متفرق مضامین

حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط اوّل)

(ڈاکٹر عبد الرحمٰن بھٹہ۔جرمنی)

بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ

اسلام میں حضرت اسماعیلؑ اپنے والد محترم کے وارث کے طور پر ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے مقام میں تخفیف کی کوشش ہمارے لیے ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے جسے ہم بغیر تحقیق کے چھوڑ نہیں سکتے

Amazing views of the Sahara desert under the night starry sky

جائزے کی ضرورت

بائبل کی پہلی کتاب پیدائش کے باب 16 میں لکھا ہے کہ حضرت سارہ کی ایک لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔ جب حضرت سارہ کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی لونڈی حضرت ابراہیمؑ کو بطور بیوی دے دی جس سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 سال تھی۔ پھر آگے باب 21 میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کی عمر 100 سال تھی تو حضرت سارہ کے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔ جب حضرت اسحاق دو تین سال کے ہوئے تو ان کی ’’ دودھ چھڑائی‘‘ کی تقریب میں حضرت سارہ نے ہاجرہ کے متعلق حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ ’’اس لونڈی کو اور اس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا۔‘‘چنانچہ حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے کے ساتھ نکال دی گئیں۔

مذکورہ بالا تناظر میں یہود یہ تو مانتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کی دوسری بیوی تھیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ ’’لونڈی‘‘ تھیں لہٰذا ان کا بیٹا ’’اسماعیل‘‘ ان برکات کا وارث نہ تھا جن کا وعدہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد سے کیا گیا تھا۔ ان کے نزدیک ان برکات کے وارث صرف حضرت اسحاق تھے۔ جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے تو ان کے ہاں تو دوسری بیوی کا کوئی تصور نہیں۔ ان کے نزدیک بیوی ایک اور صرف ایک ہی ہوتی ہے۔ اس ایک بیوی کے علاوہ سب بیویاں، لونڈیاں یا کنیزیں شمار ہوں گی۔لہٰذا وہ حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کی جائز بیوی نہیں مانتے۔ اور نہ ہی حضرت اسماعیل ؑکو ان کا جائز بیٹا مانتے ہیں۔

یہود و نصاریٰ کا مذکورہ بالا نظریہ اسلامی نقطہ ٔنظر سے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اسلام میں حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ دونوں کو خداتعالیٰ کا نبی اور ان برکات کا وارث مانا جاتا ہے جن کا وعدہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا۔ تاہم حضرت اسماعیلؑ کو اسلام میں ایک خاص مقام دیا جاتا ہے۔ اسلام کا مرکز ی شہر مکہ ہے۔ اور اس شہر کی بنیاد حضرت اسماعیل نے ہی اپنی والدہ ماجدہ کی معیت میں رکھی تھی۔ اس شہر میں ’’کعبہ‘‘ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ اور اس مقام کی تعمیر میں حضرت اسماعیلؑ نے بھی اپنے والد ماجد کے ساتھ حصّہ لیا تھا۔ پھر اس مقدس مقام کا حج اسلام کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ اور اس فریضہ کے اکثر ارکان حضرت اسماعیلؑ اور ان کے والدین کی یاد میں ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خداتعالیٰ کا وہ وعدہ جو اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا کہ ’’ابراہام سے تو یقیناً ایک بڑی اور زبردست قوم پیدا ہو گی اور زمین کی سب قومیں اس کی نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی‘‘۔یہ وعدہ حضرت اسماعیلؑ کے ذریعے ہی پورا ہوا جب ان کی نسل سے وہ نبی پیدا ہوا جس کو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔(پیدائش:18/18،الانبیاء:108)

مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ اسلام میں حضرت اسماعیلؑ اپنے والد محترم کے وارث کے طور پر ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان کے مقام میں تخفیف کی کوشش ہمارے لیے ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے جسے ہم بغیر تحقیق کے چھوڑ نہیں سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم بائبل کے ان بیانات کا جائزہ لے کر معلوم کریں کہ یہ کہاں تک درست اور معتبر ہیں۔اور اگر ان میں کوئی ابہام، اخفاء یا تضاد پایا جائے تو ان کی نشاندہی کریں تا کہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔

حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کے متعلق جن بیانات کا تجزیہ مقصود ہے۔ وہ بائبل کی پہلی کتاب ’’پیدائش‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔قبل اس کے ہم ان بیانات کا جائزہ لیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کتاب ’’پیدائش‘‘ کا ایک عمومی جائزہ لے کر یہ جان لیں کہ یہ کس قدر مستند اور معتبر ہے۔ اور اگر اس میں کوئی ردّ وبدل یا کمی بیشی کی گئی ہے تو اس کو بھی اجاگر کریں۔

شریعت کی کتب میں تحریف

کتاب پیدائش ان پانچ کتابوں میں سے پہلی ہے جو یہود کی شریعت کی کتابیں یعنی تورات کہلاتی ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موجودہ تورات میں پائی جانے والی یہ کتابیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تحریر کردہ ہیں۔لیکن بائبل کی سب تفاسیر بیان کرتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد شریعت کی ان کتابوں میں تبدیلیاں اور اضافے کیے گئے۔ اور موجودہ شکل میں ان کتابوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد یہود کے کاہنوں نے اپنی جلاوطنی کے دور میں مرتب کیا تھا۔

(A Catholic commentary on the holy scriptures, Ed. 1951, sec. 130a.Peake’s Commentary, Ed. 2004, pages 5, 6 and 175)

جلا وطنی کے دَور تک تحریف کے نتیجے میں شریعت کی یہ کتابیں کس حد تک بگڑ چکی تھیں اس کا اندازہ حضرت یرمیاہ کے قول سے ہو سکتا ہے جو جلا وطنی کے دَور میں ہی یہود کی اصلاح کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ وہ اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ تم کیونکر کہتے ہو کہ ہم دانشمند ہیں اور خداوند کی شریعت ہمارےپاس ہے؟ لیکن دیکھ۔ لکھنے والو کے باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے…دیکھ انہوں نے خداوند کے کلام کو رد کیا ہے۔ ان میںکیسی دانائی ہے؟ … سب چھوٹے سے بڑے تک لالچی ہیں اورنبی سے کاہن تک ہر ایک دغا باز ہے۔‘‘(یرمیاہ باب 8 آیت 8تا 10)

پیدائش میں انبیاء کی توہین

بائبل اور قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے ہی اپنے نبیوں کی گستاخ اور ایذارساں چلی آئی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی شریعت کی کتابوں میں تحریف کرتے وقت انہوں نے اپنے انبیاء کے تقدس اور حرمت کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ اور کتاب پیدائش میں تو شروع سے آخر تک انبیاء کے ہی واقعات درج ہیں۔لہٰذا اس میں تقریباً سب انبیاء کے واقعات میں ہی توہین اور تحقیر کا عنصر پایا جاتا ہے۔ مثلاً :

حضرت آدمؑ کی توہین

حضرت آدم علیہ السلام کے قصے میں ایک ہی درخت تھا جس سے منع کیا گیا تھا۔ ان کاہنوں نے اس میں ایک ’’ابدی زندگی‘‘ کے درخت کا اضافہ کیا۔ اور اس طرح حضرت آدمؑ کی غیر ارادی بھول کو ایسے گناہ کا رنگ دے دیا جس کی پاداش میں (بقول ان کے) سب بنی آدم ’’ابدی زندگی‘‘سے محروم ہو گئے۔ اور موت ان کا مقدر بن گئی۔(پیکس کمنٹری۔ ڈیجیٹل پرنٹ 2004ءصفحہ 180)

