متفرق شعراء

ایک مرحوم والدہ اپنی اولاد سے

(آصف محمود باسط)

ہاں میں نے خاک اوڑھ لی، مٹی میں سو گئی

ظاہر میں لگ رہا ہے کہ میں تم سے کھو گئی

لیکن تم اب بھی ساتھ ہو، اور آس پاس ہو

پر یہ بھی جانتی ہوں کہ تم کیوں اداس ہو

یوں ہے کہ اب سے ساتھ کے آداب اور ہیں

اور گفتگو میں بات کے آداب اور ہیں

انگلی پکڑ کے میں نے ہی چلنا سکھایا تھا

اور تم نے اپنا پہلا قدم جب اٹھایا تھا

قربان ہو گئی تھی تمہارے قدم پہ میں

سجدے میں گِر گئی تھی خدا کے کرم پہ میں

اب جب تمہارے قدموں کی رفتار تیز ہے

پہلے قدم کی یاد سے پھر کیوں گریز ہے

اب ہر قدم کے ساتھ مری یاد ہی تو ہے

گلشن ہمارے ساتھ کا آباد ہی تو ہے

میں لوریوں میں تم کو دعائیں سناتی تھی

اور لو خدا کی یاد کی دل میں جلاتی تھی

جب تُم نے پہلی بار لیا تھا خدا کا نام

دل میں مرے تھا جشنِ چراغاں کا اہتمام

اب جب خدا کے سامنے سجدہ کیا کرو

گر ہو سکے تو یاد مجھے کر لیا کرو

چونکہ ہمارے بیچ میں حائل زمین ہے

سو اب کلیدِ وصل تمہاری جبین ہے

پھر روشناس تم کو کیا تھا کتاب سے

الفاظ میں دھڑکتے ہوئے انقلاب سے

پھر میں نے جب قلم سے تمہیں آشنائی دی

صورت گری حروف کی تم کو سجھائی دی

اب جب کبھی لکھو گے تو ساتھ ہوگا میرا ہاتھ

اس طور سے رہے گا ہمیشہ ہمارا ساتھ

پس اب بھی مجھ سے ملنے کے کتنے ہی حیلے ہیں

اور آس پاس رہنے کے کتنے وسیلے ہیں

میں اُس خدا کے پاس ہوں جس کو فنا نہیں

جس سے زیادہ اور کسی میں وفا نہیں

جب اُس خدا کے ہاتھ میں دے دو گے ہاتھ تم

مانگو گے پھر کبھی نہ کوئی اور ساتھ تم

پھر بھول جاؤ گے مری مرقد کا راستہ

ایسا مگر نہ کرنا، تمہیں رب کا واسطہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button