قرآن کریم

قرآن کریم کی ترتیب کوسمجھنےکے صحیح وسائل

(حضرت مولانا ظفر محمد ظفر)

دنیا کے کسی انسان کے لئے خواہ وہ اپنے ایمان کے اعتبار سے کتنا ہی بلند پایہ کیوں نہ ہو قرآن کریم کے جملہ معارف وحقائق کا احاطہ کرلینا ممکن نہیں ۔ہاں ہر شخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس میںحصہ لے سکتا ہے اور دامن مراد کو مالا مال کر سکتا ہے

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں ہے اور اگر ترتیب ہے تو صرف اتنی کہ لمبی سورتیں پہلے رکھ دی گئی ہیں اور چھوٹی بعد میں ۔ اس غلط خیال کی ترویج میں مستشرقینِ یورپ نے خاص حصہ لیا ہے اور بعض مسلمان بھی اپنی سادگی کی بنا پر ان کے ہمنوا ہو گئے۔ لیکن اس قسم کے خیالات رکھنے والے مسلمان ایک حد تک معذور تھے کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی معجزانہ ترتیب کا فہم اسلام کی نشاَۃٔ ثانیہ کے ساتھ وابستہ تھا۔ جیسے فرمایا :

إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ۔ فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ۔ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ ( القیامۃ:18تا20)

قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے کیلئے دو باتوں کی ضرورت ہے۔ا ول یہ کہ انسان عربی زبان میں ماہر ہو۔ دوم یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا ایمان ہو۔ اوراس کاآئینہ قلب اتنا صاف ہو کہ صفات الٰہیہ کا چہرہ اس میں منعکس ہو سکے۔ اگر یہ دو باتیں کسی انسان میں موجود نہ ہوں تو پھر وہ قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے سے یقیناً محروم رہے گا۔

قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے میں ایک اور مشکل بھی حائل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَلَا یَنۡسَی کی مصداق ہے۔ یعنی بھول چوک سے پاک ہے۔ لیکن انسان سہو و نسیان کا پتلا ہے وہ قرآن کریم کے جملہ مضامین اور مطالب کو بیک وقت مستحضر نہیں کر سکتا۔ اگر انسان میں یہ کمزور ی نہ ہوتی تو پھر ہر مومن قرآن کریم کی ترتیب کو بیک وقت اپنے ظرف کے مطابق سمجھنے کی اہلیت رکھتا۔

اصل بات یہ ہے کہ جس طرح زمان و مکان کی وسعتوں کو ماپنے سے اہل طبیعات عاجز ہیں اُسی طرح عالم قرآن کی وسعتوں کو سمجھنے سے اہل ایمان قاصر ہیں ۔ دنیا کے کسی انسان کے لئے خواہ وہ اپنے ایمان کے اعتبار سے کتنا ہی بلند پایہ کیوں نہ ہو قرآن کریم کے جملہ معارف وحقائق کا احاطہ کرلینا ممکن نہیں ۔ہاں ہر شخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس میںحصہ لے سکتا ہے اور دامن مراد کو مالا مال کر سکتا ہے۔

راقم الحروف کا خیال ہے کہ کائنات میں جو کچھ وقوع میں آ چکا ہے یا آئندہ وقوع میں آئے گا۔ وہ سب کا سب قرآن میں بالترتیب موجود ہے لیکن انسان چونکہ غیب دان نہیں ہے اس لئے جب وہ قرآن کریم میں ایک مستقبل کے واقعہ سے پہلے ماضی کے ان واقعات کو جو مستقبل کے واقعہ کے لئے بطور علل و اسباب کے ہوتے ہیں پیوست پاتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قرآن کریم کے بیان کی ترتیب میں خلل آ گیا ۔لیکن اگر وہ ماقبل اور ما بعد کی آیات یا سُوَر میں تدبّر کرے تو اس کا عقدہ خود قرآن کریم ہی سے حل ہو جاتا ہے ۔

