خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 20؍ مئی 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمانے میں جنگ یمامہ کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3:یمامہ میں کونسا قبیلہ آبادتھا؟

جواب: فرمایا: یمامہ میں بنو حنیفہ آباد تھے جو سخت جنگجو قوم تھی۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 9؍ہجری میں یمامہ سے آنے والے وفد کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: جب 9؍ہجری میں مختلف وفود مدینہ آئے تو یمامہ سے بنو حنیفہ کا وفد بھی آیا۔ اس وفد میں مُجَّاعَہ بن مُرَارَہ بھی تھےجسے رسول اللہ ﷺ نے جاگیر میں ایک غیر آباد زمین عطا فرمائی تھی جس کی اس نے درخواست کی تھی۔ اس وفد میں رَجَّال بن عُنْفُوَہ بھی تھا اس کے علاوہ مسیلمہ کذاب، ثُمَامہ بن کبیر بن حبیب بھی تھا۔ ابن ہشام کے نزدیک اس کا نام مسیلمہ بن ثُمامہ تھااور اس کی کنیت ابوثمامہ تھی۔بنو حنیفہ کا یہ وفد مدینہ میں انصار کی ایک عورت رَمْلَہ بنت حارث کے گھر ٹھہرا۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکی مسیلمہ کذاب سے ملاقات کی بابت کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا:صحیح بخاری میں موجود روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ رسول کریم ﷺ سے ملاقات کے لیے نہیں گیا تھا بلکہ رسول کریمﷺ خود اس کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ عُبَیداللّٰہ بن عبداللّٰہ بن عُتْبَہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور حارث کی بیٹی کے گھر میں اترا اور حارث بن کُرَیز کی بیٹی اس کی بیوی تھی اور وہ عبداللہ بن عامر کی ماں تھی۔ رسول اللہﷺ اس کے پاس آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شَمَّاسؓ تھے اور یہ رسول اللہ ﷺکے خطیب کہلاتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپؐ مسیلمہ کے پاس کھڑے ہوئے اور اس سے گفتگو کی۔ مسیلمہ نے آپؐ سے کہا کہ اگر آپؐ چاہیں تو ہمارے درمیان اور اس معاملے کے درمیان ہمیں چھوڑ دیں۔ پھر آپؐ اسے اپنے بعد ہمارے لیے مقرر کر دیں۔ یعنی نبوت کا جو معاملہ ہے اس کا جو فیصلہ ہو یا آپؐ کے بعد نبوت ہمیں مل جائے۔ یہی اس کا زیادہ بڑا مطالبہ تھا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگرتم مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگو تو مَیں تمہیں یہ نہیں دوں گا اور مَیں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے خواب دکھائی گئی ہے جو مجھے دکھائی گئی۔اور یہ ثابت بن قیسؓ ہے، وہ میری طرف سے تمہیں جواب دے گا۔ پھر نبی ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ اسی طرح ایک اَور روایت میں ذکر ہے حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ﷺ اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں تو مَیں ان کی پیروی کروں گا۔ یہ پھر پہلی روایت کی وضاحت ہوتی ہے اور وہ وہاں اپنی قوم کے بہت سے لوگوں کے ساتھ آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺاس کے پاس آئے اورآپ ﷺ کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شَمَّاس تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی یہاں تک کہ آپؐ مسیلمہ کے سامنے جبکہ وہ اپنے ساتھیوں میں تھا کھڑے ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تُو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے تو مَیں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا اور تُو اپنے متعلق ہرگز اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر تُو نے پیٹھ پھیری تو اللہ تیری جڑ کاٹ دے گااور مَیں دیکھتا ہوں کہ تُو وہی شخص ہے جس کے متعلق مجھے خواب میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے۔ اور یہ ثابت ہیں یعنی ثابت بن قیسؓ جو میری طرف سے تجھے جواب دیں گے۔ پھر آپ ﷺ اس کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ یہ روایت بھی بخاری کی ہے۔

