خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 8؍جولائی 2022ء

ابوبکر بڑے دُور اندیش گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھےجہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے، جہاں عفو و درگزر کی ضرورت ہوتی عفو و درگزر سے کام لیتے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دَورخلافت میں باغیوں اور مرتدین کے خلاف ہونے والی گیارھویں مہم کا تفصیلی ذکر

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 8؍جولائی 2022ء بمطابق 8؍وفا 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کی مہمات کا جو باغیوں کے خلاف تھیں ذکر

چل رہا ہے۔ اس سلسلہ میں

گیارھویں مہم

کے بارہ میں لکھا ہے کہ یہ مہم مُہَاجِربن ابو امیہؓ کی یمن کے مرتد باغیوں کے خلاف تھی۔ حضرت ابوبکرؓنے ایک جھنڈا حضرت مُہَاجِربن ابو امیہؓ کو دیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اَسْوَدعنسی کی فوج کامقابلہ کریں اور ابناء کی مدد کریں جن سے قَیْس بن مَکْشُوح اور دوسرے اہلِ یمن برسرپیکار تھے۔ اس وقت یمن میں دو اہم طبقے تھے۔ ایک اصلی باشندے جن کا تعلق سبا اور حِمْیَر کے خاندان سے تھا اور دوسرے فارسی آباء کی نسل جن کو اَبْنَاء کہتے تھے۔ یہ ابناء اس وقت یمن کی سب سے مقتدر اقلیت تھے۔ ایک عرصہ سے یمن کا حاکم کسریٰ کی حکومت کے ماتحت تھا۔ اس لیے حکومت کے اکثر عہدے ابناء کو حاصل تھے۔بہرحال لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مُہَاجِر کو ہدایت دی کہ فارغ ہو کر کِندَہ قبیلے کے مقابلے کے لیے حَضْرَمَوت چلے جانا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ257 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق صفحہ59مطبوعہ جاوید بٹ پریس)

حَضْرَمَوت یمن سے مشرق کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جس میں بیسیوں بستیاں ہیں۔ حَضْرَمَوت اور صَنْعَاء کے درمیان 216میل کا فاصلہ ہے۔

(معجم البلدان جلد2صفحہ311)

(فرہنگ سیرت صفحہ 226 زوار اکیڈیمی کراچی)

کِندَہ یمن کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔

(فرہنگ سیرت صفحہ248 زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مُہَاجِرؓکے تعارف کے بارے میں

لکھا ہے کہ آپؓ کا نام مُہَاجِربن ابو امیہؓ بن مغیرہ بن عبداللہ تھا۔ حضرت مُہَاجِربن ابوامیہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے اور اس دن آپؓ کے دو بھائی ہشام اور مسعود قتل ہوئے۔ آپؓ کا اصل نام ولید تھا جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر دیا تھا۔

(اسد الغابہ جزء 5 صفحہ 265 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

( الإصابۃ في تمييز الصحابۃ جزء 6 صفحہ180دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)

ایک روایت میں ہے کہ مُہَاجِر غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض تھے۔ ایک روز حضرت اُمّ سلمہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھو رہی تھیں تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی بھی چیز کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ آپؐ میرے بھائی سے ناراض ہیں؟ جب حضرت اُمّ سلمہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ نرمی اور شفقت کے آثار دیکھے تو انہوں نے اپنی خادمہ کو اشارہ کیا اور وہ مُہَاجِرکو بلا لائی۔ مُہَاجِر مسلسل اپنا عذر بیان کرتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرما لیا اور ان سے راضی ہو گئے اور ان کو کِندَہ کا عامل مقرر فرما دیا مگر وہ بیمار ہو گئے اور وہاں نہ جا سکے تو انہوں نے زیاد کو لکھا کہ وہ ان کی خاطر ان کا کام بھی سرانجام دیں۔ پھر جب انہوں نے بعد میں شفا پائی تو حضرت ابوبکرؓنے ان کی امارت کے تقرر کو پورا کیا اور انہیں نجران سے لے کر یمن کے آخری حدود تک حاکم مقرر کیا اور قتال کا حکم دیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 300مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

ضَحَّاک بن فَیْرُوز کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ارتداد شروع ہوا جس کا بانی ذُوالخِمَار عَبْھَلَہ بن کعب تھا جو اَسْوَد عنسی کے نام سے مشہور ہوا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 224، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

اَسْوَد عنسی

یمن کے قبیلہ بنو عَنْس کا سردار تھا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اَسْوَد کہلاتا تھا۔

(سیرت سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ از ابو النصر مترجم صفحہ 570)

