پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

اشتعال انگیز اور نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم

ربوہ، جون 2021ء: احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز لٹریچر پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص تقسیم کیا جا رہا ہے۔پاکستان میںجماعت احمدیہ کے مرکز نے اس نفرت انگیز مہم کے منتظمین کے خلاف حکام کو درج ذیل شکایت لکھی:(ترجمہ) ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز لٹریچر کی تقسیم کو روکنے کے لیے قانونی کارروائی کی درخواست جمع کرائی جاتی ہے کہ عوامی مجلس تحفظ ختم نبوت چکوال کے زیر نگرانی (رابطہ نمبر …)احمدیوں کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے کی مہم کے ساتھ اشتعال انگیز لٹریچر بھی تقسیم کیا جا رہا ہے۔ منسلک پمفلٹ میں جماعت احمدیہ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ لٹریچر پر حکومتی پابندی کے باوجود ایسا لٹریچر ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص تقسیم کیا جا رہا ہے۔ تقسیم کرنے والے بےپروا اورنڈر ہیں، کیونکہ وہ پمفلٹ پر اپنی شناخت اور رابطہ نمبر چھاپتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں بدقسمتی سے ایسے اقدامات کا واحد مقصد مذہب کے مقدس نام پر نفرت انگیز اور بے بنیاد مواد پر مبنی لٹریچر کی تقسیم سے تعصب اور نفرت پھیلانا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعصب اور امتیازی رویہ عروج پر ہے۔ مٹھی بھر انتہا پسند عناصر اپنے مذموم عزائم کو اکثریت پر رائج کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں معاملے کی حساسیت اور اس قسم کے لٹریچر کی تقسیم کے منفی نتائج کے قوی امکان کے پیش نظر درخواست کی جاتی ہے کہ احمدیہ مخالف سرگرمیوں اور اشتعال انگیز لٹریچر کی تقسیم کو روکنے کے لیے فوری طور پر قانونی کارروائی کی جائے۔ درخواست ہے کہ اس پمفلٹ سمیت تمام اشتعال انگیز لٹریچر کو کالعدم قرار دیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ یہ مسئلہ فوری کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ امید ہے کہ آپ آئینِ پاکستان کے تحت اور اپنے فرض اور ذمہ داری کے مطابق بلا تفریق مذہب و قومیت ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ میں آپ کا بہت مشکور رہوں گا۔(ترجمان جماعت احمدیہ)

نوٹ: اس نفرت انگیز پمفلٹ میں بانی جماعت احمدیہ پر الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کی کتابوں کو بغیر سیاق و سباق کے مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں احمدیوں کے بارے میں درج ہے کہ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جو کوئی قادیانی ہو چکا ہے یا پیدائشی طور پر قادیانی ہے اس کے قادیانی ہونے کی صرف دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک جہالت، دوسری حرص، اور قادیانی رہنے کی کسی تیسری وجہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس پمفلٹ کا مقصد جھوٹ کے ذریعے احمدیوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینا اور بانی جماعت احمدیہ کی وفات سے متعلق غلط اور جھوٹی باتیں پھیلانا تھا۔ پمفلٹ کے بنانے والوں کو گویا یقین ہے کہ ان پر PPC 298A کا اطلاق نہ ہو پائے گا۔

پنجاب اسمبلی کے اراکین نے احمدیہ جماعت اور احمدیوں پر بھیجی لعنت

2؍جون 2021ء: روزنامہ قدرت ایک یوٹیوب چینل نے پنجاب اسمبلی کی 2؍جون 2021ء کی کارروائی اپ لوڈ کی۔ اسمبلی میں نذیر چوہان، راجہ بشارت (پنجاب کے وزیر قانون) اور سعید اکبر خان نوانی وغیرہ نے شہزاد اکبر اور احمدیوں کی مذہبی حیثیت پر تقریریں کیں۔ انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اسمبلی ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا اور شہزاداکبر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی اسلامی شناخت ثابت کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کے بانی پر لعنت بھیجیں۔ چوہان کی تقاریر سے کچھ حصے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:

نذیر چوہان نے کہا:’’اگر وہ سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو انہیں میڈیا کے سامنے اقرار کرنا چاہیے کہ وہ اسلام پر اور خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقین رکھتے ہیں اور [نعوذباللہ] مرزا احمد قادیانی پر (…)بھیجیں۔ ….مسئلہ دو لفظوں میں برادرانہ رنگ میں حل کیا جا سکتا ہے۔ تم نے مجھ پر الزام لگایا ہے۔ لیکن بتاؤ تم کہاں کھڑے ہو؟ میں تمہارے پاس آکر مسئلہ حل کروں گا۔ میں عاشق رسول ہوں اور مرزا احمد قادیانی پر بے شمار (…)بھیجتا ہوں۔ …‘‘

راجہ بشارت احمد (پنجاب کے وزیر قانون) نے کہا:’’جناب۔چیئرمین، انہوں نے (نذیرچوہان) کسی کے بارے میں سوال اٹھایا اور انہوں نے (شہزاد اکبر) ان کے سوال کا جواب دیا۔ میرے خیال میں اگر کوئی شخص کھڑا ہو کر کہے کہ میں مسلمان ہوں اور وہ قادیانیوں پر لعنت بھیجتا ہے تو کمیٹیاں کیا کریں گی۔…میں لعنت بھیجتا ہوں، میں لعنت بھیج رہا ہوں …اور اس نے لعنت بھیجی ہے۔ …میں لعنت بھیجتا ہوں۔ تمام معزز ممبران لعنت بھیجتے ہیں۔ …اس نے ( شہزاداکبر) لعنت بھیجی ہے۔ ان کے بیانات کو پہلے ہی ہٹادیاگیاہے۔‘‘

