کمشنرکی عدالت میں محررکے فرائض بجا لانے پر مامورہوئے تھے۔ہرچندکہ عہدے کے اعتبار سے عام اور معمولی ساعہدہ ہی تھا۔لیکن اپنی دیانت اور تقویٰ اور علمی لیاقت کی بنا پر آپؑ کی بہت جلدشہرت ہوگئی۔

اپنے کاموں اورلیاقت اور اس ڈیوٹی میں محنت اور دیانت داری ایسی تھی کہ گویا اپنی مثال آپ تھے۔جس جگہ آپ ملازمت کررہے تھے وہ جگہ ایسی تھی کہ جہاں رشوت اورہرجائزوناجائز حیلوں اورطریقوں سے حقوق لیے بھی جاتے تھے اوردبائے بھی جاتے تھے۔اور اس کے لیے جھوٹ اور جھوٹی گواہیاں تو گویامعمول کی بات اور معمولی سی بات سمجھی جاتی تھی۔ایسے ماحول میں اپنے آپ کواس طرح کے ہرعیب سے بچائے رکھنا اور اپنی ذمہ داری پوری محنت اوردیانتداری سے پوری کرنا ایسی جوانمردی ہے کہ جو بجزاعلیٰ درجہ کے متقی کے اورکسی کے نصیب میں نہیں۔آپؑ کی سوانح سے معلوم ہوتاہے کہ جب آپؑ کچہری میں ہوتے تو ایک دانا اور ہوشیاراورقوی امین اورمطیع وفرمانبردار نوکر کی طرح اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دیتے اور جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تووہاں کے تمام معاملات کو گویاوہیں چھوڑکر اپنے گھرتشریف لاتے اور باقی ساراوقت تلاوت قرآن اور عبادت الٰہی میں گزارتے۔اور کسی سے کوئی میل ملاقات اورتعلق گویانہ ہونے کے برابرہوتا۔

سیالکوٹ کے رہنے والے ،آپ کے ہمسائے یا ہم نشین، کچہری کے ملازمین یا افسران بالا سب آپ کی نیکی ،تقویٰ اور امانت ودیانت کے معترف تھے ،دل سے قائل تھے اور زبان سے اس کا اظہاربھی کرتے تھے۔

آپ کی دیانتداری اورپاکیزگی اور پاکیزہ جوانی کی یہ گواہی دینے والے وہاں کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تب اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور یہ چشم دید گواہ عام لوگ تو تھے ہی اپنی نیکی اور تقویٰ میں بھی مشہور تھے اور یہاں تک کہ پادری لوگ بھی آپ کے معترف تھے حالانکہ مذہبی عقائد کے بنا پر ہمیشہ مباحثات میں وہ آپ سے زَک اٹھایاکرتے تھے۔

کچہری میں عام تعطیل

ضلع کا سب سے بڑا افسر یعنی ڈپٹی کمشنر جس کے عملہ میں آپؑ شامل تھے۔اس کے دل میں آپ کے لیے عزت واحترام کے جذبات تھے۔اور ایک روایت ہمیں یہ بھی ملتی ہے کہ جب حضورعلیہ السلام نے اپنی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور قادیان واپس آنے لگے تو اس روز آپ کے اعزاز میں اس ڈپٹی کمشنر نے عام تعطیل کا اعلان کیاکہ ایسا نیک اور پاکبازنوجوان اس کے عملے سے رخصت ہوکے جارہاہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 93تا94)

ایک اورکتاب میں جوکہ ایک مخالف مصنف کی کتاب ہےیوں لکھاہواہے :

Mirza left the job at Sialkot Court in 1868 without any obvious reason and settled down in Qadian. H.E. Perkins, DC Sialkot. Perkins ordered that the Courts should be closed as a mark of respect the day the Mirza left for Qadian.(The Ahmadiya Movement: British – Jewish Connections page: 13 to 14)

اس کے مصنف کانام بشیراحمدہے اوریہ کتاب 1994ء میں شائع ہوئی اوراسی کتاب کا ترجمہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’’تحریک احمدیت۔یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ترجمہ احمدعلی ظفرنے کیا،پبلشر عبداللہ اکادمی لاہور،پرنٹر نصرت پریس لاہور کل صفحات 987 ہیں۔اس اردوترجمہ میں لکھاہے کہ ’’جس روزمرزاصاحب نے قادیان کو روانگی اختیارکی اس دن احترام کے طورپر پرکنز نے کچہری میں تعطیل کردی۔‘‘(تحریک احمدیت۔ یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ صفحہ60بحوالہ دسمبر1972ء کے سالانہ اجتماع پرعبدالمنان عمرکا خطاب، احمدیہ انجمن لاہور1981ء صفحہ12۔البتہ انگریزی والے حصہ میں 1977ء سالانہ جلسہ کا حوالہ دیاگیاہے۔)

