مضامین

حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط دوم)

(ڈاکٹر عبد الرحمٰن بھٹہ۔جرمنی)

بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ

[حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہ کی]شادی سے ہی خداتعالیٰ نے وہ اسماعیل پیدا کیا جس کی نسل سے بالآخر وہ نبی ظہور پذیر ہوا جو ’’دنیا کی سب قوموں کےلیے رحمت اور برکت کے حصول کا وسیلہ بنا‘‘۔ اور اس طرح خدا کا وہ وعدہ پورا ہوا جو اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا

Amazing views of the Sahara desert under the night starry sky

حضرت ہاجرہ اور اسرائیلی روایات

(گذشتہ سے پیوستہ)’’جیوئش انسائیکلوپیڈیا‘‘ میں بھی ایک ایسا ہی مضمون حضرت ہاجرہ کے بارے میں موجود ہے۔اس کا متعلقہ حصہ پیش ہے:

‘‘HAGAR: In Rabbinical Literature.According to the Midrash (Gen.R. xlv), Hagar was the daughter of Pharaoh, who, seeing what great miracles God had done for Sarah’s sake (Gen.xii.17), said, ‘‘It is better for Hagar to be a slave in Sarah’s house than mistress in her own’’. In this sense Hagar’s name is interpreted as ‘‘reward’’ (Ha-Agar = ‘‘this is reward’’).She was at first reluctant when Sarah desired her to marry Abraham…, she persuaded her, saying, ‘‘Consider thyself happy to be united with this saint’’. Hagar is held up as an example of the high degree of godliness prevalent in Abraham’s time…. Her fidelity is praised, for even after Abraham sent her away, she kept her marriage vow; and, therefore, she was identified with Keturah (Gen.xxv.1), with illusion to Aramaic ‘‘to tie’’. (Gen. R. Ixi.). Another explanation of the same name is ‘‘to adorn’’, because she was adorned with piety and good works (l.c.). It was Isaac who, after the death of Sarah, went to bring back Hagar to the house of his father…’’…In Arabic Literature. According to the Midrash (Gen. R. xlv.), Hagar was the daughter of Pharaoh, who presented her to Abraham. The same story is told in Mohammedan tradition’’.

(S. Schechter, G. Deutsch, E. G. Hirsch, H. Hirschfeld: Hagar. In: The Jewish Encyclopedia,

http://jewishencyclopedia.com/articles/7021-hagar)

ترجمہ(مفہوماً):’’مدراش کے مطابق ہاجرہ فرعون کی بیٹی تھیں۔ فرعون نے وہ معجزے جو خدا نے سارہ کی خاطر دکھائے تھے۔ دیکھ کر کہا کہ ہاجرہ کےلیے سارہ کے گھر میں لونڈی بننا اپنے گھر میں مالکن بننےسے بہترہے۔ جب سارہ نے اسے ابراہیم سے شادی کےلیے کہا تو وہ شروع میں راضی نہ تھی…سارہ نے اسے یہ کہہ کر ترغیب دلائی کہ تم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو کہ تم ایک ولی اللہ سے مل رہی ہو۔ ہاجرہ کو اس خدا پرستی کی اعلیٰ مثال خیال کیاجاتا ہے جو ابراہیم کے دور میں پائی جاتی تھی…اس کی وفاداری کی تعریف کی جاتی ہے کہ اس نے ابراہیمؑ سے الگ ہو کر بھی اپنا شادی کا عہد نبھایا۔ اور اسی وجہ سے اس کو ہی ’’قطورہ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ آرامی زبان میں اس کا مطلب ’’باندھنا‘‘ہے۔ اسی نام کا ایک اور مطلب ’’سجانا‘‘ ہے۔ کیونکہ وہ پارسائی اور اعمالِ صالحہ سے سجی ہوئی تھیں۔ یہ اسحاق ہی تھے جو سارہ کی وفات کے بعد گئے اور ان کو اپنے باپ کے گھرواپس لے کر آئے تھے۔‘‘

