خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 27؍مئی2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج 27؍مئی ہے۔ یہ دن جماعت احمدیہ میں یوم خلافت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سوال نمبر3:رسول اللہﷺنے اپنے بعدتا قیامت فیضان خلافت جاری رہنےکاکیانقشہ کھینچاہے؟

جواب: فرمایا: آنحضرت ﷺ نے بھی ایک ارشاد میں اپنے زمانے سے لے کر آخرین کے زمانے تک یعنی حضرت مسیح موعودؑ اور پھر بعد میں آپ کے جاری نظام خلافت کا نقشہ کھینچاہے۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کی مجلس میں بیان فرماتے ہیں: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا یعنی آنحضرت ﷺ کا وجود صحابہ میں موجود رہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو گی۔ یعنی وہ خلافت راشدہ قائم ہو گی جو مکمل طور پر نبوت کے قدموں پر چلنے والی ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے مَیں بدری صحابہ کے سلسلہ میں خلفائے راشدین کا بھی ذکر کر رہا ہوں… تمام خلفاء کے ذکر میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ سب نے بڑے بے نفس ہو کر آنحضرتﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے اور قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بناتے ہوئے اپنا عرصہ خلافت گزارا۔گویا قدم قدم پر منہاج نبوت پر قائم رہنے کی کوشش کی۔ بہرحال آنحضرت ﷺ اپنے ارشاد کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ اور تاریخ نے یہ بھی دیکھا بلکہ آج تک مسلمانوں کے دین سے ہٹے ہوئے جو حکمران ہیں اپنی رعایا سے یہی کچھ کر رہے ہیں چاہے سیاسی حکومتیں ہوں یا بادشاہت ۔ ایک گروہ ہو یا دوسرا۔ جس کے ہاتھ میں بھی حکومت آئے اس پر دنیا غالب رہتی ہے۔ بہرحال آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ امت کے ساتھ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ پھر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت قائم ہو گی۔ یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔

سوال نمبر4:حضرت مسیح موعودؑنے اپنے بعدنظام خلافت کے جاری رہنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت مسیح موعودؑجماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو‘‘یعنی اپنی وفات کی خبر جو دی ۔’’اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دیگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔‘‘

سوال نمبر5: حضرت مسیح موعودؑنے جماعت احمدیہ کے غلبہ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ اپنی جماعت کے غلبہ کے بارے میں فرماتے ہیں :’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی(المجادلة:22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیساکہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلک…ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔‘‘

