خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 29؍جولائی2022ء

کسی فوج کا کوئی بڑے سے بڑا باصلاحیت سپہ سالار ایسے تیقن اور یکسوئی اور وفاداری اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اسے سربراہ مملکت کی ذاتی خوبیوں اور اعلیٰ کردار نے متاثر نہ کیا ہو

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دور میں دشمنانِ اسلام کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

جلسہ سالانہ برطانیہ کے شاملین و کارکنان کے لیے دعا کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍جولائی2022ء بمطابق 29؍وفا1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی مہمات کا ذکر

ہو رہا تھا۔ جنگوں کا بقایا ذکر آج کروں گا جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں لڑی گئی تھیں۔ یہ مضمون جو جنگوں کا ہے یہ آج ختم کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ شاید خطبہ تھوڑا سا لمبا بھی ہو جائے۔

جنگ حِیْرَہ،

ربیع الاول بارہ ہجری کے اوائل میں حضرت خالد ؓنے امغیشیا سے حِیْرَہ کی طرف کوچ کیا۔

(ماخوذ از سیرت سیدنا صدیق اکبرؓ از عمر ابو النصر صفحہ672مترجم اردو مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور2020ء)

اس کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت خالد ؓنے امغیشیا سے دریائے فرات کے قریب، حِیْرَہ کی طرف کوچ کیا۔ حِیْرَہ عیسائی عربوں کا قدیم مرکز تھا اور اس وقت حِیْرَہ کا حاکم ایک ایرانی تھا۔ حِیْرَہ کے حاکم کو اندازہ تھا کہ اب خالدؓ کی فوجوں کا رخ اس کی طرف ہو گا اس لیے اس نے حضرت خالدؓ سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور اس نے یہ اندازہ بھی کر لیا کہ خالدؓ ادھر آنے کے لیے دریائی راستہ اختیار کریں گے اور کشتیوں پر سوار ہو کر پہنچیں گے۔ اس نے اپنے بیٹے کو دریائے فرات کا پانی روکنے کا حکم دیا تا کہ خالد کی کشتیاں دلدل میں پھنس جائیں اور خود اس کے پیچھے چلا اور حِیْرَہ کے باہر اپنے لشکر کو ٹھہرایا۔ جب حضرت خالدؓ امغیشیا سے روانہ ہوئے اور سامان اور مالِ غنیمت کے ساتھ فوج بھی کشتیوں میں سوار کر ا دی گئی تو پانی کی کمی کی وجہ سے کشتیاں زمین کے ساتھ لگنے کی وجہ سے حضرت خالد ؓکو بڑی پریشانی ہوئی۔ ملاحوں نے کہا کہ اہل فارس نے فرات کا پانی اس طرف آنے سے روک کر نہروں کو کھول دیا ہے۔ تمام پانی دوسرے راستوں کی طرف بہ رہا ہے۔ جب تک نہریں بند نہ ہوں گی ہمارے پاس پانی نہیں آ سکتا۔ اس پر حضرت خالد ؓفوراً سواروں کا ایک دستہ لے کر حاکم کے بیٹے کی طرف بڑھے۔ راستے میں دریائے عتیق کے کنارے پر لشکر کے ایک حصہ سے حضرت خالدؓکی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ حضرت خالد ؓنے ان پر اچانک حملہ کر دیا جبکہ وہ بالکل غافل تھے۔ حضرت خالدؓنے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ پھر آگے بڑھے اور دیکھا کہ حاکم حِیْرَہ کا بیٹا دریا کا رخ پھیرنے کے کام کی نگرانی کر رہا ہے۔ انہوں نے اچانک اس پر حملہ کر کے اس کو اور اس کی فوج کو قتل کر دیا اور بند توڑ کر دریا میں دوبارہ پانی جاری کروا دیا اور پھر

خود وہاں کھڑے ہو کر اس کام کی نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ کشتیوں نے دوبارہ سفر شروع کر دیا۔

اس کے بعد حضرت خالد ؓنے اپنے تمام سرداروں کو جمع کیا اور خورنق کے مقام پر پہنچ گئے۔ خورنق حِیْرَہ کے قریب ایک قلعہ تھا مگر جب حاکم کو معلوم ہو گیا کہ اردشیر مر گیا ہے اور خود اس کا بیٹا بھی جنگ میں مارا جا چکا ہے تو وہ بغیر لڑے دریائے فرات عبور کر کے بھاگ گیا لیکن حاکم کے بھاگ جانے کے باوجود اہل حِیْرَہنے ہمت نہیں ہاری اور وہ قلعہ بند ہو گئے۔ یہاں چار قلعے تھے اور چاروں قلعوں میں محصور ہو کر لڑائی کی تیاری کرنے لگے۔

لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید ؓنے قلعوں کا محاصرہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا۔ ضرار بن اَزور قصر ابیض کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے۔ اس میں ایاس بن قُبیصہ طائی پناہ گزین تھا۔ ضرار بن خطاب قصر عدسیّین کے محاصرے کے لیے مقرر ہوئے۔ اس میں عدی بن عدی پناہ گزین تھا۔ ضرار بن مقرن قصر بنی مازن کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے اس میں ابن أکّال پناہ گزین تھا۔ مثنیٰ بن حارثہ قصر ابن بُقیلہ کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے اس میں عمرو بن عبدالمسیح پناہ گزین تھا۔

حضرت خالد ؓنے اپنے امرا کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ وہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کے اسلام کو مان لیں اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں ایک دن کی مہلت دیں اور انہیں حکم دیا کہ دشمن کو موقع نہ دیں بلکہ ان سے قتال کریں اور مسلمانوں کو دشمن سے قتال کرنے سے نہ روکیں۔

دشمن نے مقابلہ آرائی کو اختیار کیا اور مسلمانوں پر پتھر برسانے شروع کر دیے۔ مسلمانوں نے ان پر تیروں کی بارش کی اور ان پر ٹوٹ پڑے اور محلات اور قلعوں کو فتح کر لیا۔ وہاں جو پادری موجود تھے ان پادریوں نے آواز لگائی کہ اے محل والو! ہمیں تمہارے سوا کوئی قتل نہ کرنے پائے۔ ان کو جوش دلانے کی کوشش کی۔ محل والوں نے آواز دی۔ اے عربو! ہم نے تمہاری تین شرطوں میں سے ایک کو قبول کر لیا ہے لہٰذا تم رُک جاؤ ۔ جب انہوں نے وہاں دیکھا کہ عرب مسلمان غالب آ رہے ہیں تو انہوں نے شرطوں پر قلعے کھولنے کا خیال ظاہر کیا۔ ان محلات کے سردار باہر نکلے۔ پھر حضرت خالدؓ نے ان محل والوں سے الگ الگ ملاقات کی اور ان کے اس فعل پر ملامت کی۔

(سیدنا ابوبکرصدیقؓ شخصیت و کارنامے از علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ410فرقان ٹرسٹ مظفرگڑھ)
( حضرت ابو بکرصدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ315 اسلامی کتب خانہ لاہور)
( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ315دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 459)

اور ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس! تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھ کر ہم سے مقابلہ کیا! اگر تم عرب ہو تو کس وجہ سے تم اپنے ہی ہم قوم لوگوں کا مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اگر تم عجمی ہو تو کیا تمہارا خیال ہے کہ تم ایک ایسی قوم کے مقابلے میں جیت جاؤ گے جو عدل و انصاف میں نظیر نہیں رکھتی! سرداروں نے جزیہ دینے کا اقرار کر لیا۔ خالدؓ کو امید تھی کہ ہم قوم ہونے کی وجہ سے یہ عراقی عرب ضرور اسلام قبول کر لیں گے لیکن انہیں بے حد تعجب ہوا جب انہوں نے بدستور عیسائی رہنے پر اصرار کیا۔ بہرحال حضرت خالد ؓنے اہلِ حِیْرَہ اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا جو یہ تھا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو خالد بن ولید نے عدی بن عدی، عمرو بن عدی، عمرو بن عبدالمسیح، ایاس بن قَبیصہ اورحِیری بن اکّال سے کیا ہے۔ یہ اہل حِیْرَہ کے سردار ہیں اور حِیْرَہ والے اس معاہدے پر راضی ہیں اور انہوں نے اس کا انہیں حکم دیا

ان سے ایک لاکھ نوے ہزار درہم پر معاہدہ کیا ہے جو ہر سال ان سے ان کی حفاظت کے عوض وصول کیا جائے گا۔

