از افاضاتِ خلفائے احمدیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم(قسط نمبر1)

(تقریر سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سیرۃ النبیؐ بمقام قادیان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ جرمنی 2022ءکے اختتامی خطاب میں اس تقریرکا تذکرہ فرمایا۔سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے11؍دسمبر1938ء کو قادیان میں جلسہ سیرۃ النبیؐ کے موقع پر یہ تقریر ارشاد فرمائی۔اس میں آپؓ نے اس بات کو ثابت کیا کہ امن عالم میں جو کردار نبی کریم ﷺ نے ادا کیا ہےاس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

تشہد تعوذاور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود ایک ایسا وجود ہے جو دنیا کی نظروں کو آپ ہی آپ اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی توجہ کو کھینچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لوگ اس کام کے لئے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں مگر پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید دولت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے گی اور وہ دولتوں کے انبار لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی دنیا کی توجہ اُن کی طرف نہیں کِھنچتی۔زیادہ سے زیادہ چند چوروں، ڈاکوئوں، حریصوںاور لالچیوںکی نگاہیں اُن کی طرف اُٹھ جاتی ہیں، چند خوشامدی ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر وہ جن کی رائے کوئی وقعت رکھتی ہے ان کی طرف سے بالکل غافل اور لاپرواہ رہتے ہیں۔ پھر بعض لوگ عجیب قسم کے دعوے کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید اِس وجہ سے لوگ ان کی طرف توجہ کریں مگر اوّل تو لوگ ان کی بات سنتے ہی نہیں اور اگر سُنیں تو پُر معنی مسکراہٹ کے ساتھ آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی خاص توجہ ان کی طرف نہیں کرتے۔ پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے دعووں سے شاید لوگوں کی توجہ وہ اپنی طرف کھینچ سکیں گے چنانچہ وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ رسول تو دنیا میں بہت گزرے ہیں مگر چونکہ اپنے زمانہ میں رسول بھی ایک بہت بڑی ہستی ہوتا ہے اس لئے وہ رسالت کا دعویٰ کر دیتے ہیں اور جب اس طرح بھی کام نہیں چلتا تو خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں مگر پھر بھی دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی۔

مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے جو آجکل کے مدعیان میں سے ہے خط لکھا جس میں اُس نے مجھے بہت کچھ کوسا اور کہا کہ مَیں یہ نہیں کہتا آپ میرے دعوے کی تصدیق کریں ،میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ میری تعریف کریں مگر یہ کیا ہے کہ میں متواتر اشتہار شائع کر رہا ہوں اور آپ اس کی تردید بھی نہیں کرتے۔ میں نے اُسے جواب دیا کہ لوگوں میں تردید کرنے کی رُوح کا پیدا ہو جانا بھی خدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے جو آپ کو میسّرنہیں۔مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ دنیا خواہ مخالفت کرے خواہ موافقت، بہرحال وہ آپ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور رہی ہے اور مجبور ہے۔ جو مخالفت کرنے والے ہیں وہ تو مخالفانہ جذبات سے پُر ہی ہیں مگر جن کے دلوں میں محبت ہے وہ اس رنگ کی محبت ہے کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُن کے کانوں میں پڑتا ہے اُن کے دلوں میں عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر کوئی تلاطم پیدا ہو گیا ہے اس تلاطم کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے۔ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا اور آپ کو پہچانا مگر دیکھنے سے میری مراد صرف جسمانی طور پر دیکھنا نہیں بلکہ میری مُراد ان لوگوں سے ہے جنہوں نے عقل کی آنکھوں سے آپ کو دیکھا اور عرفان کی آنکھ سے آپ کو پہچانا جب کبھی وہ رسول کریم ﷺکا نام سنیں یا جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کے پاس سے گزریں اُس وقت ان کی کیفیت بالکل اور ہو جاتی ہے اور وہ یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ مادی دنیا سے جُدا ہو کر ایک اور عالَم میں آ گئے ہیں۔