حضرت نوحؑ کی توہین

حضرت نوحؑ کے واقعات میں تحریف کی گئی اور طوفان کے بعد ان کو نعوذ باللہ ایک ایسا شرابی دیکھایا گیا جو کشتی سے اترتے ہی انگوروں کا باغ لگاتا ہے۔ان سے شراب بناتا ہے اور شراب پی کر نشے میں مدہوش ننگا لیٹا ہے۔( پیدائش باب 9آیت 20سے 24)

حضرت ابراہیمؑ کی توہین

حضرت ابراہیمؑ تو ان کاہنوں کے جد امجد تھے۔ان کے بارے میں بھی یہ توہین آمیز قصے اس کتاب میں داخل کیے گئے ہیںکہ مصر اور جرار کے سفروں کے دوران انہوں نے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن ظاہر کر کے وہاں کے بادشاہوں کے سپرد کر دیا تھا اور بدلے میں تحائف وصول کیے تھے۔ دونوں دفعہ خداتعالیٰ نے بادشاہوں کو خبردار کیا تو ان کو اپنی بیوی واپس ملی ورنہ یہ تو اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔کوئی شریف آدمی ایسا شرمناک جھوٹ نہیں بول سکتا اور نہ ہی اپنی بیوی کو کسی دوسرے شخص کے سپرد کر سکتا ہے۔(پیدائش ابواب 12 اور 20)

حضرت اسحاقؑ کی توہین

حضرت اسحاقؑ کے بارے میں بھی ایک ایسا ہی قصہ اس کتاب میں درج ہے کہ وہ بھی جرار میں قیام کے دوران اپنی بیوی کو اپنی بہن ظاہر کرتے رہے۔ وہ تو کسی طرح بادشاہ کو یہ علم ہو گیا کہ جس کو وہ بہن ظاہر کر رہے تھے۔ وہ بہن نہیں بلکہ ان کی بیوی ہے۔ تو بادشاہ نے ان کو بلا کر ڈانٹا اور غلط بیانی سے منع کیا۔(پیدائش باب 26)

واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے متعلق مندرجہ بالا قصوں کے بارے میں جیوئش انسائیکلوپیڈیا کہتی ہے کہ ’’ان میں سے کوئی بھی روایت تاریخی طور پر قابل قبول نہیں۔‘‘اور یہ کہ ’’یہ بزرگوں کے متعلق عوام میں پھیلے زبانی قصوں کی مختلف شکلیں ہیں۔‘‘

(Jew. Enc. Under Sarah, repetition of Narratives )

اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کے مصری سفر کا جو قصہ پیدائش کے باب 12 میں درج ہے۔ اور جو قصہ حضرت ہاجرہ اور اسماعیلؑ کے اخراج کا باب 21 کے شروع میں درج ہے ان دونوں کے بارے میں ’’نیو ایڈونٹ کیتھولک انسائیکلو پیڈیا‘‘ کہتی ہے کہ ’’ان روایات کو گھڑ کر کاہنوں نے حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں ابہام پیدا کیا ہے۔‘‘اور ’’بیہودہ انوکھے پن‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔

(Catholic Enc. new advent, Abraham: view point of legend)

حضرت یعقوبؑ کی توہین

حضرت یعقوبؑ کے بارے میں یہ قصہ گھڑا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی ’’عیساو ‘‘کا روپ دھارا اور اپنے باپ حضرت اسحاقؑ سے جو بڑھاپے کی وجہ سے نابینا ہو چکےتھے۔ جھوٹ بولا اور دھوکے سے وہ ’’برکتیں‘‘ حاصل کر لیں جو وہ اپنے بڑے بیٹے ’’عیساو‘‘ کو دینا چاہتے تھے۔ جب بڑے بھائی کو اس دغا بازی کا علم ہوا تو وہ ان کا جانی دشمن بن گیا۔ اور ان کو جان بچانے کے لیے اپنے ماموں کے پاس حاران بھاگنا پڑا۔(پیدائش باب 27)