آخر میں ہم ایک اور مشہور یہودی روایت سے چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ ان میں سیرت نگار نے حضرت ہاجرہ کی زندگی کے بعض نئے پہلو اجاگر کیے ہیں۔ وہ بہت جرأت، انصاف اور دیانتداری سے کام لیتے ہوئے لکھتا ہے:

‘‘One of the most interesting women in the Bible is Hagar, Abraham’s second wife… According to the Midrash, Hagar was the daughter of Pharaoh, king of Egypt. When she saw the miracles which God performed for the sake of Sarah,…she said, ‘‘It is better to be a slave in Sarah’s house than a princess in my own’’…Many of our ancient Sages speak favorably of Hagar who never remarried… Despite living with Ishmael so far from Abraham’s influence, Hagar remained faithful to him. Therefore, after Sarah’s death, Isaac himself went to her and took her back to his father to be again his father’s wife. The Torah now calls her ‘‘Keturah’’, meaning ‘‘tied’’ to Abraham, for she kept her faithful bond to Abraham; and it also means an ‘‘adornment’’ for her good deeds…Hagar, as our Sages picture her, was a woman of humility and piety. Indeed, few others were previliged to have an angel of God speak to them twice, and produce miracles for them…If Ishmael would become a wanderer – pushed away from his father …by jealous Sarah he came by it naturally, for Hagar, daughter of Pharaoh and Sarah’s maid, endured great suffering and heartbreak in her association with the father and mother of the Jewish people.

Hagar comes to Abraham and Sarah as a gift from Pharaoh….. The gift is seen by Judaism’s most prominent couple as compensation for their infertility…Banished into the wilderness by her mistress, Hagar is allowed to return and give birth to Ishmael. Some chapters later, …Sarah, the jealous matriarch summarily dismisses Hagar and Ishmael… However, according to the rabbis, Hagar is eventually restored to her rightful place in Abraham’s family. After Sarah’s death, Abraham marries Keturah, but this is a Hebraic pseudonym for Hagar. Hagar is given this name because her deeds had become as beautiful as incense (ketoret), and because she remained chaste (in Aramaic, Keturah means ‘‘restrained’’)…Wronged from the start, and subjected to a culture and family she did not really understand, Hagar, having been hurled into the abyss, emerges as a female precursor of Joseph, to obtain her legitimate role in the history of our people. Beginning as Pharaoh’s daughter, she had become Abraham’s second ‘princess’. (‘Sarah’means ‘princess’).

(N. Mindel: Hagar. Kehot Publication Society,https://www.chabad.org/library/article_cdo/aid/112053/jewish/Hagar.htm)

یہ بھی پڑھیے:

حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط اوّل)

