خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 03؍جون 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کا ذکر چل رہا تھا۔اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کے وصال کےفوری بعد منافقین سے، مخالفین سے جو لڑائیاں ہوئیں ان کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت زیدبن خطابؓ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت زید بن خطاب ؓکے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ حضرت عمر بن خطاب ؓکے سوتیلے بھائی تھے۔قدیم الاسلام ہیں۔شروع میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔بدر اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ رسول اللہﷺ نے ہجرت کے بعد آپ اور مَعْن بن عَدِی انصاریؓ کے درمیان مؤاخات کرائی تھی اور دونوں ہی یمامہ کی جنگ میں شہید ہو گئے۔جنگِ یمامہ میں حضرت خالدؓ نے جب لشکر کو ترتیب دیا تو ایک حصہ کا سپہ سالار حضرت زید بن خطابؓ کو بنایا اور اسی طرح اس جنگ میں مہاجرین کا پرچم بھی آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ آپؓ پرچم لیے آگے بڑھتے رہے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے تو پرچم گر گیا۔ سالم مولیٰ ابی حذیفہ ؓ نے پرچم تھام لیا۔ اس معرکے میں زید ؓنے مسیلمہ کے دستِ راست اور ایک بہادر شہسوار جس کا نام رَجَّال بن عُنْفُوَہ تھا، اس کو قتل کیا اور آپؓ کو جس نے شہید کیا اس کو ابومریم حنفی کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ تم نے میرے بھائی کو قتل کیا تھا تو اس نے کہا اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں زید ؓ کو شرف بخشا اور ان کے ہاتھوں مجھےذلیل نہیں کیا۔ یعنی وہ شہادت کی موت پا گئے اور اگر اس وقت ان کے ہاتھوں مَیں مارا جاتا تو ذلت کی موت مرتا۔ اب مجھے اسلام کی توفیق مل گئی ہے۔

سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت بَرَاء بن مالِکؓ کی بابت کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: صحابہ کرامؓ نے اس معرکے میں انتہائی صبر و استقامت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، انہیں قتل کرتے رہے اور تلواریں ان کی گردنوں پر چلاتے رہے یہاں تک کہ انہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا…یہ باغ میدانِ جنگ کے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت تھا۔ اس باغ کو حدیقةالرحمان کہا جاتا تھا، جس طرح مسیلمہ کو رحمان الیمامہ کہا جاتا تھا لیکن اس جنگ کے دوران اس باغ میں کثرت سے دشمنوں کے مارے جانے کی وجہ سے اس باغ کو حدیقة الموت یعنی موت کا باغ کہا جانے لگا۔ مسیلمہ کذاب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس باغ میں چلا گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ نے دیکھا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار محکِّمخطاب کر رہا ہے۔ انہوں نے اس پر تیر چلا کر اس کو قتل کر دیا۔ بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر دیا اور صحابہ نے چاروں طر ف سے اس باغ کا محاصرہ کر لیا۔مسلمان کوئی جگہ تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح اس باغ کے اندر جایا جا سکے لیکن یہ قلعہ نما باغ تھا۔ باوجود تلاش کے اس کے اندر جانے کی کوئی جگہ نہ مل سکی۔ آخر حضرت بَرَاء بن مالِکؓ جو حضرت انس بن مالکؓ کے بھائی تھے۔آپؓ نے غزوۂ اُحُد اور خندق میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ بہت بہادر تھے۔آپؓ نے کہا کہ مسلمانو! اب صرف ایک طریقہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو، مَیں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گامگر مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ ان کاایک عالی مرتبہ ساتھی ہزاروں دشمنوں کے درمیان اپنی جان گنوا دے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن حضرت بَراء بن مالکؓ نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا مَیں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے باغ میں دیوار کے اندر کی طرف پھینک دو۔ آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا۔ دیوار پر چڑھ کر جب حضرت بَراءبن مالک نے دشمن کی بڑی تعداد کو دیکھا تو ایک لمحے کے لیے رکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے لڑتے اور قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ آخر کار آپ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور باغ کا دروازہ کھول دیا۔ مسلمان باہر دروازہ کھلنے ہی کے منتظر تھے۔ جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور دشمنوں کو قتل کرنے لگے۔ بنو حنیفہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن وہ باغ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔

سوال نمبر5: مسیلمہ کذاب کے قتل کی بابت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےکیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: وَحْشِی بن حَرْبؓ مسیلمہ کو قتل کرنے کا واقعہ خود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوۂ احد میں حضرت حمزہ ؓکو شہید کرنے کے بعد جب لوگ لوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا اور میں مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ فتح کیا اور اس میں اسلام پھیلا تو میں طائف کی طرف بھاگ گیا۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایلچی بھیجے اور مجھ سے کہا گیا کہ آپﷺایلچیوں سے تَعَرُّض نہیں کرتے۔ انہوں نے یعنی وَحْشِی نے کہا کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ مَیں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کیا تم وَحْشِی ہو؟ مَیں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ تم نے حمزہؓ کو کیسے قتل کیا تھا۔ تو مَیں نے آپ ﷺ کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ جب مَیں نے بات ختم کی تو آپﷺنے فرمایا: کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ ؟ وَحْشِی کہتے ہیں کہ مَیں وہاں سے نکل گیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو مَیں نے کہا: مَیں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا تا کہ مَیں اسے قتل کروں تا کہ اس کے ذریعہ سے حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے کا کفارہ ادا کر سکوں۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مَیں بھی لوگوں کے ساتھ اس جنگ میں نکلا۔ پھر اس کا حال ہوا جو ہوا۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا اونٹ ہے۔ سر کے بال پراگندہ ہیں۔ مَیں نے اس کو اپنا برچھا مارا اور اسے اس کی چھاتیوں کے درمیان مارا یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان سے نکل گیا۔بہرحال یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد انصار میں سے ایک شخص اس کی طرف لپکا اور اس کی کھوپڑی پر تلوار کی ضرب لگائی…وَحْشِی کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم دونوں یعنی انصاری صحابی اور حضرت وَحْشِی میں سے کس نے مسیلمہ کو قتل کیا لیکن اگر مَیں نے ہی اسے مارا ہے تو رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہترین شخص یعنی حضرت حمزہؓ کے قتل کا ارتکاب بھی مَیں نے کیا تھا اور سب سے بدترین شخص کو بھی مَیں نے ہی مارا۔

سوال نمبر6: حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی کو آنحضرت ﷺنے کیا اِرشاد فرمایا؟

جواب:فرمایا:صحیح بخاری کی روایت میں آنحضورﷺ نے وَحْشِی کو جو یہ فرمایا تھا کہ ’’کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ؟‘‘اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے لکھا ہے کہ’’وَحْشِی ؓمیں جو تبدیلی پیدا ہوئی وہ ان کے اخلاص پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنی غلطی کا کفارہ دیں۔ چنانچہ یمامہ کی ہولناک جنگ میں اپنی یہ خواہش اور نذر پوری کر کے سرخرو ہوئے۔‘‘شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺ کے الفاظ فَھَلْ تَسْتَطِیعُ اَنْ تُغَیبَ وَجْھَکَ عَنِّی‘‘کیاتمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ؟ ’’بہت بلند اخلاق کے آئینہ دار ہیں‘‘یہ الفاظ۔’’وَحْشِی ؓسے خواہش کا اظہار کیا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو۔ یہ لب و لہجہ آمرانہ نہیں بلکہ التماس کا لب و لہجہ ہے اور اس سے اس محبت و عزت کا پتہ چلتا ہے جو حضرت حمزہؓ کے لئے آپؐ کے دل میں تھی۔ ایک منتقم مزاج انتقام لے کر دل ٹھنڈا کر سکتا تھا مگر آپؐ نے عفو سے کام لیا۔ صرف اتنا چاہا کہ وہ آپؐ کے سامنے نہ آئے تا حضرت حمزہؓ کی درد ناک شہادت کی یاد سے آپؐ کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔‘‘

