مضامین

حصولِ جنت کے ذرائع

(فراز مجوکہ)

جنت کی خوشخبری کیا صرف ابتدائی چند سو افراد کے لیے تھی؟ جبکہ آخری شریعت ہونے کی وجہ سے اس دین نے تو یوم قیامت تک چلنا تھا۔پھر باقی لوگوں کو اس سے کیا واقعی محروم رکھا گیا ؟ان سوالات کو آنحضرت ﷺ کی ایک روایت ردّ کر دیتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ یہ امت جہاں اس دنیا میں خیر الامم ہے وہاں آخرت میں بھی خیر الامم ہو گی

خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا مشاہدہ ہر آن دیکھنے والی آنکھ کرتی ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر نعمت ہی اس کی صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے۔ ان سب نعماء کو دیکھتے ہوئے دل میں یہ خیال اٹھتا ہے کہ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں بغیر کسی معمولی کوشش کے بھی اتنی نعماء سے نوازا تو یقیناً اس رحمان خدا نے اخروی زندگی میں بھی تو اس رحمت کا کچھ حصہ رکھا ہو گا۔ اور اس اخروی انجام کے حصول کے لیے آسان راستے بھی تو وضع کیے ہوں گے؟ اس پہلو سے جب اسلام اور بانی اسلام آنحضرت ﷺ کے ارشادات کو دیکھا تو سب سے پہلے جہاں نظر رُکی وہ آپؐ کا یہ ارشاد تھا کہ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ کہ دین آسانی کا نام ہے۔اگر دین آسانی کا نام ہے اور یہ دنیا عارضی ہے تو اس آسان دین نے ابدی زندگی کے لیے یا یوں کہیں کہ ابدی انجام کے لیے کیا آسانی مہیا کی ؟ اورجنت کے حصول کے بارے میں کون سے آسان راستے وضع کیے ہیں۔

19؍جولائی2022ء کے الفضل انٹرنیشنل کے شمارے میں جنت کی خوشخبری پانے والے صحابہ و صحابیات کے عنوان سے چھپنے والے مضمون کو پڑھا تو اس طرف خیال راغب ہوا کہ اس آسانی کے دین نے اپنے ماننے والوں کو تو خیر الامم کا درجہ دیا اور اس دین کو آخری اور کامل دین قرار دیا۔ اور اس کو صراط مستقیم قرار دیا۔ پھر جنت کی خوشخبری کیا صرف ابتدائی چند سو افراد کے لیے تھی؟ جبکہ آخری شریعت ہونے کی وجہ سے اس دین نے تو یوم قیامت تک چلنا ہے۔ پھر کیاباقی لوگوں کو اس سے واقعی محروم رکھا گیا ؟ ان سوالات کو آنحضرتﷺ کی ایک روایت رد کر دیتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ یہ امت جہاں اس دنیا میں خیر الامم ہے وہاں آخرت میں بھی خیر الامم ہو گی۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَال أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَذَالِكَ أَنَّ الجَنَّةَ لاَ يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ البَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک بڑے خیمے میں تھے۔ آپ نے پوچھا۔ کیا تم خوش ہو گے کہ جنتیوں میں سے چوتھائی تم ہو ؟میں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم خوش ہو گے اس سے کہ جنتیوں میں ایک تہائی تم ہو؟ ہم نے کہاہاں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم خوش ہوگے اس سے کہ جنتیوں میں آدھے ہوگے؟ ہم نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایااس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں پختہ امید رکھتا ہوں کہ جنتیوں میں آدھے تم ہوگے اور یہ اس لیے کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوتا مگر وہ نفس جو مسلمان ہو اور مشرکوں کے مقابل تم ایسے ہی ہو کہ جیسے سفید بال سیاہ بیل کے جسم میں یا جیسے سیاہ بال لال بیل کے جسم میں۔

اس روایت سے معلوم ہواکہ اس آسانی کے دین میں یقیناً ایسے ذرائع ہیں جو ایک نیکی کے خواہشمند شخص کو جنت کی نعماء تک لے جا سکتے ہیں۔ پس آنحضرت ﷺ کے ارشاد يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلَا تُنَفِّرُوا(بخاری)(یعنی آسانی کرو، سختی نہ کرو اور بشارت دو اور نفرت نہ دلاؤ ) کو سامنے رکھتے ہوئے ان راستوں اور ذرائع کو آنحضرت ﷺ کے ارشادات میں سے تلاش کرتے ہیں۔

