پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

جون2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ہائی کورٹ کے جج نے انتہائی بدنیتی پر مبنی احمدیہ مخالف پولیس کیس نمٹا دیا

لاہور، ننکانہ، 2020-2021ء:(گذشتہ سے پیوستہ) ایک بار فریم ہونے کے بعد چارجز درست یا ناقابل واپسی نہیں بنیں گے۔ تاہم حالات کے مدنظر u/s 227 Cr.P.C.کے تحت انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ فوری ایف آئی آر کو پڑھنے کے بعد اور ریکارڈ پر دستیاب دیگر مواد کا بظاہر جائزہ لینے سے سیکشن 295-B اور C ۔295 PPC کے تحت جرائم ظاہر کیے گئے ہیں اور ایف آئی آر کے مندرجات کا جائزہ لینے کے بعد اور قانون کی روشنی میں معزز سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلوں کے تحت یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملزم کی جانب سے (نبی کریم )صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی توہین کی گئی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی، اس لیے یہ درخواست دائر کی گئی ہے۔ شعائرِ اسلام کلمہ طیبہ کا غیر قانونی استعمال کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بے حرمتی کرنا تعزیراتِ پاکستان دفعہ C۔295کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اوپر جو بات کی گئی ہے اس کے پیش نظر، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مجرم کی چارج شیٹ میں تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295B/C شامل کرنے کی پابند ہے کیونکہ ملزمان نے واضح طور پر جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور توہینِ رسالتﷺ کی شق ان مشاہدات کے ساتھ شکایت کنندہ کی طرف سے دائر کی گئی درخواست درست طور پر آگے بھیجی گئی اور استغاثہ کی طرف سے الزامات کے اضافے کی حمایت کی گئی، اور قبول کر لی گئی……جسٹس فاروق حیدر نے اسی طرح اسسٹنٹ سیشن جج صدیق کو اپنے حکم مورخہ 3؍مئی 2021ءکو نقل کیا (اقتباسات):

ابتدائی طور پر اس عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں نے تفتیش کے دوران اس بات کی کبھی نفی نہیں کی کہ ان کا تعلق احمدی گروپ سے ہے۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مذہبی آزادی کا تصور دیتا ہے لیکن احمدیوں اور قادیانیوںکا پس منظر مختلف ہے جنہیں عیسائیوں اور یہودیوں کے برابر تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مذہب پر مزید بحث کیے بغیر یہ کہنا کافی ہے کہ ہمارے آئین نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کا اسلام کے ساتھ تقابلی تجزیہ کرنے کے بعد بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے لیکن قادیانیوں کے معاملے میں وہ خود کو مسلمان اور دیگر کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ ’’قادیانیوں‘‘کے معاملے میں دھوکا دہی اور غلط بیانی کا عنصر زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو ’’قادیانیوں‘‘کو ’’شعائر اسلام اور شعائر اللہ ‘‘کے استعمال سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتا ہے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ اگر کوئی قادیانی کلمہ طیبہ پڑھے گا تو اس سے نہ صرف مسلمان کے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے بلکہ اس سے ناموسِ رسالت کی بے حرمتی ہوگی جیسا کہ ایسی صورت میں ’’مرزا غلام احمد قادیانی ‘‘[علیہ السلام]کو نبی کہا جاتا ہے۔ اس عدالت کا مشاہدہ ہے کہ کلمہ طیبہ دین اسلام کی اساس اور مسلمان کی بنیادی شناخت ہے۔ قادیانی کو کلمہ طیبہ استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فوری کیس میں، یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ درخواست گزاروں نے اپنی عبادت گاہ میں کلمہ طیبہ لکھا تھا جسے وہ مسجدسمجھتے ہیں جو کہ بذاتِ خود ایک جرم ہے جو تعزیراتِ پاکستان دفعہ C۔298 کی زد میں آتا ہے۔ ریکارڈ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کی عبادت گاہ سے قرآن پاک کے نسخے برآمد ہوئے ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی مذکور پایا جاتا ہے جیسا کہ متعدد مواقع پر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام سے مخاطب کیا۔ اگر کوئی قادیانی قرآن پاک پڑھتا ہے تو وہ اسے بظاہر اس یقین کے ساتھ پڑھے گا کہ قرآن مجید میں مذکور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا لفظ (نعوذ باللہ) مرزا غلام احمد قادیانی [علیہ السلام]کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآن پاک کو اس یقین کے ساتھ پڑھنا بذات خود قرآن پاک کی ہتک اور بے حرمتی ہے۔

