حضرت مصلح موعود ؓ

قرونِ اُولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ ۳۱ ؍جولائی ۱۹۵۰ء بمقام کوئٹہ)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 31؍جولائی 1950ءکو کوئٹہ میں قرون اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات کے عنوان سے ایک خطاب فرمایا۔یہ بصیرت افروز خطاب قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادہ کے لیے پیش ہے۔(ادارہ)

تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کي تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمايا:

اللہ تعاليٰ نے جب انسان کو دنيا ميں پيداکيا تو اسے مردو عورت دو حصوں ميں پيدا کيا جيسے قرآن مجيد ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (سورۃ النساء آیت ۲)يعني اے لوگو!اُس خدا کا تقويٰ اختيا کرو جس نے تم کو ايک جان سے پيدا کيا۔ وَخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا پھر اس جان کي قسم سے اس کا ساتھي پيدا کيا۔ وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً اور پھر ان دونوں سے آگے اُس نے بہت سے مرد اور عورت پيدا کئے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ اور تم اُس خدا کا تقويٰ اختيا کرو کہ جب تمہيں کوئي تکليف پہنچتي ہے تو تم دوسرے ساتھيوں سے کہتے ہو خدا کے لئے ميري مدد کرو۔وہ خدا جس کا نام لے کر تم اپنے دوستوں، ہمسايوں اور اہل دنيا سے مدد مانگا کرتے ہو آخر اس کا بھي کچھ حق ہونا چاہئے۔ وَالۡاَرۡحَامَپھر اُن رشتہ داروں، عزيزوں اور دوستوں کا بھي جن کا نام لے کر تم مدد مانگا کرتے ہو خوف کيا کرو۔ مثلاًاگر کسي بچے کو تکليف پہنچتي ہے تو وہ کہتا ہے ہائے اماں!ہائے ابا!يا کسي نوجوان کو کوئي تکليف پہنچتي ہے تو بھائيوں اور دوسرے دوستوں کا واسطہ دے کر مدد حاصل کرتا ہے ليکن ان کا تم خيال نہيں کرتے۔اِن کي خاطر تم قرباني کرنے سے بھاگتے ہو اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا يہ مت سمجھو کہ اللہ تعاليٰ تمہارے اعمال کو نہيں ديکھتا بلکہ وہ تم پر نگران ہے۔

اس کے مقابل پر بائبل ميں جو عيسائيوں اور يہوديوں کي کتاب ہے۔ انسان کي پيدائش کا يوں ذکر کيا گيا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے حضرت آدم عليہ السلام کو پيدا کيا اور ان کو ايک باغ ميں رکھا۔اِس کے بعد خدا تعاليٰ نے ديکھا کہ حضرت آدم اکيلے ہيں ان کا کوئي ساتھي بھي ہونا چاہئے۔تب حضرت آدم جب سو رہے تھے اللہ تعاليٰ نے آپ کي ايک پسلي کاٹي اور ايک عورت بنائي اور حضرت آدم عليہ السلام سے کہا کہ يہ عورت تمہارے ساتھ رہے گي اور چونکہ وہ عورت نر سے پيدا ہوئي تھي اِس لئے وہ ناري کہلائي۔(پیدائش باب ۲آیت ۷ تا ۲۳۔برٹش اینڈفارن بائبل سوسائٹی لندن۱۸۸۷ءمفہوماً)

بہر حال ابتدا ئے زمانہ سے عورت اور مرد کي آپس ميں مشارکت پائي جاتي ہے اور اِن دونوں پر بعض ذمہ دارياں عائد ہوتي ہيں اور مذہبي کتب ہميشہ سے ان پر بحث کرتي آئي ہيں۔ بائبل ميں يہ ظاہر کيا گيا ہے کہ عورت اس لئے پيد اکي گئي ہے تا مرد جنت ميں اُداس نہ ہو ليکن قرآن کريم کہتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں اس لئے پيد اکئے گئے تا ان کے ذريعہ جنت بسے اور خداتعاليٰ کا قانون دنيا ميں جاري ہو۔اگر ہم غور سے ديکھيں تو ان دونوں مقاصد ميں زمين و آسمان کا فرق پايا جاتا ہے۔بائبل کہتي ہے کہ عورت کو اِس لئے پيدا کيا گيا تا وہ مرد کو خوش رکھے ليکن قرآن کريم کہتا ہے کہ مرد اور عورت کي پيدائش کي مشترکہ غرض يہ ہے کہ تا دنيا آباد ہو اور دونوں مل کر خدا تعاليٰ کي حکومت قائم کريں۔دونوں کے ذمہ انصاف، عدل اور حسن سلوک کي دنيا بساني ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو قرآن کريم نے مقصد پيش کيا ہے وہ بہت عالي شان ہے ليکن سوال يہ ہے کہ اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے خدا تعاليٰ نے انسان کے ذمہ کيا کيا ذمہ دارياں عائد کي ہيں اور کونسے ايسے ذرائع ہيں جن پر چل کر مرد و عورت دونوں اپنے مقصد پيدائش کو حاصل کر سکتے ہيں۔

