سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس جب سیالکوٹ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ایک چوبارہ میں قیام فرمایا

آپؑ کا عہدہ

سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر/کچہری میں آپؑ کا عہدہ محرّر یا اہلمدکا تھا جسے Sheriff یا Reader کہاجاتاہے۔ اوراس دفترکا انچارج یعنی superintendent پنڈت سہج رام ایک متعصب ہندوتھا اور تب مسٹرH.E.Perkinsڈپٹی کمشنر تھا۔

کچہری کہاں تھی؟

1861ء تک ڈپٹی کمشنرکی رہائش اور کچہری بارہ پتھرکے علاقے میں ہوتی تھی جہاں سے پھریہ شہرسے ایک میل قریب منتقل ہوگئی۔اوریہ منتقلی 1861ء یا اس سے قبل ہوگئی ہوگی۔جیساکہ ایک مصنف جوخودایک سکاچ مشن کا پادری تھااور 1947ء سے 1977ء تک سیالکوٹ مشن میں ہی کام کرتارہا۔وہ لکھتاہے :’’شہرسے تقریباً دومیل شمال مغرب کی طرف اورچھاؤنی کے مغربی کنارے سے کوئی ایک میل دوربارہ پتھر نامی ایک علاقہ تھا۔ برطانوی اقتدارکے ابتدائی دنوں میں ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ یہاں تھی۔ اورکچہری اورپولیس لائنز بھی یہیں تھی۔ لیکن جس زمانے میں ہارپر سیالکوٹ آئے [یعنی1873ء۔مرتب]اس وقت کچہری،مجسٹریٹوں کی رہائش گاہ اورپولیس لائنز کوشہرکے ایک میل قریب منتقل کردیاگیاتھا۔پہلے سکاٹس مشنری پادری ٹامس ہنٹر چھاؤنی میں ایک کرایہ کے مکان میں رہائش پذیرہوئے تھے۔لیکن ان کے جانشینوں پادری جان ٹیلر اورپادری رابرٹ پیٹرسن کی سربراہی میں بہت جلدبارہ پتھر مشن کی کاروائیوں کامرکزبن گیا۔1861ء میں وہاں ڈپٹی کمشنر کامکان اورکچہری کی عمارات کوخریدکریتیم خانے کھولے گئے تھے۔‘‘(بھولابِسرامبشر،ازڈبلیو۔جی ۔ینگ صفحہ12۔13)

آپؑ کی رہائش کہاں کہاں رہی

حضرت اقدس کی سیالکوٹ میں آمد اور آپؑ کی رہائش کے متعلق ایک چشم دید گواہ کی شہادت جوایک تفصیلی شہادت ہے یہاں درج کی جاتی ہے ،گوکہ ایسے بہت سے چشم دید گواہ ہیں جن کی تفصیلی روایات بھی سلسلے کے لٹریچر میں موجودہیں جیسے سیدمیرحسن اوردیگر احباب وغیرہ لیکن یہ تفصیلات مضمون کے آخر میں دی جائیں گی اس وقت ایک خاتون کی شہادت یہاں پیش کی جارہی ہے اس لیے کہ اس نصیبے والی محترمہ کی خوش بختی یہ ہے کہ نہ صرف اس نے اس ’’یوسف‘‘ کو اس زمانے میں دیکھا بلکہ آپؑ کی رہائش ابتدا میں انہیں کے گھرمیں رہی اور بعدمیں کھانا بھی انہیں کے گھر سے تیارہوکے جایاکرتا۔یہ روایت سیرت المہدی کی روایت نمبر625ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓبیان فرماتے ہیں :’’سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں11ستمبر 1935ء کو سیالکوٹ میں تھا۔ وہاں مجھے مائی حیات بی بی صا حبہ بنت فضل دین صاحب جو کہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی والدہ ماجدہ ہیں سے ملنے کو موقعہ ملا۔ اس وقت میرے ہمراہ مولوی نذیر احمد صاحب فاضل سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور چودھری عصمت اللہ خان بی۔ اے۔ پلیڈرلائلپور، سیکرٹری جماعت احمدیہ لائلپور بھی تھے۔ مائی صا حبہ اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان کو نہ پہچانا۔ مگر انہوں نے ہم کو پہچان کر السَّلام علیکم کہا۔ اور فرمایا کہ ادھر تشریف لے آئیں۔ مائی صاحبہ کی عمر اس وقت 105 سال ہے۔ مائی صا حبہ نے بتایا۔ کہ غدر کے زمانہ میں جب یہاں بھاگڑ پڑی اور دفاتر اور کچہریوں کو آگ لگی تو اس وقت مَیں جوان تھی۔ دورانِ گفتگو میں مائی صا حبہ نے بتایا کہ مجھے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)سے اس وقت سے واقفیت ہے کہ جب آپ پہلے پہل سیالکوٹ تشریف لائے تھے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تھے۔ مرزا صاحب کی عمر اس وقت ایسی تھی کہ چہرے پر مس پھُوٹ رہی تھی۔ اور آپ کی ابھی پوری داڑھی نہ تھی۔ سیالکوٹ تشریف لانے کے بعد حضرت مرزا صاحب میرے والد صاحب کے مکان پر آئے۔ اور انہیں آواز دی اور فرمایا۔ میاں فضل دین صاحب آپ کا جو دوسرا مکان ہے۔ وہ میری رہائش کے لئے دے دیں۔ میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ اندر آ گئے۔ پانی ،چارپائی ،مصلّٰی وغیرہ رکھا۔ مرزا صاحب کا سامان بھی رکھا۔ آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔ مائی صا حبہ نے حضرت مسیح موعودؑکی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا۔’’مَیں قربان جاؤں آپ کے نام پر‘‘۔یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں میں نے لیا۔ اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کے سامنے بتلایا۔ کہ یہی باتیں میں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سُنا کرتا تھا۔

