پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

برطانیہ کے ایک وزیر کا ٹویٹ …’’میری زندگی کے مشکل ترین دنوں میں سے ایک‘‘

لندن، 28؍مئی2021ء: ومبلڈن کے لارڈ طارق احمد جو اس وقت برطانیہ کی حکومت میں وزیر برائے جنوبی ایشیا اور کامن ویلتھ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں، نے 28؍ مئی 2021ء کو لاہور (دارالحکومت پنجاب) میں احمدیوں کی مساجد پر دوہرے حملوں پر گیارہ سال پورے ہونے پر مندرجہ ذیل ٹویٹ کی:’’11سال قبل جمعة المبارک کی نماز کے دوران دو احمدی مسجدوں پر دہشتگردوں نے فائرنگ کر کے 86 نمازیوں کو شہید کر دیا۔ ہم ان کو آج یاد کر کے ان معصوم جانوں کے لیے دعا گو ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ مذہب کی آزادی کےلیے اور تفرقہ بندی اور نفرت کے خلاف ہمیشہ کھڑے ہوںگے۔# محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔‘‘

مذہبی اقلیتوں کے لیے جگہ دستیاب!

لاہور،4؍مئی 2021ء: ’’ہماری اقلیتیں ہمارے ملک کے مساوی شہری ہیں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے جو غیر مسلم شہریوں یا ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہیں‘‘ 26؍فروری 2021ء کو ایک وی وی آئی پی نے زور دیا۔ہم یہاں ان کا نام تو نہیں بتاتے تاہم ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس کا ریکارڈ میڈیا میں بھی اچھی طرح موجود ہے اورجو اس امر کی طرف دلالت کرتا ہے کہ حقائق دراصل کیا ہیں۔

لاہور کے ایک مینٹل ہسپتال کے اندر عیسائیوں کی عبادت گاہ پر مسلمان نرسوں نے زبردستی قبضہ کر لیا جنہوں نے پھر وہاں اسلامی نغمات (نعت اور حمد) گانا شروع کر دیے۔ ان نرسوں نے مبینہ طور پر مسیحی عملے کو دھمکی دی اور کہا کہ اگر انہوں نے مذہب تبدیل نہیں کیا تو ان کے خلاف توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

مسلم نرسوں نے مطالبہ کیا کہ ہسپتال انتظامیہ تمام غیرمسلم ملازمین کو ملازمتوں سے برطرف کرے۔ حکام نے دراندازی کرنے والوں کے خلاف کوئی فوری کارروائی نہیں کی۔ ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ تاہم، مقامی انتظامیہ غنڈوں اور ہراساں کرنے والوں کے درمیان امن معاہدے پر بات چیت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

ٹویٹر پر واقعے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے صحافی بلال فاروقی نے لکھا کہ مسلم نرسوں نے لاہور کے ایک ہسپتال کے اندر چرچ کو سنبھال لیا اور نعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنے مسیحی ساتھیوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے مذہب تبدیل نہیں کیا تو ان کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ اسی دوران پاکستانی صحافی نائلہ عنایت نے بھی یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسیحی نرسوں کے خلاف توہین مذہب کا تیسرا بڑا کیس ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کراچی میں ایک نرس اور فیصل آباد میں ایک اَور نرس کے خلاف نام نہاد توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

Asianews.it نے یہ خبر شائع کی ہے۔ یہاں اس کے کچھ نمونے پیش ہیں:“… 29؍اپریل 2021ء کو، تین مسیحی نرسیں سکینہ بی بی، جیسیکا خرم، اور ٹریزا ایرک مینٹل گورنمنٹ ہسپتال، جیل روڈ، لاہور میں ڈیوٹی پر تھیں۔ ان پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ وہ اسلام کی توہین کر رہی ہیں۔ یہ واقعہ ایک دن پہلے اس وقت شروع ہوا جب ایک عیسائی نرس نے ایک شخص کی ویڈیو شیئر کی تھی جس میں وہ تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کی وجہ سے پاکستان کی صورت حال کے بارے میں طبی عملے کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اپنے خیالات شیئر کر رہا تھا۔ یہی ویڈیو اس کے اور دو دیگر مسیحی نرسوں کے خلاف توہین آمیز الزامات کا ذریعہ بنی۔

اس کے جواب میں، نرسنگ سپرنٹنڈنٹ خالدہ سلیری نے مسلمان عملے کے ایک گروپ کو منظم کیا اور ہسپتال کے اندر واقع چرچ میں جا کر اسلامی دعائیں کیں، اور عیسائی نرسوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے عیسائی عملے کے خلاف ایک ریلی نکالی۔

ہسپتال کا چرچ 2019ءمیں مسیحی نرسنگ سٹاف کی درخواست پر صوبائی سیکرٹری ہیلتھ نے ان کے لیے مختص کیا تھا تاکہ عملے اور مریضوں کو ہسپتال کے احاطے میں کرسمس منانے کی اجازت دی جا سکے۔

ہسپتال میں 700 ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں 105 نرسوں سمیت 339 سٹاف کرسچن ہیں اور ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے انہیں ہفتے میں ایک بار 30 منٹ تک عبادت کرنے کی اجازت ہے۔‘‘

