ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر(115)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

گناہ کے چھوڑنےکا طریقہ

فرمایا:’’میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ توبہ کرتے وقت گواہ رکھ لیتا تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ تو ایساکیوں کرتاہے ؟اس نے کہا، میں نے اس لئے یہ کیا ہے کہ شاید اس توبہ کو توڑتے وقت اس گواہ سے ہی کچھ شرم آجائے۔لیکن آخر دیکھاکہ وہ ان کی بھی پروا نہ کرکے توبہ توڑتا۔کیونکہ اصل شرم تو خدا تعالیٰ سے ہونی چاہیئے۔جب خدا سے نہیں ڈرتااور شرم کرتا تو اور کسی سے کیا کرے گا۔ایسے لوگوں کی وہی مثال ہے ؂

چہ خوش گفت درویش کوتاہ دست

کہ شب توبہ کرد و سحرگاہ شکست‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ121،ایڈیشن1984ء)

تفصیل:بوستان سعدی جو کہ شیخ سعدی کی تصنیف ہےاور اس میں حکایات کو اشعار کے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دس ابواب ہیں۔ دسواں باب مناجات پر مشتمل ہے۔ اس باب میں ایک حکایت جو کہ مناجات سے ملی ہوئی ہے کا ایک شعر مذکورہ بالا ملفوظات میں آیاہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

حکایت :ایک کالی چمڑی والےکو کسی نے اس کی رنگت کی وجہ سے بُرابھلا کہا۔ تو اس نے آگے سے ایسا جواب دیا جس نے کہنے والے کو حیران کردیا۔اس نے کہا میں نے اپنی صورت خود نہیں بنائی جسے تو میرا عیب گن رہاہے۔اگر میں بدصورت ہوں تو تجھے مجھ سے کیا سروکار آخر بُرے اور اچھے نقش بنانے والا میں تو نہیں ہوں۔(مناجات کا آغاز )جو کچھ تو نے پہلےہی سے میرے لئے لکھ دیا ہے اے بندہ پرور میں اس سے کم ہو سکتاہوں نہ زیادہ۔تو جانتاہے کہ آخر میں قدرت والا تو نہیں ہو ں۔ تو قادر ہے۔میں کون ہوں ؟اگر تو میری رہنمائی کرتا ہے تو میں بھلائی تک پہنچتاہوں۔اور اگر تو گم کردے تو میں (عالم ملکوت کی )سیرسے رُک جاتاہوں۔جہان کو پید اکرنے والا اگر مدد نہ کرے تو بندہ کب پرہیز گاری کرسکتاہے۔(اس کے بعد شعر)

چِہْ خُوْش گُفْتْ دَرْوِیْشْ کُوْتَاہْ دَسْت

کِہْ شَبْ تَوْبِہْ کَرْدْوسَحَرْگَاہْ شِکَسْت

(ترجمہ: ایک مفلس درویش نے کیا اچھا کہا جس نے رات کو توبہ کی اور صبح کو توڑ دی۔)اگر وہ توبہ کی توفیق دے دے تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے۔(یعنی توبہ پر قائم رہنا بھی خدا کی توفیق پر منحصر ہے) اس لیے کہ ہمارا عہد تو ناپائیدار اور کمزور ہے۔تجھے اپنے حق کی قسم کہ میری آنکھیں باطل سے سی دے۔تجھے اپنے نور کی قسم کل کو مجھے آگ میں نہ جلانا۔مسکینی کی وجہ سے میرا چہرہ تو مٹی میں مل گیا۔میرے گناہوں کی دھول آسمانوں پر چڑھ گئی۔اے ابرِ رحمت تو ایک بار برس جا۔ اس لئے کہ بارش کے سامنے غبار نہیں ٹھہرتا ہے۔گناہوں کی وجہ سے اس ملک میں میرا کوئی مرتبہ نہیں ہے۔لیکن دوسرے ملک کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔زبان بند کئے ہوؤں کے دل کی بات تو جانتاہے۔زخمیوں کے دل پر تو مرہم رکھنے والا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button