ترجمہ(مفہوماً): بائبل میں مذکور دلچسپ خواتین میں سے ایک ابراہیم کی دوسری بیوی ہاجرہ ہیں…مدراش کے مطابق ہاجرہ مصر کے بادشاہ فرعون کی بیٹی تھیں۔ جب اس نے وہ معجزے دیکھے جو خدا نے سارہ کی خاطر دکھائے تو اس نے کہا کہ سارہ کے گھر میں لونڈی ہونا اپنے گھر میں شہزادی ہونے سے بہتر ہے…ہمارے بہت سے بزرگ ہاجرہ کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دوبارہ شادی نہیں کی…ابراہیم کے دائرہ اثر سے بہت دور رہنے کے باوجود وہ اس کی وفادار رہیں اور اسماعیل کے ساتھ ہی رہتی رہیں۔ اسی لیے سارہ کی وفات کے بعد اسحاق خود ان کے پاس گئے اور ان کو واپس لائے تاکہ وہ ان کے باپ کی پھر سے بیوی بنیں۔اب تورات ان کو ’’قطورہ‘‘ کہتی ہے جس کا مطلب ’’ابراہیم کے ساتھ بندھی ہوئی‘‘ہے کیونکہ اس نے ابراہیمؑ کے ساتھ وفا کا بندھن قائم رکھا۔ قطورہ کا مطلب ’’سجاوٹ‘‘ بھی ہے اور وہ اعمال صالحہ سےسجی ہوئی تھیں۔ہمارے بزرگ ہاجرہ کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ وہ عجز و انکسار کی پیکر، تقویٰ شعار خاتون تھیں۔ حقیقت تو یہ ہےکہ ایسی خواتین کم ہی ہوں گی جنہیں یہ اعزاز حاصل ہو کہ خداکے فرشتے نے ان سے دو بار کلام کیا ہو اور ان کے لیے معجزے دکھائے ہوں… حاسد سارہ نے اسماعیل کو اس کے باپ سے دور کر دیا اور وہ صحرانورد بن گیا…فرعون کی بیٹی ہاجرہ نے یہودی قوم کے ’’ماں اورباپ‘‘ کی معیت میں بہت دکھ اٹھائے اور وہ بارہا دل شکستہ ہوئیں… فرعون نے ابراہیم اور سارہ کو ہاجرہ تحفہ میں دی تھی… یہ تحفہ یہودیت کے اس ممتاز ترین جوڑے کو اس کے بانجھ پن کے متبادل (علاج) کے طور پر دیا گیا تھا…مالکن نے ہاجرہ کو بیابان میں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔تاہم اسے اجازت دی گئی کہ وہ واپس آ کر اپنے بچے (اسماعیل) کوجنم دے سکے۔ لیکن چند ابواب بعد ہی(لکھا ہے کہ) جب سارہ کی اپنی گود بھر گئی تو ہماری اس ’’حاسد دادی‘‘ نے ہاجرہ اوراسماعیل کو یکلخت نکال باہر کیا…تاہم بقول رابیوں کےہاجرہ کو ابراہیم کے گھرانے میں بالآخروہ مقام مل گیا تھا جس کی وہ حقدار تھیں۔ سارہ کی وفات کےبعد ابراہیم نے ’’قطورہ‘‘سے شادی کی لیکن یہ ہاجرہ کا ہی عبرانی صفاتی نام ہے۔ ان کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے اعمال ’’خوشبو‘‘ کی طرح خوبصورت تھے۔ اور اس لیے بھی کہ جب سے وہ ابراہیم سے علیحدہ ہوئیں پاکدامن رہیں۔(آرامی میں قطورہ کا مطلب اپنے آپ کو قابو میں رکھنے والا ہے)اور اب اس جوڑے نےجس کی تشہیر بہت کم کی گئی مزید بچے پیدا کیے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اسرائیلی قوم کی وراثت نہ پائی۔ ہاجرہ شروع سے ہی ظلم کا نشانہ بنتی رہی۔ وہ ایک ایسے معاشرے اور گھرانے میں آ بسی تھی جسے وہ پوری طرح سمجھ نہ سکی۔ وہ گہرے کنویں میں گرا دی گئی لیکن یوسف کا پیش خیمہ بنتے ہوئے وہ اُبھر کر سامنے آئی اور ہماری قوم کی تاریخ میں اپنا جائز مقام پا گئی۔ فرعون کی بیٹی کے طور پرآغاز کرکے۔ہاجرہ ابراہیم کی دوسری ’’شہزادی‘‘ بن گئی۔‘‘[’’سارہ‘‘ کا مطلب ’’شہزادی‘‘ ہے]

حضرت ہاجرہ کی عظیم شخصیت

سب جانتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ کے متعلق یہودی قوم کی رائے عمومی طور پر اچھی نہیں اور یہ قوم ان کو حقیر جانتی ہے۔ لہٰذا یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ اس قوم کی روایات حضرت ہاجرہ کی بے جا تعریف کریں یا کسی اچھے پہلو کو بیان کرتے وقت مبالغے سے کام نہ لیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ ’’تعریف وہ جو دشمن کی زبان سے نکلے‘‘۔ اب اگر یہود کی روایات حضرت ہاجرہ کی تعریف و توصیف بیان کریں اور ان کی عظمت کی گواہی دیں تو پھر ان روایات کے سچا ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