حضرت اسماعيل عليہ السلام سے خدا تعاليٰ نے اسلام کي بنياد رکھي مگر اس بنياد ميں عورت کا حصہ بھي شامل کيا گياہے۔حديث ميں آتا ہے اور ضمناً قرآن کريم ميں بھي اِس کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو ايک رؤيا دکھايا کہ وہ اپنے اکلوتے بيٹے کو ذبح کر رہے ہيں۔آپ کے اکلوتے بيٹے حضرت اسماعيل عليہ السلام تھے کيونکہ حضرت اسحاق عليہ السلام آپ سے ۱۲ سال بعد پيد ا ہوئے اور اس ۱۲ سال کے عرصہ تک حضرت اسمٰعيل عليہ السلام حضرت ابراہيم عليہ السلام کے اکلوتے بيٹے تھے۔ابھي حضرت اسماعيل عليہ السلام سات آٹھ سال کے تھے جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے حضرت اسماعيل عليہ السلام کو اپني رؤيا سنائي کہ ميں نے خواب ميں ديکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔اُس وقت انسان کي قرباني کي جاتي تھي، لوگ بتوں کو خوش کرنے کے لئے انسان کو اور خصوصاًاپنے بيٹوں کو ذبح کرتے تھے۔ جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے ديکھاکہ لوگوں ميں انساني قرباني کا رواج ہے تو آپ سمجھے کہ اِس رؤيا سے اللہ تعاليٰ کا يہ منشاء ہے کہ ميں اپنے اکلوتے بيٹے کو ذبح کروں۔ آپ نے اِس کا حضرت اسماعيل عليہ السلام سے ذکر کيا اور جيساکہ قرآن کريم ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے حضرت اسماعيل عليہ السلام نے کہا آپ نے جو ديکھا ہے اُس کو پورا کيجئے ميں صبر کرتا ہوں۔چنانچہ حضرت ابراہيم عليہ السلام اپنے بيٹے کو جنگل ميں لے گئے تا اُن کي والدہ کوکوئي تکليف نہ ہو۔آپ نے حضرت اسماعيل عليہ السلام کو اُلٹا لٹا دياتا اُن کي تکليف کو ديکھ کر دہشت پيد ا نہ ہو۔جب آپ ذبح کرنے لگے تو اللہ تعاليٰ نےآپ کوالہام کياکہ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ( الصفٰت : ۱۰۶)جب تو اپنے اکلوتے بيٹے کو ذبح کرنے پر تيا ر ہو گيا ہے تو تو اپني رؤيا کو پورا کر چکايعني اس کے معني يہ ہيں کہ اگر عملاًتجھے اپنا اکلوتا بيٹا ذبح کرنا پڑے تو تو اُسے ذبح کر سکتاہے مگر اب اِس کي ضرورت نہيں کيونکہ آئندہ سچے دين ميں انسان کے ذبح کرنے کا طريق جاري نہيں رہے گا۔يہ طريق چونکہ درست نہيں تھا اس لئے آج سے اِسے مٹايا جاتا ہے۔

