خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 13؍ مئی 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور کے جو فتنے تھے ان کے خلاف جو مہمات ہوئیں ان کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سجاح بنت حارث کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:سَجَاحْ کا تعارف یہ ہے کہ سَجَاحْ بنت حارث اس کا نام تھا۔ ام صَادِرْ کنیت تھی۔ عرب کی ایک کاہنہ تھی اور ان چند مدعیانِ نبوت اور باغی قبائلی سرداروں میں سے تھی جو عرب میں ارتداد سے تھوڑی مدت پہلے یا اس کے دوران نمودار ہوئے تھے۔ سَجَاحْ قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتی تھی اور ماں کی جانب سے اس کا نسب قبیلہ بنوتَغْلَب سے جا ملتا تھا جو اکثر مسیحی تھے۔ سَجَاحْ خود بھی مسیحی تھی اور اپنے مسیحی قبیلہ اور خاندان کی بنا پر مسیحیت کی اچھی خاصی عالم عورت تھی۔ یہ عراق سے مریدوں کے ساتھ آئی تھی اور مدینہ پر حملہ کا ارادہ رکھتی تھی۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سَجَاحْ ایرانیوں کی سازش کے تحت عرب میں داخل ہوئی تھی تا کہ حالات کو دیکھ کر ایرانی حکومت کے زوال پذیر اقتدار کو تھوڑا سنبھالا دیا جا سکے۔ بہرحال سَجَاحْان عوامل سے متاثر ہو کر جزیرۂ عرب میں داخل ہوئی۔ یہ طبعی امر تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم بنو تمیم میں پہنچی…سَجَاحْاس ارادے سے بڑھی چلی آ رہی تھی کہ وہ اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ اچانک بنوتمیم میں پہنچ جائے گی اور اپنی نبوت کا اعلان کر کے انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی۔ سارا قبیلہ بالاتفاق اس کے ساتھ ہو جائے گا اور عُیینہ کی طرح بنو تمیم بھی اس کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ بنویرْبُوعکی نَبِیہ قریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ محمدﷺ وفات پا گئے ہیں اور سَجَاحْ زندہ ہے۔ اس کے بعد وہ بنو تمیم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف کُوچ کرے گی، یہ اس کا پلان تھا، اور ابوبکرؓ کے لشکر سے مقابلہ کے بعد فتح یاب ہو کر مدینہ پر قابض ہو جائے گی۔

سوال نمبر4:سجاح بنت حارث کے ساتھ بنو تمیم کے کن سرداروں نے مصالحت کی؟

جواب:فرمایا:سَجَاح اپنے لشکر کے ہمراہ جب بنو یربوع کی حدود پر پہنچ گئی تو وہاں ٹھہر گئی اور قبیلہ کے سردار مالک بن نُوَیرَہ کو بلا کر مصالحت کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ مالک نے صلح کی دعوت تو قبول کر لی لیکن اس نے اسے مدینہ پر چڑھائی کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر ابوبکر کی فوجوں کا مقابلہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اپنے قبیلہ کے مخالف عنصر کا صفایا کر دیا جائے۔ سَجَاح ْکو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا کہ جو تمہاری مرضی ہے۔ میں تو بنویربوع کی ایک عورت ہوں جو تم کہو گے وہی کروں گی۔سَجَاحْ نے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی لیکن وَکِیع کے سوا کسی نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ اس پر سَجَاحْ نے مالک، وَکِیع اور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سرداروں پر دھاوا بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں جانبین کی کثیر تعداد، آدمی قتل ہوئے اور ایک ہی قبیلے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گرفتار کر لیا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد مالک اور وکیع نے یہ محسوس کیا کہ انہوں نے اس عورت کی اتباع کر کے سخت غلطی کی ہے۔ اس پر انہوں نے دوسرے سرداروں سے مصالحت کر لی اور ایک دوسرے کے قیدی واپس کر دیے۔اس طرح قبیلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا۔