سوال نمبر6:رجال بن عنفوہ کون تھا اور مسیلمہ کذاب سے الحاق کرنے کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: یہ شخص بھی یمامہ کا ہی رہنے والا تھا اور بنو حنیفہ کے وفد کے ساتھ بھی آیا تھا۔ ہجرت کر کے نبی کریمﷺ کے پاس مدینہ آ گیا تھا یہاں اس نے قرآن کریم پڑھا اور دینی تعلیم حاصل کی۔ جب مسیلمہ نے ارتداد اختیار کر لیا تو نبی کریمﷺ نے اسے اہلِ یمامہ کی طرف معلم بنا کر بھیجا اور لوگوں کو مسیلمہ کی اطاعت سے روکنے کے لیے بھیجا لیکن یہ مسیلمہ سے زیادہ فتنہ کا باعث ہوا۔جب اس نے دیکھا کہ لوگ مسیلمہ کی اطاعت قبول کرتے جا رہے ہیں تو وہ ان لوگوں کی نظروں میں اپنے آپ کو سرخرو کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل گیا۔ بھیجا تو اس لیے گیا تھا تا کہ وہاں اصلاح کرے اور فتنہ کا تدارک کرے لیکن یہ مسیلمہ کے ساتھ شامل ہو گیا اور مسیلمہ کی نبوت کا جھوٹا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ایک جھوٹا قول بھی منسوب کیا کہ مسیلمہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس نے مشہور کر دیا۔ قرآن کریم کا علم حاصل کیا تھا اس لیے لوگوں نے اس کی باتوں پر یقین بھی کر لیا۔ جب اہلِ یمامہ نے دیکھا کہ ایک ایسا شخص مسیلمہ کی نبوت کی گواہی دے رہا ہے جو کہ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں میں سے ہے اور وہ لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے آگاہ کرنے والا ہے تو ان لوگوں کے لیے مسیلمہ کی نبوت سے انکار کی گنجائش نہ رہی اور لوگ جوق در جوق مسیلمہ کے پاس آ کر اس کی بیعت کرنے لگے۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حبیب بن زیدؓانصاری کی استقامت اورشہادت کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت حَبِیب بن زید انصاریؓ رسول کریم ﷺ کا خط لے کر مسیلمہ کے پاس گئے تھے۔ جب انہوں نے یہ خط مسیلمہ کو دیا تو اس نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر اس نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ مَیں بہرہ ہوں۔ مَیں سنتا نہیں۔ بات ٹال دی۔ یہ چاہتا تھا کہ وہ تسلیم کریں کہ وہ بھی نبی ہے۔مسیلمہ بار بار یہی سوال دہراتا رہا۔ آپؓ وہی جواب دیتے رہے اور ہر مرتبہ جب حضرت حبیبؓ اس کے منشا کا جواب نہ دیتے۔ جب اسے منشا کا جواب نہ ملتا تو وہ ان کے جسم کا ایک عضو کاٹ دیتا۔ ٹارچر کرنے کے لیے کہ اب جواب ہاں میں دو۔ وہ ان کا کوئی نہ کوئی عضو کاٹ دیتا۔حضرت حبیبؓ صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے یہاں تک کہ اس نے آپؓ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ اس کے سامنے حضرت حبیبؓ نے جام شہادت نوش کر لیا۔

سوال نمبر8: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عکرمہؓ کوحکم عدولی کرنے پر کیاخط تحریرفرمایا ؟