(https://www.youtube.com/watch?v=La_cizNwZ2k&ab_channel=DailyQudrat)

احمدیوں پر تدفین کے دوران حملہ

چک 79 نواں کوٹ، ضلع شیخوپورہ۔6؍جون 2021ء: احمدیوں کی مخالفت میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، 2020ء میں قبروں کی بے حرمتی ہوئی اور اپریل 2021ء میں احمدیوں کے گھروں سے مقدس تحریرات کو ہٹا دیا گیا۔ پنجاب میں دیگر جگہوں کی طرح، یہاں بھی مخالفین نے احمدیہ مسجد کی بے حرمتی کے لیے عوام کو مشتعل کیا۔ یہ رویہ ان کی ترجیح بن گیا ہے۔انہوں نے احمدیہ مسجد کے میناروں کے خلاف پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ پولیس نے احمدیہ وفد کو 5؍جون کو تھانے بھیجا اور انہیں مینار گرانے کو کہا۔ احمدیوں نے اس امر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس نے انہیں 6؍جون کو دوبارہ بلایا، لیکن اس دن ایک احمدی خاتون کی وفات ہوگئی، اور مخالفین نے جنازے پر حملہ کردیا۔ ضروری تفصیلات ذیل میں درج ہیں:

ایک احمدی ظفر اللہ کی اہلیہ کا انتقال 6؍جون کو ہوا۔ تدفین کے موقع پر مخالفین نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ مسلمان قبرستان آئیں اور تدفین کی کارروائی روک دیں۔ احمدیوں کے لیے مختص کردہ پلاٹ میں مرحومہ کی تدفین کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ مخالفین نے قبرستان پہنچ کر تدفین میں روک ڈالنے کی کوشش کی اور صورتحال تصادم کی طرف چلی گئی۔ احمدیوں نے دفاعی انداز میں جواب دیا۔ چند افراد زخمی ہوئے۔ اسی دوران پولیس پہنچی اور احمدیوں کو موقعہ سے چلے جانے کا کہا نیزانہیں قبر کی حفاظت کا یقین دلایا۔ اس پر احمدی چلے گئے لیکن مخالفین کچھ دیر قبرستان میں رکے رہے۔ احمدیوں نے پولیس کے سامنے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے قبرستان میں احمدیوں کے لیے مختص کیے جانے والے حصے میں تدفین کی ہے لیکن مخالفین نے ان پر حملہ کر دیا۔ پولیس نے مظاہرین کی سرزنش کی۔ لڑائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ 8؍جون کو مخالفین نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ احمدی عورت کی نعش کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ معاملے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ جب ملّاں قبرستان میں جمع ہوئے تو پولیس بھی وہاں پہنچ گئی۔ پولیس کی موجودگی میں ملّاں کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ان حالات میں پولیس نے دو ایف آئی آر درج کیں۔ ایک پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ اور کورونا ایکٹ کے تحت ملاؤں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اسپیکر سے اشتعال انگیز اعلانات کرنے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے پر کی گئی۔ دوسری ایف آئی آر لڑائی پر تھی۔ اس میں 11 نامزد اور 20/25 نامعلوم احمدی جبکہ 14 نامزد مخالفین اور 20/25 نامعلوم افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔ قبرستان میں تدفین کے معاملے پر فریقین کے درمیان صلح ہو گئی۔ جس کے مطابق احمدی مرحومین کو مختص کردہ جگہ پر دفن کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح مخالفین کے قبرستان کے حصے میں پہلے سے موجود احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی نہیں ہوگی۔

9؍ جون کو مرکزی جمعیت اہل حدیث (JAH) نے ریلی کا اعلان کیا، جس کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی ہوئی۔جے اے ایچ کے سابق صدر ابتسام الٰہی ظہیر اور دیگر علماء اس مقصد کے لیے جامع مسجد ربانی، بتی چوک، شیخوپورہ میں جمع ہوئے۔ پولیس اور ملاؤں کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں، مؤخر الذکر نے چار مطالبات کیے:

1) نواں کوٹ گاؤں کے مسلمانوں کے خلاف درج تمام مقدمات کو خارج کیا جائے۔

2) جنازے پر ہتھیار لہرانے اور فائرنگ کرنے والے احمدیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

3) نواں کوٹ میں احمدیوں کا الگ قبرستان ہونا چاہیے۔

4) مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے والی احمدی عورت کو احمدیوں کے قبرستان میں منتقل کیا جائے۔

پولیس نے مرحومہ کی نعش کو منتقل کرنے کے مطالبہ کے علاوہ دیگر مطالبات مان لیے۔ احمدیوں کے ساتھ غیروں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ملاؤں نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات 11؍جون تک نہ مانے گئے تو وہ بتی چوک روڈ کو بند کر دیں گے۔ احمدیہ مسجد کے مینار کے انہدام کے حوالے سے احمدیوں کو ان کے خلاف پولیس کارروائی کا خدشہ تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button