مندرجہ بالا اسرائیلی روایات حضرت ہاجرہ کی زندگی اور سیرت کے کئی اعلیٰ اور خوبصورت پہلو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اور ان کو دیکھ کر یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کتاب ’’پیدائش‘‘ کے مرتب کرنے والے حاسد یہودی کاہنوں نے حضرت ہاجرہ کی زندگی کے بارے میں کیوں خاموشی اختیار کی ہے اور یہ خوبصورت پہلو کیوں چھپائے ہیں۔ حضرت ہاجرہ کی زندگی کے درج ذیل پہلو خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔

حضرت ہاجرہ…ایک مصری شہزادی

اسرائیل کی ان روایات سے جو بات سب سے پہلے ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ مصر کے بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ سگی بیٹی نہ تھیں بلکہ رشتہ داروں میں سے تھیں۔ لیکن جو بھی رشتہ بادشاہ سے تھا وہ ایسا تھا کہ وہ ان کو اپنی بیٹی کہتا تھا۔ اصولی طور پر تو جب روایات میں ہاجرہ کے لیے ’’شہزادی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بادشاہ ان کو اپنی بیٹی کہتا ہے تو پھراس بات پر بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ بالفرض اگر وہ بادشاہ کے عزیزوں میں سے بھی تھیں تو بھی ان کا شاہی خاندان سے تعلق تو ثابت ہو جاتا ہے۔

اسلامی محققین نے بھی حضرت ہاجرہ کا بادشاہ کی بیٹی یا شاہی خاندان میں سے ہونا تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ لکھتے ہیں:’’جب مصر کا بادشاہ اپنے فعل شنیع کے بعد حضرت ابراہیمؑ اور ان کی بیوی سارہ سے مرعوب ہوا تو اس نے نہ صرف سارہ کو آزادکر دیا بلکہ اپنے حرم سے ایک شریف اور ہونہار لڑکی بھی حضرت سارہ اور حضرت ابراہیمؑ کو پیش کی۔ اور وہ لڑکی یہی حضرت ہاجرہ ہیں…یہ ہرگز بعید از قیاس نہیں کہ ہاجرہ خود شاہ مصرکے قریبی عزیزوں میں سے ایک لڑکی ہو…یہ صرف قیاس ہی نہیں بلکہ بعض پرانے محققین نے اسے بطور ایک حقیقت کے بیان کیا ہے۔چنانچہ ایک یہودی عالم جس کا نام دبشلوم ہے۔ اپنی تورات کی تفسیر میں یہاں تک لکھتا ہے کہ ہاجرہ خود شاہ مصر کی اپنی لڑکی تھی جو اس نے سارہ کی کرامت دیکھ کر اس کی خدمت کےلئے پیش کر دی تھی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین صفحہ 74تا75، ایڈیشن2001ء مطبوعہ قادیان)

حضرت ہاجرہ ؑکا اعلیٰ روحانی مقام

حضرت ہاجرہ ؑکی دوسری بڑی خصوصیت جو ان یہودی روایات میں بار بار بیان کی گئی ہے وہ ان کا اعلیٰ اخلاقی اور روحانی مقام تھا۔ ان روایات کے مطابق وہ ایک پرہیزگار، تقویٰ شعار، باوفا اور باخدا خاتون تھیں۔ عجز و انکسار اور صبرو رضا کا وہ پیکر تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ سے شادی کے بعد وہ بہت سخت حالات میں سے گزریں۔ خود یہودی علماء اقرار کرتے ہیں کہ وہ بار بار سارہ کے حسد کا نشانہ بنتی رہیں اور دو بار تو گھر سے بےدخل کی گئیں اور بیابان میں بھٹکتی رہیں۔ لیکن ان سب مشکلات کو انہوں نے کمال ہمت اور حوصلے سے برداشت کیا۔ کوئی شکوہ یا شکایت کی نہ اظہار ناراضگی۔

