حضرت مصلح موعود ؓ

قرونِ اُولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات(قسط نمبر02)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (فرمودہ ۳۱ ؍جولائی ۱۹۵۰ء بمقام کوئٹہ)

پھر حضرت موسيٰ عليہ السلام کے زمانہ ميں فرعون کي بيوي کا ذکر آتا ہے باوجود اس کے کہ فرعون شديد دشمن تھاوہ ايمان رکھنے والي تھي اور ہميشہ دعائيں کرتي رہتي تھي کہ اے اللہ! تو شرک کي ظلمت کو دور کردے اور سچائي کو دنيا ميں قائم کر۔وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَنَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ( التحریم:۱۲)

پھر حضرت عيسيٰ عليہ السلام کي والدہ نے بھي بڑي قرباني کي۔اِس ميں کوئي شبہ نہيں کہ مسلمانوں اور عيسائيوں نے بعض غلط باتيں اُن کي طرف منسوب کر دي ہيںمگر اُنہيں جانے دو۔ مجھے ايک بات نظر آتي ہے جس سے ان کا وسعت حوصلہ معلوم ہوتاہے۔جب حضرت عيسيٰ عليہ السلام کو صليب کا حکم ہوا۔بہت کم ما ئيں ہونگي جو اِس قسم کے نظارہ کو ديکھ سکتي ہوں۔بائبل ميں آتا ہے کہ حضرت عيسيٰ عليہ السلام کو جب صليب پر لٹکايا گيااُس وقت حضرت مريم موجود تھيں۔ دنيا ميں ہم ديکھتے ہيں کہ عام طور پر ايسے وقت مائيں بھاگ جايا کرتي ہيںاور وہ اپنے بچوں کي تکليف کو برداشت نہيں کرسکتيںليکن حضرت مسيح کي والدہ اُس وقت موجود تھيں۔جب حضرت مسيح عليہ السلام نے ديکھاکہ اُن کي ماں اِس طرح اپنے دل کو حوصلہ دے کر کھڑي ہے کيونکہ وہ سمجھتي ہے کہ خدا تعاليٰ کا حکم يہي ہے اور مجھے وہ منظور ہے تو وہاں آپ کا ايک شاگرد تھوما نامي کھڑا تھاحضرت مسيح عليہ السلام نے صليب پر لٹکے ہوئے دردوکرب کي حالت ميں تھوما کو مخاطب کر تے ہوئے کہا۔اے تھوما!يہ تيري ماں ہے۔ اور حضرت مريم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے عورت! يہ تيرا بيٹا ہے۔ ماں کا لفظ نہيں بولاتا رقت پيدا نہ ہو۔اِس کا مطلب يہ تھا کہ ميں اپني جگہ پر تھوما کو تيرا بيٹا بناتا ہوں۔اِس ميں يہ اشارہ تھا کہ صليب پر مرنے يا ہمارے عقيدہ کے مطابق صليب کے بعد کي زندگي ميں جو تکاليف تمہيں پہنچني ہيں اِن ميں ميرا يہ مخلص مريد تمہاري ايسي خدمت کرے گاجيسے ميں۔اِس لئے آئندہ کے لئے تم اسے اپنا بيٹا بنا لو۔گويا شروع سے ہي يہ سلسلہ چلا آيا ہے کہ عورتيں عظيم الشان کام سر انجام ديتي رہي ہيں۔کوئي زمانہ ايسا نہيں گزرا جس ميں عورت نے قرباني ميں مرد کا ساتھ نہ ديا ہو۔

رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کا زمانہ آيا۔آپ غارِ حرا ميں عبادت کر رہے تھے کہ الہام ہوا۔ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ (العلق:۲)رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم بہت گھبرائے۔جب آپ گھر تشريف لائے تو آپ کانپ رہے تھے۔ آپ نے حضرت خديجة الکبريٰ سے فرمايا زَمِّلُوْنِيْ، زَمِّلُوْنِيْ۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔مجھے کپڑا اوڑھا دو۔چنانچہ آپ کو کپڑا اوڑھا ديا گيا۔گھبراہٹ ذرا کم ہوئي تو حضرت خديجہؓ نے دريافت فرمايا کہ آپ کو کياہو گيا ہے؟ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ميں اِس اِس طرح غار حرا ميں عبادت کر رہا تھا کہ ايک فرشتہ آيا اور اُس نے مجھے خدا تعاليٰ کي طرف سے يہ حکم ديا ہے کہ جاؤ اور ميرا پيغام دنيا کو پہنچاؤ۔ميں ڈرتا ہوں کہ نہ معلوم ميں اِس کام کو کر سکوں گا يا نہيں۔ حضرت خديجہؓ نے فرمايا کَلَّاوَاللّٰہِ لَا يُخْزِيْکَ اللّٰہُ اَبَدًا مجھے خدا کي قسم ہے خدا تعاليٰ آپ کو کبھي ضا ئع نہيں کرے گا۔پھر آپ نے رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي خوبياں بيان کرتے ہوئے کہاآپ صلہ رحمي کرتے ہيں،کمزوروں کے بوجھ اُٹھاتے ہيںناداروں کو کما کر ديتے ہيں، مہمان نوازي کرتے ہيں اور حادثات ميں حق کي مدد کرتے ہيں۔ اِس زمانہ ميں يہي شاندار اخلاق شمار ہوتے تھے۔ حضرت خديجہؓ نے فرمايا۔اِن اخلاق کے ہوتے ہوئے خدا تعاليٰ آپ کو کبھي نہيں چھوڑے گا۔ (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدءالوحی الی الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم( الخ)پھر فرمايا۔ ميرا ايک بھائي ہے وہ عيسائي ہے اور بڑا عالم ہے اُس سے اِس بارہ ميں ہدايت طلب کرتي ہوں۔ آپ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے بھائي ورقہ بن نوفل کے پاس گئيں۔ اُس نے بتاياکہ يہ وہي فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ عليہ السلام کے پاس آيا تھا مگر رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو جس چيز کا خوف تھاورقہ نے اُس کي تصديق کي اور کہا يہ فرشتہ کسي پر کبھي نہيں آتامگر اُسے سخت تکاليف پہنچتي ہيں۔ورقہ نے کہا۔ کاش! ميں اُس وقت زندہ ہوتا جب آپؐ کي قوم آپؐ کو وطن سے باہر نکال دے گي اگر اُس وقت ميں زندہ ہوا تو اَنْصُرُکَ نَصْرًامُؤَزَّرًا ميں کمر باندھ کر آپ کي مدد کروں گا۔مکہ کے لوگ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ساتھ بڑي عزت سے پيش آتے تھے اِس لئے آپ حيران ہو گئے اور فرمايا۔ اَوَمُخْرِجِيَّ ھُمْ کيا وہ مجھے باہر نکال ديں گے؟ ورقہ نے کہا ہاںکيونکہ کبھي ايسا نہيں ہوا کہ يہ فرشتہ کسي پر آيا ہو اور اُس کي قوم نے اُسے باہر نہ نکال دياہو۔ (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدءالوحی الی الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ( الخ)آخر ايسا ہي ہوايہاں بھي ہم ديکھتے ہيں کہ سب سے پہلے ايمان لانے والي اور آپ کو حوصلہ دلانے والي عورت ہي تھي اور پھر حضرت خديجہؓ نے ۱۳ سال تک آپ کي تکاليف ميں آپ کا ساتھ ديااور کسي وقت بھي ڈگمگائيں نہيں۔ پھر آپ کي تمام بيويوں کے حالات کو اسلام ميں بيان کرنے کي وجہ آخر کياہے؟ اِس کي وجہ يہي ہے کہ دنياميںعورت اور مرد دونوں مل کر کام کرتے ہيں۔دنيا ميں کوئي نئي بنياد قائم نہيں ہوتي جس ميں عورت اور مرد دونوں شامل نہ ہوں۔جيسے قرآن کريم ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ ميں نے عورت اور مرد کو اس لئے بنايا ہے کہ تا دنيا آبا دہو۔گويا جب تک عورت اور مرد دونوں کو نہ بنايا جاتادنيا آباد نہيں ہو سکتي تھي۔