ایک روایت میں اس کا نام عَبْھَلَہ بن کَعْبکی بجائے عَیْھَلَہ بن کَعب بن عَوف عنسی بیان ہوا ہے۔ اَسْوَد عنسی کا لقب ذُوالخِمَار تھا کیونکہ وہ ہر وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رہتا تھا ۔

(الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ201 ذکر اخبار الأسود العنسی بالیمن دارلکتب العلمیۃ بیروت2006ء)

اور بعض کے نزدیک اس کا لقب ذُوالخُمار یعنی نشہ میں مست رہنے والا بھی ملتا ہے ۔

(سیرت سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ از ابو النصر مترجم صفحہ 570)

بعض روایت میں اس کا لقب ذُوالحِمَار بیان کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اَسْوَد کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا۔ یہ جب اس کو کہتا کہ اپنے مالک کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ کرتا۔ بیٹھنے کو کہتا تو بیٹھ جاتا ۔کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑا ہو جاتا۔

(الأنساب لصحاری جزء 1صفحہ387 مطبوعہ2006ء)

بعض کے نزدیک اس کو ذُوالحِمَار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ جو شخص مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتا ہے ۔

(مداراج النبوۃ مترجم جلد2 صفحہ481 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)

بہرحال لکھا ہے کہ اَسْوَد نے اپنا لقب رَحْمَانُ الیَمَن رکھا جیسے مسیلمہ نے اپنا لقب رَحْمَانُ الَیَمامَہ رکھا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس پر وحی آتی ہے اور اسے دشمنوں کے تمام منصوبوں کا علم قبل از وقت ہو جاتا ہے۔

( سیرت سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ از ابو النصر مترجم صفحہ 571)

اَسْوَد شعبدہ باز تھا اور لوگوں کو عجیب و غریب شعبدے دکھاتا تھا۔

(الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ201 ذکر اخبار الأسود العنسی بالیمن دارلکتب العلمیۃ بیروت2006ء)

بخاری کی روایت کے مطابق

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ دو جھوٹے مدعیان نبوت خروج کریں گے

چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ حدیث بیان کرتے ہیں کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيْتُ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَ فِيْ كَفِّيْ سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَكَبُرَا عَلَيَّ، فَأَوْحَى اللّٰهُ إِلَيَّ أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا، فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا، صَاحِبَ صَنْعَاءَ، وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفۃ روایت نمبر 4375)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دوران کہ مَیں سویا ہوا تھا رؤیا میں مجھے زمین کے خزانے عطا کیے گئے اورمیرے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے رکھے گئے تو مجھ پر گراں گزرا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی کہ مَیں ان دونوں پر پھونک ماروں۔ مَیں نے ان پر پھونک ماری تو وہ غائب ہو گئے۔ مَیں نے اس سے مراد دو جھوٹے لیے جن کے درمیان مَیں ہوں۔ صنعاء والا اَسْوَد عنسی ،یمامہ والا مسیلمہ کَذَّاب۔

بخاری میں ہی ایک اَور روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا بتائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں سویا ہوا تھا کہ مجھے دکھایا گیا کہ میرے دونوں ہاتھوں پر دو سونے کے کڑے رکھے گئے ہیںجس پر میں گھبرا گیا اور ان کو بُرا جانا۔ مجھے کہا گیا تو مَیں نے ان دونوں پر پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے یعنی اللہ کی طرف سے کہا گیا۔ مَیں نے ان کی تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہیں جو میرے خلاف نکلیں گے۔ راوی عبید اللہ نے کہا کہ ان دو میں سے ایک تو عنسی تھا جسے یمن میں فیروز نے قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ کَذَّاب۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قصۃ الاَسْوَد العنسی حدیث: 4379)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایرانی بادشاہ کِسْریٰ کو دعوتِ اسلام کا خط لکھا تو اس نے غضبناک ہو کر اپنے ماتحت عاملِ یمن بَاذَانْ بعض اس کا نام بَدْہَانْ بھی بیان کرتے ہیں، اس کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر لے کردربار میں پہنچے۔ بَاذَان نے دو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیے مگر

آپؐ نے فرمایا: میرے اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ کو اس کے بیٹے شِیْرَوَیْہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن بیٹھا ہے

اور ساتھ ہی بَاذَان کو دعوتِ اسلام دی اور فرمایا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لے گا تو اسے بدستور یمن کا حاکم رکھا جائے گا۔ یہ سن کر دونوں اشخاص واپس چلے گئے۔ بَاذَانکو ساری بات بتائی اور اسی دوران بَاذَان کو یہ خبر بھی مل گئی کہ واقعی ایسا ہوا کہ کسریٰ کو اس کے بیٹے شِیْرَوَیْہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن گیا ہے۔ بَاذَان نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو پورا ہوتے دیکھ لیا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام قبول کر لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حاکم یمن برقرار رکھا۔