ليکن در حقيقت يہ رؤيا جو دکھائي گئي تھي اِس ميں يہ پيشگوئي تھي کہ ايک زمانہ ايسا آئے گاکہ حضرت ابراہيم عليہ السلام حضرت اسماعيل عليہ السلام کو ايک ايسي جگہ چھوڑ آئيں گے جس کو مقام محمدي کے لئے چنا گيا ہے چنانچہ آپ کو کچھ دير کے بعد دوبارہ الہام ہوا کہ حضرت ہاجرہ اور اس کے بيٹے حضرت اسماعيل عليہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت ابراہيم عليہ السلام، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعيل عليہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے گئے۔مکہ کے ارد گرد کئي ميل تک کوئي آبادي نہيں تھي۔آپ نے ايک مشکيزہ پاني اور کھجوروں کي ايک تھيلي اُن کے پاس رکھ دي اور واپس چل پڑے۔ رؤيا ميں درحقيقت يہي دکھايا گيا تھاکہ اِس سے مراد چھري سے ذبح کرنا نہيں بلکہ اس سے مراد يہ ہے کہ خدا تعاليٰ کي خاطر اسے ايسي جگہ چھوڑ آؤ جہاں کھانے کو نہ روٹي ملے اور نہ پينے کو پاني گويا اپني طرف سے تم اُسے ذبح کر آؤ گے۔چنانچہ حضرت ابراہيم عليہ السلام جب مکہ کے مقام پر پہنچے تو ايک مشکيزہ پاني اور کھجوروں کي ايک تھيلي حضرت اسما عيل عليہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے پاس رکھ کر چپکے سے کھسکے تا کہ بيوي ملامت نہ کرے۔آپ جب واپس جا رہے تھے تو اُس محبت کي وجہ سے جو قدرتي طور پر خاوند کو بيوي سے ہوتي ہے آپ بار بار مڑ کر ديکھتے تھے۔جب آپ نے بار بار پيچھے ديکھا تو حضرت ہاجرہ کے دل ميں خيال پيدا ہوا کہ آپ کسي معمولي کام کے لئے نہيں جارہے بلکہ اس ميں کوئي راز ہے۔ حضرت ہاجرہ آپ کے پيچھے گئيں اور کہا ابراہيم! کيا ہميں يہاں اکيلے چھوڑے جا رہے ہو؟ آپ نے اِس کا کوئي جواب نہ ديا۔حضرت ہاجرہ آپ کے پيچھے پيچھے کچھ دُور تک چلتي گئيں اور بار بار يہ کہتي تھيں کہ کيا تم ہميں يہاں چھوڑ کر جا رہے ہو؟حضرت ابراہيم عليہ السلام کوئي جواب نہيں ديتے تھے۔ حضرت ہاجرہ سمجھ گئيں کہ وقت اور درد کي وجہ سے آپ کوئي جواب نہيں ديتے۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا۔ابراہيم! تم کس کے حکم سے ہميں يہاں چھوڑ کر چلے ہو؟حضرت ابراہيم عليہ السلام نے منہ سے کچھ نہيں کہاکيونکہ محبت کے جذبات کي وجہ سے آپ بول نہيں سکتے تھے آپ نے آسمان کي طرف اشارہ کيا۔تب حضرت ہاجرہ نے کہا اِذًالَّايُضَيِّعُنَا۔اگر تم ہميں خدا تعاليٰ کے حکم کي وجہ سے يہاں چھوڑ کر جارہے ہو تو فکر کي کوئي بات نہيں۔جس خدا نے تمہيں ہم کو يہاں چھوڑنے کا حکم ديا ہے وہ ہميں ضا ئع نہيں کرے گا۔ يہ کہہ کر آپ واپس چلي گئيں ليکن مشکيزہ ميں جو پاني تھا اور تھيلي ميں جو کھجوريں تھي وہ آخر چند دن ہي چل سکتي تھيں۔ جب يہ چيزيں ختم ہو گئيں حضرت اسماعيل عليہ السلام نے ستانا شروع کيا کہ مجھے کھانا دو،مجھے پاني دو، وہاں پاني کہاں تھا سينکڑوں ميل تک کوئي آبادي نہيں تھي۔حضرت اسماعيل عليہ السلام نے شدتِ پياس کي وجہ سے بيہوش ہونا شروع کيا۔ آپ روتے تھے اور پاني مانگتے تھے۔پھر کچھ دير کے بعد غشي طاري ہو جاتي تھي۔ پھر ہوش آتي تو پاني مانگتے۔پھر غشي طاري ہو جاتي۔ماں نے جب اپنے بيٹے کي يہ حالت ديکھي توگھبرا کر اُٹھيں اور صفا اور مروہ ٹيلوں پر جا کر ادھر اُدھر پاني تلاش کرنا شروع کيا۔آپ پہلے صفا پر چڑ جاتيں اور اِرد گرد ديکھتيں کہ شايد کوئي قافلہ آ رہا ہوتو ميں اُسے توجہ دلاؤںکہ ہميں کچھ پاني دے۔ جب اُنہيں کوئي قافلہ نظر نہ آتا تو وہ مروہ پر چڑھ جاتيںاور دوسري طرف ديکھتيں تا کوئي قافلہ نظر آئے اور اُس سے پاني حاصل کيا جائے۔صفااور مروہ کے درميان نيچي زمين تھي۔ حضرت ہاجرہ جب وہاں آتيں تو بچے سے نظر ہٹ جاتي اِس لئے يہ درمياني فاصلہ آپ دَوڑ کر طے کرتيں۔ اِسي لئے صفا اور مروہ کے درمياني فاصلہ کو حاجي لوگ دوڑ کر طے کرتے ہيں۔ بہرحال حضرت ہاجرہ صفا اور مروہ کے درمياني فاصلہ کو دَوڑ کر طے کرتي تھيں تا حضرت اسماعيل عليہ السلام کو ديکھتي رہيں۔اِسي طرح آپ نے سات چکر لگائے۔ساتويں چکر پر فرشتہ کي آواز آئي کہ اے ہاجرہ! جا اپنے بچے کے پاس۔خدا تعاليٰ نے وہاں پاني کا انتظام کرديا ہے۔ چنانچہ آپ واپس آئيںاو رآپ نے ديکھاکہ جہاں حضرت اسماعيل عليہ السلام تڑپ رہے تھے وہاں ايک چشمہ پھوٹ رہا ہے۔ ( بخاری کتاب الانبیاءباب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذاللّٰہ ابراھیم خلیلًا)جس کو زَم زَم کہتے ہيں اور جس کا پاني حاجي لوگ بطور تبرک لاتے ہيں۔غرض يہ مکہ کي بنياد تھي اور جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے مکہ کي دوبارہ بنياد رکھي تو کہا اے خدا! اس شہر کے رہنے والوں ميں ايسا نبي مبعوث کيجيؤ جو اِنہيں تيري آيات پڑھ پڑھ کر سنائے، اِنہيں تيري کتاب سکھائے، اس کي حکمتيں سنائے اوران کے قلوب کاتزکيہ کرے۔(رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ(سورۃ البقرہ : ۱۳۰))گویا مکہ کي جو بنياد رکھي گئي تھي وہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي آمد کے لئے تھي۔ اس بنياد ميں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعيل عليہ السلام دونوں شامل تھے۔يعني ايک مرداور ايک عورت۔

