جلسہ سالانہیورپ (رپورٹس)

جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کےاختتامی اجلاس سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پُر معارف خطاب

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کا ایک بڑا کام دنیا میں امن و سلامتی پیدا کرنا ہے

(ایوانِ مسرور، اسلام آباد، ٹلفورڈ21؍اگست 2022ء) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج ایوانِ مسرور سے براہِ راست چھالیسویں جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے اختتامی اجلاس کو برکت بخشی اور بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لندن وقت کے مطابق3بجکر33 منٹ پر ایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے جہاں نعروں کے ساتھ حضورپُرنور کا استقبال کیا گیا۔ حضورِ انور نے اختتامی اجلاس کا آغاز فرمایا۔ جرمنی کے جلسہ گاہ سے تلاوتِ قرآنِ کریم پیش کرنے کی سعادت حافظ اویس احمد قمر صاحب نے حاصل کی۔ تلاوت کی جانے والی سورۃ ال عمران کی آیات 103تا108 کااردو ترجمہ سید حسن طاہر بخاری صاحب (مبلغ سلسلہ) جبکہ جرمن ترجمہ عدنان احمد رانجھا صاحب نے پیش کیا۔

بعد ازاں مرتضیٰ منّان صاحب (مربی سلسلہ) نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منظوم کلام

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے

کوئی دیں۔ دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔

حضورِ انور کا اختتامی خطاب

جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے حضورِ انور تین بج کر 55 منٹ پر اسٹیج پر رونق افروز ہوئے۔ حضورِ انور نے تشہد و تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا بےحد فضل و احسان ہے کہ آج کل کے حالات کے باوجود جماعتِ احمدیہ جرمنی کو وسیع انتظامات کے ساتھ امسال کا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ گزشتہ سالوں میں آنے والی کووڈ کی وبا اب ختم ہوئی تو جنگوں کے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ دنیا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرے گی یہ حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ مہیا کرتے رہے اور یہ بھول گئے کہ جنگوں کے یہ حالات ان ترقی یافتہ ملکوں پر بھی آسکتے ہیں اور اب جنگ کے اثرات یورپ پر بھی آگئے ہیں۔ اب بھی اگر عقل سے کام نہ لیا تودنیا میں ان جنگوں کی وجہ سے ایک خوفناک تباہی آئے گی۔
اس زمانے کے اللہ تعالیٰ کے فرستادے نے بڑی زور سے تنبیہ کی ہوئی ہے کہ ’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘ ایک عرصے سے میں نے خود بھی دنیا کے لیڈران کو توجہ دلائی لیکن اس کے باوجود پائیدار امن پیدا کرنے کا حل ان کے پاس نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ تودین کو بھول کر دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ نہ تو مسلمان حکومتیں اور نہ ہی دیگر حکومتیں اس طرف آنا چاہتی ہیں۔ اب تو ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ ایٹمی جنگوں کی وجہ سے ایسی تباہی ہوگی جس کے بارے میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔

حضور انور نے فرمایا کہ دنیا میں اب امن کی ضمانت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے شہنشاہ امن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امن و سلامتی کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں بھیجا تھا۔ جس نے دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کے لیے اپنی زندگی ہلکان کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کیا تُو ان لوگوں کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا۔ ایسی جامع تعلیم آپؐ نے عطا فرمائی کہ اور کوئی تعلیم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اس تعلیم کو بھول گئے اور ایمان کے نعرے لگا کرغیروں سے مدد طلب کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔ کلمہ گو افراد کو قتل کررہے ہیں۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اورکیا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔ مسلمان دنیامیں بد امنی پھیلانے کے لیے مشہور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور یہ صرف اس لیے ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات سننے کے روادار نہیں بلکہ اُس کے ماننے والوں کو قتل کرنا اور اُن پر کفر کے فتوے لگانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کامعیار سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں کس طرح امن کی تعلیم کو پھیلا سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ پرنعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن جماعت کا لٹریچر اس بات کا گواہ ہے کہ ہم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف عشق و محبت میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلانے والے ہیں۔ دنیا بھر سے نیک فطرت لوگ ہر سال جماعت احمدیہ کی امن پسند تعلیم کو دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں۔ دنیا جو مرضی کہے مگر ہمارا کام ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں اور دنیا کو دعوت دیں کہ اس تعلیم پر عمل کرکے امن و سلامتی کو یقینی بنالو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا۔ اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ پس آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو اخلاق کے وہ اعلیٰ گُر سکھائے کہ وہ اپنے قول و فعل سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے۔ پس اللہ تعالیٰ کی سچے دل سے پیروی انسان کو اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت کرنے والے مقام پر لے جاتی ہے اور یہ حقیقی محبت انسان کو خدا تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے والا بنادیتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا اور آپؐ کی سچے دل سے پیروی کرنا انجام کار انسان کو خدا تعالیٰ کا پیار ابنادیتا ہے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اولین ایسے تھے کہ وہ خدا سے محبت کرنے والے تھے اور خدا ان سے پیار کرنے والابن گیا۔ انہوں نے خدا کی محبت میں عبادات کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔ صرف زبانی محبت کے دعوےنہ کیے بلکہ اعلیٰ طور پرخدا کی مخلوق کے حقوق ادا کر کے دکھائے اور امن کو قائم کیا۔امن کی بنیاد گھر سے شروع ہو کر ملک اور دنیا تک محیط ہو جاتی ہے اور اسی مستقل امن کی راہنمائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔

حضرت مصلح موعوؓ کے مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امن عالم سے استفادہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ہر کوئی خواہش رکھتا ہے لیکن صرف خواہش امن قائم نہیں کر سکتی اور یہ خواہش چونکہ ہر ایک کی اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے اس لیے امن قائم نہیں ہو تا۔ اپنے لیے توامن کی دعا کرتے ہیں لیکن دوسروں کے امن کے لیے کوئی کوشش نہیں ہوتی۔ لوگ اپنے لیے عزت و مرتبہ و دولت اور صحت کی تمنا تو کرتے ہیں لیکن اپنے مخالفین اور دشمنوں کےلیے یہ نہیں چاہتے اس لیے یہ امن کی صرف خواہش ہے جو کہ فساد کا ذریعہ بن رہی ہے کیونکہ یہ ان کی خود غرضی ہے اور دشمن کے لیے وہ امن نہیں چاہتے۔ اس لیے دنیا میں قائم امن چند لوگوں کا امن تو ہوتاہے لیکن ساری دنیا کا امن نہیں ہوتا۔ عالمی امن اسی طرح ممکن ہے جو ہر قسم کی ذاتی ترجیحات سے بالا ہو اور وہ اس لیے ممکن ہے کہ انسان ایک ایسی بالا ہستی پر ایمان لائے جوسب کے لیے امن چاہتی ہو اسی طرح دائمی امن حاصل ہو سکتا ہے ۔

آنحضور ﷺ کابیان فرمودہ یہ اصول کہ جو خود کے لیے پسند کرتے ہو وہ ہی دوسرے کے لیے کر و ہی دائمی امن کی بنیاد ہے اور جب یہ اللہ کے لیے ہو گا جوکہ الملک القدوس السلام المومن یعنی جو خود بھی امن دینے والا اور دوسروں کے امن کا بھی ضامن ہے اور ساتھ ہی نیت درست اور ارادہ پاک اور صاف ہوں تو پھر امن قائم ہو گا۔ دنیا میں امن اس لیے قائم نہیں کہ لوگوں کے ارادے صاف نہیں اور قول و فعل میں تضاد ہے۔ منہ سے دنیا کے ہر لیڈرکو یہ تو کہتے ہوئےسنیں گے کہ لڑائی بری ہے لیکن صرف تب تک کہ جب ان کے ذاتی مفاد کے خلاف ہو۔ یہ اس وجہ سے ہےکہ ان کا ایک بالا امن دینے والی ہستی پر ایمان نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا والے اپنے فائدے کے لیے دوسرے لو گوں کا امن برباد کر تے ہیں ۔