حضرت یوسفؑ کی توہین

پیدائش کے آخر میں حضرت یوسفؑ کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔قرآنی بیان کے بالمقابل اس بیان میں کئی خامیاں ہیں۔ لیکن سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مصری حاکم کی بیوی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں عورت کو سچی دکھایا گیا ہے۔ وہ بار بار حضرت یوسفؑ کی قمیص دکھا کر الزام لگاتی ہے کہ یوسفؑ نے زیادتی کی کوشش کی اور میرے شور مچانے پر وہ اپنی قمیص میرے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔پورے قصے میں ایک لفظ بھی حضرت یوسفؑ کے دفاع کا درج نہیں۔ صرف عورت ہی بولتی نظر آتی ہے۔ ان کاہنوں نے حضرت یوسفؑ کو نعوذ باللہ ایک ایسے ملزم کے طور پر دکھایا ہے جو جائے واردات سے نیم برہنہ حالت میں فرار ہو جاتا ہے اور بعد میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ (پیدائش۔ باب 39)

ظلم کی انتہا ہے کہ جس قمیص کو قرآنی بیان میں حضرت یوسفؑ کی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اسی قمیص کو ان کاہنوں نے ان کے جرم کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور یہ شرارت انہوں نے دانستہ کی ہے ورنہ وہ ’’پیچھے سے پھٹی‘‘ قمیص کی اہمیت سے ناواقف تو نہ تھے۔حضرت یوسفؑ کے خلاف اس مقدمے میں کوئی وکیل ان کاہنوں سے بڑھ کر اس عورت کی وکالت نہ کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا بے شمار شکر ہے کہ اس نے قرآن کریم میں اصل واقعہ اور عورت کا اعتراف بھی بیان کر دیا اور اپنے برگزیدہ نبی کی عزت و ناموس کو محفوظ کر دیا۔

حضرت لوطؑ کی توہین

سب سے زیادہ افسوسناک تحریف حضرت لوطؑ کے واقعات میں کی گئی ہے۔ان کی دو بیٹوں۔کے لڑکوں موآب اور عمون سے جو قبائل نکلے ان سے بنی اسرائیل کی دشمنی تو بہت پرانی ہے۔لہٰذا ان کے واقعات میں تحریف کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے یہ کاہن شرافت کی سب حدود پھلانگ گئے ہیں۔ اور ان کی بیٹیوں کے حوالے سے جس گندی ذہنیت کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے اس بیہودہ قصے کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے اور نہ مناسب۔(پیدائش باب 19)

اس قصے کے بارے میں خود جیوئش انسائکلوپیڈیا نے لکھا ہے کہ یہ ایک بھونڈا مذاق تھا جو اسرائیلی عوام نے لوط کے خلاف بنا لیا تھا۔اور یہ اس نفرت کا آئینہ دار ہے جو ان کے خلاف عوام میں پائی جاتی تھی۔(جیوئش انسائکلوپیڈیا۔1906ء۔ لوط۔ رابیوں کے لٹریچر میں)

حضرت اسماعیلؑ کی توہین

آخر میں ہم حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کی توہین کا ذکر کرتے ہیں۔’’پیدائش‘‘ کے ابواب 16 اور 21 میں حضرت ہاجرہ کو ’’لونڈی‘‘اور حضرت اسماعیل کو ’’لونڈی کا بیٹا‘‘ظاہر کر کے ان کی تحقیر کی گئی ہے۔ یہ دونوں ہستیاں اسلام میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ اور ان کی تحقیر کے حوالے سے بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کی جاتی ہے۔ چونکہ بائبل کے ان بیانات کو اسلام کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔لہٰذا ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ بائبل کے ان بیانات کا تجزیہ کر کے اصل حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔

حضرت ہاجرہ کے متعلق بیانات کا تجزیہ

کتاب پیدائش میں حضرت ہاجرہ کا ذکر پہلی بار باب 16 میں ملتا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سارہ کی ایک لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔ جب سارہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ وہ ہاجرہ کو اپنا لیں تاکہ اس کے ذریعے سے اولاد ہو جائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اس تجویز پرغور کیا اور قبول کر لی۔ چنانچہ سارہ نے اپنی لونڈی ہاجرہ کو لیا اور اس کو بطور بیوی کے ابراہیمؑ کے سپرد کر دیا۔