یعنی مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے یہ جزیہ لگایا کہ جو دنیاوی مال و متاع ان کے قبضہ میں ہے خواہ وہ راہب ہوں یا پادری لیکن جن کے پاس کچھ نہیں، دنیا سے الگ ہیں، اس کو چھوڑ چکے ہیں، یہ معاہدہ ان کی حفاظت کی شرط پر ہے۔ اور اگر وہ ان کی حفاظت کا انتظام نہ کر سکیں تو ان پر کوئی جزیہ نہیں یہاں تک کہ وہ یعنی حاکم ان کی حفاظت کا انتظام کرے۔ اگر انہوں نے اپنے کسی فعل یا قول کے ذریعہ سے غداری کی تو یہ معاہدہ فسخ ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ ربیع الاول بارہ ہجری میں لکھا گیا۔

یہ تحریر اہلِ حِیْرَہ کے حوالے کر دی گئی اور جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد اہل سواد مرتد ہو گئے تو ان لوگوں نے اس معاہدے کی توہین کی اور اس معاہدے پر عمل نہ کیا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ انہوں نے بھی کفر کا ارتکاب کیا اور لوگوں پر اہل فارس کا تسلط ہو گیا۔ جب حضرت مثنیٰ نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں حِیْرَہکو دوبارہ فتح کیا تو ان لوگوں نے اسی معاہدے کو پیش کیا مگر حضرت مثنیٰ نے اس کو قبول نہیں کیا اور ان پر دوسری شرط عائد کی۔پھر جب حضرت مثنیٰ بعض مقامات میں مغلوب ہو گئے۔ جنگوں میں ان کو بھی کچھ پیچھے ہٹنا پڑا تو ان لوگوں نے دوبارہ لوگوں کے ساتھ مل کر کفر اختیار کیا۔ باغیوں کی اعانت اور معاہدے کی توہین کی اور اس معاہدے پر عمل نہ کیا۔ پھر جب حضرت سعدؓ نے حِیْرَہکو فتح کیا تو ان لوگوں نے سابقہ معاہدے پر تصفیہ چاہا تو حضرت سعدؓ نے کہا ان دونوں میں سے کوئی ایک معاہدہ پیش کرو مگر وہ لوگ پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے ان پر خراج عائد کیا اور ان کی مالی استطاعت کی تحقیقات کرنے کے بعد علاوہ موتیوں کے چار لاکھ کا خراج عائد کیا۔

جب حِیْرَہ فتح ہو گیا تو حضرت خالد ؓنے نماز فتح پڑھی جس میں آٹھ رکعات ایک سلام سے ادا کیں۔ یعنی اکٹھی آٹھ رکعات پڑھیں۔ اس سے فارغ ہو کر آئے تو کہا جنگ موتہ میں جب میں نے لڑائی کی تھی تو اس وقت میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔ میں نے کبھی کسی قوم سے جنگ نہیں کی جیسی اس قوم سے جنگ کی ہے جو اہل فارس میں سے ہیں اور میں نے اہل فارس میں سے کسی سے جنگ نہیں کی جیسی اہل اُلَیس سے کی۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ316 تا 319 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

پھر لکھا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت خالد ؓکی خدمت میں تحائف بھی بھیجے تھے لیکن حضرت خالدؓ نے فتح کی خوشخبری کے ساتھ وہ تحائف بھی حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا سبق دیتے ہوئے ان سب تحائف کو جزیہ میں شمار کر کے قبول کر لیا اور حضرت خالد ؓکو لکھا کہ یہ تحائف اگر جزیہ میں شامل ہیں تو خیر، ورنہ تم ان کو جزیہ میں شامل کر کے بقیہ رقم وصول کرو۔ یعنی تحفہ کے طور پر یہ چیزیں وصول نہیں کیں بلکہ جزیہ کے طور پر کیں۔ مسلمانوں نے حِیْرَہکے مقامی باشندوں کے ساتھ بڑی کشادہ دلی کا معاملہ کیا۔ یہ سلوک دیکھ کر گردو نواح کے زمینداروں اور رئیسوں نے بھی جزیہ دینا قبول کر کے مسلمانوں کی ماتحتی اختیار کر لی۔

( حضرت ابو بکرصدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ318-319 اسلامی کتب خانہ لاہور)

فتح حِیْرَہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی۔

اس سے مسلمانوں کی نگاہ میں فتح فارس کی امیدیں بڑھ گئیں کیونکہ عراق اور فارسی سلطنت کے لیے جغرافیائی اور ادبی حیثیت سے اس شہر کی بڑی اہمیت تھی۔ اس کو اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم نے اپنا مرکز اور صدر مقام قرار دیا جہاں سے اسلامی افواج کو ہجوم و دفاع اور نظم و امداد کے احکام جاری کیے جاتے تھے اور قیدیوں کے امور کے نظم و ضبط سے متعلق تدبیر و سیاست کا مرکز بنایا اور وہاں سے حضرت خالدؓ نے خراج اور جزیہ کو وصول کرنے کے لیے مختلف صوبوں پر عامل مقرر کیے اور اس طرح سرحدوں پر امراء مقرر کیے تا کہ دشمن سے حفاظت ہو سکے اور خود یہاں ٹھہر کر نظام امن و استقرار بحال کرنے میں لگ گئے۔ آپ کی خبریں جاگیرداروں اور سرداروں کو ملیں۔ وہ آپؓ سے مصالحت کے لیے آگے بڑھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ فتح پا رہے ہیں تو انہوں نے مصالحت کر لی۔ سواد عراق اور اس کے اطراف میں کوئی باقی نہ رہا جس نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت یا معاہدہ نہ کر لیا ہو۔

(سیّدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد الصلابی مترجم صفحہ412 مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ )

حضرت خالدؓ ایک سال تک حِیْرَہمیں مقیم رہے اور شام کی طرف روانگی سے قبل اس کے بالائی اور زیریں علاقوں میں دورے کرتے رہے اور اہل فارس بادشاہ بناتے رہے اور معزول کرتے رہے۔

( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ321 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

یعنی اس کے مقابلے میں اہل فارس نے کیا کیا وہاں صرف بادشاہ بنتے رہے اور معزول ہوتے رہے۔ جب عراق کی فضا سازگار ہو گئی اور حِیْرَہ و دجلہ کے درمیان عرب علاقوں سے فارسی حکومت کے ختم ہو جانے سے پیچھے سے خطرہ باقی نہ رہا تو حضرت خالدؓ نے براہ راست ایران پر حملہ آور ہونے کا عزم کر لیا اور اس دوران میں اردشیر کسریٰ کے مر جانے سے ایرانی حکومت خلفشار کا شکار ہوئی۔ ان کے درمیان اس کے جانشین کے انتخاب کے سلسلہ میں سخت اختلاف رونما ہوا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت خالد ؓنے ان کے بادشاہوں اور امراءو خاص لوگوں کو خط لکھے۔ ان بادشاہوں کو تحریر کرتے ہوئے فرمایا: خالد بن ولید کی جانب سے بادشاہان فارس کے نام۔ اَمَّا بَعْدُ! اللہ ہی کے لیے تمام حمد ہے جس نے تمہارے نظام کو توڑ دیا۔ تمہاری چال ناکام کر دی۔ تمہارے اندر اختلاف برپا کر دیا۔ تمہاری قوت کمزور کر دی۔ تمہارے مال چھین لیے۔ تمہارے غلبہ و عزت کو خاک میں ملا دیا۔ لہٰذا جب تمہیں میرا یہ خط ملے اسلام قبول کرو، محفوظ و مامون رہو گے یا پھر معاہدہ کر کے جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ۔ اگر اسلام قبول نہیں کرنا تو صلح کا معاہدہ کر لو اور جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو ہم تمہیں اور تمہارا علاقہ چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں گے۔ ورنہ

اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں ایسی فوج لے کر تمہارے پاس آؤں گا جو موت سے ایسی ہی محبت کرتی ہے جس طرح تم زندگی سے محبت رکھتے ہو اور آخرت میں اتنی ہی رغبت رکھتے ہیں جتنی رغبت تمہیں دنیا سے ہے۔

اور ایرانی عُمال و امراکو خط تحریر کرتے ہوئے فرمایا۔ خالد بن ولید کی طرف سے فارس کے امراء کے نام۔ یہ خط خالد بن ولید کی طرف سے ایرانی عُمال و امرا کے نام ہے تم لوگ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے یا جزیہ ادا کرو ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے ورنہ یاد رکھو کہ میں نے ایسی قوم کے ساتھ تم پر چڑھائی کی ہے جو موت کی اتنی ہی فریفتہ ہے جتنا تم شراب نوشی کے۔