قرآن کریم تقدیر عالم ہے اور اسی کے بیان کے مطابق مزاج عالم میں ہمیشہ تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم ابتدائے آفرینش سے لے کریوم آخرت تک کے جملہ تغیرات کو عموماًاور تغیرات نوع انسانی کو خصوصاًبالترتیب بیان فرماتا ہے اور اس رنگ میں بیان فرماتا ہے کہ ہر تغیر کے علل و اسباب اور اس کے نتائج بھی انسان کے سامنے آ جاتے ہیں اور اپنے دلائل کو ایسی پختہ صورت میں بیان فرماتا ہے کہ ہر زمانے کا انسان ان دلائل کے آگے بشرطیکہ اس کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہو سر جھکا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مثلاً احیائے موتیٰ کے ثبوت میں وہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ جس طرح پانی کی بارش سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے اسی طرح مرے ہوئے دل کلام اللہ کی باران رحمت سے زندہ ہو جاتے ہیں اور پھر جب کوئی قوم کلام اللہ کی تربیت کے نتیجہ میں زندہ ہو جاتی ہے تو پھر قرآن کریم اس روحانی احیا کے واقعہ کو احیائے موتیٰ کے ثبوت میں پیش فرماتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سلیم الفطرت انسان کو پورا یقین ہو جاتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد یقیناً زندہ کیا جائے گا اور پھر یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی اُسے یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ مادی عالم ایک روحانی عالم کے متشابہ ہے ۔ اور روحانی عالم ایک نورانی عالم سے مستفیض ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہر فیض کا سرچشمہ اور ہر تغیر و تبدل کے لئے علت العلل ہے۔ بہر حال اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ قرآن کریم سورۃ فاتحہ کی بسم اللہ کی ’’ب ‘‘سے لے کر اپنے آخری لفظ والناس کی ’’س ‘‘تک ایک ہی کلمہ ہے اور یہ کہ جملہ کائنات اسی کلمہ کے اشارے پر چل رہی ہے ۔ اور یہ کہ نوع انسانی کا قافلہ جنت سے نکل کر پھر فردوس تک پہنچنے کے لئے جس رفتار سے گامزن ہے اس کے جملہ مراحل ومنازل اس کلام میں بمع علل و اسباب اور نتائج بالترتیب بیان ہو رہے ہیں ۔ذیل کے وسائل سے قرآن کریم کے اسلوب بیان کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

اول ۔ قرآن کریم کے مقام کو خود اللہ تعالیٰ کے کلام، رسول اللہ ؐ کی احادیث ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

دوم :قرآن کریم کی ہر سورت کے محل وقوع پر او ران اسماء اللہ پر غور کیا جائے جن اسما ءکی یہ سورت مظہر ہو۔ نیز یہ دیکھا جائے کہ ان اسماء اللہ سے سورت میں کیا مضمون پیدا ہوا۔

سوم : ہر سورت کے نام ، مضمون اور ابتدائی کلمات اور آخری کلمات پر غور فرمائیے۔

چہارم :سورۃ فاتحہ میں اور قرآن کریم کی سُوَر میں مؤاخات اور مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

پنجم :مقطعات پر غور کیا جائے اور ان کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ان سورتوں میں غور کیا جائے جن کے شروع میں ایک ہی طرح کے حروف مقطعات آئے ہیں اور وجہ اشتراک تلاش کی جائے۔

ششم :قرآن کریم کی جملہ آیات بلکہ جملہ الفاظ کا تتبع کیجئےکہ وہ کہاں کہاں مکرر آئے ہیں اور جن سورتوں میں ایک ہی مضمون کی آیات یا الفاظ مکرر آئے ہوں ا ن میں باہم رابطہ کی وجہ تلاش کیجئے ۔ نیز بوقت تکرار آیات کے الفاظ میں یا آیات کے حروف میں کوئی فرق واقع ہو تو اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

ہفتم :قصص انبیاء کے محل وقوع پر غور کیا جائے اور ان کے بظاہر غیر مرتب طور پر اور پھر بار بار مذکور ہونے کی وجہ تلاش کی جائے۔

ہشتم :کسی صورت آیت اور لفظ یا حروف کی حکمت کو سمجھنے کے لئے اپنے پاس سےکوئی بات پیدا نہ کی جائے بلکہ ہر بات کو قرآن کریم سے دریافت کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر توفیق ایزدی اور خوش نصیبی نے ساتھ دیا تو یہ ہادی کتاب صدہا بصائر کے ساتھ آپ کو اصل حقیقت تک پہنچا دے گی۔ لیکن اگر کسی حجاب کے باعث کوئی مشکل پیش آئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ، مصلح موعود ایدہ اللہ الودود اور امت کے ائمہ سلف کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

غرض یہ آٹھ طریق ہیںجن کو پیش نظر رکھنے سے مومن کی نگاہ قرآن کریم کے الفاظ کے پردوں سے نکل کر اس کے باطن تک پہنچ سکتی ہے اور وہ لطیف ترتیب جو بظاہر نگاہوں سے پنہاں ہے خود بخود نظر آنے لگتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سعادت نصیب ہو جائے تو پھر اس کتاب مکنون کے حسن پنہاں کی ایک ادنیٰ سی جھلک انسان کووارفتہ کر دیتی ہے اور انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔

دامانِ نگہ تنگ و گُلِ حُسنِ تو بسیار

گل چینِ بہارِ تو زِ داماں گِلہ دارد

( روزنامہ الفضل مورخہ2؍ستمبر1958ء صفحہ3،4و معجزات القرآن صفحہ219تا222)

(مرسلہ:آصف بلوچ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button