مائی صا حبہ نے بتلایا کہ پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے۔ جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے۔ جب وہ چوبارہ گر گیا۔ تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے۔ چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل۔ منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جاؤ۔ جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے۔ تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا۔ حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ خلیل کہتا تھا۔ کہ چوبارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا۔ مائی صاحبہ نے بتلایا کہ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ اور اتنا ہی منہ کُھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جا کر چادر اتار دیتے تھے حافظ صاحب نے بتلایا کہ ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔ اور نیز انہوں نے بتلایا۔ کہ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔ مائی صاحبہ نے بتلایا کہ جب مرزا صاحب دوسری دفعہ بعد از دعویٰ سیالکوٹ آئے تو حکیم حسام الدین صاحب مرحوم کے مکان پر مجھے بلایا۔ اور میرا حال پوچھا۔ اور مَیں نے بیعت بھی کی۔ اس وقت مرزا صاحب بمع کنبہ آئے تھے…‘‘[مصنف کتاب سیرت المہدی حضرت صاحبزادہ صاحب ؓفرماتے ہیں]خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا بیان کے نیچے مندرجہ ذیل نوٹ درج ہیں۔

نوٹ اوّل:’’مندرجہ بالا بیانات ناظر صاحب دعوة و تبلیغ نے میری موجودگی میں مائی حیات بی بی صا حبہ اور ان کے لڑکے حافظ محمد شفیع صاحب کی روایات کی بناء پر قلمبند کرائے۔ دونوں پنجابی میں باتیں بتاتے تھے۔ جن کو ناظر صاحب ان کی موجودگی میں اردو میں ساتھ ساتھ لکھاتے جاتے تھے مورخہ11؍ستمبر 1935ء۔(دستخط) عصمت اللہ خاں وکیل لائلپور حال مقیم سیالکوٹ۔‘‘

نوٹ ثانی:’’ میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعوعلیہ السلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ لیکن پہلے ایک منزلہ تھا۔ اور موجودہ شکل بعد کی ہے۔ چراغ دین صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ جب مرزا صاحب یہاں رہا کرتے تھے۔ تو اس وقت میری عمر 10۔11 سال کی تھی۔ اور اس وقت مرزا صاحب کی داڑھی ذرا ذرا سی تھی۔ جب آپ کام کاج سے فارغ ہو کر باہر سے آتے تو کسی سے بات نہ کرتے اور اندر ہر وقت لکھنے پڑھنے کا ہی کام کرتے۔ اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے۔ پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لئے گئے ہیں۔مرزا صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے۔‘‘

خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیالکوٹ کے اس زمانے کے حوالے سے یہ ایک بہت مفید روایت ہے۔اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ آپؑ اپنی عمر کے اس حصے میں تشریف لائے تھے کہ جب کہ آپؑ کی مَسیں بھیگ رہی تھیں،اور دومکانوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور یہ بھی کہ وہ کون سا خوش قسمت گھرانہ تھا کہ جنہیں یہ بھی سعادت ملتی رہی کہ آپؑ کا کھانا تیارکرکے بھیجتارہے۔