جواب: فرمایا:جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکرؓنے مرتدین کی طرف مختلف لشکر بھیجے تو حضرت عکرمہ ؓکی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ کی طرف بھی بھیجا اور ان کی مدد کے لیے ان کے پیچھے حضرت شُرَحْبِیل بن حَسَنہ کو روانہ فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓنے حضرت عکرمہؓ کو یہ تاکید فرمائی کہ شُرَحْبِیلکے پہنچنے سے پہلے مسیلمہ سے لڑائی نہ چھیڑنا مگر حضرت عکرمہؓ نے جلدبازی سے کام لیا اور حضرت شُرَحْبِیلؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی اہلِ یمامہ پر حملہ کر دیا تا کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر آئے مگر وہ مصیبت میں پھنس گئے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسیلمہ کی فوج بہت بڑی تھی۔ حضرت شُرَحْبِیلکو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ راستے میں ہی رک گئے اور حضرت عکرمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف اس واقعہ کے متعلق لکھا تو حضرت ابوبکرؓنے ان کو لکھا کہ مَیں تمہاری صورت نہیں دیکھوں گا اور نہ تم مجھے دیکھنا۔ جو مَیں نے تمہیں کہا تھا تم نے اس ہدایت کی نافرمانی کی ہے۔ یہاں لوٹ کر مت آنا مبادا لوگوں میں بزدلی پیدا ہو۔ تم حضرت حُذَیفہ اور عَرْفَجَہ کے پاس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ مل کر عمان اور مَہْرَہ والوں سے جنگ کرو… اور پھر وہاں سے اپنی فوج کے ہمراہ یمن اور حضرموت میں جانا اور وہاں جا کر اسلامی لشکر سے جا ملنا…ایک اَور روایت میں حضرت ابوبکرؓکے خط کے الفاظ اس طرح سے ملتے ہیں کہ استادی جانتے نہیں۔شاگردی سے گھبراتے ہو۔ اتنا بھی تمہیں صحیح طرح پتہ نہیں۔ جنگوں کے جو طریقے سلیقے ہوتے ہیں اس میں جتنا ماہر ہونا چاہیے اتنے تم ہو نہیں اور سیکھنے سے گھبراتے ہو۔ جس دن تم مجھ سے ملو گے دیکھو تمہارے سے کیسا سلوک کرتا ہوں۔ تم اس وقت تک کیوں نہ ٹھہرے کہ شُرَحْبِیلآ جاتے اور ان کی مدداور تعاون سے جنگ کرتے۔ اب حذیفہ کے پاس جاؤ اور مدد پہنچاؤ۔ تم نے اب خلیفۂ وقت کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور اپنے آپ کو بڑا استاد سمجھتے ہو اور سیکھنا نہیں چاہتے۔ اب یہی ہے کہ اب میرے پاس نہ آنا۔ جب ملو گے تو پھر مَیں دیکھوں گا تمہارے سے سلوک کیا کرنا ہے لیکن بہرحال فی الحال اب تمہارا (کام) یہی ہے کہ تم حذیفہ کے پاس جاؤ اور ان کی مدد کرو۔ ان کے ساتھ مل کر جس مہم کو وہ سر کرنے کے لیے بھیجےگئے ہیں اس میں ان کی مدد کرو۔ اگر ان کو تمہاری پشت پناہی کی ضرورت نہ ہو تو یمن اور حضر موت چلے جاؤ اور مُہَاجِر بن اُمَیہکی مدد کرو۔

سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خالد بن ولیدؓ اور مسیلمہ کذاب کے مابین جنگ کا کیا احوال بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:مُجَّاعَہ کے گروہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالدؓ یمامہ کی طرف چلے۔ان کے آنے کی خبر پاکر مسیلمہ اپنے قبیلہ بنو حَنِیفہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلا اورعَقْرَبَاءمیں آ کر پڑاؤ ڈالا… خالد نے محکم منصوبہ بندی کا اہتمام کیا۔ آپ دشمن کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھتے تھے۔میدانِ معرکہ میں ہمیشہ پوری پوری تیاری اور مکمل احتیاط کے ساتھ رہتے کہ کہیں اچانک دشمن حملہ نہ کر دے اور کوئی سازش نہ کر بیٹھے۔آپ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ آپ خود سوتے نہیں تھے، دوسروں کو سلاتے تھے۔ پوری تیاری کے ساتھ رات گزارتے۔ آپ پر دشمن کی کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی۔ فوج کو مرتب کرنے کا وقت قریب آ چکا تھا۔ اس معرکے میں علمبردار حضرت عبداللّٰہ بن حَفْص بن غَانِم تھے۔ پھر یہ حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ کو منتقل ہو گیا۔ حضرت خالدؓ نے اس معرکے میں حضرت شُرَحْبِیل بن حَسَنہؓکو آگے بڑھایا اور اسلامی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مقدمہ پر حضرت خالد مخزومی، میمنہ پر حضرت ابوحذیفہ، میسرہ پر حضرت شُجَاع اور قلب پر حضرت زیدبن خطاب اور شاہسواروں پر اسامہ بن زید کو مقرر فرمایا اور اونٹوں کو پیچھے رکھا جن پر خیمے لدے ہوئے تھے اور خواتین سوار تھیں اور یہ معرکہ سے قبل آخری ترتیب تھی۔دوسری طرف مسیلمہ کذاب کی فوج بھی تیار کھڑی تھی اور مسیلمہ کے بیٹے شُرَحْبِیلنے اپنے قبیلےسے کہا اے بنو حنیفہ !آج کا دن غیرت دکھانے کا ہے۔ اگر آج تم نے شکست کھائی تو تمہاری عورتیں لونڈیاں بنا لی جائیں گی اور بغیر نکاح کے ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ لہٰذا آج تم اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے پوری جوانمردی دکھاؤ اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرو۔بہرحال اس کے بعد گھمسان کی جنگ ہوئی۔ وہ جنگ ایسی سخت تھی کہ مسلمانوں کو اس سے پہلےایسی جنگ کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مسلمان پسپا ہو گئے۔ یہاں بھی پسپائی ہوئی اور بنو حنیفہ کے افراد مُجَّاعَہ کو چھڑانے کے لیے آگے بڑھے اور حضرت خالدؓ کے خیمہ کا قصد کیا۔ حضرت خالدؓ خیمہ چھوڑ چکے تھے اس لیے وہ مُجَّاعَہتک پہنچ گئے جو حضرت خالد کی بیوی کی نگرانی میں تھا۔ مرتدوں نے آپ کی بیوی کو قتل کرنا چاہا مگر مُجَّاعَہ نے ان کو روک دیا اور کہا کہ مَیں اس کو پناہ دیتا ہوں۔ لہٰذا انہوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ مُجَّاعَہنے کہا کہ تم مردوں پر حملہ کرو۔ایک طرف تو یہ دعویٰ تھا کہ مَیں مسلمان ہوں اور اب یہ ان مخالفین کو کہہ رہا ہے کہ تم مردوں پر حملہ کرو اور انہوں نے خیمے کو کاٹ دیا۔لشکرِ اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود حضرت خالد بن ولیدؓ کے عزم و ثبات اور جرأت و استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شکست کا خیال پیدا نہ ہوا۔ حضرت خالدؓنے پکار کر اپنے لشکر سے کہا کہ اے مسلمانو ! علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ یعنی ہر قبیلہ الگ الگ ہو کر لڑے اور اسی حالت میں دشمن سے لڑو تا کہ ہم دیکھ سکیں کہ کس قبیلہ نے لڑائی میں سب سے اچھا بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ تمام مسلمان اپنے اپنے قبیلہ کے علم تلے لڑیں۔ اس سے انہوں نے تمام قبائل میں گویا ایک نئی روح پھونک دی اور اس میں اپنی انفرادیت اور بہادری ثابت کرنے کے لیے ایک جذبۂ مسابقت پیدا کر دیا۔مسلمانوں نے بھی ایک دوسرے کو ترغیب دلائی۔ چنانچہ اس کی مزید تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ثابت بن قیسؓ نے کہا اے مسلمانوں کے گروہ !کتنی بُری ہے وہ چیز جس کا تم نے خود کو عادی بنا دیا ہے، اگر آسانی کا عادی بنایا ہے تو یہ بہت بُری چیز ہے۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کو جنگ پر ابھارنے لگے اور کہنے لگے کہ اے سورت بقرہ والو! آج جادو ٹوٹ گیا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے آدھی پنڈلیوں تک زمین کھود لی اور اپنے آپ کو اس میں گاڑ لیا۔ آپؓ انصار کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور آپؓ نے حنوط مل لیا تھا۔ عرب میں یہ دستور تھا کہ بعض لوگ جو اپنے آپ کو بہت بہادر دکھانا چاہتے تھے وہ ایسا کیا کرتے تھے گویا یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ کام جو مرنے کے بعد لوگوں نے میرے ساتھ کرنا تھا وہ میں نے خود اپنے ساتھ کر لیا ہے… بہرحال روایت ہے کہ انہوں نے کفن باندھ لیا اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا۔

سوال نمبر10: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کن مرحومین کا ذکرخیرفرمایااورنمازجنازہ غائب پڑھائی؟

جواب:1۔مکرم عبدالسلام صاحب شہیدابن ماسٹر منور احمد صاحب صدر جماعت ایل پلاٹ اوکاڑہ۔ جنہیں 17؍مئی2022ء کو شہیدکیا گیا تھا۔آپ کی عمر35سال تھی۔

2۔عزیزم ذوالفقار احمد ابن شیخ سعید اللہ صاحب فیصل آباد۔جو آذربائیجان میں 36سال کی عمرمیں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے۔

3۔مکرم ملک تبسم مقصود صاحب آف کینیڈا ۔آپ نے 1991ءمیں زندگی وقف کی۔آپ کو بطورنائب ناظرامورعامہ اوربطورمشیرقانونی تحریک جدید خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔آپ کے والد مکرم ملک مقصوداحمدصاحب 28؍مئی2010ءکودارالذکرلاہورمیں ہونےوالے حملہ میں شہیدہوئے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button