حقیقی امن تب تک نہیں ہو سکتا جب تک ایک امن دینے والی بالا ہستی پر ایمان اور اس سے محبت نہ ہو اور یہ سوچ کہ اگر ہم نے نقض امن کیا تو وہ بالا ہستی ہمیں کچل کر رکھ دے گی۔ اسی دائمی امن کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لے کر آئے اور اسی کی پیروی کی ہدایت دی۔ اگر حقیقی امن قائم کرنا ہے تو صرف اسی طرح ممکن ہے ۔

اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کے ہوتے ہوئے مسلمان ممالک کے درمیان کیوں فساد ہے کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ مسلمان اس خدا کی تعلیم کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے اور اس کے نتیجے میں باوجود اس اعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے وہ اس کی برکات سے بےنصیب ہیں ۔

آج خدا کے فرستادہ او راس کے برگزیدہ مسیح کے ذریعہ سے ہی دائمی امن کی طرف راہنمائی ہوئی ہےاور اس پر عمل کرکے ہی ہم اس امن کو پانے اور قائم کرنے والے بن سکیں گے کیونکہ خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جھوٹی ہو سکتی ہیں۔ یہ سب سچ ہے اور اب عمل ہی اس بتائے ہوئے دائمی امن کے حصول کو ممکن بنا سکتاہے جس کا ذکر خدا کی پاک کتاب قرآن میں مذکور ہے اور جس کی تعلیم ہمیں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ملی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ پس اگر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے، امن و سلامتی سے رہنا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلٰمِ۔ اس کو سامنے رکھیں گے تو سبل االسلام پر چلنے والے ہوں گے۔ اس کتاب کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں جو انسانی امن کو برباد کرنے والا ہو۔ یہ پیغام ہے جو آج اپنوں اور غیروں کو دینا ہمارا کام ہے۔ یہی دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ یہی وہ انقلاب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں قائم کیا اور ایک ایسی جماعت قائم کردی کہ جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے تو وہ کہتے سلام۔ یہی وہ حالت ہے جو ہم میں پیدا ہو جائے اور دنیا میں پیدا کر دیں تو ہمار حال اور مستقبل بھی امن میں ہوگا۔

پس ایک بہت بڑا کام ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کہ ماننے والوں کا ہے کہ اپنے گھروں میں بھی سلامتی پیدا کرنی ہے اور دنیا میں بھی امن و سلامتی پیدا کرنی ہے۔ یہ تب ہو گا جب ہمارے دل بھی خالص توحید سے پر ہوں اور دنیا کو بھی خالص توحید کی طرف لانے والے ہوں گئے۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ خالص امن توحید کے قیام کے بغیر نہیں وہ سکتا۔ لڑائیاں تبھی بند ہو سکتی ہیں جب تک حقیقی مؤاخات پیدا نہ ہو۔ اور حقیقی مؤاخات بھی ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس کی تعلیم بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الحمد للہ رب العالمین کو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم دیا تا کہ مسلمانوں میں اخوت کا تصور قائم ہو۔ ان کلمات کو پڑھ کو انسان کی سوچ وسیع ہوتی ہے اور وہ خدا کی تعریف کرتا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ جب کوئی یہ کلمات پڑھے تو کیونکر کسی سے نفرت ہو سکتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہی بات ایک دفعہ میں نے امریکہ میں غیروں کی ایک مجلس میں بیان کی تو وہ کہتے ہیں اسلام کی حقیقی تعلیم ایسی ہے کہ کبھی ایک مسلمان کے دل میں کسی کے لیے بغض اور کینہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ رب العالمین کےالفاظ نے تو سب کا احاطہ کر لیا ہے۔ یہ چیز سلامتی پھیلانے کے وسیع راستے کھولتی ہے۔ اس آیت میں بتا دیا کہ حقیقی توحید قائم ہو اور رب العالمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تو ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں ہو۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک طرف ان کی بربادی کی خواہش رکھے اور دوسری طرف حمد اور تعریف بھی کرے۔ پس حقیقی مؤحد ہی حقیقی امن و سلامتی کا علم بردار ہے۔ اگر مسلمان اس نقطہ کو سمجھ لیں تو دنیا میں حقیقی امن پسند وہی ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی غلام صادق کے ساتھ جڑنا بھی ضروری ہے۔ یہ ہم پر بھی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم اپنی حالتوں کا جائز لیں۔ ہمارا نمازوں میں الحمد پڑھنا صرف منہ کی بات نہ ہو۔ اگر دل و دماغ بھی اس گہرائی سے خالی ہیں تو ہم بھی فتنہ و فساد پھیلانے والوں میں سے ہوں گے۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوتعلیم میں پر عمل کرنے والوں میں نہیں ہوں گے۔ پس بہت غور و فکر کا مقام ہے۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ حقیقی امن و سلامتی کے قیام کے لیے خدائے واحد پر اپنے ایمان کو پختہ کرے، اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر اتری ہوئی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے۔