سوال نمبر5:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سجاح اور مسیلمہ کے الحا ق اورسجاح کےدوبارہ اسلام قبول کرنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب :فرمایا:سجاح جب اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ سَجَاحْ کی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی۔اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے سَجَاحْ سے مصالحت کرنے کی ٹھانی۔ پہلے اسے تحفےتحائف بھیجے۔ پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے مسیلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی۔ مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا اور خلوت میں اس سے گفتگو کی اور اس گفتگو میں مسیلمہ نے کچھ مسجع مقفیٰ عبارتیں سَجَاح ْکو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ سَجَاحْ نے بھی جواب میں اسی قسم کی عبارتیں سنائیں۔سجاح کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لینے اور ہمنوا بنانے کے لیے مسیلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اور باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں، شادی کر لیں۔ سَجَاح ْنے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی۔ تین روز تک وہاں رہنے کے بعد یہ اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کچھ مہر بھی مقرر کیا۔ اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ واپس جائیں اور مہر مقرر کر کے آئیں کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر کے بغیر شادی کرنا زیبا نہیں۔ چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے مہر کے بارے میں اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔ مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔ یعنی کہ عشاء اور فجر کی نمازوں میں کمی کر دی اور وہ بند کر دیں۔ بہرحال مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمد سَجَاحْ کو بھیجے گا۔ سَجَاحْ نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے۔ اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا حصہ اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس آ گئی۔بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنیفہ ہی میں چھوڑ دیا۔ سَجَاح ْبدستور بنوتغلب میں مقیم رہی۔ اس کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی اور اسلام قبول کر لیا۔ بعض کے نزدیک حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس نے اسلام قبول کیا یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہؓ نے قحط والے سال اسے اس کی قوم کے ساتھ بنوتمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔

سوال نمبر6:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مالک بن نویرہ کے قتل کی بابت کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: ایک روایت میں ہے کہ اس رات اس قدر شدید سردی تھی کہ کوئی چیز اس کی تاب نہیں لاتی تھی۔ جب سردی اَور بڑھنے لگی تو حضر ت خالدؓ نے منادی کو حکم دیا۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ أَدْفِئُوا أَسْرَاكُمْ کہ اپنے قیدیوں کو گرم کرو۔یعنی ان کو سردی سے بچانے کا انتظام کرو لیکن بنو کنانہ میں یہ محاورہ مختلف تھا۔یہاں کے محاورے میں اس لفظ کے معنی یہ تھے کہ قتل کرو۔ سپاہیوں نے اس لفظ کا مفہوم مقامی محاورے کے اعتبار سے یہ سمجھ لیا کہ ان قیدیوں کے قتل کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ حضرت ضِرار بن اَزْوَر نے مالک کوقتل کیا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد بن اَزْوَر اَسَدی نے مالک کو قتل کیا تھا ۔مگر کلبی کہتے ہیں ضرار بن ازور نے ان کو قتل کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو جب شور و غل سنائی دیا تو وہ اپنے خیمہ سے باہر آئے مگر اس وقت تک سپاہی ان سب قیدیوں کا کام تمام کر چکے تھے۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔انہوں نے کہااللہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے وہ تو بہرحال ہو کر رہتا ہے۔دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خالدؓ نے مالک بن نُوَیرَہ کو اپنے پاس بلایا۔ سَجَاحْکا ساتھ دینے اور زکوٰة روکنے کے سلسلہ میں اس کو تنبیہ فرمائی اور اسے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ زکوٰة نماز کی ساتھی ہے یعنی دونوں ایک جیسے ہی حکم ہیں اور تم نے زکوٰة کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مالک نے کہا تمہارے صاحب کا یہی خیال تھا یعنی بجائے اس کے کہتا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ خیال تھا۔ رسول کے بجائے صاحب یا ساتھی کہہ کر پکارا۔حضرت خالدؓ نے فرمایا کیا وہ ہمارے صاحب ہیں۔ تمہارے صاحب نہیں؟ پھر حکم دیا اے ضِرار اس کی گردن اڑا دو۔پھر اس کی گردن اڑا دی گئی۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت خالدبن ولیدؓ پر مالک بن نویرہ کے قتل کے الزام کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:اس کے قتل کی بابت جو الزام ہے اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں۔تحفہ اثنا عشریہ ان کی کتاب ہے اس میں لکھتے ہیں کہ دراصل جو واقعہ پیش آیا اس کی تعبیر ان لوگوں نے صحیح بیان نہیں کی اور جب تک صحیح حالات نہ معلوم ہوں اس وقت تک اعتراض کی بے وقعتی ظاہر ہے۔ سیرت و تاریخ کی معتبر کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مدعی نبوت طُلَیحَہ بن خُویلد اَسَدِی کی مہم سے حضرت خالدؓ جب فارغ ہو کر نَواحِ بُطَاحْ کی طرف متوجہ ہوئے تو اطراف اور جوانب کی طرف فوجی دستے روانہ کیے اور حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد اور طریقے کے مطابق ان کو ہدایت کی کہ جس قوم، قبیلہ اور گروہ پر چڑھائی کرو وہاں سے اگر تمہیں اذان سنائی دے تو وہاں قتل و غارت گری سے باز رہو۔اگر اذان سنائی نہ دے تو اسے دارالحرب قرار دے کر پوری فوجی کارروائی کرو۔ اتفاقاً اس دستہ میں جناب ابوقتادہ انصاریؓ بھی تھے جو مالک بن نُوَیرَہ کوپکڑ کر حضرت خالدؓ کے پاس لائے جس کو نبی کریم ﷺ کی جانب سے بُطَاحْ کی سرداری ملی ہوئی تھی اور اس کے گرد و نواح کے صدقات کی وصولی بھی اسی کے سپرد تھی۔ جناب ابوقتادہؓ نے اذان سننے کی گواہی دی مگر اسی دستے کی ایک جماعت نے کہا کہ ہم نے اذان کی آواز نہیں سنی مگر اس کے پیشتر گردو نواح کے معتبرین کے ذریعہ یہ بات حتمی اور ثبوتی طور پر معلوم ہو چکی تھی کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نُوَیرَہ کے اہل خانہ نے خوب جشن منایا تھا۔ عورتوں نے ہاتھوں میں مہندی رچائی تھی، ڈھول بجائے تھے اور خوب خوب فرحت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور مسلمانوں کی اس مصیبت پر خوش ہوئے تھے۔ پھر مزید ایک بات یہ ہوئی کہ مالک بن نُوَیرَہ سے سوال و جواب کے دوران اس کے منہ سے حضور اکرم ﷺ کے لیے ایسے الفاظ نکلے جس کے کفار اور مرتدین اپنی گفتگو میں عادی تھے اور استعمال کرتے تھے۔یعنی قَالَ رَجُلُکُمْ اَوْ صَاحِبُکُم کہ تمہارے آدمی یا تمہارے ساتھی نے ایسا کہا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی منکشف ہو چکی تھی کہ حضور اکرم ﷺ کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نُوَیرَہ نےوصول شدہ صدقات بھی اپنی قوم کو یہ کہہ کر واپس کر دیے تھے کہ اچھا ہوا اس شخص کی موت سے تم نے مصیبت سے چھٹکارا پا لیا۔ ان حالات اور اپنے سامنے اس کی گفتگو کے انداز سے حضرت خالدؓ کو اس کے ارتداد کا یقین ہو گیا اور آپؓ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور جب مدینہ میں اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور پھر جناب ابوقتادہؓ بھی آپؓ سے ناراض ہو کر دارالخلافہ پہنچے اور قصور وار حضرت خالد کو ہی ٹھہرایا۔ توابتداءً حضرت عمر فاروق ؓکا یہی خیال تھا کہ خون ناحق ہوا ہے اور قصاص واجب ہے مگر حضرت ابوبکرؓنے حضرت خالدؓکو طلب فرما کر تفتیش حال کی۔ ان سے پورا واقعہ پوچھا اور حالات و واقعات کا سارا راز آپ پر منکشف ہوا تو آپؓ نے ان کو بے قصور قرار دے کر ان سے کچھ تعارض نہ کیا اور ان کو اسی سابقہ عہدے پر بحال رکھا۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’اعتراض‘‘کہ حضرت خالدبن ولیدؓ نے دوران جنگ نکاح کیا اور عدت گزرنے کا انتظارنہیں کیا،کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ قصہ ہی من گھڑت ہے اس لیے کہ کسی مستند اور معتبر کتاب میں اس کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ بعض غیر معتبر کتابوں میں یہ روایت ملتی بھی ہے تو اس کا جواب بھی ساتھ ساتھ اسی روایت میں موجود ہے کہ مالک بن نُوَیرَہ نےاس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن نُوَیرَہ بیوی تھی اور اس کو قتل کر کے حضرت خالد بن ولیدؓ نے شادی فوراً کر لی اور اصل میں قتل ہی اس لیے کیا تھا کہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مالک بن نُوَیرَہ نے اس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی اور اس نے جاہلیت کی پائیداری میں اسے یوں ہی گھر میں ڈال رکھا تھا۔ اسی رسم جاہلیت کے توڑنے پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَاتَعْضُلُوهُنَّ جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں روکے نہ رکھو۔ لہٰذا اس عورت کی عدت تو کب کی پوری ہو چکی تھی اور نکاح حلال ہو چکا تھا۔کیونکہ اس نے طلاق دے کر صرف اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔حضرت خالدؓکی شادی کے متعلق ایک اَور مصنف لکھتے ہیں کہ ام تمیم کا نام لیلیٰ بنت سِنَان مِنْہَال تھا۔ یہ مالک بن نُوَیرَہ کی بیوی تھی۔ حضرت خالد ؓکی اس سے شادی سے متعلق بڑا جدال واقع ہوا ہے۔ بڑی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے، بڑی بحثیں چلیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خالد پر اتہام باندھا کہ وہ امِ تمیم کے حسن و جمال پر فریفتہ تھے اور اس سے عشق رکھتے تھے اس لیے صبر نہ کر سکے اور قید میں آتے ہی اس سے شادی کر لی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ یہ شادی نہیں بلکہ زنا تھا لیکن یہ قول من گھڑت اور صریح جھوٹ ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ قدیم مراجع مصادر میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ جو بھی روایتیں ہیں یا سورسز (sources)ہیں ان میں کوئی ثبوت نہیں جو ثابت ہو رہا ہو۔علامہ ماوَردی فرماتے ہیں کہ خالد نے مالک بن نُوَیرَہ کو اس لیے قتل کیا تھا کہ اس نے زکوٰة روک لی تھی جس کی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ام تمیم سے اس کا نکاح فاسد ہو گیا تھا اور مرتدین کی عورتوں کے سلسلہ میں شرعی حکم یہ ہے کہ جب وہ دارالحرب سے جا ملیں تو ان کو قید کیا جائے قتل نہ کیا جائے۔ جیسا کہ امام سَرْخَسِاس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب ام تمیم قیدی بن کر آئی تو خالد نے اس کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور جب وہ حلال ہو گئی تب اس نے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے اور شیخ احمد شاکر اس مسئلہ پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں، مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خالدؓ نے ام تمیم اور اس کے بیٹے کو مِلک یمین کے طور پر لیا تھا کیونکہ وہ جنگی قیدی تھیں اور اس طرح کی خواتین کے لیے کوئی عدت نہیں۔ اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کے مالک کا اس کے قریب ہونا حرام ہے۔ اگر حاملہ نہیں ہے تو صرف ایک مرتبہ حیض آنے تک دور رہے گا۔ یہ مشروع اور جائز ہے اس پر طعن و تشنیع کی گنجائش نہیں لیکن خالد کے مخالفین اور دشمنوں نے اس موقع کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوئے کہ مالک بن نُوَیرَہ مسلمان تھا اور خالد نے اس کو اس کی بیوی کےلیے قتل کر دیا۔ اسی طرح خالد پر یہ اتہام لگایا گیا کہ انہوں نے اس شادی کے ذریعہ سے عرب کے عادات و اطوار کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ عَقَّادکا کہنا ہے کہ خالدؓ نے مالک بن نُوَیرَہ کو قتل کر کے اس کی بیوی سے میدانِ قتال میں شادی کی جو جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی عادت کے خلاف اور اسی طرح مسلمانوں کی عادات اور اسلامی شریعت- کے حکموں کے منافی ہے۔عَقَّادکا یہ قول سچائی سے بالکل دور ہے۔ عربوں کے ہاں اسلام سے قبل بہت دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جنگوں اور دشمنوں پر فتح یابی کے بعد خواتین سے شادیاں کرتے تھے اور انہیں اس پر فخر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر علی محمد صلابی اس بارے میں لکھتے ہیں، یہ سارا واقعہ یہی بیان کر رہے ہیں کہ شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خالد نے ایک جائز کام کیا اور اس کے لیے شرعاً جائز طریقہ اختیار کیا اور یہ فعل تو اس ذات سے بھی ثابت ہے جو خالد سے افضل تھے۔ اگر خالد پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران میں یا اس کے فوراً بعد شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ مُرَیسِیع کے فوراً بعد جُوَیرِیہ بنت حارِث سے شادی کر لی تھی اور یہ اپنی قوم کے لیے بڑی بابرکت ثابت ہوئی تھیں کہ اس شادی کی وجہ سے ان کے خاندان کے سو آدمی آزاد کر دیے گئے کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ میں آ گئے اور اس شادی کے بابرکت اثرات میں سے یہ ہوا کہ ان کے والد حارِث بن ضِرار مسلمان ہو گئے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے فوراً بعد صفیہ بنتِ حُیی بنتِ اَخْطَب سے شادی کی اور جب رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلہ میں اسوہ اور نمونہ موجود ہے تو عتاب اور ملامت کی کوئی وجہ نہیں۔

سوال نمبر9: حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی یمامہ روانگی کے وقت کیا خط تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا: اَمَّا بَعْد!تمہارے پیغام رساں کے ذریعہ سے تمہارا خط ملا۔ اس میں معرکہ بُزَاخَہ میں اللہ کی فتح اور نصرت کا تم نے ذکر کیا ہے اور اسد و غطفان کے ساتھ جو معاملہ تم نے کیا ہے وہ مذکور ہے اور تم نے تحریر کیا ہے کہ میں یمامہ کی طرف رخ کر رہا ہوں۔ تمہیں میری وصیت ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک سے تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی برتو۔ ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ۔ اے خالد! خبردار بَنِی مُغِیرہ کی نخوت و غرور سے بچنا۔ میں نے تمہارے متعلق ان کی بات نہیں مانی ہے جن کی بات میں کبھی نہیں ٹالتا۔ لہٰذا تم جب بنو حنیفہ سے مقابلہ میں اترو تو ہوشیار رہنا۔ یاد رکھو! بنو حنیفہ کی طرح اب تک کسی سے تمہارا مقابلہ نہیں پڑا۔ وہ سب کے سب تمہارے خلاف ہیں اور ان کا ملک بڑا وسیع ہے۔ لہٰذا جب وہاں پہنچو تو بذاتِ خود فوج کی کمان سنبھالو۔ میمنہ پر ایک شخص کو اور میسرہ پر ایک شخص کو اور شہسواروں پر ایک کو مقرر کرو۔ اکابرین صحابہ اور مہاجرین و انصار میں سے جو تمہارے ساتھ ہیں ان سے برابر مشورہ لیتے رہو اور ان کے فضل و مقام کو پہچانو۔ پوری تیاری کے ساتھ میدانِ جنگ میں جب دشمن صف بستہ ہوں تو ان پر ٹوٹ پڑو۔ تیر کے مقابلے میں تیر، نیزے کے مقابلے میں نیزہ، تلوار کے مقابلے میں تلوار۔ ان کے قیدیوں کو تلواروں پر اٹھا لو۔ قتل کے ذریعہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرو۔ ان کو آگ میں جھونکو۔ خبردار میری حکم عدولی نہ کرنا۔ وَالسَّلَامُ عَلَیکَ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button