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گنی بساؤکے ایک احمدی مکرم عبداللہ صاحب کے احمدیت قبول کرنے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:گنی بساؤافریقہ کا ایک دُور دراز کا ملک ہے وہاں عبداللہ صاحب پہلے ایک عیسائی دوست تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے خواب دیکھی کہ ایک شخص ہے جس کی سفید داڑھی ہے اور اس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے اور لوگوں سے خطاب کر رہا ہے اور مکمل خاموشی کے ساتھ لوگ یہ خطاب سن رہے ہیں۔ اس شخص کا خطاب کرنے کا انداز بالکل سادہ اور کہتے ہیں ہمارے لوگوں سے مختلف تھا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کو کچھ سمجھ نہیں آئی پھر وہ بھول گئے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر ان کو دوبارہ اسی طرح سے ملتی جلتی خواب آئی اور اس سے ان کے ذہن میں وہ چہرہ بیٹھ گیا۔ پھر تیسری مرتبہ ان کو خواب آئی لیکن وہ کوشش کرتے رہے کہ پتہ چلے کہ یہ کون شخص ہے لیکن پتہ نہیں کر سکے۔ ایک دن اتفاق سے گاؤں کے قریبی شہر فرین (Farin) میں واقع ہماری مسجد میں گئے۔ اس دن جمعہ تھا۔ احباب جماعت ایم ٹی اے پر میرا خطبہ جمعہ سن رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں مجھے دیکھ کر انہوں فوراً معلم صاحب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جو خطبہ دے رہا ہے؟ انہوں نے کہا یہ ہمارے خلیفہ ہیں۔ بہرحال وہ اس پر خاموشی سے بیٹھے خطبہ سنتے رہے اور خطبہ جمعہ کے بعد احباب کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز ختم ہونے کے فوراً بعد کھڑے ہو گئے اور سب احباب کے سامنے کہنے لگے کہ مَیں آج اسلام قبول کرتا ہوں اور بتانے لگے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تین بار خواب میں یہ شخص دکھایا ہےجس کا میری روح پر بڑا اثر تھا اور مَیں ایک عرصہ سے اس تلاش میں تھا مگر آج اتفاق سے آپ کی مسجد میں آیا ہوں تو آپ کے خلیفہ کو دیکھا ہے۔ وہی چہرہ ہے جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا اور اسی طرح نظارہ تھا جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ لوگ خاموشی سے بیٹھےخطاب سن رہے ہیں اور مَیں اسلام احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گوئٹے مالا کی ایک احمدی خاتون ویرونیکا کےاحمدیت قبول کرنے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:گوئٹے مالا ساؤتھ امریکہ کے ملکوں میں سے ہے۔ یہاں جو ہماری مسجد ہے وہاں سے اڑھائی سو کلو میٹر دور میکسیکو کے بارڈر پر ایک جگہ سان مارکوس (San Marcos) ہے، وہاں کی ایک خاتون ویرونیکا (Veronica) صاحبہ ہیں وہ کہتی ہیں مَیں نے دس سال پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص خواب میں آئے ہیں اور انہوں نے کہا سچائی کا راستہ اسلام ہے۔قرآنِ مجید پڑھنے کو کہا لیکن انہوں نے کہا کہ مَیں تو قرآن پڑھنا نہیں جانتی۔مگر اس شخص نے کہا تم پڑھ سکتی ہو۔ صبح اٹھ کر انہوں نے اپنے خاوند اور باپ سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اسلام کوئی سچائی کا راستہ نہیں ہے یہ تو دہشت گردی کا مذہب ہے۔ اب یہ سارے عیسائی لوگ ہیں۔ لیکن کہتی ہیں میرے دل کو سکون نہیں ہوا۔ مَیں نے انٹرنیٹ پر اسلام کے بارے میں تحقیق شروع کر دی اور خود ہی انٹرنیٹ سے اسلام کے بارے میں سیکھ رہی تھی۔ ایک دن بازار میں جا رہی تھیں کہ ایک پردہ دار خاتون ان کو مل گئیں۔ بہرحال ان کا پردہ دیکھ کے ان کو تجسس پیدا ہوا کہ اس کو جا کے ملیں اور اس سے پوچھا تمہارا یہ لباس کیسا ہے؟ اس نے کہا مَیں مسلمان ہوں۔اس لیے مَیں نے پردہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ ان سے ان کا رابطہ ہو گیا اور اس نے اسلام کے بارے میں تفصیل بتائی۔ وہ خاتون جو ہیں احمدی تھیں۔کہتی ہیں مَیں نے تو ان کی یہ باتیں سن کے، اسلام کی تعلیم کو سن کے بیعت کر لی لیکن گھر والے راضی نہیں ہوتے تھے، کوئی نہ کوئی اعتراض کر دیتے تھے۔ ان کا جواب کہتی ہیں مَیں نہیں دے سکتی تھی تو پھر انہوں نے ان کو کہا کہ آپ ہمارے گھر آئیں۔ رشتہ داروں کو اکٹھا کروں گی۔ اعتراضات کا جواب دیں۔ چنانچہ ہماری بےشمار تبلیغی نشستیں ہوئیں، تبلیغ بھی کرنے لگ گئیں۔ صرف بیعت نہیں کی بلکہ پیغام بھی آگے پہنچانے لگ گئیں۔ دوستوں کو اکٹھا کیا اور پھر ان کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام بھی کیا۔ ان کا ایک بیٹا ہے جو وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، یونیورسٹی کے آخری سال میں ہے۔ اس نے بھی بیعت کر لی اور ان کو اتنا جوش اور شوق ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ انہوں نے ناظرہ قرآن کریم خود سیکھا۔ بہت ساری سورتیں زبانی یاد کیں اور پھر آڈیو سن کے اپنی زبان میں، عربی تو نہیں لکھ سکتی تھیں، رومن میں قرآن کریم پورے کا پورا لکھا۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برکینا فاسوکے ایک احمدی حمیداحمدصاحب کےاحمدیت قبول کرنے کا کیا واقعہ بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا:برکینا فاسو کے معلم زیلا کریم صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے ایک رہائشی حمید صاحب ہیں۔ باقاعدہ ریڈیو سنتے تھے۔جماعت سے ہمدردی بھی رکھتے تھے۔ چندہ بھی کبھی آ کے دے دیتے تھے بلکہ بعض دفعہ باقاعدگی سے دینے لگ گئے تھے لیکن بیعت کرنے کو کہا جاتا تو کسی نہ کسی طرح ٹال دیتے۔ عام چندہ تو نہیں دیتے ہوں گے تحریکِ جدید، وقف جدید میں دے دیتے ہوں گے یا کسی اَور مد میں،صدقات میں بہرحال یہ چندہ دیتے تھے۔ جو مالی قربانی ہے وہ دے دیا کرتے تھے۔ گھانا میں بھی مَیں نے دیکھا ہے، جب مَیں وہاں تھا تو بہت سارے لوگ جو زمیندار تھے آکے اپنی زکوٰة دے جایا کرتے تھے کہ اپنے مولویوں کو دیں تو وہ کھا جائیں گے۔ جماعتِ احمدیہ اس کا صحیح استعمال کرے گی۔ بہرحال اس طرح لوگ وہاں دیتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اجتماع ہو رہا ہے جس میں لوگ ایک چار دیواری کے اندر ہیں اور کچھ چار دیواری سے باہر ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا اس چار دیواری کے اندر تمام احمدی احباب ہیں۔ اس پر مَیں کہتا ہوں مَیں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ مجھے بھی اندر داخل کیا جائے۔ تو یہ آواز آتی ہے کہ اس چاردیواری میں وہی داخل ہو سکتے ہیں جنہوں نے بیعت کی ہے اور آپ نے چونکہ بیعت نہیں کی اس لیے آپ اس کے اندر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ اس خواب کے بعد اگلے دن ہی انہوں نے آ کے بیعت کر لی۔ انسانی کوششیں تو انہیں جماعت میں شامل نہیں کر سکیں لیکن نیک فطرت تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس طرح ان کی راہنمائی فرمائی۔

سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک عرب خاتون مکرمہ نَسْمَہ صاحبہ کے احمدیت قبول کرنے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: نَسْمَہ صاحبہ ہیں۔عرب عورت ہیں۔ کہتی ہیں کہ بیعت سے دو سال قبل مَیں نے پہلی دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر دیکھی تو مخاطب کر کے عرض کیا، عرب ہیں ناں تو کہتی ہیں کہ تصویر کو مخاطب کر کے کہا۔ اس سے پہلے وہ ذکر کر رہی ہیں کہ آپ نے بچے کا ذکر کیا تھا جس نے ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچی ہوئی تھیں اور یہ لکھا تھا کہ حضور مجھے آپ سے پیار ہے۔ بہرحال کہتی ہیں بچے جھوٹ نہیں بولتے اور میرے دل پہ اس کا بڑا اثر تھا۔ انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ کہتی ہیں کہ لیکن مَیں نےکچھ عرصہ کے بعد تصویر دیکھی توحضرت مسیح موعودؑسے عرض کیا کہ آپ کے خدو خال تو بتاتے ہیں کہ آپ نیک آدمی ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس کے باوجود میں آپ کی اس بات پہ تصدیق نہیں کر سکتی کہ آپ آسمانی مبعوث ہیں۔ کہتی ہیں میں نے مطالعہ کیا اور اس کے دو سال کے بعد 2016ء کے شروع میں بیعت کر لی۔ اس کے باوجود خلافت کے بارے میں دل میں شک تھا۔ میرے نفس کا شیطان کہتا تھا کہ خلافت کے دعوےدار کو میں کیسے اپنی زندگی کا کنٹرول دے دوں۔ کیوں مَیں ایسے شخص کو خط لکھوں اور اپنے حالات بتاؤں۔ خلافت کا کیا فائدہ ہے؟ کہتی ہیں لیکن یہ شک حضرت مصلح موعود ؓکی کتاب ’’خلافتِ راشدہ‘‘ اور آپ کی کتاب’’نظامِ خلافت اور اطاعت‘‘ کے مطالعہ سے زائل ہو گیا۔ مجھے ساری باتوں کی وضاحت ہو گئی۔ پھر مَیں نے خط لکھا اور جو آپ کا جواب آیا اس سے وہ شک کلیةً ختم ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ خلافت بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے قدموں پر چلنے والی ہے۔ پھر لکھتی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ خود دلوں میں ڈالتا ہے وہ خوب مضبوطی سے ڈالتا ہے اور ہمیں اس کا سبب معلوم نہیں ہوتا۔ پھر کہتی ہیں اسی لیے اکثر احمدیوں کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ سے محبت اور آپ کے خلفاء سے عموماً اور آپ سے خصوصاً بچوں کی سی محبت ہے۔ بیعت سے قبل ہمیں اس قسم کی محبت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔

سوال نمبر10: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےناروےکی خاتون مکرمہ بریفان صاحبہ کے خلیفہ وقت کے لیے دعاکرنے کی بابت کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: ناروے سے ایک خاتون بریفان صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہر سچا احمدی کہتا ہے کہ ہمارے پیارے حضور ہمارے دلوں اور آنکھوں میں بستے ہیں اور ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس دنیا میں ہمارا کوئی ہم و غم نہیں سوائے اس کے کہ آپ کو خوش کرنے اور آپ کا بوجھ بانٹنے کے طریقے سوچیں۔آپ نے خطبات میں بیان فرمایا کہ کیسے صحابہ کرامؓ نے اپنے جسموں پر تیر لے کر رسول کریم ﷺکی حفاظت کی اور حملوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ اس نظارے کو سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور سوچتی ہوں کہ اگر مَیں ایسے موقع پر ہوتی تو کیا کرتی۔ یہ عرب عورت ہیں۔ کیا ڈٹی رہتی؟ پھر دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان صحابہ ؓکی طرح خلیفۂ وقت اور خلافت کی اپنے دل و جان اور مال اور اولاد کو قربان کر کے بھی حفاظت کریں۔ کئی سال سے مَیں نماز میں دعا کرتی ہوں کہ جتنے آپ کے ہمّ و غم اور جتنی ذمہ داریاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ پر ان سب کی تعداد کے برابر فرشتے نازل فرمائے جو آپ کو اپنے گھیرے میں رکھیں۔

سوال نمبر11: حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت کو کن الفاظ میں خوشخبری سنائی ہے؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ اس کی طرف بڑھنے کا میدان خالی ہے۔’’ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔‘‘خدا کی طرف آنے کی طرف دنیا کی توجہ نہیں۔’’وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے دروازے کی طرف سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔’’ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔‘‘

سوال نمبر12:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخرپر گھانااورگیمبیاکے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آج گھانا جماعت اپنا جلسہ کر رہی ہےدو روزہ جلسہ ہے۔ 27، 28کو اور بستان احمد میں جلسہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک بھر میں 119 سینٹرز بنائے ہیں ان میں بھی پانچ بڑے اجتماعی سینٹر ہیں اور ان کا رابطہ آپس میں آڈیو ویڈیو کے ذریعہ سے ہے۔ گھانا جماعت کی ابتدا مولانا عبدالرحیم نیر صاحب ؓ یہاں لندن سے روانہ ہو کر گھانا پہنچے تھے گذشتہ سال گھانا جماعت اپنی سو سالہ تقریبات منعقد کرنا چاہتی تھی لیکن کووڈ کی وجہ سے کوئی پروگرام منعقد نہیں ہو سکا۔ اس لیے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 22ءاور 23ءدو سال یہ پروگرام جاری رہیں۔اللہ تعالیٰ ان کا جلسہ بھی ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور ان کو، سب احمدیوں کو اخلاص و وفا میں بڑھاتا چلا جائے۔ اسی طرح گیمبیا کا بھی جلسہ سالانہ آج ہو رہا ہے یہ بھی تین دن کا جلسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button