2،1۔مساجد کی تعمیر اور ان کا نظم ونسق

سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ مَنْ أَخْرَجَ أَذًى مِنَ الْمَسْجِدِ بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ۔حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جس نے مسجد سے کسی تکلیف دہ چیز کو نکالا اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔یعنی یہ بتایا کہ اپنے گناہوں کو دیکھ کر اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی سے مایوس نہ ہو اور وہ رحمان خدا اپنی مخلوق سے اس قدر محبت کرنے والی ذات ہے کہ ایک تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کے عوض جنت کی خوشخبری عطا کر رہی ہے۔

پھر فرمایا:عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلّٰهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ، أَوْ أَصْغَرَ، بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ۔(سنن ابن ماجہ)حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو اللہ کے لیے مسجد بنائے خواہ بھٹ تیتر کے انڈے دینے کی جگہ کے برابر ہو یا اُس سے بھی چھوٹی، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔

3۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَدَّ فُرْجَةً فِي صَفٍّ رَفَعَهُ اللّٰهُ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ بَنَى لَهُ بِهَا بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ(مصنف ابن ابی شیبه)عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے صف میں خلا کو پُر کیا اللہ اس کی وجہ سے اس کو ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔

4۔عبادت الٰہی

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ، بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ: أَرْبَعٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔(سنن ابن ماجہ)حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سنّت کی بارہ رکعتیں ہمیشہ ادا کرے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ چار ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد اور دو رکعت مغرب کے بعد، اوردو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔

5۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ(سنن ابن ماجہ)حضرت عائشہ ؓنے بیان فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب و عشاء کے درمیان بیس رکعت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔

6۔شہید، کم سن اور زندہ درگور کیا جانے والا

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ حَسْنَاءَ، امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي صُرَيْمٍ، عَنْ عَمِّهَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ’’النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيْدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْوَئِيْدُ فِي الْجَنَّةِ‘‘(ابو داؤد)حسنا بیان کرتی ہیں میرے چچا نے ہمیں بتایا،انہوں نے بیان کیا کہ مَیں نے نبی ﷺسے کہا جنت میں کون ہو گا؟ فرمایا نبی جنت میں ہے، شہید جنت میں ہے او رکم سن (فوت ہونے والا)جنت میں ہے اور زندہ درگور کیا جانے والا جنت میں ہے۔

7۔نومولود

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا مَاتَ وَلَدُ العَبْدِ قَالَ اللّٰهُ لِمَلَائِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي، فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ، فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ، فَيَقُولُ اللّٰهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، وَسَمُّوهُ بَيْتَ الحَمْدِ (سنن ترمذی)حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب کسی شخص کا بچہ فوت ہوجائے تو اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچہ کی روح قبض کی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں جی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس کےجگر کا ٹکڑا لے لیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں :جی ہاں۔ پھر وہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے کیا کہا ؟وہ کہتے ہیں اس نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنکہا۔ اللہ فرماتا ہے میرے بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔

8۔کفالت یتامیٰ

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ فِي الجَنَّةِ هَكَذَا وَ أَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى، وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا(بخاری)حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں یوں ہوں گے، اور آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو اکٹھا کرکے اشارہ کیا، اور ان کے درمیان کچھ تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔

9۔متفرق دعائیں

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ حِيْنَ يَدْخُلُ السُّوْقَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ كُلُّهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (سنن ابن ماجہ)سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے یہ کہا جب وہ بازار میں داخل ہوا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ كُلُّهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ اللہ کے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں۔وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کی بادشاہت ہے اوراسی کے لیے تمام تعریف ہے۔ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ بھلائی ساری کی ساری اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکی لکھ دے گا اور دس لاکھ برائی مٹا دے گا اورجنّت میں اس کے لیے ایک گھر بنادے گا۔

10۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ مَنْ كَانَ عِصْمَةُ أَمْرِهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَإِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيْبَةٌ قَالَ: إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ، وَإِذَا أُعْطِيَ شَيْئًا قَالَ: الْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَإِذَا أَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ (شعب الایمان)حضرت عبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ چار صفات ہیں وہ جس میں ہوں گی اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔جس کا تحفظ لا الٰہ الا اللّٰہ ہو (یا جس کا آخری کلمہ یہ ہو) اور جب اسے کوئی مصیبت پہنچے تو کہے إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور جب اسے کوئی چیز عطا ہوتو وہ کہے الحمد للہ اور جب کوئی گناہ کرے تو کہے أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ۔

11۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ) أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمْ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ فَإِذَا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ فَإِذَا قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ ثُمَّ قَالَ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ قَالَ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ ثُمَّ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ (سنن ابو داؤد)حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب مؤذن کہے اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر تو تم میں سے جو کوئی دل سے کہے، اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اور جب وہ(مؤذن) کہے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، تو وہ بھی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہے جب وہ کہے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ، تو سننے والا بھی کہے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ، جب وہ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کہے تو یہ کہے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ اور جب وہ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہے تو یہ پھر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ کہے اور جب وہ اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو یہ بھی کہے اللہ اکبر اللہ اکبر اور جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو یہ بھی کہے لا الہ الا اللہ تو وہ جنت میں جائے گا۔

12۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلّٰمَ قَالَ إِذَا اضْطَجَعَ الرَّجُلُ فَتَوَسَّدَ يَمِينَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللّٰهُمَّ إِلَيْكَ أَسْلَمْتُ نَفْسِي، وَفَوَّضْتُ إِلَيْكَ أَمْرِي، وَأَلْجَأْتُ إِلَيْكَ ظَهْرِي، وَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ وَجْهِي، رَهْبَةً مِنْكَ، وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، وَبَاتَ عَلَى ذَالِكَ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَوْ بُوِّئَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ (مسند احمد بن حنبل)حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہےکہ نبیﷺ نے فرمایا:جو شخص بستر میں جائے اور اپنی دائیں کروٹ لیٹے۔ پھر (یہ کلمات) کہے: اللّٰهُمَّ إِلَيْكَ أَسْلَمْتُ نَفْسِي، وَفَوَّضْتُ إِلَيْكَ أَمْرِي، وَأَلْجَأْتُ إِلَيْكَ ظَهْرِي، وَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ وَجْهِي، رَهْبَةً مِنْكَ، وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (یعنی:اے اللہ!مَیں اپنا نفس تیرے سپرد کرتا ہوں، اپنا معاملہ تیرے سپرد کرتا ہوں، اپنی پشت تیری پناہ میں دیتا ہوں اورمَیں اپنی توجہ تیری طرف کرتا ہوں تیری طرف مائل ہوتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے۔ تجھ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ اور کوئی نجات کی راہ نہیں مگر تیری ذات۔ مَیں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لاتا ہوں)اور وہ شخص اسی حالت میں رات گزار دے تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔

13۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ خَصْلَتَانِ لَا يُحْصِيهِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَهُمَا يَسِيْرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيْلٌ يُسَبِّحُ اللّٰهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا وَيُكَبِّرُ عَشْرًا وَيَحْمَدُ عَشْرًا فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَعْقِدُهَا بِيَدِهِ فَذَالِكَ خَمْسُوْنَ وَمِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ وَإِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ سَبَّحَ وَحَمِدَ وَكَبَّرَ مِائَةً فَتِلْكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ فَأَيُّكُمْ يَعْمَلُ فِي الْيَوْمِ أَلْفَيْنِ وَخَمْسَ مِائَةِ سَيِّئَةٍ (سنن ابن ماجه)حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو خوبیاں ایسی ہیں کہ جو مسلمان ان دونوں کو اختیار کرے وہ جنت میں داخل ہوگا اور وہ دونوں بہت آسان ہیں۔ اور جواس پر عمل کرتے ہیں وہ تھوڑے ہیں۔ ہر نماز کے بعد دس باراللہ کی تسبیح کہے، دس بار اللہ اکبر کہے، دس بار الحمد للہ کہے۔ میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ ان کو(بیان کرتے ہوئے) اپنے ہاتھ سے گنتے تھے۔ یہ زبان پر توایک سو پچاس150ہیں اور میزان میں ایک ہزار پانچ سو 1500ہیں اور جب اپنے بستر پر سونے آئے تو سو دفعہ سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر کہے، زبان پر تو یہ ایک سو ہیں لیکن میزان میں ہزار ہیں۔ تم میں سے کون ہے جو ایک دن میں دو ہزار پانچ سو گنا ہ کرے گا۔