حِیْرَہ کی فتح سے عراق کو فتح کرنے اور اس کو اسلامی سلطنت کے تابع کرنے سے متعلق حضرت ابوبکرؓ کی آرزوؤں کا ایک حصہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا جو ایران پر براہ راست حملہ آور ہونے کی تمہید تھی۔ حضرت خالدؓ نے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے ادا کی اور تھوڑی ہی مدت میں حِیْرَہ تک پہنچ گئے کیونکہ عراق کے خلاف آپؓ کی مہم کا آغاز محرم بارہ ہجری میں معرکہ کاظمہ سے ہوا اور اسی سال ربیع الاول بارہ ہجری میں حِیْرَہفتح ہو گیا۔

پھر اس کے بعد

جنگ انبار یا ذات العیون کا ذکر

ہے جو بارہ ہجری میں ہوئی۔ ایرانی فوج حِیْرَہ کے بالکل قریب انبار اور عین التمر میں خیمہ زن ہو چکی تھی۔ انبار بھی بغداد کے قریب ایک شہر ہے۔ انبار کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں انبار غلہ و سامان رکھنے کی کوٹھڑی کو کہتے ہیں اور اس شہر کو انبار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں بکثرت موجود تھیں۔ عین التمر انبار کے قریب کوفہ کے مغرب میں واقع ایک شہر ہے۔

لکھا ہے کہ اسلامی فوج کو ان مقامات میں ایرانی فوج کی موجودگی سے سخت خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔ ان حالات میں اگر حضرت خالد بن ولید ؓخاموشی سے حِیْرَہ میں بیٹھے رہتے اور باہر نکل کر ایرانی فوجوں کے خلاف کارروائی نہ کرتے تو اندیشہ تھا کہ مسلمان اس علاقے یعنی حِیْرَہ جسے مسلمانوں نے فتح کیا تھا اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو انتہائی مشقت کے بعد ان کے ہاتھ آیا تھا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا۔

(ماخوذ از سیّدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد الصلابی مترجم صفحہ413مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ )

(حضرت ابوبکرؓ صدیق اکبر، صفحہ 287ازہیکل ،مترجم، علم و عرفان پبلشرز 2004ء)
(الکامل فی التاریخ جلد 2،صفحہ 245 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (ماخوذ از المنجد زیر لفظ نبر)
(معجم البلدان جلد1 صفحہ305، جلد 4 صفحہ 199 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حِیْرَہ اور اس کے گرد و نواح میں جب حالات قابو میں آ گئے اور امن بحال ہو گیا تو حضرت خالدؓ نے حِیْرَہ پر حضرت قعقاع بن عمرو تمیمیؓ کو اپنا نائب مقرر کر کے خود حضرت عیاض بن غنم کی امداد کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت عیاض بن غنم کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شمال سے عراق کی فتح کے لیے روانہ کیا تھا اور انہیں حضرت خالد بن ولید ؓسے جا ملنے کا حکم دیا تھا۔

(سیّدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد الصلابی مترجم صفحہ 416)

انبار کے لشکر کا سپہ سالار ساباط کا رئیس شِیرزاد تھا۔ وہ اپنے زمانے میں بڑا عقل مند ،معزز اور عرب و عجم میں ہردلعزیز عجمی تھا۔ ساباط بھی مدائن میں ایک مشہور جگہ کا نام ہے۔ بہرحال لکھا ہے کہ اہلِ انبار قلعہ بند ہو گئے اور ان لوگوں نے قلعہ کے ارد گرد خندق کھودی ہوئی تھی جس کو پانی سے بھر دیا گیا تھا اور یہ خندق قلعہ کی دیوار کے بہت قریب تھی۔ کوئی بھی مسلمان اگر اس کے قریب بھی ہوتا تو قلعہ کی دیواروں میں متعین مخالف سپاہی زبردست تیر اندازی سے مسلمانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے۔ وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ حضرت خالدؓ اپنے لشکر کے اگلے حصہ کو لے کر وہاں پہنچے۔ انہوں نے خندق کے اطراف ایک چکر لگایا، قلعہ کے دفاعی انتظامات کا جائزہ لیا اور اپنی خداداد فراست سے ایک منصوبہ بنایا۔ حضرت خالدؓ اپنے تیر اندازوں کے پاس گئے اور ایک ہزار تیر انداز منتخب کیے جو بہت اچھے نشانہ باز تھے اور ان کو ہدایت کی اور کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اصولِ جنگ سے بالکل ناآشنا ہیں۔ تم لوگ صرف ان کی آنکھوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بناؤ اور اس کے سوا کہیں اَور نہ مارو۔ چنانچہ

ان لوگوں نے ایک ساتھ تیر چلائے اور اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس روز تقریباً ایک ہزار آنکھیں پھوٹ گئیں۔

اسی لیے یہ جنگ ذات العیون کے نام سے بھی مشہور ہے یعنی آنکھوں والی جنگ۔

دشمنوں میں شور مچ گیا کہ اہلِ انبار کی آنکھیں جاتی رہیں لیکن اس پر بھی حاکم انبار نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے سے پس و پیش کی تو حضرت خالد بن ولید ؓاپنی فوج کے کچھ کمزور اور نڈھال اونٹ لے کر خندق کے تنگ ترین مقام پر آئے۔ پھر اونٹوں کو ذبح کر کے اس خندق میںڈال دیا جس سے وہ بھر گئی اور ان جانوروں سے ایک پل بن گیا۔ اب مسلمان اور مشرکین خندق میں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ یہ دیکھ کر دشمن پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گیا۔ چنانچہ حاکم انبار شیرزاد نے پھر حضرت خالد بن ولیدؓسے صلح کے لیے مراسلت کی اور درخواست کی کہ مجھ کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ جن کے ساتھ سامان وغیرہ کچھ نہ ہو یہاں سے نکلنے اور اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت خالد بن ولید ؓنے اس کو منظور کر لیا۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو مؤرخ اور سیرت نگار حضرت خالدؓپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ حضرت خالدؓ وحشت و بربریت کا بازار گرم رکھتے تھے اور قتل و غارت گری کیے جاتے تھے ان کے لیے قابل غور ہے کہ سخت ترین جنگ کرنے اور بار بار صلح کی پیشکش کو بھی قبول نہ کرنے کے باوجود اس پر، دشمن پہ غلبہ پا لیا اور اس نے جب یہاں سے جانے کی اجازت مانگی تو پھر تین دن کا سامانِ رسد ساتھ لے کر جانے کی اجازت بھی دے دی اور کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔

پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ ظلم کیا کرتے تھے۔

جب شیرزاد یہاں سے جان بچا کر بہمن جاذویہ کے پاس پہنچا اور اس کو واقعات سے مطلع کیا تو اس نے شیرزاد کو ملامت کی اور اس پر شیرزادنے کہا کہ میں وہاں ایسے لوگوں میں تھا جو عقل سے عاری تھے اور جو عربوں کی نسل سے تھے۔ اس کا مسلمانوں کی طرف اشارہ نہیں تھا بلکہ اہلِ انبار میں سے عرب قبیلے کے لوگوں کی طرف اشارہ تھا جن کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ شیرزادنے کہا میں نے سنا کہ مسلمان اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ہم پر حملہ آور ہیں اور جب بھی کوئی قوم اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر کام کرے تو فتح اس پر واجب ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب ان سے ہماری فوج کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے ہمارے قلعہ اور زمینی لشکر میں سے ایک ہزار آنکھیں پھوڑ ڈالیں۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ صلح کرنا ہی بہتر ہے۔ جب حضرت خالد بن ولید ؓ کو اور سب مسلمانوں کو انبار کے حالات کے بارے میں اطمینان ہو گیا اور اہلِ انبار بھی بے خوف ہو کر باہر آگئے تو حضرت خالد بن ولید ؓنے دیکھا کہ وہ لوگ عربی زبان لکھتے پڑھتے ہیں۔ تو حضرت خالدؓنے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم عرب کی ہی ایک قوم ہیں اور ہم یہاں ان عربوں کے پاس آکر اترے تھے جو ہم سے پہلے یہاں آباد تھے اور وہ پہلے عرب بخت نصر کے عہد میں آئے تھے جب اس نے عربوں کو آباد ہونے کی اجازت دی تھی اور پھر یہیں رہ پڑے۔ حضرت خالدؓنے پوچھا تم نے لکھنا کس سے سیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے لکھنا عربی قبیلہ بنو اِیاد سے سیکھا ہے۔ اس کے بعد حضرت خالد ؓنے انبار کے اطراف کے لوگوں سے بھی صلح کر لی۔

