از افاضاتِ خلفائے احمدیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم (قسط نمبر2)

(تقریر سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سیرۃ النبیؐ بمقام قادیان)

امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ کوشش کرتی چلی آئی ہے۔ یا تو دنیا بیرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے یا جب بیرونی امن کے لئے جدوجہد نہیں کر رہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہو چکی ہوتی ہے تو اندرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اور عالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتا ہے کہ اور تو ہمیں سب کچھ میسّر ہے مگر دل کا امن نصیب نہیں۔ پس امن صرف بیرونی ہی نہیں ہوتا بلکہ دل کا بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اُس وقت تک ظاہری امن کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ مثلاً اس عورت کی مثال لے لو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر اسے ہر قسم کی دُنیوی نعمتیں میسّر ہوتیں، عالیشان محل میں وہ رہتی، ہزاروں خادم اُس کے پاس موجود ہوتے، ہر قسم کے کھانے اس کے اِردگرد ہوتے، عمدہ لباس اُس کے زیبِ تن ہوتا، دولت کی فراوانی ہوتی، آرائش کا سامان اُس کے پاس بکثرت ہوتا لیکن فرض کرو اس کا بچہ گمشدہ ہوتا تو وہ کھویا ہؤا بچہ اس کے امن کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتا اور دولت کے انبار، آرائش کے سامان، کھانے پینے کی اشیاء کی کثرت، خدمت گاروں کی موجودگی اور عالیشان محل میں قیام اس کے دل کو ذرا بھی چین نہ دے سکتے۔ سو ظاہری امن اپنی ذات میں اُس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک باطنی امن اس کے ساتھ نہ ہو۔ ہمیشہ وہی امن، امن کہلا سکتا ہے جو ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے امن دینے والا ہو۔

اِس وقت دنیا میں ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ امن کے خواہشمند ہیں لیکن امن ان کو میسّر نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مُخْتَلِفُ الْاَنْوَاع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو، اُس وقت تک سب لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں ان متضاد خواہشوں اور متضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایسے متضاد اور مخالف خیالات کی موجودگی میں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو جو امن دینے کا ارادہ رکھتی ہو اگر یہ بات نہ ہو تو کبھی امن میسّر نہیں آ سکتا۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذرا اِدھر اُدھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہولہان ہو جاتے ہیں۔ کسی کےگلے پر زخم ہوتا ہے،کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں،کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کی آنکھ سُوجی ہوئی ہوتی ہے مگر جب ماں باپ آتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی پوپلی شکلیں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں گویا وہ لڑائی جھگڑے کو جانتے ہی نہیں اس لئے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں۔ پس درحقیقت امن اُس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جو امن کی متمنی ہو اور جو دوسروں کو امن دینا چاہتی ہو اور ایسے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہو جو امن دینے والے ہوں اور وہی شخص حقیقی امن دینے والا قرار پاسکتا ہے جو اس ہستی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہواکہ خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والا بھی ہے۔ چنانچہ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جو نام گِنا ئے گئے ہیں ان میں سے ایک نام یہ بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلْمَلِکُ الْقُدّوْسُ السَّلٰمُ (الحشر:24)اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !لوگوں کو توجہ دلا اُس خدا کی طرف جو بادشاہ ہے، پاک ہے اور السَّلٰمُ یعنی دنیاکو امن دینے والا اور تمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے۔ یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یا فساد کریں، بلکہ وہ امن شکن کو سزا دیتے اور امن قائم رکھنے والے بچے سے پیار کرتے ہیں۔ اس طرح تمہارے اوپر بھی ایک خدا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں، تمہارے ارادے مختلف ہیں، تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں، تمہاری خواہشیں مختلف ہیں اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہو کر امن شِکن حرکات پر تیار ہو جاتے ہو، مگر یاد رکھو خدا ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتا وہ سلام ہے جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اُس وقت تک وہ اس کا محبوب نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیے:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم(قسط نمبر1)

ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدا نہیں کر دیا کرتی کیونکہ بِالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کیلئے نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں دولت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے اچھی چیز ہے اور جب وہ کہتے ہیں صحت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہوتے کہ میرے دشمن کی صحت اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق تو انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ نادار اور کمزور ہو۔ اسی طرح جب لوگ عزت و رُتبہ کے متمنی ہوتے ہیں تو ہر شخص کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے۔ پس جب دنیا کا یہ حال ہے تو خالی امن کی خواہش بھی فساد کا موجب ہو سکتی ہے کیونکہ جو لوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اور ان کی قوم کو امن حاصل رہے ورنہ دشمن کیلئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹا دیں۔ اب اگر اس اصل کو رائج کر دیا جائے تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوں کا امن ہوگا۔ ساری دنیا کا نہیں ہوگا اور جو ساری دنیا کا امن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا۔ حقیقی امن تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی امن نہیںچاہتی بلکہ ساری دنیا کیلئے امن چاہتی ہے اور جو میرے ملک کے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے مُلکوں کیلئے امن چاہتی ہے اور اگر میں صرف اپنے لئے یا صرف اپنی قوم کیلئے یا صرف اپنے ملک کیلئے امن کا متمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہو جائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ پس اَلْمَلِکُ الْقُدّوْسُ السَّلٰمُ (الحشر:24) کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی ارادوں کو پاک و صاف کر دیا اور یہ تسلیم شُدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اُس وقت تک کام بھی درست نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں اِس وقت جتنے فساد اور لڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں۔ وہ منہ سے جو باتیں کرتے ہیں ان کے مطابق اُن کی خواہشات نہیںاور ان کی خواہشات کے مطابق اُن کے اقوال و افعال نہیں۔ آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تو یہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف سے جنگ کی ابتداء ہو تو یہ کوئی بُری بات نہیں سمجھی جاتی اور یہ نقص اِسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارا فائدہ ہے ہم اِن باتوں پر عمل کریں گے مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تو اسے ردّ کر دیں گے۔ پس یہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کو لا سکتا ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن سے رہیں۔ جب ہمارا یہ عقیدہ ہوگا تو اُس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کو عام نفع پہنچانے والی ہوں گی، اِس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان، بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ساری دنیا پر اس کا کیا اثر ہے۔ یوں تو دنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایساکرنے کی جرأت اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر مَیں نے ایسا کیا تو ایک بالا ہستی مجھے کُچل کر رکھ دے گی۔ جیسے ایک بچہ جب دوسرے کا کھلونا چھین لیتا ہے تو وہ اپنے لئے امن حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کا امن چھینا جاتا ہے اور ایک تو خوش ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا رو رہا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیں گے؟ وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ جس بچہ نے کھلونا چھینا ہوگا اس سے کھلونا واپس لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جو دوسرے کے امن کو برباد کر کے حاصل کیا جاتا ہے وہ کبھی قائم رہنے والا نہیں اور حقیقی امن وہی ہے جو ایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیا ہو۔

غرض حقیقی امن اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی تسلیم نہ کی جائے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور اسی نے کہا ہے اَلْمَلِکُ الْقُدّوْسُ السَّلٰمُ (الحشر:24)۔

اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتا ہے کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کا پتہ مل گیا تو انسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان بھی کیا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اِس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ بجائے امن کے فساد پیدا کردیں۔ پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں رکھ سکتی جب تک ایک بالا ہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جو امن قائم کرنے میں مُمِدّ اور معاون ہوں کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو تو انسان باوجود اِس آرزو کے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا۔ پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تو معلوم ہو لیکن اُس خواہش کو پورا کرنے کا طریق معلوم نہ ہو تب بھی ہمارا امن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اور طریق اختیار کریں اور اس کا منشاء کوئی اور طریق اختیار کرنا ہو۔ پس ہمارے امن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بالا ہستی ہمیں کوئی ایسا ذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والا ہو سو اِس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایسا ذریعہ بتایا ہے یا نہیں، تو سورہ بقرہ میں ہمیں اِس کا جواب نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًا (البقرۃ : 126)یعنی یہ جو آسمان پر السلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جو دنیا کو امن دینے والا ہوتا سو ہم نے بیت اللہ کو مدرسہ بنایا ہے یہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہوں گے اور امن کا سبق سیکھیں گے۔ پس ہمارے خدا نے صرف خواہش ہی نہیں کی، صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کرو ورنہ مَیں تم کو سزا دوں گا بلکہ اِس دنیا میں اُس نے امن کا ایک مرکز بھی قائم کر دیا اور وہ خانہ کعبہ ہے۔ فرماتا ہے۔ یہاں لوگ آئیں گے اور اِس مدرسہ سے امن کا سبق سیکھیں گے۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button