اگرچہ اس واقعے نے کسی احمدی کو تو براہ راست متاثر نہیں کیا، لیکن اسے اچھی طرح سے ریکارڈ اور رپورٹ کیا گیا تھا۔ اس لیے یہاں غیر مسلموں اور جن پر غیر مسلم کی حیثیت مسلط کی گئی ہے ان کے لیے اس ملک میں مذہبی آزادی کی حالت کو بتانے کے لیے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسلام پسند متعصب نڈر ہو چکے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے آزاد محسوس کرتے ہیں۔

احمدی پابندِ سلاسل

٭…13؍مئی 2014ءکو تھانہ شرقپور میں PPCs 295-A، 337-2 اور 427 کے تحت چار احمدیوں، خلیل احمد، غلام احمد، احسان احمد اور مبشر احمد بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دو دن بعد خلیل احمد کو 16؍مئی 2014ء کو پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے ایک مدرسے کے طالب علم نے شہید کر دیا تھا۔ باقی تین ملزمان کو 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سال بعد ہائی کورٹ کے جج کی تجویز پر ان کی چارج شیٹ میں مہلک شق PPC 295-C کا اضافہ کیا گیا ۔ ایک سیشن جج نے 11؍ اکتوبر 2017ءکو انہیں سزائے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ عدالت کو اپیل کا فیصلہ کرنے کا وقت نہیں ملا۔ یہ تینوں احمدی تادمِ تحریر ایں رپورٹ ساڑھے چھ سال سے جیل میں ہیں۔

٭… روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد وغیرہ کے خلاف 26؍مئی 2020ء کو ایف آئی آر نمبر ,29/2020 PPCs 295B, 298C, 120B,109, 34 R/W 2016-PECA-11پولیس اسٹیشن ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں درج کی گئی ۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں عمر قید ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائمز ڈیپارٹمنٹ، لاہور جو کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے تحت کام کرتا ہے، نے واپڈا ٹاؤن لاہور کے روحان احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔

ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کو ایف آئی اے آفس میں پیشی پر گرفتار کیا گیا، وہ کیمپ جیل لاہور میں ہیں۔

٭… عبدالمجید ولد عبدالوحید ساکن شاہین مسلم ٹاؤن، تاج چوک، پھندو روڈ، ضلع پشاور، عمر 20، عمران علی نامی نابالغ نے توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔ پولیس نے ملاؤں کے دباؤ کے سامنے آکر اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 295-C کے تحت من گھڑت مقدمہ درج کیا جس میں 10؍ستمبر 2020ء کو ایف آئی آر درج کی گئی۔ 648 تھانہ پھندو، پشاور۔ اسے 13.09.2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت پشاور جیل میں ہیں۔

٭…طارق اے طاہر اور صفوان احمد کے خلاف 25؍ نومبر 2020ء کو ایف آئی آر 83/2020 توہین رسالت کی شق PPC 295-B کے تحت پولیس اسٹیشن نگر پارکر، سندھ میں درج کی گئی۔ طارق اے طاہر کو گرفتار کر لیا گیا۔

٭…چار احمدی محمد محمود اقبال ہاشمی، شیراز احمد، اور دو دیگر کے خلاف سائبر کرائم پولیس اسٹیشن لاہور نے 20؍ جون 2019ء کو ایف آئی آر نمبر 88، PPCs 295-A, 298-C, PECA-11کے تحت مقدمہ درج کیا تھا ۔ ان پر مبینہ طور پر ایک گروپ ’’سندھ سلامت‘‘ بنانے اور اس میں احمدیہ مواد کو مبینہ طور پر شیئر کرنے کا الزام ہے۔ اقبال ہاشمی اورشیراز احمد اپنے مذہب کی وجہ سے پابند سلاسل ہیں۔

٭…ملک ظہیر احمد کو 30؍ستمبر 2019ء کو سیکشن 298-C، 295-B PECA-11 اور 109 کے تحت مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 23؍فروری 2021ء کو ضمانت مل گئی تھی اور توقع تھی کہ کاغذی و رسمی کارروائیوں کے چند دن بعد وہ چار سے پانچ دن میں رہا ہو جائیں گے ۔ 27؍ فروری کو جب ملک ظہیر احمد کی کیمپ جیل سے رہائی متوقع تھی، سائبر کرائم ونگ لاہور کی ٹیم نے انہیں ایف آئی آر نمبر 88، PPCs 295-A، 298-C، PECA-11 کے تحت گرفتار کر لیا۔ اس مقدمے میں انہیں باضابطہ طور پر نامزد بھی نہیں کیا گیا تھا۔

٭…منصور احمد طاہر پر ایف آئی آر نمبر 217 ۔16 ایم پی او کے تحت پولیس کیس درج کیا گیا تھا۔ 31؍مارچ 2021ء کو تھانہ حویلی لکھا، ضلع اوکاڑہ میں گرفتار کیا گیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ منصور احمد طاہر نے مذہبی پروگرام کے بارے میں منفی ریمارکس دیے جس سے وہ ناراض ہوئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button