(تاریخ الطبری جلد 2صفحہ 323،322،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد3 صفحہ209 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر

جنگ عین التمر

بھی بارہ ہجری میں لڑی گئی، اس کا ذکر ہے۔ جب حضرت خالدؓ انبار کی فتح سے فارغ ہوئے اور وہ مکمل طور پر آپؓ کے قبضہ میں آ گیا تو آپؓ نے اس کے قریبی علاقہ عین التمر کا قصد کیا جو عراق اور صحرائے شام کے درمیان صحرا کے کنارے واقع ہے۔ انبار سے عین التمر تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ ایرانیوں کی طرف سے وہاں کا حاکم مہران بن بہرام تھا۔ وہ عجمیوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ ایرانی فوج کے علاوہ عرب کے مختلف بدوی قبائل بھی وہاں موجود تھے جن کا سردار عقہ بن ابی عقہ تھا۔ جب ان لوگوں نے حضرت خالد ؓکے متعلق سنا تو عقہ نے مہران سے کہا عرب عربوں سے جنگ کرنا خوب جانتے ہیں۔ پس ہمیں اور خالد کو چھوڑ دو۔ اس کو یہ زعم تھا کہ ہمیں پتا ہے ہم ان سے کس طرح جنگ کریں گے۔ مہران نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے کہ عربوں سے لڑنے میں تم ایسے ہی ماہر ہو جیسے ہم عجمیوں سے لڑنے میں ماہر ہیں۔ اس طرح اس نے عقہ کو دھوکا دیا اور اس کے ذریعہ اپنا بچاؤ کیا اور اس نے کہا: تم ان سے لڑو اگر تمہیں ہماری ضرورت ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ جب عقہ حضرت خالدؓ کے مقابلے کے لیے چلا گیا تو عجمیوں نے عقہ کے متعلق انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے مہران سے کہا۔ تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تم اس سے یہ بات کرو۔ اس نے کہا تم مجھے چھوڑ دو۔ میں نے وہی چاہا جو تمہارے لیے بہتر اور مسلمانوں کے لیے برا ہے۔ یقینا ًتمہارے پاس وہ بندہ آ رہا ہے جس نے تمہارے بادشاہوں تک کو قتل کر دیا ہے، حضرت خالد بن ولید ؓکے بارے میں کہا، بڑے زبردست سپہ سالار ہیں اور تمہاری شوکت و سطوت کو روند کر رکھ دیا ہے۔ پس میں نے تو عقہ کو ان کے مقابلے میں بطور ڈھال استعمال کیا ہے۔ اگر ان کو خالد کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی تو یہ فتح تمہاری ہو گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو تم مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں جاؤ گے مگر اس حال میں کہ وہ کمزور پڑچکے ہوں گے۔ پھر ہم ان سے جنگ کریں گے تو ہم طاقتور اور وہ کمزور ہوں گے۔ یہ بات سن کر انہوں نے مہران کی رائے کی برتری کا اعتراف کر لیا۔ مہران وہیں عین التمر میں مقیم رہا اور عقہ نے حضرت خالدؓ کے مقابلے کے لیے راستے میں پڑاؤ ڈال لیا۔

(ماخوذ از حضرت ابوبکرؓ صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ288-289)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ324، خبر عین التمر، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

عقہ ابھی اپنے لشکر کی صفیں ہی درست کر رہا تھا کہ حضرت خالدؓ نے بذاتِ خود اس پر حملہ کر دیا اور اسے قید کر لیا اور اس کا لشکر بغیر لڑائی کے ہی شکست کھا کر بھاگ گیا اور ان میں سے اکثر کو قید کر لیا گیا۔

جب یہ خبر مہران تک پہنچی تو وہ اپنے لشکر کو لے کر فرار ہو گیا اور انہوں نے قلعہ چھوڑ دیا۔ جب شکست کھانے والے اس قلعہ تک پہنچے، اس میں پناہ لی اور حضرت خالد ؓنے ان کا محاصرہ کر لیا جس پر انہوں نے حضرت خالد ؓسے امان طلب کی مگر آپؓ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے آپؓ کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے اور آپؓ نے انہیں قیدی بنا لیا اور عقہ اور جو لوگ اس کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے ان سب کو قتل کر دیا اور جو قلعہ میں تھے ان کو قید کر لیا اور جو سامان قلعہ میں موجود تھا اس کو بطور غنیمت لے لیا۔ آپؓ نے ان کے کلیسیا کے اندر چالیس لڑکوں کو پایا جنہیں عیسائیوں نے گروی بنا لیا تھا۔ یہ لڑکے بیشتر عربی نژاد تھے۔ ان لڑکوں کو اسلامی تاریخ میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ ان کی اولاد میں سے ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس عہد میں اور بعد کے عہد کی تاریخ پر گہرے اور اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان لڑکوں میں محمد بن سیرین کے والد سیرین، موسیٰ بن نصیر کے والد نصیر اور حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام حمران بھی شامل تھے۔ سیرین عراق کے رہنے والے تھے۔ معرکہ عین التمر میں قیدی ہوئے اور حضرت انس بن مالکؓ کے غلام بنے۔ وہ بہت بڑے صناع تھے۔ انہوں نے حضرت انسؓ سے مکاتبت کرتے ہوئے آزادی حاصل کر لی تھی۔ ان کے بیٹے کا نام محمد بن سیرین تھا جو مشہور تابعی تھے اور تفسیر اور حدیث اور فقہ اور تعبیر الرؤیا وغیرہ فنون میں امام تھے۔ یہ محمد بن سیرین ان کے بیٹے تھے جو جنگ میں قیدی بنائے گئے تھے اور پھر بعد میں انہوں نے آزادی لے لی۔ پھر نُصیر تھے یہ موسیٰ بن نُصیر کے والد تھے۔ یہ بنو امیہ کے قیدیوں میں سے تھے۔ بنو امیہ کے کسی شخص نے انہیں آزاد کروایا تھا۔ یہ اپنے بیٹے موسیٰ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ موسیٰ بن نُصیر نے شمالی افریقہ میں شہرت پائی اور طارق بن زیادکے ساتھ مل کر سپین میں اسلامی حکومت قائم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔

پھر حمران بن ابان بھی معرکہ عین التمر کے قیدیوں میں سے تھے۔ یہ یہود میں سے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے انہیں آزاد کروا دیا۔

حضرت عثمان ؓکا خاص قرب پانے والے تھے۔ اکتالیس ہجری میں یہ کچھ عرصہ کے لیے بصرہ کے حاکم بنے اور بعد میں بنو امیہ کی حکومت میں بڑا نام پیدا کیا۔ حضرت خالد ؓنے فتح کی خوشخبری اور خُمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔

(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ 246، ذکر فتح عین التمر، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)
(سیرالصحابہ جلد 3صفحہ 277-278 دار الاشاعت کراچی)
(فتوح البلدان مترجم صفحہ 325، 346)
(مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، جزء 6 صفحہ 228دار الکتب العلمیۃ)
(تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 169، 524 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

انبار اور عین التمر کی فتح کے بعد خالدؓ نے ولید بن عقبہ کو خمس دے کر فتح کی خوشخبری کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجا۔

انہوں نے مدینہ پہنچ کر انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خالد نے ان کے احکام نظر انداز کرتے ہوئے حِیْرَہ اس لیے چھوڑا اور انبار اور عین التمر پر اس لیے چڑھائی کی کہ انہیں حِیْرَہ میں قیام کیے ہوئے پورا ایک سال ہو گیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ہدایت دی تھی وہاں حِیْرَہ میں انتظار کرنا لیکن بہرحال انہوں نے یہ کیا۔ ان حالات میں اسی کو بہتر سمجھا اور عیاض کا کچھ پتا نہ تھا کہ وہ کب دومة الجندل سے فارغ ہو کر خالد کی مدد کے لیے حِیْرَہ پہنچتے ہیں۔ دیر ہو گئی تھی۔ عیاض وہاں پہنچ نہیں رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی عیاض کی سست روی سے تنگ آچکے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ اگر دشمن کو خالدؓ کے ان کارناموں کی اطلاعات ملتی رہتیں جو انہوں نے عراق میں انجام دیے تھے تو یقینا ًوہ عیاض کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو سخت زک پہنچاتے۔

(حضرت ابوبکر صدیقؓ اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ325 اسلامی کتب خانہ لاہور)