(حضرت ابوبکر صدیقؓ (مترجم) ازمحمدحسین ہیکل ،اردوترجمہ صفحہ 117-118)

اس خط کے بارے میں اور دعوتِ اسلام کے بارے میں اور جو کسریٰ نے کہا تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جگہ لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن حُذَافہؓ کہتے ہیں کہ جب مَیں کسریٰ کے دربار میں پہنچا تو مَیں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی۔ جب مَیں نے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسریٰ کے ہاتھ میں دیا تو اس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔ جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو کسریٰ نے غصہ سے خط پھاڑ دیا۔ جب عبداللہ بن حُذَافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی تو آپؐ نے فرمایا۔

کسریٰ نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیا خدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا۔

کسریٰ کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے ان یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کرایران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں میں کسریٰ کا ساتھ دینے کے کسریٰ کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے ،کسریٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بھڑکا رکھا تھا۔ جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسریٰ کے خیال میں ان کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسریٰ کی حکومت پر نظر رکھتے ہیں یہ اس کا خیال تھا۔ ’’چنانچہ اس خط کے معاً بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تُو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں۔ اِس پر بَاذَان نے جو اس وقت کسریٰ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھجوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً اِن لوگوں کے ساتھ کسریٰ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا۔ طائف کے قریب پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ آپ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’مدینہ میں رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا۔ مدینہ پہنچ کر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کسریٰ نے بَاذَان گورنر یمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اس کی خدمت میں حاضر کیا جائے۔ اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کرد ے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا۔ اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا۔ اچھا کل پھر تم مجھ سے ملنا۔ رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور

خدائے ذوالجلال نے آپؐ کو خبر دی کہ کسریٰ کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کر دیا ہے

چنانچہ وہ اسی سال جمادی الاولیٰ کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا آج کی رات اس نے اسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے وہ رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور ان کو اس پیشگوئی کی خبر دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بَاذَان کی طرف خط لکھا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسریٰ فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا۔ جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا ورنہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہاز یمن کی بندر گاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے کہا۔ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا۔ ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اَور بادشاہ کی مہر ہے۔ جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ بَاذَان گورنر یمن کی طرف ایران کے کسریٰ شِیْرَوَیْہکی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے۔ مَیں نے اپنے باپ سابق کسریٰ کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفا کو قتل کرتا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا۔ جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا حکم تم کو بھجوایا تھا اس کو منسوخ سمجھو۔ یہ خط پڑھ کر بَاذَان اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ 317تا 319)دیباچہ تفسیر القرآن میں یہ تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے لکھی ہے۔

جب بَاذَان کا انتقال ہو گیا تو اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امراء کو یمن کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر فرمایا اور مُعَاذ بن جبل یمن اور حَضْرَمَوْت کے ان تمام علاقوں کے معلم تھے۔ لہٰذا وہ ان سب مقامات کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ اَسْوَد جو کہ ایک کاہن تھا اور یمن کے جنوبی حصہ میں رہتا تھا اس نے شعبدہ بازی اور مُسَجَّعْ اور مُقَفّٰی گفتگو کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور اس نے نبوت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ وہ لوگوں پر یہ ظاہر کرتا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو ہر بات اس کو بتا دیتا ہے اور اس کے دشمنوں کے منصوبے اور راز فاش کر دیتا ہے جس پر سادہ اور جاہل لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس کے گرد اکٹھی ہو گئی۔ دراصل اَسْوَد عنسی نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ یمن صرف یمنیوں کا ہے تو یمن کے باشندے قومیت کے اس نعرے سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ نعرہ بڑا پرانا ہے آج بھی یہی استعمال ہوتا ہے اور دنیا میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اسی وجہ سے ہے۔ بہرحال کیونکہ یمن میں اسلام ابھی پوری طرح لوگوں میں راسخ نہیں ہوا تھا اس لیے ان لوگوں نے اجنبی تسلط سے آزاد ہونے کے لیے اَسْوَد کی قومیت کے نعرے پر لبیک کہا اور اس کے ساتھ مل گئے۔

جب یہ تشویشناک اطلاعات مدینہ پہنچیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ موتہ کے شہداء کا انتقام لینے اور شمالی جانب سے حملوں کی روک تھام کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے سرداروں کے نام پیغام بھیجا کہ وہ اپنے طور پر اَسْوَد کا مقابلہ جاری رکھیں اور جونہی اسامہ کا لشکر فتح یاب ہو کر لوٹے گا تو اسے یمن کی جانب روانہ کر دیا جائے گا۔