14۔عبادات

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدٍ جَمَاعَةً أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا تَفُوتُهُ الرَّكْعَةُ الْأُولٰى مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِهَا عِتْقًا مِنَ النَّارِ(سنن ابن ماجه)حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے: جس نے مسجد میں باجماعت چالیس راتیں نماز پڑھی اور اُس کی عشاء کی نماز کی پہلی رکعت رہ نہیں جاتی اللہ اُس کے لیے اس کی وجہ سے آگ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔

15۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَالَ تَعْبُدُ اللّٰهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا أَبَدًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا(صحیح مسلم)حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک بدوی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور کہا یا رسولؐ اللہ ! مجھے کوئی ایساعمل بتایئے جب میں وہ کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔آپؐ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤاور فرض نماز قائم کرو اورفرض زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نہ میں کبھی اس پر کوئی اضافہ کرو ں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ جب وہ چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :جس کو یہ بات خوش کرتی ہوکہ جنت والوں میں سے کسی شخص کو دیکھ لے وہ اس کو دیکھ لے۔

16۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ مَنْ جَاءَ بِهِنَّ مَعَ إِيمَانٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مَنْ حَافَظَ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ عَلَى وُضُوئِهِنَّ وَرُكُوعِهِنَّ وَسُجُودِهِنَّ وَمَوَاقِيتِهِنَّ وَصَامَ رَمَضَانَ وَحَجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَأَعْطَى الزَّكَاةَ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ وَأَدَّى الْأَمَانَةَ قَالُوا يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ وَمَا أَدَاءُ الْأَمَانَةِ قَالَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ (سنن ابو داؤد)حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:پانچ (چیزیں)ہیں جو شخص ایمان کے ساتھ انہیں بھی لائے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔جو شخص پانچ نمازوں کی حفاظت کرے گا، اُن کے وضوء پر اوراُن کے رکوع پر اوراُن کے سجدہ پر اور اُن کے اوقات پر اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرے خوش دلی کے ساتھ اور ذمہ داری ادا کرے۔انہوں نے کہا اے ابو درداءؓ! ذمہ داری کی ادائیگی سے کیا مُراد ہے؟ انہوں نے کہا جنابت سے غسل کرنا۔

17۔پھر ایک اور راستہ بتایا

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَبِرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، جَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللّٰهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ – أُرَاهُ – فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، عَنْ أَبِيْهِ: وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ (صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جواللہ پر ایمان لایا اور اس کے رسولؐ پر اور اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(خواہ) اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یا اپنی سرزمین میں بیٹھا رہاجس میں وہ پیدا ہوا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! کیاہم لوگوں کو خوش خبری نہ دیں۔ آپؐ نے فرمایا:یقیناًجنت میں سو درجات ہیں جسے اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کےلیے تیار کیا ہے۔ جو دو درجوں کے درمیان ہے وہ زمین اور آسمان کے درمیان کی مانند ہے۔پس جب تم اللہ سے مانگو تو اس سے فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا سب سے عمدہ اور جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ (راوی نے کہا)میں سمجھتا ہوں اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ محمد بن فلیح نے اپنے والدسے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے۔

18۔قاضی اور جج

پھر ایک اور راستہ بتایا

عن ابن بُريدةَ عن أبيه، عن النبي صلَّى اللّٰه عليه وسلم قال: القُضاةُ ثلاثة: واحِدٌ في الجنة، واثنان في النار، فأما الذي في الجنة فرجلٌ عَرفَ الحقَّ فقَضَى به، ورَجُلٌ عرف الحقَّ فجار في الحكم، فهو في النار، ورَجُلٌ قضى للنَّاس على جهلٍ، فهو في النار (سنن ابو داؤد)ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:قاضی تین (طرح کے)ہوتے ہیں۔ایک جنت میں اور دو آگ میں۔ پس وہ جو جنت میں ہے تو وہ وہ شخص ہے جس نے حق پہچان لیا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا اور (دوسرا) وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور فیصلہ میں ظلم کیا وہ آگ میں ہو گا اور (تیسرا) وہ شخص جس نے جہالت کے باوجود فیصلہ کیا وہ آگ میں ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ اس بارے میں صحیح ترین بات ہے یعنی ابن بریدہ کی روایت کہ قاضی تین (طرح کے) ہیں۔