پھر

جنگِ دومة الجندل ہے۔

یہ بھی بارہ ہجری کی ہے۔ دومة الجندل دمشق سے پانچ راتوں اور مدینہ سے پندرہ راتوں کی مسافت پر ایک شہر ہے۔ یعنی اس زمانے کے جو سفر کے ذرائع تھے اس کے مطابق۔ شام کا یہ شہر مدینہ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ حضرت عیاض بن غنم جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے دومہ کی طرف بھیجا تھا انہیں طویل مدت تک دشمن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اس لیے وہ حضرت خالد ؓسے نہ مل سکے۔ جب حضرت خالدؓ نے ولید بن عقبہ کو عین التمر کی فتح کی خبر دے کر حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ کو عیاض کے بارے میں پریشانی ہوئی۔ چنانچہ آپؓ نے ولید بن عقبہ کو عیاض کی مدد کے لیے بھیج دیا۔

(ابو بکر الصدیق اول الخلفاء الراشدین از محمد رضاصفحہ 124،داراحیاء الکتب العربیہ1950ء)

جب ولید بن عقبہ حضرت عیاضؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عیاضؓ نے دشمن کو گھیر رکھا ہے اور دشمن نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ان کا راستہ بھی روک رکھا ہے۔ ولید بن عقبہ نے حضرت عیاضؓ سے کہا کہ بعض اوقات فوج کی کثرت تعداد کے مقابلے میں ایک عقل کی بات زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ آپ حضرت خالد بن ولید ؓکے پاس قاصد بھیجیے اور ان سے مدد طلب کیجئے۔ حضرت عیاضؓ کے لیے ولید کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومة الجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نہ نظر آتی تھی۔ حضرت عیاضؓ نے ایسا ہی کیا۔ جب ان کا قاصد مدد طلب کرنے کے لیے حضرت خالد ؓکے پاس پہنچا تو اس وقت عین التمر فتح ہو چکا تھا۔ انہوں نے حضرت عیاضؓ کے نام ایک مختصر خط دے کر قاصد کو فوراً واپس کر دیا کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو جائے۔ خط میں لکھا تھا کہ تھوڑا ٹھہریں۔ سواریاں آپ کے پاس پہنچ رہی ہیں جن پر شیر سوار ہوں گے اور تلواریں چمک رہی ہوں گی اور لشکر فوج در فوج پہنچ رہے ہوں گے۔ پھر

حضرت خالد بن ولید ؓکی دومة الجندل روانگی

کے بارے میں آتا ہے کہ جب حضرت خالدؓ عین التمر کی فتح سے فارغ ہوئے تو اس میں عویم بن کاہل اسلمی کو نگران مقرر کیا اور خود اپنی فوج کو جو عین التمر میں تھی لے کر دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔ تین سو میل کا یہ فاصلہ حضرت خالد بن ولید ؓ نے دس روز سے بھی کم عرصہ میں طے کیا۔

اہل دومہ کو حضرت خالد ؓکے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حلیف قبائل سے مدد طلب کی۔ یہ قبائل اپنے ساتھ کئی اَور قبائل کو ملا کر دومة الجندل پہنچے اور ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل حضرت عیاضؓ ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے۔ دومة الجندل کی فوج دو بڑے حصوںمیں منقسم تھی۔

(ماخوذ از حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 290-291 )
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2 صفحہ 324-325 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیدنا ابوبکرصدیقؓ شخصیت و کارنامے از علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ418فرقان ٹرسٹ مظفرگڑھ)

فوج کے دو سردار تھے۔ ایک اُکیدر بن عبدالملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ۔ جب ان کو حضرت خالد ؓکی آمد کی اطلاع ملی تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ اکیدر نے کہا کہ میں خالد کو خوب جانتا ہوں اس سے بڑھ کر کوئی شخص اقبال مند نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ کوئی جنگ میں تیز ہے۔ جو قوم خالد سے مقابلہ کرتی ہے خواہ وہ تعداد میں کم ہو یا زیادہ ضرور شکست پاتی ہے ۔ تم لوگ میرے مشورے پہ عمل کرو اور ان لوگوں سے صلح کر لو مگر انہوں نے اس کا انکار کر دیا اس پر اکیدر نے کہا میں خالد کے ساتھ لڑنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ تم جانواور تمہارا کام جانے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا۔ اس کی اطلاع حضرت خالدؓ کو ہو گئی۔ انہوں نے اس کا راستہ روکنے کے لیے عاصم بن عمرو کو بھیجا۔ صلح کے لیے راضی نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں سے چھوڑکے چلا گیا، اپنے علاقے کی طرف جا رہا تھا۔ عاصم نے اکیدر کو جا پکڑا۔ اس نے کہا تم مجھے اپنے امیر خالد کے پاس لے چلو۔ جب وہ حضرت خالد ؓکے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اکیدر کو قتل کروا دیا اور اس کے تمام سامان پر قبضہ کر لیا۔

(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2صفحہ325دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکیدر کو قید کرنے کے بعد کیوں قتل کیا گیا تھا تو اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت خالدؓ کو غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیدر کی طرف روانہ کیا تھا۔ آپؓ اس کو قید کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کر کے اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سے معاہدہ لکھوایا تھا لیکن اس نے اس کے بعد بدعہدی کی اور اس نے مدینہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔

(حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 327-328 اسلامی کتب خانہ لاہور)

جس وقت اکیدر کو حضرت خالد ؓکے دومة الجندل آنے کی اطلاع ملی تو یہ اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا۔ حضرت خالد ؓکو دومة الجندل کے راستے میں اس کی خبر ملی جیسا بیان ہوا ہے۔ آپؓ نے عاصم بن عمرو کو اس کے گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا۔ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کی سابقہ خیانت کی وجہ سے حضرت خالد ؓنے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی خیانت اور غداری کی وجہ سے اسے ہلاک کیا۔

(سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 419)

بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے قید کر کے مدینہ بھیج دیا گیا تھا اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اسے رہائی ملی اور وہ مدینہ سے عراق چلا گیا۔ وہاں عین التمر کے مقام دومہ ہی میں قیام پذیر ہوا اور آخر تک وہیں رہا۔ (حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ328 اسلامی کتب خانہ لاہور) یہ دو روایتیں ہیں۔

بہرحال اہلِ دومہ سے لڑائی کا جو واقعہ ہے اس بارہ میں لکھا ہے کہ حضرت خالد ؓآگے بڑھ کر دومہ پہنچے۔ حضرت خالدؓ نے دومہ کو اپنی اور حضرت عیاضؓ کی فوج کے وسط میں لے لیا۔ نصرانی عرب جو اہلِ دومہ کی امداد کے لیے آئے تھے وہ قلعہ کے اطراف میں بیرونی جانب تھے کیونکہ قلعہ میں ان کی گنجائش نہیں تھی۔ جب حضرت خالدؓ اطمینان سے صف آرائی کر چکے تو دومہ کے سرداروں نے قلعہ سے نکل کر حضرت خالدؓ پر حملہ کر دیا۔ دونوں فریقوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ بالآخر حضرت خالدؓ اور حضرت عیاضؓ نے اپنے مدمقابل کو شکست دی۔ حضرت خالدؓ نے ایک سردار جودی اور حضرت اقرع بن حابس ؓنے وَدِیعہ کو گرفتار کر لیا جو قبیلہ کلب کا سردار تھا۔ باقی لوگ پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گئے مگر قلعہ میں کافی گنجائش نہیں تھی۔ جب قلعہ بھر گیا تو اندر والوں نے بہت سے لوگوں کو باہر چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ بند کر لیا جس کی وجہ سے باہر کے لوگ حیران و پریشان پھرنے لگے۔ عاصم بن عمرو نے کہا اے بنو تمیم! اپنے حلیف قبیلہ کلب کی مدد کرو اور ان کو پناہ دو کیونکہ تمہیں ان کی امداد کا ایسا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ یہ سن کر بنو تمیم نے ان کی مدد کی ۔ اس روز عاصم کے امان دینے کی وجہ سے کلب قبیلہ کی جان بچ گئی۔ حضرت خالدؓ نے قلعہ کی طرف پسپا ہونے والوں کا پیچھا کیا اور اتنے آدمی قتل کیے کہ ان کی لاشوں سے قلعہ کا دروازہ مسدود ہو گیا۔ پھر جودی اور اس کے ساتھ باقی قیدیوں کو بھی قتل کر دیا۔ صرف کلب کے قیدی بچ گئے کیونکہ عاصم اور اقرع اور بنو تمیم نے کہہ دیا تھا کہ ہم نے ان کو امان دی ہے۔ پھر حضرت خالدؓ قلعہ کے دروازے پر مسلسل چکر لگاتے رہے یہاں تک کہ اس کو توڑ کر دم لیا۔ مسلمان قلعہ میں گھس گئے۔ جنگجوؤں کو قتل کیا گیا اور نوعمروں کو قیدی بنا لیا گیا۔