(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

( سیرت سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ از ابو النصر مترجم صفحہ 571)

اَسْوَد عنسی کی فوج میں سات سو گھڑ سوار تھے۔ اس نے بڑی فوج بنائی تھی اور اونٹ سوار اس کے علاوہ تھے۔ بعد میں اس کا اقتدار مضبوط ہوتا گیا۔ قبیلہ مُذْحِجْ میں اس کا قائم مقام

عَمرو بن مَعْدِی کَرِب

تھا۔ عَمرو بن مَعْدِی کَرِب یمن کا مشہور شہسوار تھا، شاعر تھا اور مقرر تھا۔ اس کی کنیت ابوثَوْر تھی۔ دس ہجری میں اس نے اپنے قبیلہ بَنُو زَبِید کے وفد کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کراسلام قبول کیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ مرتد ہو گیا لیکن بعد میں پھر حق کی طرف رجوع کر لیا اور جنگِ قادسیہ میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری ایام میں اس کا انتقال ہوا۔

(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ202، 166، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(تاریخ ادب عربی مترجم صفحہ67-68 مطبوعہ غلام علی پرنٹرز لاہور)

بہرحال لکھا ہے کہ اَسْوَد عنسی نے پہلے اہلِ نجران پر حملہ کر کے حضرت عَمرو بن حَزْمؓ اور حضرت خالد بن سعیدؓ کو وہاں سے نکال دیا۔ اس کے بعد اس نے صَنْعَاء پر چڑھائی کی۔ وہاں حضرت شَھْر بن بَاذَانؓ نے اس کا مقابلہ کیا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ ان دنوں صنعاء میں ہی تھے مگر اس صورتحال کے پیش نظر حضرت ابوموسیٰؓ کے پاس مَآرِب چلے گئے جہاں سے وہ دونوں حَضْرَمَوت چلے گئے۔ اس طرح اَسْوَد عنسی یمن کے تمام علاقے پر قابض ہو گیا۔ اَسْوَد عنسی نے حضرت شَھْرِ بن بَاذَانؓ کی شہادت کے بعد ان کی بیوی سے زبردستی شادی بھی کر لی تھی جس کا نام ’’مَرزُبَانَہ‘‘ یا بعض کتب کے مطابق ’’آزاد‘‘ تھا۔ اسی اثناء میں حَضْرَمَوت اور یمن کے مسلمانوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا جس میں ان کو اَسْوَد عنسی کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓکھڑے ہوئے اور اس سے مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے۔ جِشْنَسْ دَیْلَمِی کہتے ہیں کہ وَبَرْ بن یُحَنِّسْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ جِشْنَسْ دَیْلَمِی کا نام بعض جگہ جُشَیْشْ دَیْلَمِیبھی بیان ہوا ہے۔ بہرحال یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَسْوَد عنسی کے قتل کے لیے یمن میں خط لکھا تھا اور انہوں نے فیروز اور دَاذُوَیْہ کے ساتھ مل کر اسے قتل کیا تھا۔

(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ201، 202، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(اسد الغابہ جزء 1صفحہ535 ، جزء 2 صفحہ 643 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(مدارج النبوت جلد دوم صفحہ 474 شبیر برادرز لاہور 2004ء)

وَبَرْ بن یُحَنِّسْکانام وَبْرَہ بن یُحَنِّسبھی بیان ہو اہے۔ وہ ابنائے یمن میں سے تھے اور دس ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تھا۔وہ بیان کرتے ہیں کہ اس خط میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم اپنے دین پر قائم رہیں اور لڑائی یا حیلے سے اَسْوَد کے خلاف جنگی کارروائی کریں نیز ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ان لوگوں کو بھی پہنچائیں جو اس وقت اسلام پر راسخ ہوں اور دین کی حمایت کے لیے آمادہ ہوں۔ ہم نے عمل کیا مگر ہم نے دیکھا کہ اَسْوَد کے خلاف کامیاب ہونا بہت دشوار ہے۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 248، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(طبقات الکبری جزء6صفحہ62-63 دارالکتب العلمیۃ2017ء)

(اسد الغابہ جلد5صفحہ408 دارالکتب العلمیۃ2016ء)

جِشْنَسْ دَیْلَمِی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایک بات معلوم ہوئی کہ اَسْوَد اور قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث کے درمیان کچھ پرخاش پیدا ہو چکی ہے۔ آپس میں پھوٹ پڑ گئی ہے یا کم از کم کچھ رنجشیں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا ہم نے سوچا کہ قَیس کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔

قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث کے نام اور نسب کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کا نام ھُبَیْرَہ بن عَبْدِ یَغُوْث تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عَبْدِ یَغُوْث بن ھُبَیْرَہ تھا۔ بہرحال ابوموسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث بن مَکْشُوح تھے۔ ایک قول کے مطابق یہ صحابی نہ تھے جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اَسْوَد عنسی کو قتل کرنے والوں میں شامل تھے اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کے بھانجے تھے۔ یہ یمن میں مرتد ہونے والوں میں سے تھے لیکن بعد میں اسلام کی طرف لوٹ آئے اور فتح عراق اور جنگ قادسیہ میں ا ن کا بہت نمایاں نام آتا ہے۔ یہ جنگ نِہَاوَنْد میں شریک تھے اور جنگِ صِفِّیْن میں حضرت علی ؓکی ہمراہی میں شہید ہوئے۔ جِشْنَسْ دَیْلَمِی کہتے ہیں کہ ہم نے قَیس کو اسلام کی دعوت دی اور اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا ہم آسمان سے اترے ہیں۔ اس لیے اس نے فوراً ہماری بات مان لی اور اسی طرح ہم نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی خط و کتابت کی۔ مختلف قبائلی سردار بھی اَسْوَد کے مقابلے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ انہوں نے ہم سے خط کے ذریعہ مدد کا وعدہ کیا ۔ہم نے جواب میں لکھا کہ جب تک ہم آخری فیصلہ کر کے ان کو جواب نہ دیں وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے موصول ہونے کی وجہ سے اَسْوَد کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اسی طرح

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے تمام باشندوں کواَسْوَد کے معاملہ کے متعلق لکھا تھا۔

انہوں نے آپ کی بات مان لی۔ جب یہ اطلاع اَسْوَد تک پہنچی تو اسے اپنی ہلاکت نظر آنے لگی۔ جِشْنَسْ دَیْلَمِیکہتے ہیں کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ مَیں اَسْوَد کی بیوی آزاد کے پاس گیا جو شَہْرِ بن بَاذَان کی بیوہ تھی اور اس سے اَسْوَد نے شَھْرِ بنِ بَاذَانکو قتل کرنے کے بعد شادی کر لی تھی۔ میں نے اسے اَسْوَد کے ہاتھوں اس کے پہلے خاوند حضرت شَھْرِ بنِ بَاذَانکی شہادت، اس کے خاندان کے دیگر افراد کی ہلاکت اور خاندان کو پہنچنے والی ذلت اور مظالم یاد دلائے اور اسے اَسْوَد کے خلاف اپنی مدد کے لیے کہا تو وہ بڑی خوشی سے تیار ہو گئی اور اس نے کہا کہ بخدا! مَیں اَسْوَد کو اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے بُرا سمجھتی ہوں۔ یہ اللہ کے کسی حق کا احترام نہیں کرتا اور نہ اللہ کی کسی حرام کردہ شے سے اجتناب کرتا ہے۔ پس جب تمہارا ارادہ ہو مجھے مطلع کرنا۔ مَیں اس معاملہ کی تدبیر کروں گی اور آخر کار ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اَسْوَد عنسی کی اسی بیوی کی تائید کے ساتھ اَسْوَد عنسی کو ایک رات اس کے محل میں داخل ہو کر قتل کر دیا گیا اور جب صبح ہوئی تو قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر اس امتیازی نشان کے ساتھ آواز لگائی گئی کہ مرتد باغی اَسْوَد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے تو مسلمان اور کافر قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ پھر انہوں نے صبح کی اذان دی اور کہا اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ یعنی مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اَسْوَد عنسی جھوٹا ہے پھر اس کا سر ان لوگوں کے سامنے پھینک دیا۔ اس طرح

یہ فتنہ تین ماہ تک اور ایک قول کے مطابق چار ماہ کے قریب بھڑک کر ٹھنڈا ہو گیا

اور تمام عُمال اور امراء وغیرہ اپنے اپنے علاقوں میں حسبِ معمول مصروف عمل ہو گئے اور حضرت معاذ بن جبل ان لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ اَسْوَد عنسی کے قتل، اس کی فوج کی شکست اور اس کے فتنے کے اختتام کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھیجی گئی تو اس سے پہلے آپؐ کا وصال ہو چکا تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال سےقبل اَسْوَد عنسی کے قتل کی خبر بذریعہ وحی اسی رات دے دی تھی جس رات وہ قتل ہوا تھا۔ چنانچہ آپ نے اگلی صبح اس کی اطلاع صحابہ کو بھی دے دی اور یہ بھی بتا دیا کہ اسے فیروز نے قتل کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ملنے والی سب سے پہلی خوش خبری اَسْوَد عنسی کے قتل کی خبر تھی۔ اَسْوَد کے قتل کی خبر جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اس کی صبح کو آپؐ کا وصال ہو گیا اور ایک روایت کے مطابق جب اَسْوَد کے قتل کی خبر لانے والا مدینہ آیا تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جا رہا تھا اور ایک روایت یہ ہے کہ اَسْوَد کے قتل کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دس بارہ دن بعد مدینہ پہنچی جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے۔ اس بارے میںمختلف روایتیں ہیں لیکن بہرحال یہ انہی دنوں کی، آٹھ دس دن پہلے یا بعد کی بات ہے۔