اس عدالت نے مشاہدہ کیا کہ احمدیوں اور قادیانیوں سے مذہب اسلام کو جتنا نقصان پہنچ رہا ہے وہ ناقابل فہم ہے کیونکہ ایک سادہ لوح مسلمان احمدیوں اور قادیانیوں کے مذموم عزائم کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ احمدیوںکی بنائی ہوئی سازش کا گھناؤنا جال انتہائی خطرناک اور مکروہ ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست ایسے تمام اقدامات کرے جس سے احمدیوںاور قادیانیوںکو ان کے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے سے روکا جا سکے۔ تحقیقات کے دوران اس فوری کیس میں ملفوظات بزبان اردو جلد 2 کے نام اور طرز کی کتاب بھی برآمد ہوئی۔ اس کتاب کی ایک سرسری نظر ایک مسلمان کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام کی کھلم کھلا بے حرمتی اور ہتک کرتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،دیگر انبیاء، قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی ان سےواضح ہوتی ہے جو تعزیراتِ پاکستان دفعہ B۔295، اور 295-C کے تحت آتی ہیں۔ …

درخواست گزاروں کے وکیل کا یہ استدلال کہ شکایت کنندہ اور دیگر استغاثہ کے گواہ بغیر کسی اختیار کے اپنی عبادت گاہ میں داخل ہوئے یہ وزن نہیں رکھتا کیونکہ درخواست گزاروں نے اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘کہا ہے۔ مسجد کو تو عوامی حق سمجھا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ داخل ہونے پر شکایت کنندہ اور استغاثہ کے دیگر گواہوں پر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ کس طرح درخواست گزار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے قرآن پاک، کلمہ طیبہ اور دیگر شعائر اسلام کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر کے اس فیصلے کے خلاف احمدی اپنے آئینی انسانی حقوق اور عقیدے کی آزادی کی حمایت میں ریلیف حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ گئے ہیں اور یہ کیس محض ایک مجسٹریٹ کے استدلال پر منحصر ہے جس نے احمدیہ مسجد کو ایک ناپاک جگہ کہا ہے، موصوف ایک اسسٹنٹ سیشن جج ہےجو احمدیوں کے ذریعہ اسلام کو پہنچنے والے نقصان کو ناقابل تلافی تصور کرتا ہے۔ یہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی (ریٹائرڈ) کا 172 صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے احمدیوں کو ایک خاص رنگ کا لباس پہننے اور ان کے ناموں میں مرزائی یا غلام کے الفاظ شامل کرنے پر مجبور کرنے کے خیال کو فروغ دیا تھا۔ تاہم، اب اعلیٰ عدلیہ اس پاک سرزمین میں انصاف کی آخری امید ہے۔ ماضی میں متعدد مواقع پر اعلیٰ عدلیہ اور یہاں تک کہ نیچے کے ججوں نے بھی ملاؤں کے دباؤ میں مظلوموں کو ریلیف اور انصاف فراہم کرنے سے انکار کیا۔ یہاں، ہم اس کیس میں جسٹس فاروق حیدر کے آرڈر شیٹ پر اپنے تبصروں کو روکتے ہیں، اور فیصلہ دینے کے لیے اسے معزز سپریم کورٹ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کا جاتے ہوئے ایک اور تحفہ

لاہور10؍جون2021ء:روزنامہ دنیا نے درج ذیل خبر شائع کی (اقتباسات کا ترجمہ): حکومت مستند اسلامی ویب سائٹس کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ حکومت اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے پر ایف آئی آر درج کرائے۔ پرائیویٹ شہریوں سے شکایت کرنے کے لیے کہنا خلاف قانون ہے: ریمارکس لاہور (کورٹ رپورٹر) لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اسلام مخالف مواد کی روک تھام اور اسلامی مستند مواد کو سائٹس پرمقبول بنانے کے لیے پوری دنیا میں اقدامات کیے جائیں۔ یہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے کے خلاف کیس میں بات پیش کی گئی۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور ہمیں اسلامی قوانین اور اسلامی نظریے کو فروغ دینا ہے، حکومت خود قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے ویب سائٹ بنائے۔ اس قسم کی ویب سائٹ بناتے وقت تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو بورڈ میں شامل کیا جائے۔ جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے اسلامی تعلیمات حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک مستند ویب سائٹ مل جائے گی۔ اگر کسی ویب سائٹ پر اسلامی تعلیمات میں کوئی تحریف ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ قادیانیوں یا غیر مسلم قرار دیے جانے والے افراد کی نشاندہی کی جائے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں جو کہ پاکستان کے قوانین کے تحت جرم ہے، حکومت ان کے خلاف مقدمہ درج کرے، ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ افراد کو ذاتی حیثیت میں مقدمات درج کروانے کے لیے آگے آنا چاہیےخلاف قانون ہے۔ کابینہ کو پوری دنیا میں پروگرام کی نگرانی کے لیے ایک مکمل باڈی تشکیل دینی چاہیے۔ مشکوک پروگراموں کو فوری طور پر بورڈ آف سکالرز کو ریفر کیا جائے۔ اگر بورڈ آف سکالرز کو اسلامی تعلیمات میں تحریف نظر آتی ہے تو بورڈ کو اس کو روکنے کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ حکومت انٹرنیٹ، یوٹیوب پر عام لوگوں کی تعلیم کے لیے ویڈیوز جاری کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button