تعارف کتاب

رسالہ نوراحمد (قسط23)

(اواب سعد حیات)

(مصنفہ حضرت شیخ نور احمداحمدی صاحب رضی اللہ عنہ )

ایک چھوٹی سی کتاب ہے مگر اپنی افادیت اور دلچسپی کی وجہ سےحضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت کے بعض پہلو اور واقعات بیان کرنے میں منفرد اور اصل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے

حضرت شیخ نور احمد صاحب میر ٹھی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت ابتدائی زمانہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کو شناخت کرنے او ر صحابہ میں شمولیت کی سعادت عطا فرمائی اورآپؓ نے براہین احمدیہ کی اشاعت اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور پادری آتھم والے مشہور مناظرہ میں بعض نمایاں خدمات سرانجام دینے کی سعادت پائی۔آپ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی نسل میں سے تھے۔ آپ نے اپنے اس مختصر رسالہ میں یہ انتہائی مفید کار ہائے نمایاں بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان فرمائے ہیں۔ اس رسالہ کا نام نوراحمد ہے۔یہ صرف اڑتالیس صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب ہے مگر اپنی افادیت اور دلچسپی کی وجہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کی سیرت کے بعض پہلو اور واقعات بیان کرنے میں منفرد اور اصل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔روزنامہ الفضل ربوہ کی 29؍جون 1995ء کے شمارہ میں اس کتاب کامختصر تعارف کرواتے ہوئے مولانا عبدالباسط شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اس کتاب کو دوبارہ شائع کرانے کی سعادت جناب حکیم عبداللطیف شاہد گجراتی کو حاصل ہوئی۔ حکیم صاحب بہت ہی سادہ طبع علم دوست بزرگ تھے۔ ان کے اہتمام میں بہت سی نادر علمی کتب شائع ہو ئیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازے۔(صفحہ 6 کالم 3)اس کتاب میں جہاں حضرت شیخ صاحب کا اپنا تعارف ملتا ہے وہاں جماعت احمدیہ کے بالکل ابتدائی دور کی پاکیزہ اور یادگار جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً شیخ صاحب لکھتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کے فضل سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا، میں ہمیشہ مذہبی آدمی رہا اور علماء کی صحبت اور فقراء کی مجالس میں بیٹھتا تھا اور واعظوں کے وعظ سننے کا مجھے بہت شوق تھا۔ منجملہ اور پند و نصائح کے علماء سے سنا کر تا تھا کہ حضرت امام مہدیؑ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر امام مہدی کے ساتھ مل کر کافروں سے جہاد کریں گے…ایام بلوغت کا زمانہ میرا شہر میرٹھ میں گزرا۔ ایک صاحب سید جمیل الدین اخبار نویس نے مجھے ’’پریس مینی ‘‘کا کام سکھایا کہ پر یس مین بہت پریشان کرتے ہیں…سید صاحب کے ایک دوست مراد آباد سے اخبار نکالتے تھے انہوں نے سید صاحب کو لکھا کہ ہمارا اخبار اچھا نہیں چھپتا۔پر یس مین کام خراب کرتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں آپ ایک پریس مین میرے پاس بھیج دیں۔ پس سید صاحب نے مجھے بھیج دیا اور کہا اگر اور کسی پریس مین کو ہم بھیجیں تو وہ کرایہ کے روپے بھی کھا جائےگا اور جس بات کی انہوں نے شکایت کی ہے وہ بھی رفع نہ ہو گی اس لئے میں آپ کو بھیجتا ہوں۔ چند روز کام کر کے چلے آنا…کاپی لکھنے کی سیاہی بنانی وہاں کوئی نہ جانتا تھا۔ میں بنانے لگا اور اشتہار شائع کروائے۔ لدھیانہ، لاہور، امرتسر، دہلی و غیرہ سے لوگ میری سیاہی منگوانے لگے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سیاہی کے ذریعہ سے امر تسر میں ایک اخبار’’ وکیل ہندوستان ‘‘پادریوں کا چھپتا تھا اس کے مینجر پادری رجب علی تھے، انہوں نے مجھے مراد آباد سے امر تسر بلوایا….چو نکہ مجھے امر تسر دیکھنے کا شوق تھا میں امر تسر آگیا…اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا ہوا کہ1878ء میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند میں ’’براہین احمدیہ ‘‘کے چھپوانے کا انتظام کیا۔ ان کے پریس مَین میرے سپرد تھے اور میرے ہی اہتمام سے سب کام ہوتے تھے اور خاص کر کتاب براہین احمدیہ پادری صاحب نے چھاپنے کے لئے میرے سپرد کی اور میں نے اس کا اول حصہ اسی مطبع میں چھاپا۔پھر میں نے اپنا پریس علیحدہ لگا لیا چونکہ چھپائی کا کام میرے ہاتھ سے صفائی سے ہوتا تھا۔ اس لئے رجب علی صاحب نے دوسرا حصہ میرے ہی پر یس میں چھپوایا اور تیسرا حصہ بھی۔ تیسرا حصہ میرے پر یس میں چھپ رہا تھا تو پادری صاحب مذکور نے حضرت صاحب کو بڑے تقاضے کے خط لکھے۔ میں نے اپنا پریس ہال بازار میں ہی کھڑا کیا تھا…ان کا مطبع ہال بازار سے ایک طرف کو تھا اور میرا مطبع بازار میں لب سڑک تھا۔ حضرت صاحب روپیہ لے کر قادیان سے امرتسر جب رجب علی کو دینے کے لئے تشریف لائے اور آپ نے ہال بازار میں چھاپہ خانہ دریافت کیا تو بتانے والے نے میرے مطبع کا پتہ بتا دیا تو حضرت صاحب میرے مطبع میں تشریف لے آئے۔ یہاں تیسرا حصہ براہین احمدیہ کا چھپ رہا تھا۔ حضرت صاحب نے سمجھا،ر جب علی کا یہی پریس ہو گا…میں گھر پر تھا میرے ملازموں سے آپ نے فرمایا: ’’پادری رجب علی صاحب کہاں ہیں انہیں بلاؤ۔ جب مجھے اطلاع ہوئی۔ گھر قریب ہی تھا۔میں جلد آیا اور مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب رجب علی کو تو جانتے تھے اور مجھ سے واقف نہ تھے۔ مجھے دیکھ کر متعجب سے ہوئے اور فرمایا یہ پر یس رجب علی صاحب کا ہے ؟ میں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ ہی کا ہے۔پھر فرمایا کہ رجب علی صاحب کا پر یس کہاں ہے اور یہ ہماری کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی؟ میں نے عرض کیا کہ یہ ساری کتاب میں نے اپنے مطبع ریاض ہند میں چھاپی ہےحضرت صاحب نے فرمایا کہ رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ پیشگی روپیہ لے لیتے ہیں اور وقت پر کام نہیں دیتے……‘‘الغرض حضرت شیخ نور احمد صاحب نے مذہبی دنیا میں انقلاب لانے والی کتاب براہین احمدیہ اپنے مطبع میں چھاپنے کو اپنی سعادت و خوش بختی سمجھا اور یہ بھی کہ حضرت شیخ صاحب کو قادیان میں پہلا پریس لگانے کا شرف حاصل ہوا۔ملتا ہے کہ براہین کے بعد سرمہ چشم آریہ اور شحنۂ حق کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اشتہارات بھی شیخ نور احمد کو ہی شائع کرنے کی سعادت ملی اور پھر بالآخر کتاب فتح اسلام کی طباعت کا انصرام بھی آپ کے حصہ میں آیا۔اس کتاب میں حضور علیہ السلام کے دعویٰ مسیح موعود ہونے اور وفات مسیح ناصری کا ذکر تھا۔ اس کتاب کے شائع کرنے پر حضرت شیخ صاحب بھی امرتسر شہر کے مولویوں کی انگیخت پر عوام کالانعام کے قہر اور مخالفت کا مورد بنے۔ لیکن اس خوش نصیب انسان نے دھمکیوں اور مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے ازالہ اوہا م اور توضیح مرام بھی شائع کرنے کی سعادت پائی۔ اسی طرح ملتاہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اہل خانہ کی مہمان نوازی کی سعادت بھی پائی۔ پھر کتاب کے صفحہ 16 پراپنے ایک سفر قادیان کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جب میں بٹالہ تھوڑی دیر کے لئے اترا… سٹیشن کی طرف آرہا تھا، مولوی محمد حسین صاحب مل گئے، ان کا رسالہ اشاعت السنہ اُس زمانہ میں میرے مطبع میں چھپا کرتا تھا۔ انہوں نے بعد سلام مسنون مجھ سے کہا کہ کھانا تیا رہے۔ میرے مکان پر چلو۔ کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ میں ان کے مکان پر گیا تو مونگ کی کھچڑی لائے، میں متعجب ہوا کہ مولوی صاحب دوسروں کے مکان پر جاتے ہیں تو بغیر پلاؤ قورمہ کے نہیں کھا سکتے ہیں۔ خیر ہم دونوں نے کھچڑی کھائی۔‘‘اس ملاقات کے دوران مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بزعم خود اپنی یہ مشہور خام خیالی ظاہر کی کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے ہی حضرت مرزا صاحب کی اشاعۃ السنہ میں تعریف کرکے چڑھایا ہے، ویسے ہی ان کو گرائے گا۔ اپنے اسی سفر قادیان کے احوال میں بتایا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جٹ زمیندار کو دنیا داری کی ہوس سے مثال دےکر منع کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ ’’یہ سن کر خاکسار راقم کو بھی اثر ہوا، اور میں نے درود، استغفار کا ورد شروع کردیا اورمیرے دل میں خیال آیا کہ وہ درود پڑھنی چاہئے جو نماز میں پڑھی جاتی ہے اور میں آپ کی نصیحت پر کاربند ہوگیا اور اب میری عمر اسی سال سے زیادہ ہے۔ میں اس کا بہت ہی اثر پاتا ہوں۔‘‘(صفحہ 17-18)پھر بتایا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف فتویٰ کفر تیار کرکے جن نامی مولویوں سے اس پر دستخط کروائے ان میں سے جہلم سے مولوی برہان الدین صاحب نے حضرت صاحب کی کتابیں دیکھنی شروع کیں، آپ کو حق پر پایا، قادیان آئے، توبہ کی اور حضرتؑ کی بیعت کر لی او رمولوی محمد حسین بٹالوی کو خط لکھا کہ مجھے آپ نے دھوکا دیا اور آپ کے اعتبار پر مجھے دھوکا لگا۔ میرے دستخط کفر نامہ پر سے کاٹ دو… ’’ان کے علاوہ اور بھی کئی مولویوں نے رجوع کرکے حضرت سے بیعت کرلی۔‘‘(صفحہ 18)کتاب کے صفحہ 19 پر لکھتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ رستم پہلوان میرے مکان کے قریب ٹھہرا ہواہے اوراس کے چند روز بعد جنڈیالہ کے مسلمانوں کی نمائندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پادری عبداللہ آتھم اور پادری ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک کے ساتھ مشہور مباحثہ جنگ مقدس کا آغاز ہوا۔ اس مباحثہ کے سلسلہ میں مصنف کتاب ہٰذا نے اپنی قابل قدر کوششوں کا بھی کچھ احوال درج کیا ہے کہ کس طرح مباحثہ کے لیے مقررہ تاریخ اور دیگر شرائط طے پائیں۔ اس دوران ملتا ہے کہ مباحثہ شروع ہونے سے پہلے ہی عبداللہ آتھم نے قادیان سے آمدہ احباب کو دیکھ کر ’’کانوں پر ہاتھ دھرا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر ایک سو مولوی ہوتے تو کچھ پرواہ نہ تھی۔ تم نے کہاں بھڑوں کے چھتہ میں ہاتھ ڈال دیا۔ مرزا صاحب سے روبراہ ہونا اور مقابلہ کرنا آسان نہیں مشکل امر ہے۔ تم نے ہی یہ فتنہ اٹھایا ہے تم ہی اس کام کو کرو۔ میں ہر گز نہیں جاؤںگا۔ اور نہ اس میں شریک ہوںگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عیسائی میدان کے تو تم ہی پہلوان ہو۔ تم ہی اس کام کو کرو۔ تمہارے بھروسے پر میں نے یہ کام کیا ہے اور تم اس سے انکار کرتے ہو۔ آپ کو ضرور شامل ہونا پڑے گا۔ ان دونوں میں سلسلہ کلام طول پکڑ گیا…اور آتھم صاحب برابر انکار پر تلے ہوئے تھے۔ آخر بمشکل چیتہ کی طرح پھسلا اور شیری دلا کر آتھم صاحب….ساتھ لے ہی آئے…‘‘