اَسْوَد کے قتل کے بعد صنعاء میں پہلے کی طرح مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔

(ماخوذ از الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد5 صفحہ404-405 دارا الکتب العلمیۃ 2005ء)

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق صفحہ60مطبوعہ جاوید بٹ پریس)

( ماخوذ از الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ201-204ذکر اخبار الأسود العنسی بالیمن دارلکتب العمیۃ بیروت2006ء)

(سیدنا ابو بکر الصدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 301مترجم شمیم احمد خلیل سلفی)

لیکن یمن میں ایک دفعہ پھر بغاوت اٹھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا جب یمن میں چرچا ہوا تو سدھرتے حالات پھر خراب ہو گئے۔ قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث جو فَیْرُوْز اور دَاذُوَیہ کو ملا کر اَسْوَد سے باغی ہو گیا تھا اور جس نے ان کے تعاون سے اَسْوَد کو قتل کیا تھا اب پھر اسلام کی وفا داری سے منحرف ہو گیا۔ لائق اور اولوالعزم آدمی تھا۔ قومی عصبیت سے سرشار تھا۔ یمن میں فارسیوں کا اقتدار اسے ہمیشہ سے کھٹکتا رہتا تھا۔ اس کے خاتمہ کے بعد وہ ابناء کی خوشحالی اور ان کی اجتماعی اور اقتصادی برتری کو خاک میں ملانا چاہتا تھا۔ ایک کامیاب فوجی لیڈر وہ پہلے سے تھا اس نے اَسْوَد کے فوجی لیڈروں سے ساز باز کی اور ابناء کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنا لیا۔ فیروز اور دَاذُویہ دونوں سے اس نے تعلقات خراب کر لیے۔دَاذُویہ کو دھوکا سے قتل کر دیا۔ فیروز قتل ہوتے ہوتے بچ گیا۔ فیروز نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنی اور ابناء کی وفاداری سے مطلع کر کے درخواست کی کہ ہماری مدد کیجیے۔ ہم اسلام کے لیے ہر قربانی کرنے کو تیار ہیں۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق صفحہ60-61مطبوعہ جاوید بٹ پریس)

لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حَضْرَمَوت کے علاقوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل زِیَاد بن لَبِید تھے۔ حضرت زیاد بن لبید صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت زیادؓ کا ایک بیٹا عبداللہ تھا۔ عقبہ ثانیہ میں ستر اصحاب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ واپس آئے تو انہوں نے آتے ہی اپنے قبیلے بَنُوبَیَاضَہکے بت توڑ دیے جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی ہجرت کی۔ اس لیے حضرت زیادؓ کو مہاجر انصاری کہا جاتا ہے۔ مہاجر بھی ہوئے اور انصاری بھی تھے۔ حضرت زیادؓ غزوہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور قبیلہ بَنُوبِیَاضَہ کے محلہ سے گزرے تو حضرت زِیادؓ نے اھلاً و سھلاً کہا اور قیام کے لیے اپنا مکان پیش کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو۔ یہ خود منزل تلاش کر لے گی۔ محرم نو ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و زکوٰة وصول کرنے کے لیے الگ الگ محصلین مقرر فرمائے تو حضرت زِیادؓکو حضرمَوت کے علاقے کا محصل مقرر فرمایا۔ حضرت عمرؓ کے دَور تک آپؓ اسی خدمت پر مامور رہے۔ اس منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد آپؓ نے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں اکتالیس ہجری میں وفات پائی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

(پچاس صحابہ ؓ،از طالب ہاشمی صفحہ 557 تا 559 البدر پبلیکیشنز لاہور)

پھر

حضرت مُہَاجِرؓ کی نجران کی طرف روانگی

کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تشکیل کردہ گیارہ لشکروں میں سے سب سے آخر میں حضرت مُہَاجِر بن ابو امیہؓ کا لشکر مدینہ سے یمن کے لیے روانہ ہوا۔ یمن کے ساتھ مہاجِرین و انصار صحابہ کرامؓ کا ایک دستہ بھی تھا۔ یہ لشکر مکہ مکرمہ سے گزرا تو عَتَّاب بن اُسَیْد کے بھائی خالد بن اسید امیر مکہ بھی ساتھ ہو لیے۔ جب یہ لشکر طائف سے گزرا تو عبدالرحمٰن بن ابی العاص اپنے ساتھیوں سمیت اس لشکر میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح راستے میں مختلف قبائل کے لوگ آپ کے لشکرمیں شامل ہوتے گئے۔(ماخوذ از سیدنا ابو بکر الصدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 305 مترجم شمیم احمد خلیل سلفی)تو یہ کافی بڑا لشکر آگے چلتا گیا۔