خداتعالیٰ پر ان کا ایمان اور توکل مثالی تھا۔ اور خداتعالیٰ کا بھی سلوک ان سے اعجازی تھا۔ فرشتے ان پر اترتے۔ ان کو غیب کی خبریں دیتے اوران کی مدد کرتے تھے۔ یہود کے علماء کے مطابق وہ حضرت ابراہیم جیسے عظیم نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں۔ اور ان کی پر سوز زندگی حضرت یوسف کی صبر آزما زندگی کا ’’پیش خیمہ‘‘ تھی۔

’’سارہ کے بیٹوں‘‘ کے قلم سے نکلی یہ سب شہادتیں جو انہوں نے اپنی ’’سوتیلی ماں‘‘ ہاجرہ کے حق میں دی ہیں۔ ان کی عظمت کردار اور رفعت درجات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس جہان کی ہی نہیں بلکہ اگلے جہان کی بھی شہزادی تھیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہودی عوام کے اڑائے گئے گرد وغبار میں بعض مسلمان بھی اپنی اس’’حقیقی ماں‘‘کے مقام کو پہچان نہ سکے۔

حضرت ابراہیمؑ سے شادی کا پس منظر

حضرت ہاجرہ کی حضرت ابراہیمؑ سے شادی کے حالات تو حصہ سوم میں بیان کیے جائیں گے لیکن یہاں ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی شادی کا پس منظر بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

بائبل سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’’زمین کی سب قومیں اس کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔‘‘(پیدائش۔ ابواب 12۔ 18۔ 26)اپنے اس وعدہ کو پورا کرنے کےلیے خداتعالیٰ نے جو پلان بنایا تھااس میں حضرت ہاجرہ کا اعلیٰ حسب و نسب، ان کے روحانی اقدار اور حضرت ابراہیمؑ سے شادی سب امور شامل تھے، اورجن حالات میں یہ رشتہ طے ہوا اور شادی انجام پذیرہوئی وہ بھی خداتعالیٰ کی خاص تقدیر کے تحت ہی پیدا ہوئے تھے۔ شادی کے یہ حالات تو اگلے حصہ میں بیان کیے جائیں گے لیکن یہاں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس شادی سے ہی خداتعالیٰ نے وہ اسماعیل پیدا کیا جس کی نسل سے بالآخر وہ نبی ظہور پزیر ہوا جو ’’دنیا کی سب قوموں کےلیے رحمت اور برکت کے حصول کا وسیلہ بنا‘‘۔ اور اس طرح خدا کا وہ وعدہ پورا ہوا جو اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا۔

(حضرت اسحاقؑ کی نسل سے جو برکت دنیا کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلے سے ملی تھی وہ تو صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ اور آج تک وہ صرف یہود کے لیے ہی ہے۔ یہود تو کسی غیر یہود کو اپنی اس ’’برکت‘‘میں شریک ہی نہیں کرتے۔ اور نہ ہی دوسری قوموں کو اس طرف دعوت دیتے ہیں۔ لہٰذا ’’زمین کی سب قوموں کو برکت‘‘ اسحاق کے وسیلہ سے مل سکتی تھی نہ ملی ہے۔)

ساری دنیا کو برکت دینے کے لیے خداتعالیٰ نے جو پلان حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے ذریعے بنایا تھا اس میں حضرت ہاجرہؑ کے اعلیٰ حسب و نسب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ فرماتے ہیں:’’…اسی طرح رسول کریم صلی آلہٖ علیہ وسلم کو دیکھو۔ عیسائی آج تک آپ کے متعلق یہ طعنہ دیتےہیں کہ آ پ لونڈی کی نسل میں سےتھے۔ وہ لوگ حضرت ہاجرہ ؓکو لونڈی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ تورات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہؓ مصر کےبادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھیں۔ اور اس بادشاہ نے انہیںاخلاص کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں تحفۃًپیش کیا تھا مگرعیسائیوں نے صرف اس لئے کہ حضرت ہاجرؓہ تحفۃً دی گئی تھیں ان کو لونڈی قرار دے دیا۔ غرض دشمن تو همیشہ تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اعلیٰ اور شریف خاندانوں میں سے آتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کو مانتے ہوئے انقباض پیدا نہ ہو۔‘‘(تفسیر کبیرجلدہفتم صفحہ 295)