دو سال کے قریب کی بات ہے میں کراچی گیا تو وہاں ایک دن کچھ ایسی ہوا چلی جو عرب کی طرف سے آ رہی تھی معاً اس ہوا نے میرے دل میں ایک حرکت پیدا کر دی اور میں نے کہا یہ ہوا اُدھر سے آ رہی ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے۔ پھر میں انہی خیالات میں محو ہو گیا اور اُس وقت آپ ہی آپ ایک دو شعرمیری زبان پر جاری ہو گئے جن کو اُسی وقت میں نے لکھ لیا۔ ان اشعار میں سادہ الفاظ میں اپنے جذبات کا مَیں نے اظہار کیا ہے، شاعرانہ تعلّیاں نہیں۔ بعد میں چونکہ مَیں اور کاموں میں مصروف ہو گیا اس لئے میں نے جس قدر اشعار کہے تھے اُسی قدر رہے اور اُن میں اضافہ نہ ہو سکا۔ بہرحال جب وہ ہوا آئی تو میں نے کہا۔

سمندر سے ہوائیں آ رہی ہیں

مرے دل کو بہت گرما رہی ہیں

عرب جو ہے مرے دلبر کا مسکن

بوئے خوش اُس کی لے کر آ رہی ہیں

بشارت دینے سب خورد و کلاں کو

اُچھلتی کُودتی وہ جا رہی ہیں

حقیقت یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کے قلوب میں محبت نے ایک ایسا پلٹا کھایا ہے کہ وہ پہلی محبتیں جو دلوں میں پائی جاتی تھیں، اُن کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ محبت کا مادہ ایک فطرتی مادہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب میں اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ بندے کو اپنے رب کی طرف توجہ دلائے۔ جب تک اصل چیز نہیں ملتی انسان درمیانی چیزوں سے اس جذبہ کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں دیکھا کہ ایک عورت بہت ہی اضطراب اور اضطرار کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہی ہے وہ جہاں کوئی بچہ دیکھتی اُسے اُٹھاتی، سینہ سے لگاتی اور پھر دیوانہ وار تلاش میں مصروف ہو جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نگاہ اُٹھائی اور آپ اُسے دیکھتے رہے جہاں اسے کوئی بچہ نظر آتا وہ اسے اُٹھاتی، سینہ سے لگاتی اور پھر آگے کی طرف چل دیتی یہاں تک کہ اُسے ایک بچہ نظر آیا جسے اُس نے سینہ سے لگایا اور پھر وہ اسے سینہ سے چمٹائے اس میدانِ جنگ میں ایسے اطمینان سے بیٹھ گئی کہ اُسے خیال ہی نہ رہا کہ یہاں جنگ ہو رہی ہے۔ وہ دنیا وَمَافِیْہَا سے بے خبر اپنے بچہ کوگود میں لئے میدانِ جنگ میں بیٹھی رہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا جب تک اسے اپنا بچہ نہیں ملا تھا یہ اس کی یاد میں ہر بچہ کو اُٹھاتی، اسے پیار کرتی اور اپنے سینہ سے چمٹاتی مگر اسے تسکین نہیں ہوتی تھی لیکن جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو اس نے اسے اپنے سینہ سے لگالیا اور یوںبیٹھ گئی کہ دنیا وَ مَافِیْھاکی اسے کوئی خبر نہ رہی پھر آپؐ نے فرمایا جس طرح اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے خوشی ہوئی ہے ایسی ہی خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا کوئی گنہگار بندہ توبہ کر کے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ)اِس مثال سے جہاں اور کئی قسم کے سبق ملتے ہیں وہاں ایک سبق اس سے یہ بھی ملتا ہے کہ جب تک حقیقی محبوب نہیں ملتا انسان عارضی طور پر دوسرے محبوبوں سے دل لگا کر اپنے دل کی جلن دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ اور اُس کے رسول کی محبت کا جذبہ جو حقیقی ہے جب تک پیدا نہیں ہوتا انسان دوسری محبتوں سے اپنے دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اسے حقیقی محبوب جو خدا ہے مل جاتا ہے تو اُس وقت وہ سمجھتا ہے کہ جس چیز کا نام لوگوں نے عشقِ مجاز رکھا ہؤ ا ہے وہ بالکل بے حقیقت ہے۔ ایک دفعہ اس خیال کے ماتحت میں نے ایک شعر اس کے متعلق بھی کہا جو یہ ہے کہ