عَمرو بن مَعْدِی کَرِب اور قَیس بن مَکْشُوحکی گرفتاری

کے بارے میں لکھا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ عَمرو بن مَعْدِی کَرِب نے اپنی بہادری اور طاقت کے زعم میں اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث کو بھی ساتھ ملا لیا تھا۔ یہ دونوں ہر قبیلے میں جاتے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر عَلم بغاوت بلند کرنے پر آمادہ کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے نجران کے عیسائی باشندوں کے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدِمَوَدَّتْ باندھا تھا اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بھی اپنے معاہدے پر بدستور قائم رہے، باقی تمام قبائل نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ خدا کی قدرت کہ اہلِ یمن کو جب حضرت مُہَاجِرؓ کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن کی طرف آمد کی اطلاعیں ملنی شروع ہوئیں تو اہلِ یمن شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ وہ حضرت مُہَاجِرؓ کے لشکر کا سامنا کرنے کی تاب نہیں لا سکیں گے! یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں تھے کہ ان کے سرداروں قَیس اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کے باوجود کہ انہوں نے حضرت مُہَاجِرؓ سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے اور آخر عَمرو بن مَعْدِی کَرِب نے مسلمانوں کے ساتھ مل جانے کا فیصلہ کیا اور ایک رات اس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ قَیس کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور اسے گرفتار کر کے حضرت مُہَاجِرؓ کے سامنے پیش کر دیا لیکن حضرت مُہَاجِرؓ نے صرف قَیس کو ہی گرفتار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کو بھی قید کر لیا اور ان دونوں کے حالات حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں لکھے اور ان دونوں کو حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔

قَیس اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب حضرت ابوبکرؓ کے پاس لائے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے قَیس سے فرمایا:کیا تم اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے انہیں قتل کرتے رہے ہو اور تم نے مومنین کو چھوڑ کر مشرکوں اور مرتد باغیوں کو دوست بنا لیا ہے۔ اگر اس کا کوئی واضح جرم مل جاتا تو حضرت ابوبکرؓ نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ قَیس نے دَاذُوَیہ کے قتل کی سازش اور اس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا اور یہ ایسا عمل تھا کہ جو خفیہ طور پر سرانجام دیا گیا تھا اور اس بارے میں قَیس کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا۔ لہٰذا حضرت ابوبکرؓنے اسے چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا قتل کرنے سے اعراض کیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ پھر دوسرے کی باری آئی اور حضرت ابوبکرؓ نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب سے کہا کہ تمہیں رسوائی محسوس نہیں ہوتی کہ ہر روز تم شکست کھاتے ہو یا تمہارے گرد گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔ اگر تم اس دین کی مدد کرو تو اللہ تم کو بلند مراتب سے نوازے گا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسے بھی آزا د کر دیا اور ان دونوں یعنی عمرو اور قَیس کو ان کے قبائل کے سپرد کر دیا۔ عمرو نے کہا یقیناً مَیں اب امیر المومنین کی نصیحت کو ضرور قبول کروں گا اور ہرگز یہ غلطی دوبارہ نہیں کروں گا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ299مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(حضرت ابوبکر صدیقؓ (مترجم) ازمحمدحسین ہیکل ،اردوترجمہ صفحہ 253-254)

چونکہ واضح ثبوت نہیں تھے تو دونوں کو ان کی سرداری کی وجہ سے اور ان کے علم کی وجہ سے معاف کر دیا۔ ان لوگوں کی معافی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق ایک اَور سیرت نگار نے لکھا ہے کہ

ابوبکر بڑے دُور اندیش، گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے۔ جہاں عفو و درگزر کی ضرورت ہوتی عفو و درگزر سے کام لیتے۔