یہ بھی پڑھیے:

قرونِ اُولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات (قسط اوّل)

يہي حال روحا ني دنياکا ہے۔روحا ني دنيا بھي اُس وقت تک آباد نہيں ہو تي جب تک عورت اور مرد دونوں مل کر کام نہ کريں۔رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم اسي وجہ سے عورتوں کو دين کي تعليم ميں شامل رکھتے تھے۔آپ جب وعظ فرماتے تھے تو عورتوں کو اِس ميں شامل ہونے کے لئے حکم فرماتے تھے۔مثلاً عيد ہے۔عيد کا خطبہ سننے کے لئے آپ عورتوں کو بھي دعوت ديتے تھے۔ آپ کي يہ ہدايت تھي کہ خواہ عورتوں کو اپنا کام چھوڑ کر ہي خطبہ ميں شامل ہونا پڑے اُنہيں شامل ہونا چاہئے۔( بخاری کتاب العیدین باب اذالم یکن لھا جلباب فی العید) پھر عورتوں نے کہاکہ ہم کام کاج ميں لگي رہتي ہيں اِس لئے ہم باقاعدہ طور پر وعظوں اور خطبات ميں شامل نہيں ہو سکتيں آپ کوئي نہ کوئي وقت عورتوں کے لئے مخصوص فرما ديں۔ اِس پر آپ نے ہفتہ ميں سے ايک دن عورتوں کے لئے مخصوص کر ديا۔(بخاری کتاب العم باب ھل یجعل للنساءیَوْمٌ…الخ) عورتيں مردوں کے جلسوں ميں بھي شامل ہوتي تھيںاور اس مخصوص دن بھي رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے نصائح سے مستفيد ہوا کرتي تھيں۔

اِس سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے عورتوں کو کتني اہميت دي ہے چنانچہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرماياہے کہ کسي نے دين سيکھنا ہوتو نصف دين عائشہؓ سے سيکھے۔(موضوعات کبیر ملاعلی قاری صفحہ۳۷ مطبوعہ دہلی۱۳۴۶ھ) اِس کا مطلب يہ تھا کہ ميں نے عائشہؓ کو ايسي ٹريننگ دے دي ہے کہ عورتوں کے متعلق جو نصف مسائل ہيں وہ ان سے سيکھے جا سکتے ہيں۔غرض خالي مرد کام نہيں کر سکتے۔قرآن کريم کوشروع سے آخر تک پڑھ کر ديکھ لوتمام مسائل ،احکام اور انعامات ميں عورت اور مرد دونوں کا ذکرہے۔مثلاً اگر يہ کہا جاتا ہے نيک مرد تو ساتھ ہي کہا جاتا ہے نيک عورتيں۔اگر کسي جگہ ذکر ہے کہ عبادت کرنے والے مرد تو ساتھ ہي يہ ذکر ہوگاکہ عبادت کرنے والي عورتيں۔پھر اگر يہ ذکر ہے کہ جنت ميں مرد جائيں گے تو ساتھ ہي يہ ذکر ہو گا کہ جنت ميں عورتيں بھي جائيں گي۔ مرد کي اگر اعليٰ درجہ کي نيکياں ہيں اور وہ جنت ميں ايک اعلي مقام پر رکھاجاتاہے تو اُس کي بيوي جس کي نيکياں اُس مقام کے مناسب حال نہيں اپنے خاوندکي وجہ سے اسي مقام پر رکھي جائيں گي۔اسي طرح اگر عورت اعليٰ نيکيوں کي مالک ہے اور ان کي وجہ سے وہ جنت ميں اعليٰ مقام پر رکھي جاتي ہے تو اس سے ادنيٰ نيکياں رکھنے والاخاوند بھي اس کي وجہ سے اُسي مقام پررکھا جائے گا۔