پھر لکھا ہے کہ ہاجرہ حاملہ ہوئی تو وہ اپنی مالکن کو حقیر جاننے لگی۔ اس پر سارہ نے ہاجرہ پر اتنی سختی کی کہ وہ ایک روز باہر بیابان میں بھاگ گئی۔ وہاں ہاجرہ کو ایک فرشتہ ملا جس نے اس کو سمجھایا کہ وہ اپنی مالکن سارہ کے پاس واپس چلی جائے۔ اور فرشتے نے ہاجرہ کو یہ بھی بتایا کہ خدا تیری نسل کو بہت بڑھائے گا۔ اور تیرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا۔ اس کا نام اسماعیل رکھنا کیونکہ خدا نے تیری دکھ بھری داستان سن لی ہے۔ چنانچہ ہاجرہ واپس آ گئی۔ پھر ہاجرہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت ابراہیمؑ نے اسماعیل رکھا۔ حضرت ابراہیمؑ اس وقت 86 سال کے تھے۔( خلاصہ پیدائش باب 16)

ہاجرہ کا ماضی غائب

کتاب پیدائش میں حضرت ہاجرہ کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ سارہ کی لونڈی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے حوالے سے بائبل میں کوئی معلومات نہیں کہ وہ کون تھیں اور کہاں سے آئی تھیں۔ اس باب میں ہاجرہ کا سارا ماضی غائب ہے۔ آخر یہ اخفاکیوں؟ حضرت ہاجرہ کے بارے میں یہود کے لٹریچر میں بہت سی ثقہ روایات موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ وہ کون تھیں اور کہاں سے آئی تھیںلیکن بائبل کی یہ کتاب ’’پیدائش‘‘ اس بارے میں بالکل خاموش ہے۔ اس اخفا اور خاموشی کا یہود کی تفاسیر نے بھی نوٹس لیا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ اس باب 16 کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم مستند اسرائیلی روایات کی رو شنی میں حضرت ہاجرہ کی زندگی اور سیرت کے وہ پہلو دیکھ لیں جن کو بائبل کی اس کتاب میں چھپایا گیا ہے۔ یوں بھی کسی کی ذاتی حیثیت کے بارے میں صرف ایک دو شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاََ ایسے شواہد پر تو بالکل بھروسا نہیں کیا جا سکتا جن کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حضرت ہاجرہ سے متعلق ان دیگر شواہد کو زیر غور لایا جائے جو معتبر اسرائیلی روایات میں موجود ہیں۔

حضرت ہاجرہ اور اسرائیلی روایات

حضرت ہاجرہ کے بارے میں بنی اسرائیل میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ہم ان میں سے تین معتبر اور مستند ماخذ سے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں۔ یہ حوالے بہت سے امور میں ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔ تاہم ہر حوالے میں حضرت ہاجرہ کی زندگی کے کچھ نئے پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ان روایات کا مطالعہ حضرت ہاجرہ سے متعلق بہت سے الجھنوںاور غلط فہمیوں کو دُور کر دے گا اور ان کی اصل کہانی کو سمجھنے میں مددگار ہو گا۔

’’یہودی عورتوں کی انسائیکلوپیڈیا ‘‘ میں حضرت ہاجرہ کے بارے میں بہت مفصل مضمون لکھا ہے۔ اس کے چند متعلقہ حصے درج کیے جاتے ہیں:

‘‘The Rabbis present Hagar, Sarah’s handmaiden, as an Egyptian princess whom Pharaoh king of Egypt gave to Sarah as a gift…The spiritual level of Sarah’s handmaiden was higher than that of people from later generations…In some midrashic portrayals, Hagar observed the commandments and engaged in good deeds and was thus fit to be Abraham’s wife. These traditions identify Hagar with Ketura, who in Gen.25:1 was taken as a wife by Abraham. After Sarah’s death Abraham brought his divorcee back and she bore him additional children. Despite her divorce, Hagar’s purity was not suspect, and she remained chaste until Abraham brought her back…

The Torah does not explain how Sarah came to have an Egyptian handmaiden, nor does it specify how many years she was with her mistress before she was given to Abraham. The Rabbis connected Abraham and Sarah’s stay in Egypt during the years of famine with the Egyptian handmaiden’s joining their family.

Pharaoh sees the miracles that were performed for Sarah in his house, he gives her his daughter Hagar as a handmaiden. He said ‘‘It would be better for my daughter to be a handmaiden in Sarah’s house than a noblewoman in another…Sarah took Hagar and gave her to Abraham, and not to another, and to be his wife and not a concubine.’’(T. Kadari: Hagar: Midrash and Aggadah. Jewish Women: A Comprehensive Historical Encyclopedia. Jewish Women’s Archive. 20 March 2009.https://jwa.org/encyclopedia/article/hagar-midrash-and-aggadah)

ترجمہ(مفہوماً):سارہ کی خادمہ ہاجرہ کو رابی ایک مصری شہزادی کے طور پر پیش کرتے ہیں جسے مصر کے بادشاہ فرعون نے سارہ کو تحفۃً دیا تھا… سارہ کی اس خادمہ کا روحانی مقام بعد میں آنے والی نسلوں کی نسبت بلند تھا… مدراش کے بعض بیانات کے مطابق ہاجرہ احکاماتِ خدا کی پابند تھی اور نیک اعمال بجا لاتی تھی۔ اور اس طرح وہ ابراہیم کی بیوی بننے کی اہل تھی۔ ان روایات کے مطابق ہاجرہ ہی وہ قطورہ تھی جسے ابراہیم نے پیدائش باب25 آیت 1 کے مطابق بطور بیوی اپنایا تھا۔ سارہ کی وفات کے بعد ابراہیم اپنی ’’مطلقہ‘‘ کو واپس لے آئے تھے۔ اور اس سے ان کے مزید بچے پیدا ہوئے تھے۔ طلاق کے باوجود ہاجرہ کی پاکیزگی شک و شبہ سے بالا تھی۔ اور جب تک ابراہیمؑ اسے واپس نہیں لے آئے اس نے اپنی عزت و ناموس کی پوری حفاظت کی…تورات اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ سارہ نے ہاجرہ نامی مصری خادمہ کیسے حاصل کی۔ اور نہ ہی یہ بتاتی ہے کہ وہ کتنے سال سے اپنی مالکن کے پاس تھی جب وہ ابراہیم کو دی گئی تھی۔ رابیوں کے مطابق یہ مصری خادمہ اس وقت ان کے خاندان میں شامل ہوئی تھی جب ابراہیم اور سارہ نے قحط کےایام میں مصر میں قیام کیا تھا…جب فرعون نے وہ معجزے دیکھے جو سارہ کی وجہ سے اس کے گھر میں ہوئے تو اس نے اپنی بیٹی کو اسے یہ کہتے ہوئے بطور خادمہ دے دیا کہ میری بیٹی کا سارہ کے گھر میں خادمہ بن کر رہناکسی اور گھر میں عزت دارعورت بن کر رہنے سے بہتر ہے…سارہ نے ہاجرہ کو لیا اور ابراہیم کو دیا۔ نہ کسی اور کو۔ اور بطور بیوی کے دیا نہ کہ بطور لونڈی کے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. بہت اچھا مضمون آج اسی بارے میں پڑھ رہی تھی ماشاءاللہ ماشاءاللہ گزارش ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا کے بارے میں بھی تحقیقاتی مضمون لائیں کئی سوال ہیں حوا کیا حضرت آدم کی بیوی تھیں؟

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button