حضرت ابراہیمؑ اورمسیح موعودؑ میں مماثلت

یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی سب قوموں کو برکت بخشنے کا جو سلسلہ خداتعالیٰ نے بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے شروع کیا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ ’نئی دنیا‘ کی دریافت کے بعد اب دنیا بہت پھیل چکی ہے اورآج بہت سی نئی قومیں دنیا کے نقشے پر ابھر آئی ہیں۔لہٰذا زمین کی ان سب قوموں کو برکت بخشنے کے لیے خدا نے اس دَور میں پھر ایک ’’ابراہیم‘‘ کو بھیجا ہے۔ اور پھر وہی ’’ہاجرہ اوراسماعیل‘‘ کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خداتعالیٰ نے ’’ابراہیم‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح ان کی بھی دو دفعہ شادی ہوئی ۔اور ان دونوں انبیاء کی شادیوں میں مماثلت بھی عجب پائی جاتی ہے۔ مثلاً:

٭…حضرت ابراہیمؑ کی پہلی شادی ان کے ماموں کی بیٹی سارہ سےہوئی تھی۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی بھی پہلی شادی ان کے ماموں کی بیٹی حرمت بی بی سے ہوئی تھی۔(تفسیرِ کبیر جلد دوم صفحہ 112)

٭…پہلی شادی سے عرصہ دراز تک حضرت ابراہیمؑ کی کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ لمبے عرصےتک بے اولاد رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی شادی سے اولاد تو ہوئی لیکن وہ ان کی زندگی میں بیعت کر کے ان کی روحانی اولاد نہ بن سکی۔

٭…حضرت ابراہیمؑ کی دوسری شادی خداتعالیٰ نے مصر کی راجدہانی میں ایک معزز،شریف اور شاہی خاندان میں کروائی اور اس شادی کے جملہ انتظامات بھی خداتعالیٰ نے ہی کیے۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری شادی خداتعالیٰ نے ہندوستان کی راجدہانی دہلی میں ایک معزز، شریف اور سید خاندان میں کروائی۔ اور اس شادی کے جملہ انتظامات بھی خداتعالیٰ نے ہی کیے۔( تذکرہ،الہامات1881ء)

٭…حضرت ابراہیمؑ کو دوسری شادی سے خداتعالیٰ نے بیٹا ’’اسماعیل‘‘ دیا اور اس کے ذریعے سے خداتعالیٰ نے دنیا کی سب قوموں کوبرکت دینے کا وعدہ پورا کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑکو بھی دوسری شادی سے خداتعالیٰ نے بیٹا ’’محمود‘‘ عطا فرمایااور یہ وعدہ دیا کہ ’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اورقومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘(تذکرہ،الہامات1886ء)

٭…حضرت اسماعیلؑ کو اپنی والدہ کے ساتھ ہجرت کر کے قریبی ملک عرب جانا پڑا تھا جہاں انہوں نے شہر مکہ آباد کیا۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود کو بھی اپنی والدہ کے ساتھ ہجرت کر کے قریبی ملک پاکستان جانا پڑا جہاں انہوں نے شہر ربوہ آباد کیا۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپؓ نے خدا کے وعدے کے مطابق دنیا کے کناروں تک شہرت پائی اور زمین کی سب قوموں کو برکت دینے کےلیے اس نے ساری دنیا میں تبلیغی نظام قائم کیا۔ اور دنیا کو برکت دینے کا یہ سلسلہ اب خلفائے احمدیت کے ذریعے جاری و ساری ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button