غرض تمام معاملات ميں خدا تعاليٰ نے عورت اور مرددونوں کي ذمہ داريوں کو اہميت دي ہے۔ بعد کے زمانہ ميںبيشک اِس تعليم ميں بہت فرق پڑ گيا مگر جہاں تک ابتدائي زمانہ کا سوال ہے اُس زمانہ ميں عورتيں دين کي خدمت کرتي تھيں۔انہيں خدمت کا احساس تھا وہ جہاد کے لئے بھي باہر جاتي تھيں۔ حديث ميں آتا ہے کہ ايک عورت رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئي اور عرض کيا کہ کيا مرد ہم سے زيادہ خدا تعاليٰ کے مقرب ہيںکہ وہ جہاد ميں شامل ہوں اور ہم شامل نہ ہوں۔ہم بھي جہاد ميں شامل ہوا کريں گي۔ آپ نے فرمايا ٹھيک ہے۔ چنانچہ وہ عورت ايک جنگ ميں شريک ہوئي اور جب مالِ غنيمت تقسيم ہوا تو اُس کو بھي باقاعدہ طور پر حصہ دياگيا۔بعض صحا بہؓ نے کہا کہ اِس کو حصہ دينے کي کيا ضرورت ہے؟ آپ ؐنے فرمايا نہيں اِس کو بھي حصہ ديا جائے گا۔ چنانچہ اس عورت کو حصہ ديا گيا پھر آپ کي يہ سنت ہو گئي کہ جب مرد جہاد پر جاتے تھے تو مرہم پٹي کے لئے عورتيں بھي ساتھ چلي جاتي تھيں۔ (ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی النساءیفزون) رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات کے بعدکي جنگوں ميں بھي عورتيں شامل ہوتي رہيںاور بعض جنگوں پر عورتوں نے کمان بھي کي ہے چنانچہ اسلام ميں جب فتنہ اُٹھا تو خدا تعاليٰ کي مشيت کے ماتحت حضرت عائشہؓ نے حضرت عليؓ کے مقابلہ ميں فوج کي کمان کي اور خود اونٹ پر سوار ہو کر فوج کو لڑايا۔( تاریخ طبری جلد ۵ صفحہ ۵۶۸ تا ۵۷۵۔مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ ء) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ ميں عورتيں فنونِ جنگ سے بھي واقف ہوا کرتي تھيں۔

پھر ان ميں ايسي دليري تھي کہ اپنے حق کي خا طر خليفۂ وقت کے سامنے بھي بولنے سے نہيں رُکتي تھيں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ ميں ايک دفعہ يہ سوال پيدا ہواکہ مہر کتنا ديا جائے۔ اب تو ہندوستان ميں اس بارہ ميں بہت سي لغويات پيدا ہوگئي ہيں مثلاًمہر باندھ ديا جاتا ہے ايک من مچھروں کے پَر۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ ميں بھي مرد کي طاقت سے زيادہ مہر باندھا جانے لگاتھا۔ حضرت عمرؓ نے فر مايا ميں اِس کي اجازت نہيں دوں گا۔مردوں نے کہا ٹھيک ہے۔ عورتوںميں سے ايک صحابيہؓ آپ کے پاس آئي اور کہاعمرؓ!تم نے يہ کيا نئے مسائل بتانے شروع کر ديئے ہيں قرآن کريم ميں تو لکھا ہے کہ تم اپني بيويوں کو اگرڈھيروں ڈھيرسونا بھي دے دوتو اُن سے واپس نہ لو۔ اگر ڈھيروں ڈھيرسونا کسي نے دينا ہي نہيں تو اس آيت کے قرآن ميں لائے جانے کي کيا ضرورت تھي حضرت عمرؓ نے اُسي وقت اپنا حکم منسوخ کرديااور فرمايا مدينہ کي عورتيں عمرؓ سے بھي زيادہ قرآن کريم جانتي ہيں۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح وہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک ايک لفظ کو سمجھتي تھيںاور چاہتي تھيں کہ وہ ان سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اُٹھائيں۔