غرض اللہ تعاليٰ نے شروع سے ہي جب سے اسلام کي بنياد رکھي عورت اور مرد دونوں کا حصہ رکھ کر چلايا تھاليکن بدقسمتي سے دنياميں جب بھي تغيرات ہوتے ہيں کئي چيزيں نظر انداز ہو جاتي ہيں۔عام طور پر جن لوگوں نے تاريخ کا مطالعہ نہيں کياوہ سمجھتے ہيں کہ حکومت صرف مرد ہي کرتے ہيں مگر تاريخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ملکوں ميں عورتيں بھي حکومت کرتي رہي ہيںاور مردان کے تابع ہوتے تھے۔عورتوں کي حکومت ميں بھي ظلم ہوتے تھے کيونکہ دونوں ميںاتفاق اور اتحاد کي روح نہيں پائي جاتي اور دنيا صرف دونوں کے اتفاق و اتحاد سے ہي چل سکتي ہے ورنہ عورتوں نے بھي بڑے بڑے کام کئے ہيں۔اللہ تعاليٰ قرآن کريم ميں فرماتا ہے کہ حضرت موسيٰ عليہ السلام کي والدہ سے بھي اُس نے کام ليا۔اُنہيں الہام ہواکہ اُن کے ہاں ايک بچہ ہوگا، فرعون دشمن ہے وہ اُسے مارنے کا ارادہ کرے گا اِس لئے جب وہ پيدا ہواُسے ٹوکرے ميں ڈال کر دريا ميں ڈال دينا۔(وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ ( سور ۃالقصص : ۸ ))حضرت موسيٰ عليہ السلام کي والدہ نے ايسا ہي کيا۔اب يہ کام ہر ماں نہيں کرسکتي۔ايک کروڑ ميں سے ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سَو نناوے عورتيں ايسي جرأت نہيں کر سکتيںيا شايد کئي نسلوں ميں بھي کوئي ايک عورت ايسي پيدا نہ ہو کہ جسے اِس قسم کا خواب آئے اور وہ اِس خواب کي بناء پر اپنے بيٹے کو دريا ميں ڈال دے ليکن حضرت موسيٰ عليہ السلام کي والدہ نے ايسا کيا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button