حضرت شیخ صاحب کو جنگ مقدس کے ایام میں علاوہ دیگر خدمات کے یہ موقع بھی ملا کہ آپ روزانہ کی بحث کے پرچے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے لکھے جاتے اور پھر عیسائی کیمپ کی طرف سے ان کا جواب دیا جاتا، ان کو اپنے مطبع ریاض الہند سے شائع کرنے لگے اور پہلے دن کی بحث پڑھ کر ہی شہر میں مباحثہ کے لیے متعلق شوق اور دلچسپی کہیں زیادہ ہوگئی۔ الغرض دنیا ئے مذہب کا جری اللہ، اور حقیقی رستم پہلوان امرتسر آیا، پندرہ دن قیام فرمایا، بحث، دلیل اور عقل و نقل میں دجالی فتنہ کو پاش پاش کیا اور فائز المرام ٹھہرا۔ جنگ مقدس کے شب و روز کی ضروری اور ایمان افروز تفصیلات درج کرنے کے بعد مصنف کتاب نے لکھا کہ وہ کس طرح آئینہ کمالات اسلام کی طباعت کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشاد پر قادیان دارالامان آن بسے، تب اس بستی کی سادگی کا کیا عالم تھا، مخالفت کی نوعیت و شدت کیا تھی۔ اور لکھا ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیاں ایک کے بعد دوسری پوری ہوتی مَیں نے اپنے قیام قادیان کے دوران مشاہدہ کیں۔ کتا ب کے آخری صفحہ پر بہت دلچسپ روایت درج کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ’’ ایک دفعہ حضرت ام المومنین نے میری پہلی بیوی سے فرمایا کہ ایک آمین امرتسر سے مطبوعہ منگوادو۔ میاں محمود نے قرآن مجید ختم کیا ہے، ان کی آمین کرانی ہے۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ ام المومنین کا یہ ارشاد ہے۔ میں امرتسر گیا۔ ایک آمین خرید لی۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ عیسیٰ بچرخ چہارم…پورا شعر یاد نہیں رہا۔ مگر آخر میں ہرشعر کے سبحان من یرانی آتا تھا۔ میں نے سوچا کہ حضرت تو قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ

ابن مریم مرگیا حق کی قسم

داخل جنت ہوا وہ محترم

اور آپ کا مسیح و مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہ آمین وہاں کون پڑھے گا۔ میں نے جناب میر ناصر نواب صاحب مرحوم سے کہا کہ آپ اس مصرعہ کو بدل دیجئے۔ تم شاعر ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام حضرت صاحب کا ہے۔ حضرت صاحب کو دو، وہ درست کریں گے۔ میں نے یہ آمین حضرت کے آگے پیش کی اور عرض کیا کہ اس میں عیسیٰ بچرخ چہارم لکھا ہوا ہے۔ اور ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوکر زمین کشمیر میں دفن ہوگئے اور آپ مسیح موعود ہیں۔اس کو درست فرمالیجئے۔ آپ نے وہ آمین میرے ہاتھ سے لے لی اور صبح کو ایک اور آمین بنا کر مجھ کو دی کہ اس کو جلد چھپوا دو۔ میں نے اس کو اسی روز چھپوادیا۔ اور حضرت کی خدمت میں پیش کردی۔ یہ آمین کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ اندر زنانہ میں عورتیں پڑھتی تھیں اور جابجا لڑکیاں پڑھتی ہوئی سنائی دیتی تھیں اور باہر سب مرد اور لڑکے جابجا پڑھتے تھے۔ حضرت نے تمام حاضرین قادیان کی زردہ، پلاؤ، نان و گوشت سے دعوت کی۔ ‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button