ايک جنگ ميںحضرت عليؓ کے بڑے بھائي جعفر ؓشہيد ہو گئے۔رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے خاندان کے چند افراد ہجرت کر کے مدينہ آئے تھے باقي سب کافر تھے اور مکے ميں رہ گئے تھے۔ جب واپس آئے تو عورتوں نے اپنے اپنے مردوں پر رونا شروع کيااُس وقت رونے کي ممانعت نہيں ہوئي تھي؟ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم پاس سے گزرے اور دريافت فرمايايہ شور کيسا ہے؟ آپ کو بتايا گيا کہ مدينہ کي عورتيں اپنے بھائيوں، بچوں اور خاوندوں پر رو رہي ہيں۔ انسان کے ساتھ آخر بشريت تو لگي ہوئي ہے آپ کي نظر جب جعفرؓکے گھر پر پڑي تو وہاں با لکل سناٹا تھا۔ آپ کي طبيعت ميں رقت پيدا ہوئي اور فرمايا جعفرؓ پر تو رونے والا کوئي نہيں۔ يہ معمولي بات تھي آپ کا ہرگز يہ منشاء نہ تھا کہ حضرت جعفرؓ پر رويا جائے اور نہ آپ رونا پسند کرتے تھے۔ صرف يہ نظارہ ديکھ کر کہ اِرد گردعورتيں اپنے مردوں پر رو رہي ہيں ليکن جعفرؓ گھر سُونا پڑا ہے آپ کے منہ سے يہ کلمہ نکل گياکہ جعفرؓ پر تو کوئي نہيں رو رہا اس لئے کہ ان کے رشتہ دار وہاں نہيں تھے اور دوسروں کے رشتہ دار مدينہ ميں تھے يہ خبر عورتوں ميں پہنچي۔انہوں نے فوراًرونا بند کر ديا اور مدينہ کي ساري عورتيں حضرت جعفرؓ کے گھر پہنچ گئيں اور وہاں رونا شروع کر ديا۔ حضرت جعفرؓ کے گھر سے جب رونے کي آواز آئي تو آپ بہت گھبرائے اور دريافت فرماياکہ يہ شور کيسا ہے؟ آپ کو بتايا گيا کہ يَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!آپؐ نے ہي فرماياتھاکہ جعفرؓ پر رونے والا کوئي نہيں عورتوں نے جب يہ سناتو انہوں نے خيال کياکہ واقعہ ميں ہم سے غلطي ہوگئي۔ہم اپنے بچوں، بھائيوں، باپوں اور خا وندوں پر رو رہي تھيں ہميں رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے بھائي کے بھائي پران سے زيادہ رونا چاہئے۔ آپؐ کا بھائي ہمارے بچوں،بھائيوں، باپوں اور خاوندوں سے مقدم ہے۔آپؐ نے فرماياميرا تو يہ مطلب نہيں تھا يونہي ميرے منہ سے ايک فقرہ نکل گيا تھاورنہ ميں تو رونا پسند نہيں کرتا۔ چنانچہ آپؐ نے ايک شخص سے کہاانہيں رونے سے منع کرو ليکن ان عورتوں کو تو يہ احساس تھا کہ پہلے ہم سے يہ غلطي ہو گئي تھي ہم نے اپنے مُردوں پر رونا شروع کر دياتھا در اصل ہميں رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے بھائي پر رونا چاہئے تھا۔ اس مرد نے بہتيرا کہاکہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ رونا بند کر دوليکن وہ کہنے لگيں۔جاؤ جاؤ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کا بھائي مارا گيا ہے ہم اِس پر ضرور روئيں گي۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button