(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2صفحہ325دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء )

فتح کے بعد حضرت خالد ؓنے اقرع بن حابس کو انبار واپس جانے کا حکم دیا اور خود دومة الجندل میں قیام کیا۔

( حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 293)

دومة الجندل کے فتح ہونے سے مسلمانوں کو جنگی اعتبار سے بڑا اہم مقام حاصل ہو گیا کیونکہ دومة الجندل ایسے راستے پر واقع تھا جہاں سے تین سمتوں میں اہم راستے نکلتے تھے۔

جنوب میں جزیرہ نمائےعرب اور شمال مشرق میں عراق اور شمال مغرب میں شام۔ طبعی طور پر یہ شہر حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کی فوج کی توجہ اور اہتمام کا مستحق تھا جو عراق میں برسرپیکار تھی اور شام کی سرحدوں پر کھڑی تھی۔ یہی سبب تھا کہ حضرت عیاضؓ نے دومة الجندل سے حرکت نہ کی بلکہ وہاں ڈٹے رہے اور حضرت خالدؓ کے وہاں پہنچنے کا انتظار کیا۔ اگر دومة الجندل مسلمانوں کے قبضہ میں نہ آتا تو عراق میں مسلم فوجوں کے لیے خطرات کا سامنا تھا۔

(سیدنا ابو بکر صدیق ؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 419-420)

پھر

جنگِ حصید اور خنافس

کا ذکر ہے۔ حصید کوفہ اور شام کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ خنافس عراق کی طرف انبار کے قریب ایک جگہ ہے۔لکھاہے کہ حضرت خالد بن ولید ؓدومةالجندل میں مقیم تھے اور عجمی بدستور حضرت خالدؓ کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ عقہ کے انتقام کے جوش میں جزیرے کے عربوں نے عجمیوں سے ساز باز کر لی تھی۔ چنانچہ بغداد سے زرمہراور اس کے ساتھ روزبہ انبار کی طرف روانہ ہوئے اور دونوں نے حصید اورخنافس پر ملنے کا وعدہ کیا۔ حِیْرَہ میں حضرت خالد بن ولید ؓکے نائب حضرت قعقاع بن عمرؓو نے یہ خبر سنی تو آپؓ نے اعبد بن فدکی کو حصید کی طرف پہنچنے کا حکم دیا اور عروہ بن جعد کو خنافس کی طرف روانہ کیا۔ حضرت خالد بن ولید ؓدومہ سے حِیْرَہ واپس آئے تو آپؓ کو بھی اس کی اطلاع ملی ۔ حضرت خالد ؓکا مدائن پر چڑھائی کا ارادہ تھا مگر یہاں پہنچ کر جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت قعقاع بن عمروؓ اور ابولیلی کو روزبہ اور زرمہر کے مقابلے کے لیے بھیج دیا۔ حضرت خالد بن ولید ؓکے پاس امراء القیس کلبی کا خط آیا۔ یہ قبیلہ قضاعہ اور کلب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں یہ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا خط آیا کہ ھذیل بن عمران نے مصیخ میں اور ربیعہ بن بجیر نے ثنی اور بشر میں فوجیں جمع کی ہیں یہ لوگ عقہ کے انتقام کے جوش میں روزبہ اور زرمہر کے پاس جا رہے ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی حضرت خالد بن ولید ؓنے حِیْرَہ پر حضرت عیاض بن غنم ؓکو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ آپؓ نے خنافس جانے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس سے قعقاع اور ابولیلی گئے تھے۔ آپؓ عین التمر میں ان دونوں سے مل گئے۔ یہاں آ کر آپ نے حضرت قعقاعؓ کو امیرِ فوج بنایا اور ان کو حصیدکی طرف روانہ کیا اور ابو لیلی کو خنافس کی طرف بھیجااور ان دونوں کو حکم دیا کہ دشمن اور ان کے بھڑکانے والوں کو گھیر کر ایک جگہ جمع کرو اور اگر وہ جمع نہ ہوں تو اسی حالت میں ان پر حملہ کر دو۔ حضرت قعقاعؓ نے جب دیکھا کہ زرمہر اور روزبہ کوئی حرکت نہیں کر رہے تو انہوں نے حصید کی طرف پیش قدمی کی۔ اس طرف کی عربی و عجمی فوجوں کا سردار روزبہ تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ قعقاع اس کی طرف آ رہے ہیں تو اس نے زرمہر سے مدد طلب کی۔ زرمہر نے اپنی فوج پر نائب مقرر کیا اور بذات خود روزبہ کی مدد کے لیے آیا۔ حصید میں دونوں فریقوں کا مقابلہ ہوا۔ بڑی شدت کی جنگ ہوئی۔ اللہ نے عجمیوں کی بہت بڑی تعداد کو قتل کرایا۔ قعقاع نے زرمہر کو قتل کیا اور روزبہ بھی مارا گیا۔ اس جنگ میں کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حصید کے بھاگے ہوئے لوگ خنافس میں جا کرجمع ہو گئے۔ جنگ خنافس کے بارے میں لکھا ہے کہ ابولیلی اپنی فوج اور جو کمک ان کے پاس آئی تھی ان کو لے کر خنافس کی طرف نکلے۔ حصید کا شکست خوردہ لشکر زرمہر کے نائب کے پاس پہنچا۔ جب اس کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ خنافس چھوڑ کر سب کے ساتھ مصیخ بھاگ گیا۔ وہاں کا افسرھذیل تھا۔ خنافس کی فتح کے لیے ابولیلی کو کچھ دشواری پیش نہ آئی۔ ان تمام فتوحات کی اطلاع حضرت خالد بن ولید ؓکی خدمت میں بھیج دی گئی۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 325-326۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 307، 446)
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 205 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جنگ مصیّخ۔

حضرت خالد بن ولید ؓکو اہلِ حصید اور اہل خنافس کے بھاگنے کی اطلاع ہوئی تو آپؓ نے حضرت قعقاعؓ، ابولیلی اعبد اور عروہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان کو ایک رات ایک وقت مقرر کر کے مصیخ پر ملنے کا وعدہ کیا۔ مصیخ حوران اور قلت کے درمیان واقع ہے۔ حوران بھی دمشق کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے جہاں بیشمار بستیاں اور کھیت ہیں۔حضرت خالد بن ولید ؓعین التمر سے مصیخ روانہ ہوئے اور مقررہ رات کو طے شدہ وقت کے مطابق حضرت خالد بن ولید ؓاور ان کے افسروں نے مصیخ پر ایک دم حملہ کر دیا اور ھذیل اس کی فوج اور تمام پناہ گزینوں پر تین اطراف سے حملہ کر دیا اور ھذیل چند لوگوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ گیا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 326 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ109زوار اکیڈمی کراچی)

اس جنگ کے دوران دو ایسے مسلمان اسلامی فوج کے ہاتھ مارے گئے جو مصیخ میں مقیم تھے اور جن کے پاس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطا کیا ہوا امان نامہ بھی تھا۔ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓکو ان کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کا خون بہا ادا کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے اصرار کیا کہ حضرت خالد بن ولید ؓکو ان کے اس فعل کی سزا ملنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ بڑے پرجوش تھے کہ کیوں مسلمانوں کو قتل کیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو مسلمان دشمن کی سرزمین میں دشمن کے ساتھ قیام پذیر ہوں گے ان کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس طرح ہو جاتا ہے۔ تاہم حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اولاد کی پرورش اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق وصیت بھی فرمائی۔

(حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از ہیکل صفحہ 311)
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ327۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ثنی اور زمیل کا واقعہ۔