بہرحال آپؑ کی رہائش گاہوں کے بارے میں ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت اقدس جب سیالکوٹ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ایک چوبارہ میں قیام فرمایایہ وہی چوبارہ ہے جس کا ذکر حضرت اقدسؑ کی حفاظت الٰہی کے ضمن میں اکثرکیاجاتاہے۔

اس چوبارہ کے گرنے کےبعد آپؑ کشمیری محلہ میں منتقل ہوگئے۔مذکورہ بالاروایت کے مطابق یہ مکان میاں فضل دین صاحب کا تھا جو مذکورہ بالا راویہ مائی حیات بی بی صاحبہ کے والدمحترم تھے اورحافظ محمدشفیع صاحب کے نانا تھے۔لیکن محترم سیدمیرحسن صاحب کی روایت جو ابھی درج ہوگی اس کے مطابق یہ مکان میاں فضل دین صاحب کے بھائی عمرا نامی کشمیری کاتھااورفضل دین صاحب اس کے بڑے بھائی تھے۔

اور یہ مکان بعدمیں ماسٹر عبدالعزیز صاحب ٹیلرماسٹر نے جو خودبھی احمدی تھے خرید لیا تھا اور1935ء کی روایت جو سیرت المہدی کی مذکورہ روایت ہے اس کے مطابق یہ محلہ،محلہ چودھری سلطان کے نام سے بھی معروف ہے۔اوروہ کمرہ جس میں حضرت اقدسؑ قیام پذیررہے اس کی نشاندہی 1935ء میں یوں کی گئی ہے کہ’’میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ لیکن پہلے ایک منزلہ تھا۔ اور موجودہ شکل بعد کی ہے۔اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے۔ پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لئے گئے ہیں۔مرزا صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے۔‘‘

ضمناً یہاں یہ ذکربھی کرتاچلوں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ بھی اسی محلے میں پیداہوئے بلکہ اسی مکان کے قریباً سامنے کرکے ہی آپؓ کا مکان ہے۔آپؓ کی تاریخ پیدائش 1858ء ہے اورکیابعیدہے کہ بچپنے کے دنوں میں آپؑ کی نظر شفقت کے بھی کبھی موردبن جایاکرتے ہوں۔اور یہ وہی نظرہی ہوجو اس چھوٹے سے بچے کو سیالکوٹ محلہ سلطان کی گلیوں سےاٹھاکر سلطان القلم کے قدموں میں ایسابٹھایا کہ آسمان کا ستارہ بنادیا۔

یہ مکان خاکسار نے بھی دوتین مرتبہ دیکھاہے اور اب سال 2011ء میں بھی دیکھاہے اور دوسرے مکانات کی بابت بھی کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔لیکن حتمی طور پران کی نشاندہی کرنا قدرے مشکل امرہے۔

تیسری رہائش گاہ ایک بیٹھک ہے۔سیدمیرحسن صاحب نے حضرت اقدسؑ کے سیالکوٹ میں رہائش کے زمانے کی بابت دومرتبہ تفصیلی حالات وواقعات بیان فرمائے ہیں اس میں وہ بیان کرتے ہیں :’’اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمع منصب علی حکیم کے رہاکرتے تھے۔وہ (یعنی منصب علی۔ خاکسار مؤلف) وثیقہ نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے…۔‘‘( سیرت المہدی جلداوّل صفحہ 252 روایت نمبر280)

’’…چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔‘‘( سیرت المہدی ، جلداوّل روایت نمبر150)

ان روایات کےمطابق ایک تیسری رہائش گاہ آپؑ کی وہ قرارپاتی ہے جو یہ ایک بیٹھک تھی اور مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمدصاحب شاہدؒ کے مطابق ’’او ر غالباً یہیں آخر تک مقیم رہے۔‘‘( تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 82)

یہ جامع مسجد کون سی تھی اوربیٹھک کون سی تھی۔اغلباًیہ جامع مسجد وہی ہے جو حضرت میرحسام الدین صاحب کی مسجدکہلاتی تھی اور آج کل’’ مسجدمبارک‘‘ کے نام سے معروف ہے۔اور یہ مکان بھی حضرت میرحسام الدین صاحب ؓ کا تھا جس کی بیٹھک میں آپؑ قیام پذیررہے۔واللہ اعلم

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button