19۔مقتول مومن

پھر ایک اور راستہ بتایا

سمعتُ رسولَ اللّٰه صلَّى اللّٰه عليه وسلم يقولُ: مَن مَشَى إلى رجلٍ مِن أُمَّتي لِيقتُله فليقُلْ هكذا -يعني فليمُدَّ عُنُقَه فالقاتِلُ في النَّارِ والمقتولُ في الجنة (سنن ابو داؤد)حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :جو شخص میر ی اُمت میں سے کسی کو قتل کرنے کے ارادہ سے چل نکلے تو اُسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس صورت میں قاتل آگ میں ہو گا اور مقتول جنت میں ہو گا۔

20۔پھر ایک اور راستہ بتایا

عن أنس بنِ مالك، قال: إنّ نبيَّ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم دَخَل نخلًا لبني النَّجَّار، فسمِعَ صوتًا ففزِعَ، فقال:مَنْ أصحاب هذه القبور؟ قالوا: يا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ناس ماتوا في الجاهليّة، فقال: تعوَّذُوا باللّٰه من عذابِ النّار، ومِنْ فتنة الدّجال قالوا: وممَّ ذاك يا رسولَ اللّٰه؟ قال: إن المؤمنَ إذا وُضِعَ في قبرِه أتاه مَلَكٌ، فيقول له: ما كنتَ تعبدُ؟ فإنِ اللّٰه هداهُ، قال: كنتُ أعبدُ اللّٰه، فيقال له: ما كنتَ تقول في هذا الرجل؟ فيقول: هو عبدُ اللّٰه ورسوله، فما يسأل عن شيءٍ، غيرِها فيُنطَلقُ به إلى بيت كان له في النار، فيقال له: هذا بيتُك كان في النار، ولكنَّ اللّٰه عَصمَك ورَحِمَكَ، فابدَلَكَ به بيتًا في الجنة، فيقول: دعوني حتى أذْهَبَ فاُبَشَّرَ أهلي، فيقال له: اسْكُنْ. (سنن ابو داؤد)حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺبنونجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپؐ فکر مند ہوئے،فرمایا:یہ قبریں کن لوگوں کی ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کچھ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں مرگئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔لوگوں نے عرض کیا کس وجہ سے یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہےاور اس سے کہتا ہے تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دی تھی تو وہ کہتا ہے میں اللہ کی عبادت کرتا تھا۔پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارہ میں کیا کہتے تھے؟تو وہ کہتا ہے وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس کے علاوہ اس سے اور کچھ نہیں پوچھا جاتا۔ پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچایا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا۔ تو وہ کہتا ہے مجھے چھوڑ دو کہ میں جاؤں اور اپنے گھر والوں کو بشارت دوں۔ لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرے رہو۔ اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اسے ڈانٹتا ہےاور کہتا ہے تُو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تُو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلّاتا ہے کہ اس کی آواز جن وانس کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے۔

21۔روزہ دار

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِي الجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُوْمُونَ لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ (صحیح بخاری)حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایاکہ جنت میں ایک دروازہ ہےجسے ریان کہا جاتا ہے۔قیامت کے دن روزہ دار اس سے داخل ہوں گے۔ان کے سوا کوئی اس سے داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں تو وہ کھڑے ہوجائیں گے۔ ان کے سوا کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔ پس جب وہ داخل ہوجائیں گے تو وہ بند کردیا جائے گا۔توپھر کوئی بھی اس سے داخل نہ ہوگا۔

22۔توحید الٰہی

پھر ایک اور راستہ بتایا

عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ(صحیح مسلم)حضرت عثمانؓ نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اس حال میں مرا کہ وہ جانتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔پس ایک طرف تو صفت رحمانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس کے کناروں تک انسانی سوچ بھی نہیں پہنچتی کجا کہ قلم پہنچے اور دوسری طرف رحمة للعالمین کی خوشخبریاں ہیں تا کوئی ہو کہ ان پر عمل کرے اور جنت کے نعماء کا وارث ٹھہرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور دل میں ایک دعا کے ساتھ اس مضمون کو ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ہدایت دے کہ وہ وقت کے امام کو ماننے والے ہوں اور وہ لوگ جو مان چکے ہیں وہ حقیقی معنوں میں عمل کر کے جنت الفردوس کے وارث ٹھہریں۔آمین ثم آمین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تاخدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔

تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہوناچاہتے ہیں ان کےلئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویںیہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دےگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی۔اور ایک بڑادرخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریںگے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوںگے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔‘‘(الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ308)

سنو اب وقت توحید اتم ہے

ستم اب مائل ملک عدم ہے

خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی

فسبحان الذی اخزی الاعادی

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button