خاکسارنے یہ حوالہ مذکورہ انگریزی اور اس کے اردوترجمہ سے لیاہے۔اسی باب میں ایک جگہ 1860ء سے 1870ء تک کے سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنرزکی فہرست دی گئی ہے۔اس فہرست کو اگر سامنے رکھیں اور وہ درست سمجھی جائے تو عام تعطیل کااعلان کرنے والے ڈپٹی کمشنر کانام پرکنزنہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس فہرست کے مطابق مسٹرپرکنز کاسیالکوٹ میں تقرر16؍ فروری 1864ء سے 24؍اگست 1864ء تک کاہے۔اورظاہرہے کہ اس زمانے میں توآپؑ نے ملازمت ختم کی اورنہ ہی استعفیٰ دیاتھا۔البتہ ملازمت کے اختتام کاسال 1868ء یا1867ء سمجھاجائے تو وہ ڈپٹی کمشنرگریفن صاحب ہوسکتے ہیں یا میجرٹی ڈبلیو مرسر،لہٰذااگر تعطیل کی روایت کودرست ماناجائے تو راوی کوڈپٹی کمشنر کے نام میں بہرحال سہوہواہے۔

سیالکوٹ کے مشنری انچارج

ریورنڈٹیلر کااعتراف عظمت

یہ پادری سکاچ مشن کے ایک مشہورپادری تھے سیالکوٹ مشن کے انچارج تھے اور یہاں حضرت اقدسؑ کے ساتھ ان کی مذہبی گفتگورہتی تھی۔اس علمی ومذہبی مناقشوں کے باوجود ان کے دل میں آپؑ کی علمی اور اخلاقی عظمت ایسی گھرکرگئی تھی کہ جب وہ واپس انگلستان جانے لگے تو اپنی وہ شان وشوکت جو اس زمانے میں ان کو ہواکرتی تھی اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حضورعلیہ السلام سے الوداعی ملاقات اور زیارت کے لیے کچہری میں آئے۔ڈپٹی کمشنر مسٹرپرکنس نے پوچھا تو بتایا کہ میں مرزاصاحب سے ملنے کے لیے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے ہوئے تھے وہیں سیدھےگئےاوروہیں چٹائی پر آپ کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس چلے گئے۔(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعودؑ،از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفۃالمسیح الثانیؓ ،انوار العلوم جلد 3صفحہ339،لائف آف احمدؑ جلداول صفحہ39،تاریخ احمدیت جلداول صفحہ93)

منشی سراج الدین صاحب

والدمحترم مولوی ظفرعلی خان صاحب

سیالکوٹ میں ہی امانت ودیانت کے ساتھ ساتھ آپؑ کی نیکی اور تقویٰ کاشہرہ کس قدرتھا۔ اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ آپؑ کے دعویٰ نبوت اورمہدویت کے بعد جب کہ مسلمانوں کی طرف سے آپ پرکفرکے فتاویٰ لگائے گئے۔تب بھی وہاں کے رہنے والے لوگ جنہوں نے آپؑ کودیکھااورآپؑ کے ساتھ وقت گزاراتھا وہ آپؑ کی نیکی اورتقویٰ کے قائل اورمعترف تھے۔چنانچہ برصغیر کے مشہورومعروف راہنما مولانا ظفرعلی خان صاحب کے والد بزرگوارمنشی سراج الدین صاحب جو خود ایک مقام رکھتے تھے۔ہندوپاک کی صحافت میں بھی ایک نام تھااور ایک مشہوراخبارزمیندارکے بانی تھے۔اپنے اس اخبارمیں وہ لکھتے ہیں:’’مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر 22۔ 24سال کی ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔‘‘(اخبارزمیندار مئی 1908ء بحوالہ ،اخباربدر،25؍ جون 1908ء صفحہ 13،جلد7نمبر25)

شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب استاذگرامی شاعر مشرق علامہ اقبال

ایک اور شہادت جو بہت اہمیت رکھتی ہے وہ شمس العلماء مولانا سیدمیرحسن صاحب مرحوم سیالکوٹی کی ہے۔ مولانا صاحب سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے۔ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتدا میں آپؑ ہی سے شرف تلمذرکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضورؑ سے اکثر ملاقات کا موقعہ ملتا تھا۔ مولوی صاحب نے اس زمانے میں حضورؑ کو بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا۔ وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضوؑر کی بزرگی، تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔26؍نومبر1922ء کو انہوں نےحضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کوایک مکتوب لکھااپنے اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’…خلاصہ یہ ہے کہ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ روایت نمبر280)

ایک اور تفصیلی روایت میں مولانا صاحب نے آپؑ کے سیالکوٹ کے متعلق کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں یہ دونوں روایات اس باب کے آخر پر من وعن درج ہیں۔ ایک روایت میں آپ نے لکھا:’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے… مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے…‘‘( سیرت المہدی جلداوّل ،روایت نمبر150)

ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سیالکوٹ میں ،مولانا سیدمیرحسن صاحب سے ملے تو انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا:’’افسوس !ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘(اخبارالحکم،7؍اپریل 1934ء صفحہ3،جلد37نمبر12 ،تاریخ احمدیت جلداول صفحہ95)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button