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت اَبُودُجانہؓ کی جنگ احد اور جنگ یمامہ میں شجاعت اوربہادری کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: غزوۂ احد میں آنحضرت ﷺ نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر کہا: اس کا حق کون ادا کرتا ہے؟ اَبُودُجانہ بولے مَیں ادا کروں گا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو وہ تلوار عنایت فرمائی اور بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے دریافت کیا کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا۔ حضرت اَبُودُجانہؓ نے حسب معمول سر پر سرخ پٹی باندھی اور فخریہ انداز سے اکڑتے ہوئے صفوں کے درمیان آ کر کھڑے ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یہ چال اگرچہ خدا کو ناپسند ہے لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں۔ معرکۂ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اور بہت سے کافر قتل کیے اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہیں ہٹے…جنگِ یمامہ کے واقعہ میں بیان ہے کہ اس میں اَبُودُجانہ پر بنو حنیفہ کے ایک گروہ نے حملہ کیا…تو آپؓ اپنے سامنے بھی تلوار چلاتے، اپنے دائیں بھی تلوار چلاتے اور اپنے بائیں بھی تلوار چلاتے۔آپؓ نے ایک شخص پر حملہ کیا اور اسے زمین پر گرا دیا۔ آپؓ کوئی بات نہیں کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ گروہ آپ سے دُور ہو گیا اور واپس چلا گیا اور مسلمان قریب آ گئے۔ بنو حنیفہ شکست کھا کر باغ کی طرف بھاگے۔ مسلمان ان کے پیچھے بھاگے اور انہیں باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ ان لوگوں نے باغ کے دروازے بند کر لیے تو حضرت اَبُودُجانہؓ نے کہا مجھے ڈھال میں ڈال کر پھینک دو تا کہ مَیں اندر جا کر باغ کا دروازہ کھول سکوں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور آپؓ باغ میں پہنچ گئے۔ آپؓ کہہ رہے تھے تمہارا بھاگنا تمہیں ہم سے بچا نہیں سکتا۔ آپؓ نے ان کے ساتھ سخت جنگ کی یہاں تک کہ دروازہ کھول دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس باغ میں اس وقت داخل ہوئے جب آپ شہید ہو چکے تھے۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےپاکستان،الجزائر اور افغانستان کے احمدیوں کی بابت کیا بیان فرمایا ؟

جواب:فرمایا: پاکستان کے لیے دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ احمدیوں کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔ پاکستان کے حالات عمومی طور پر جو بگڑ رہے ہیں وہ تو ہیں۔ ایسے حالات میں پھر احمدیوں کی طرف بھی ان کی توجہ ہو جاتی ہے۔ مخالفت بڑھ رہی ہے۔پرانی قبریں اکھیڑنے کی طرف سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا۔ انتہائی بدطینت قسم کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کرے۔اسی طرح الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہ بھی آج کل مشکلات میں گرفتار ہیں۔ افغانستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل نازل فرمائے۔

سوال نمبر9: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے آخر میں کن مرحومین کا ذکر خیر فرمایااور نمازِ جنازہ غائب پڑھائی؟

جواب:1۔مکرم نسیم مہدی صاحب مبلغ سلسلہ۔آپ مولانا احمد خان نسیم صاحب کے بیٹے تھے۔1976ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ ہوئے۔آپ کو بطور مبلغ سوئٹزرلینڈ،پرائیویٹ سیکرٹری لندن،مبلغ انچارج و امیر کینیڈا اور مبلغ انچارج امریکہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 2۔عزیزم محمد شارم صاحب آف ربوہ۔3۔ مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب مرحوم مقیم ربوہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button