نظر آ رہی ہے چمک وہ حسنِ ازل کی شمع مجاز میں

کہ کوئی بھی اب تومزا نہیں رہا قیس عشقِ مجاز میں

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے اندر خدائی نور دیکھنے کے بعد دنیا کی محبتیں ایسی سرد ہو گئی ہیں کہ ان میںکوئی لُطف نہیں رہا جب تک محبوبِ حقیقی کا جلوہ نظر نہیں آیا تھا دنیا عشقِ مجازی سے تسلی پاتی تھی مگرجب محبوبِ حقیقی کا چہرہ اُس نے دیکھ لیا تو مجازی محبوب اس کی نگاہ میں حقیر ہو گئے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو ایک بزرگ صحابی نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شعروں کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے تمام گورنروں کے نام چِٹھی لکھی کہ عرب کے جس قدر مشہور شعراء ہیں اُن سے کہو کہ وہ اپنا تازہ کلام مجھے بھجوائیں۔ ایک گورنر کو جب یہ چِٹھی پہنچی تو اُس نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ یہاں کون کون سے بڑے شاعر ہیں۔ ان لوگوںنے دو شاعروں کے نام بتائے جن میں ایک سبعہ معلّقات کے شعراء میں سے تھے۔ اس گورنر نے ان دونوں شاعروں کو لکھا کہ حضرت عمرؓ نے آپ لوگوں کا تازہ کلام منگوایا ہے کچھ اشعار کہہ کر بھیج دو۔ اس پر دوسرے شاعر نے تو ایک تازہ نظم بنا کر بھیج دی، مگر یہ شاعر جن کا نام لبید تھا اور جو عرب کے بہترین شاعروں میں سے تھے، اُن شاعروں میں سے کہ جب وہ مکہ میں آتے تو علماء و ادباء کا ہجوم اُن کے گِرد ہو جاتا اور سب انہیں باپ کی سی حیثیت دیتے انہوں نے جواب میں لکھا کہ میرا قصیدہ تو یہ ہے ۔الٓـمّٓ ۚ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَۙ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَیُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ:2۔4)

گورنر کو اُن کی اِس حرکت پر سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لکھا کہ میں نے حضرت عمرؓ کا آپ کو پیغام بھجوایا ہے یہ میرا پیغام نہیں، آپ ضرور اپنا تازہ کلام مجھے بھیجیں تا مَیں حضرت عمرؓکو بھجوا دوں۔ انہوں نے پھر لکھا کہ تازہ کلام یہی ہے۔ الٓـمّٓ ۚ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَۙ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَیُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَاس پر گورنر نے اُن کو سزا دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ ایک شاعر نے تو چند شعر بھجوائے ہیں جو مَیں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں مگر لبید نے آپ کے پیغام کے جواب میں قرآن کریم کی چند ابتدائی آیات لکھ کر بھجوا دی تھیں جس پر مَیں نے انہیں جُرمانہ کیا ہے اور ان کا وظیفہ بند کر دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گورنر پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا لبید نے تو ہم کو سبق دیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد شعر و شاعری سب ختم ہو گئی اور اب جو کچھ ہے قرآن ہی ہے مگر تم نے بجائے انہیں کوئی انعام دینے کے اُلٹا ان کا وظیفہ بند کر دیا ہم حُکم دیتے ہیں کہ ان کا وظیفہ دُگنا کر دیا جائے۔ (اسد الغابۃ جلد4صفحہ 262۔مطبوعہ ریاض1286ھ)حقیقت یہی ہے کہ جو کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کے آنے کے بعد دنیا کی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیمی لحاظ سے وہ کلام ہو گیا جو آپ لائے اور نمونہ کے لحاظ سے آپ کی ذات ہوگئی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ دنیا کے لئے اُسوہ تھے اور آپ کے وجود ہی کو دنیا اپنے آگے رکھ کر چل سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔

یہ مضمون جو اِس وقت میرے سامنے ہے اتنے پہلوئوں پر مشتمل ہے کہ کسی ایک تقریر یا مضمون میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک سمندر ہے اور اتنا وسیع مضمون ہے کہ کئی سالوں تک اس کے مختلف پہلوئوں پر تقریریں کی جا سکتی ہیں پس یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی ایسا مضمون بیان کیا جائے جس میں بِالاستیعاب تمام باتیں آ جائیں ہاں اصولی طور پر چند باتیں بیان کی جا سکتی ہیں اس لئے مَیں بھی اصولی رنگ میں چند باتیں اِس عنوان کے متعلق بیان کر دیتا ہوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button