آپؓ قبائل کے بکھرے ہوئے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص اور شوقین تھے۔ آپؓ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ مخالف زعمائے قبائل کو حق کی طرف لوٹ آنے کے بعد درگزر کر دیا جائے۔ جس وقت آپؓ نے یمن کے مرتد قبائل کو تابع کیا انہیں اسلامی سلطنت کے سطوت و غلبہ اور مسلمانوں کی عزت و فتح مندی کی قوت اور ان کی عزیمت کی پیش قدمی کا مشاہدہ کرایا تو قبائل نے اعتراف کر لیا اور اسلامی حکومت کے تابع ہو گئے اور خلیفۂ رسول کی اطاعت قبول کر لی۔ ابوبکرؓ نے یہ مناسب سمجھا کہ ان زعمائے قبائل کے ساتھ تالیف کی جائے اور سختی کی بجائے نرمی اور رفق کا برتاؤ کیاجائے۔ چنانچہ ان سے سزائیں اٹھا لیں۔ ان سے نرم گفتگو کی اور قبائل کے اندر ان کے نفوذ و اثر کو اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا۔ آپؓ نے ان کی لغزشوں کو معاف کیا۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ قَیس بن عَبْدِ یَغُوْث اور عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کے ساتھ یہی برتاؤ کیا۔ یہ دونوں عرب کے بہادروں اور عقلمندوں میں سے تھے۔ ان کو ضائع کرنا ابوبکر کو اچھا نہ لگا۔ آپؓ نے اس بات کی کوشش کی کہ انہیں اسلام کے لیے خالص کر لیں اور اسلام اور ارتداد کے درمیان تردد سے ان کو نکال باہر کریں۔ ابوبکر نے عَمرو بن مَعْدِی کَرِب کو رہا کر دیا۔ پھر اس دن کے بعد عمرو کبھی مرتد نہ ہوا بلکہ اسلام قبول کیا اور اچھی طرح مسلم بن کر زندگی گزاری۔ اللہ نے اس کی مدد کی اور اس نے اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ قَیس بھی اپنے کیے پر نادم ہوا۔ ابوبکرؓ نے اسے بھی معاف کر دیا۔ عرب کے ان دونوں سورماؤں کو معاف کر دینے سے بڑے دُوررس اثرات مرتب ہوئے۔ ابوبکرؓ نے اس طرح ان لوگوں کے دلوں کو جوڑا جو ارتداد کے بعد خوف یالالچ میں اسلام کی طرف واپس ہوئے اور آپ نے اَشْعَثْ بن قَیس کو معاف کر دیا۔ اس طرح صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے دلوں کو اسیر کیا اور ان کے دلوں کے مالک بن بیٹھے اور مستقبل میں یہ لوگ اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی قوت کا ذریعہ بنے۔(سیدناابوبکرصدیقؓ ، ازڈاکٹر علی محمدصلابی ،اردوترجمہ صفحہ 313-314)یعنی کوئی زبردستی نہیں تھی بلکہ دل سے انہوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی اطاعت کی۔

حضرت مُہَاجِر نجران سے لَحْجِیَّہعلاقے کی طرف روانہ ہوئے اور جب گھڑ سواروں نے ان لوگوں کے گروہ کو گھیر لیا تو انہوں نے امان کی درخواست کی مگر مُہَاجِر نے ان کو امان دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان میں سے ایک گروہ سے حضرت مُہَاجِرؓ کا عجیب مقام پر مقابلہ ہوا۔ عجیب جو ہے یہ یمن میں ایک جگہ ہے۔ حضرت مُہَاجِرؓ کے دیگر گھڑ سواروں نے حضرت عبداللہ ؓکی قیادت میں اَخابِثْ کے رستے میں ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور بھاگنے والے دشمن ہر رستے پر قتل کیے گئے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ299 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(معجم البلدان جلد4 صفحہ99)

یمن کے علاقے اَعْلَاب میں بَنُو عَک نے جب بغاوت کی تو انہیں اَخابَث کا نام دیا گیا اور جس راستے پر ان بد باطن اور خبیث فطرت لوگوں سے جنگ ہوئی اسے بعد میں طریق الاَخَابِث کا نام دیا گیا۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ294-295 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

حضرت مُہَاجِرؓ کے صنعاء پہنچنے کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت مُہَاجِر عجیب سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ صنعاء پہنچ گئے تو آپؓ نے فرار ہونے والے متفرق قبائل کا تعاقب کرنے کا حکم دیا۔ مسلمانوں نے ان میں سے جس پر قابو پایا اسے اچھی طرح قتل کیا اور کسی سرکش کو معاف نہیں کیاگیا۔ البتہ سرکشوں کے علاوہ جنہوں نے توبہ کی ان لوگوں کی توبہ قبول کی گئی۔ جو جنگ کرنے والے تھے، ظلم کرنے والے تھے ان کو تو معاف نہیں کیا لیکن باقیوں کو معاف کر دیا اور ان کے گذشتہ حالات کے مطابق ان سے سلوک کیا گیا اور ان کی طرف سے اصلاح کی امید تھی۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ299مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

اگلا بیان کچھ تفصیلی تھا اس لیے یہ بیان یہیں بند کرتا ہوں۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button