جب قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد ہمارے قول و فعل کا حصہ بن جائے تب ہی ہم دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچا سکیں گے۔ امن کی تعلیم عمل سے دکھائیں گے۔ یہی امن قائم کرنے کا ذریعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امن عالم کا وجود ثابت کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ کام حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے گھریلو سطح سے بین الاقوامی سطح تک اپنا کردا ادا نہ کیا تو ہماری ، ہماری نسل اور دنیا کے امن میں رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کو روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائے۔

آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ دعا کریں کہ تمام شاملین جلسہ کو جلسہ کی برکات کا حامل بنائے اور ہر ایک کو حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ اور دنیا کے حالات میں جلد ہر طرح سے امن و سلامتی عطا فرمائے تاکہ ہم اپنے جلسے پھر اسی پیمانے پر، اسی شان سے ہر طرح کی فکروں سے آزاد ہو کر منعقد کر سکیں اور جلسوں کو اپنی روحانی و علمی پیاس بھجانے کا ذریعہ بنائیں اور حقیقت میں اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کے فضل کو سمیٹنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے بعد حضور انور4 بجکر 47 منٹ پردعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے جلسہ کی حاضری کے حوالے سے اعلان فرمایا کہ جلسے کی کُل حاضری 19ہزار782 ہے جس میں مستورات 482 ہیں اور مرد حضرات 10ہزار300۔ اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھنے، سننے والوں کی تعداد 40ہزار سے اوپر ہے۔

بعد ازاں پہلے لجنہ اماء اللہ اور بعد ازاں مردانہ جلسہ گاہ سے مختلف گروپس کی صورت میں احباب جماعت نے عربی، پنجابی، اردو، جرمن اور افریقی زبانوں میں ترانے پیش کیے اور خلافت احمدیہ اور امام وقت سے اپنے عہد وفا اور اظہار اخلاص پر مشتمل ترانے مختلف زبانوں میں پیش کیے۔ 5بجکر 9 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کا تحفہ عنایت کرتے ہوئے ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل کو جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے تینون دن اور اس سے پہلے بھی کوریج کرنے کی توفیق ملی۔ ذیل میں جلسہ سالانہ کے حوالہ سے شائع ہونی والی رپورٹس کے لنکس درج ہیں:

٭…وقار عمل کا پہلا دن: 15؍اگست 2022ء ۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء

٭…افسر جلسہ گاہ سے خصوصی گفتگو۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء

٭…معائنہ جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء

٭…افسر صاحب جلسہ سالانہ جرمنی سے خصوصی گفتگو۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء

٭…جماعت احمدیہ جرمنی کے 46ویں جلسہ سالانہ کا پہلا روز

٭…جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء۔ دوسرے روز کا پہلا اجلاس

٭…جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء۔ دوسرے دن کا دوسرا اجلاس

٭…جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء۔ تیسرے دن کا پہلا اجلاس

(تصاویر بشکریہ شعبہ مخزن تصایور مرکزیہ و شعبہ سمعی و بصری جرمنی)

(رپورٹ: شیخ لطیف احمد، راجہ اظہار احمد، ذیشان محمود اور سید احسان احمد)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button