زمیل ایک مقام ہے۔ اس کا نام بشر بھی آتا ہے۔ یہ ثنی مقام کے ساتھ ہے۔ عقہ جو معرکہ عین التمر میں مارا گیا تھا اس کے انتقام کے جوش میں ربیعہ بن بجیر اپنی فوج کو لے کر ثنی اور بشر میں اترا اور حضر ت خالدؓ نے مصیخ کے معرکہ کو سر کر کے قعقاع اور ابولیلی کو اپنے آگے روانہ کر دیا اور ایک رات مقرر کر کے طے کیا کہ ہم سب مصیخ کی طرح یہاں بھی تین مختلف سمتوں سے دشمن پر حملہ کریں گے۔ اس کے بعد حضرت خالد ؓمصیخ سے چل کر مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے زمیل آئے۔ حضرت خالدؓنے ثنی سے آغاز کیا۔ یہاں ان کے دونوں ساتھی بھی ان سے مل گئے۔ ان تینوں نے رات کے وقت تینوں اطراف سے ربیعہ کی فوج پر اور ان لوگوں پر جو بڑی شان سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے تھے شب خون مارا اور تلواریں سونت کر ان کا ایسا صفایا کیا کہ کوئی بھاگ کر کہیں خبر بھی نہ دے سکا۔ ان کی عورتیں گرفتار کر لی گئیں۔ بیت المال کا خمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا گیا اور باقی مال غنیمت مسلمان لشکر میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہذیل جس نے جنگ مصیخ میں بھی شکست کھا کر جان بچائی تھی وہ حسب وعدہ ربیعہ بن بجیر کی فوج میں شامل ہوا۔ اب پھر اس نے بھاگ کر زمیل میںعتاب کے پاس پناہ لی۔ عتاب ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ بشر میں قیام پذیر تھا۔ اس سے پہلے کہ اس تک ربیعہ کے خاتمہ کی خبر پہنچتی حضرت خالدؓ نے اس پر بھی تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ اس معرکہ میں بھی کثرت سے آدمی قتل ہوئے اور بےشمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حضرت خالد ؓنے مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور خُمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت خالدؓ بشر کے قریب ایک مقام رضاب کی طرف مڑے۔ وہاں کا افسر ہلال بن عقہ تھا۔ اس کی فوج کو جب حضرت خالدؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اس سے الگ ہو گئی۔ مجبورا ًہلال وہاں سے بھاگ نکلا اور مسلمانوں نے بغیر کسی دِقّت کے رضاب کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔

(تاریخ الطبری جلد2صفحہ327-328 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)
(معجم البلدان جلد 3صفحہ 170، دارالکتب العلمیۃ بیروت )

پھر

جنگ فراض

کے بارے میں آتا ہے۔ فراض بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ یہاں شام، عراق اور جزیرے کے راستے آ کر ملتے ہیں۔ یہ معرکہ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ذی قعدہ بارہ ہجری میں فراض کے مقام پر ہوا۔ اسی نسبت سے یہ جنگ جنگ فراض کے نام سے مشہور ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید ؓرضاب پر قبضہ کر کے فراض پہنچے۔ اس سفر میں حضرت خالدؓ کو بہت سی لڑائیاں پیش آئیں۔ یہاں حضرت خالد ؓرمضان کے روزے بھی نہ رکھ سکے۔ خالدؓ کے ان اچانک حملوں اور قبائل کے ان کے مقابل پہ عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحرا میں رہنے والے تمام قبائل خوفزدہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوجوں کے ہمراہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور وہ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے ان سے مصالحت کر لیتے اور ان کی اطاعت کرنے کا اقرار کرتے۔ آخر وہ فراض پہنچ گئے جہاں شام عراق اور الجزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں۔ فراض عراق اور شام کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اگر عیاض بن غنم کی قسمت ساتھ دیتی اور وہ ابتدا ہی سے دومة الجندل فتح کر لیتے تو غالباً خالدیہاں تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کا منشا سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھا۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور ان اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں لیکن اللہ کو یہی منظور تھا کہ یہ دونوں مملکتیں مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آ جائیں اس لیے اس نے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ خالد عراقی قبائل کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال تک چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔

ایرانی سرحدوں سے رومیوں پر حملہ کا رستہ کھل جانا ایک ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نہیں آ سکا

اور یہ کارنامہ ایسے شخص کے ہاتھوں رونما ہوا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب اور عجم کی عورتیں واقعی عاجز رہیں جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا۔ فراض میں خالد کو کامل ایک مہینے تک قیام کرناپڑا۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی جرأت اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ چاروں طرف سے دشمن میں گھرے ہوئے تھے۔ مشرقی جانب ایرانی تھے جو ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ مغربی جانب رومی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ اگر اس وقت خالد کی جمعیت کو تباہ و برباد نہ کیا تو پھر یہ سیلاب روکے نہ رکے گا۔ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان صرف دریائے فرات حائل تھا۔ ان کے علاوہ چاروں طرف بدوی قبائل آباد تھے جن کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر کے خالد نے ان کے دلوں میں انتقام کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکا دی تھی۔ اس نازک صورتحال سے خالد لاعلم نہ تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حِیْرَہ واپس آ کر اپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے پھر رومیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ دشمن کو سامنے دیکھ کر خالد کے لیے صبر کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ طبیعت ایسی تھی ان کی۔ ان کی نظروں میں کیا ایرانی اور کیا اہل بادیہ سب قابل تسخیر تھے۔ ان کی عظیم الشان فوجوں کو وہ نہ پہلے کبھی خاطر میں لائے اور نہ آئندہ خاطر میں لانے کو تیار تھے، اس لیے وہ بڑے اطمینان سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول رہے۔ ادھر رومیوں کو ابھی تک خالد سے واسطہ نہ پڑا تھااور وہ ان کے حملے کی شدت سے ناواقف تھے۔ جب اسلامی فوجیں فراض میں اکٹھی ہو گئیں اور برابر ایک مہینے تک ان کے سامنے ڈیرے ڈالے پڑی رہیں تو انہیں بہت جوش آیا اور انہوں نے اپنے قریب کی ایرانی چوکیوں سے مدد مانگی۔

ایرانیوں نے بڑی خوشی سے رومیوں کی مدد کی کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا تھا اور ان کی شان و شوکت کو تہ و بالا کر کے ان کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔

ایرانیوں کے علاوہ تغلب، ایاداور نمر کے عربی النسل قبائل نے بھی رومیوں کی پوری پوری مدد کی کیونکہ وہ اپنے رؤوسا اور سربرآوردہ اشخاص کے قتل کو بھولے نہیں تھے۔ چنانچہ رومیوں، ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوا۔ دریائے فرات پر پہنچ کر انہوں نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ تم دریا کو عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہم دریا کو عبور کر کے تمہاری طرف آئیں۔ حضرت خالدؓ نے جواب دیا تم ہی ہماری طرف آ جاؤ۔ تم لڑنے آئے ہو تو ادھر آ جاؤ۔ چنانچہ دشمن کا لشکر دریا عبور کر کے دوسری جانب اترنا شروع ہوا۔ اس دوران میں حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنے لشکر کی اچھی طرح اور باقاعدہ صفیں قائم کر کے انہیں دشمن سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار کر دیا۔ جب لڑائی شروع ہونے کا وقت آیا تو رومی لشکر کے سپہ سالار نے فوج کو حکم دیا کہ تمام قبائل علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تا کہ معلوم ہو سکے کس گروہ نے زیادہ شاندار کارنامہ انجام دیا ہےچنانچہ ساری فوج اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ہو گئی۔ لڑائی شروع ہوئی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ چاروں طرف سے دشمن کو گھیر لیں اور انہیں ایک جگہ جمع کر دیں۔ اس طرح پے در پے حملے کریں کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسلامی دستوں نے رومی لشکر کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر دیا اور ان پر پُرزور حملے شروع کر دیے۔ رومیوں اور ان کے حلیفوں کا خیال تھا کہ وہ قبائل کو علیحدہ علیحدہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج کر لڑائی کو زیادہ طول دے سکیں گے اور جب مسلمان تھک کر چور ہو جائیں گے تو ان پر بھرپور حملہ کر کے انہیں مکمل طور پر شکست دے دیں گے لیکن

ان کا یہ خیال خام ثابت ہوا اور ان کی تدبیر خود ان پر الٹ پڑی۔

جب مسلمانوں نے انہیں ایک جگہ جمع کر کے ان پر حملے شروع کیے تو وہ ان کی تاب نہ لا سکے اور بہت جلد شکست کھا کر میدان جنگ سے فرار ہونے لگے لیکن مسلمان انہیں کہاں چھوڑنے والے تھے، انہوں نے ان کا پیچھا کیا اور دور تک انہیں قتل کرتے چلے گئے۔ تمام مؤرخین اس امر پر متفق ہیں کہ اس معرکہ میں میدانِ جنگ اور بعد ازاں تعاقب میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے۔ فتح کے بعد حضرت خالدؓ نے فراض میں دس دن قیام کیا اور پچیس ذی قعدہ بارہ ہجری کو انہوں نے اپنی فوج کو واپس حِیْرَہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔

(حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ312تا 315،بک کارنر شوروم جہلم )
(تاریخ طبری جلد 2صفحہ 328دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 276)

ایک مصنف اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں پہلی مرتبہ روم و ایران کی دونوں سپر طاقتوں اور ان کے ہمنوا عرب فوجوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی اور بلا شبہ یہ معرکہ تاریخی اور فیصلہ کن معرکوںمیں سے رہا۔ اگرچہ اس کو وہ شہرت حاصل نہ ہوئی جو دیگر بڑے معرکوں کو حاصل ہوئی لیکن بہرحال اس سے کفار کی اندرونی قوت ختم ہو گئی خواہ وہ ایران سے تعلق رکھتے ہوں یا روم سے یا عرب اور عراق سے۔ عراق میں خالد سیف اللہ نے جو معرکے سر کیے یہ اس کی آخری کڑی تھی۔ اس معرکہ کے بعد ایرانیوں کی شان و شوکت خاک میں مل گئی۔ پھر اس کے بعد ان کو ایسی جنگی قوت حاصل نہ ہو سکی جس سے مسلمان خوفزدہ ہوں۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے ازصلابی صفحہ423)

ایک مؤرخ نے

جنگ فراض کی اہمیت

کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ اُلیس میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی لشکر کی کمر ٹوٹ گئی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے پیش قدمی جاری رکھی اور بالترتیب امغیشیا، حیرہ، انبار، عین التمر اور دومة الجندل کو فتح کر لیا اور بالآخر فراض کے مقام تک جا پہنچے۔ فراض دریائے فرات پر واقع ایک شہر تھا جو کہ سلطنتِ روم کی سرحد سے بہت نزدیک تھا۔ یہاں رومیوں، ایرانیوں اور عیسائی قبائل کا متحدہ لشکر مسلمانوں سے نبرد آزما ہوا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے کفار کی اس بھاری جمعیت کو بھی شکست فاش دی۔ فاتح عراق سیدنا خالد بن ولیدؓ نے عراق کو ایک سال دو ماہ میں فتح کر لیا۔ ان کے ساتھ کل دس ہزار فوجی تھے اور تقریباً اتنے ہی فوجی دیگر اسلامی سپہ سالاروں کے ساتھ تھے۔ اتنی قلیل فوج نے اس مدت میں جو شاندار کارنامے سرانجام دیے وہ تاریخ میں بے مثال ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ہر معرکہ میں شامل ہوئے، انہیں کسی موقع پر بھی شکست کامنہ نہ دیکھنا پڑا۔ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؓ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب ملا تھا اور آپؓ نے اس خطاب کا حق ادا کر دیا۔ پھر آپؓ نے جو علاقے فتح کیے ان میں اتنا عمدہ بندوبست کیا کہ لوگ ایرانی حکومت کے مقابلے میں عرب حکومت کو پسند کرنے لگے۔ بہرحال عراق کی آخری فتح فراض مقام کی فتح تھی۔ حضرت خالدؓ دس روز تک فراض میں قیام پذیر رہے۔ پھر نصف لشکر لے کر شام کے محاذ پر روانہ ہو گئے۔

عراق کی فتح پر ایک نظر

ڈالتے ہیں۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ عراق پر چڑھائی بہت بڑی کامیابی کی علامت تھی۔ وہاں مسلمانوں نے فارسی افواج کو جو ان سے تعداد اور سامان حرب میں کہیں زیادہ طاقتور تھیں پے در پے تباہ کن شکستیں دیں۔ یاد رہے کہ فارسی لشکر اپنے وقت کا سب سے مہلک جنگی لشکر تھا۔ عہد صدیقی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عسکری میدان میں تمام تر کامیابی خالد بن ولیدؓ اور ان کے رفقاء و سپہ سالاروں کی مرہون منت ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان فتوحات اور کامیابیوں کو حضرت ابوبکرؓ جیسی عظیم شخصیت کی سرپرستی حاصل تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ

کسی فوج کا کوئی بڑے سے بڑا باصلاحیت سپہ سالار ایسے تیقن اور یکسوئی اور وفاداری اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اسے سربراہ مملکت کی ذاتی خوبیوں اور اعلیٰ کردار نے متاثر نہ کیا ہو۔

منکرین اور ارتداد اور بغاوت کی جنگوں سے لے کر فتح عراق کے تمام مراحل کے دوران جس ذاتی نمونے،حسن انتظام اور استقلال کا مظاہرہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے پیش کیا اس نے امت مسلمہ کے دلوں کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے گرمائے رکھا۔ جہاں ان کے تمام احکامات اور ہدایات جامعیت اور فہم و فراست سے لبریز تھے وہاں ان کا ذاتی کردار ان سے کہیں زیادہ ممتاز تھا۔ کوئی راہنما استقلال اور اولوالعزمی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا پیش کر سکتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک کوئی ایسا موقع نظرنہیں آیا جہاں انہوں نے اپنے جاری کردہ احکام اور ضوابط کو ذاتی وقار یا کسی شخصی دباؤ کے سامنے جھک کر تبدیل کیا ہو۔ یہی نہیں بلکہ باصلاحیت ماتحتوں کی کارگزاری کے لیے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کے لیے اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فزوں تر کرنے کے لیے جس حسن ظن اور اعتماد کا نمونہ حضرت ابوبکرؓ نے پیش کیا اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کیا کوئی ماتحت ایسے راہنما کے احکام کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھے گا جو بذات خود اپنے راہنما کے ارشادات و فرمودات اور اقدار کی خاطر انتہائی وفا داری اور بے دریغ قربانی پیش کرنے کا زندہ نمونہ ہو جیساکہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود تھے۔ سیدنا حضرت خالد ؓکی عسکری قابلیت بجا طور پر ان کو دنیا کے عظیم سپہ سالاروں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے

اپنے مخالفین کے مقابلے میں جن حکمت حرب کے اصولوں کو سیدنا خالدؓ نے اپنایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سیدنا خالدؓ نےجن اصولوں کو مرتب کیا وہ عسکری تاریخ کے درخشندہ باب ہیں۔

سیدنا خالد کی ہمت طلب منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت اور ان کی فوج کی مسلسل حرکت ان کے سب سے اہم وسیلے تھے۔ ان دونوں چیزوں سے سیدنا خالد نے قوت برداشت کی آخری حد تک استفادہ کیا اور یہ صرف اس لیے ممکن تھا کہ انہوں نے اپنے سپاہ کو کبھی ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جس کو انہوں نے خود نہ جھیلا ہو۔ جہاں خلیفہ اول کو تاریخ اسلام میں ایک ممتاز ترین مقام حاصل ہے وہاں پر سیدنا خالد ؓبھی ان نامور سپہ سالاروں میں سے سب سے پہلے تھے جو بیرونی علاقوں کو فتح کرنے اور دنیا کے سیاسی و مذہبی نقشے کو نئی شکل دینے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دست راست تھے۔ جس طرح ہر مسلمان حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیاسی و روحانی راہنمائی میں اور سیدنا خالدؓ کی عسکری قیادت کے ذریعہ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک تند طوفان کی طرح چھا گئے اب وہ اسی طرح ایک دوسری سلطنت پر دھاوا کرنے والے تھے اور وہ مشرقی روما تھا۔

(سیرت سیدنا صدیق اکبرؓ از ابو النصر مترجم صفحہ679-681)

بہرحال یہ کچھ تھوڑا سا حصہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کا ہے۔ بقایا ان شاء اللہ آئندہ پیش ہو گا ۔جیسا کہ میں نے کہا تھا کچھ وقت زائد لگے گا۔ یہ جنگوں کا سلسلہ ختم ہوا۔

اگلے جمعہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسہ کو بابرکت فرمائے۔

شامل ہونے والے جو آ رہے ہیں وہ بھی، ان کا سفر بھی خیریت سے ہو۔خیریت سے آئیں شامل ہونے کے لیے۔ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فرائض صحیح طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور کیونکہ دو سال بلکہ تین سال کے وقفہ کے بعد بڑا جلسہ ہو رہا ہے، پچھلے سال ہوا تھا لیکن چھوٹے پیمانے پر،تو مکمل طور پر بڑا جلسہ اب ہو رہا ہے اس لیے بعض دقتیں بھی ہوں گی۔

اللہ تعالیٰ جو بھی انتظامی دقتیں ہیں یا جو بھی دقتیں کسی بھی صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں ان کو دور فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 19؍اگست 2022ءصفحہ5تا11)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button