متفرق

کینیڈا میں انٹرنیٹ اور فون کا وسیع تعطل

(محمد سلطان ظفر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کینیڈا)

نوجوان یہی سمجھ رہے تھے کہ شاید وہ ’’پتھر کے دور‘‘ میں پہنچ گئے ہیں اور وہ سارا دن اس کا اظہار بھی کرتے رہے

تین کروڑ بیاسی لاکھ کی آبادی پر مشتمل کینیڈا کے 96 فیصد سے زائد لوگ انٹرنیٹ کا روزمرہ استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا یہ استعمال موبائل فون، موبائل ڈیٹا، ٹیکسٹ میسجز، کیبل ٹی وی، گھریلوانٹرنیٹ،کریڈٹ کارڈ/ ڈیبٹ کارڈ سروسز، فضائی کمپنیوں کے لیے بکنگ، ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی آن لائن appointments، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی آن لائن کلاسز وغیرہ سے لے کر کار پارکنگ کی ادائیگی تک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیز 80 فیصد لوگ کافی کے ایک کپ سے لے کر گاڑی کی خریداری تک، نقد ادائیگی کی بجائے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ غرضیکہ حقیقتاً پوری دُنیا میں، آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ انحصار کینیڈا میں ہی ہوتا ہے۔ یہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ’’راجرز کمیونیکیشن‘‘ہےجس کے ایک کروڑ آٹھ لاکھ کنکشن لوگوں کے زیر استعمال ہیں۔

انٹرنیٹ پر اتنا انحصار کرنے والے کینیڈا کی جمعہ 8؍جولائی 2022ء کی صبح،بہت سے لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھی۔ ساڑھے پانچ بجے کے قریب’’راجرز کمیونیکیشن‘‘ کے تمام کنکشن اچانک بند ہوگئے۔ ٹی وی، ریڈیو، فون کالز، ٹیکسٹ میسجز حتیٰ کہ ایمبولینس، فائرٹرک اور پولیس تک رسائی بھی یکسر ختم ہوگئی۔ ہوائی سفر درہم برہم ہوگئے۔ کاروبار رک گئے، کلاسز، میٹنگز اور عدالتی کارروائیاں تک منسوخ ہوگئیں۔ لوگوں کی جیبوں میں کافی کی ادائیگی کے لیے بھی رقم ناکافی تھی۔اگرچہ دوسری کمپنیوں کی سروسز بحال تھیں اور ان کا کنکشن رکھنے والے لوگ انہیں استعمال بھی کررہے تھے مگر وہ ’’راجرز‘‘ کے صارفین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام تھے۔ بہت سے وفاقی ادارے مثلاً ’’سروس کینیڈا‘‘ وغیرہ مکمل طور پر جمود کا شکار ہوگئے۔ کینیڈا میں بیرونِ ملک سے آنے والے مسافر آمد کے وقت تمام معلومات آن لائن مہیا کرتے ہیں۔ ایسے مسافروں کو شدید تکلیف اور گھنٹوں انتظار کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جس نیٹ ورک پر متعلقہ ایپ ’’آرائیو کین‘‘ موجود تھی وہ بھی ’’راجرز‘‘ کا مہیاکردہ تھا۔ علاوہ ازیں بیرونِ ممالک میں موجود مسافر بھی Roaming استعمال کرنے سے محروم ہوگئے۔

بالآخر رات گئے کنکشن بحال ہونا شروع ہوگئے جس سے لوگوں کی محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً سانس میں سانس آئی کہ اب موبائل فون کے بغیر زندگی کا تصور بھی ناممکن لگتا ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں پورے ملک کو احساس ہوگیا کہ ہم ٹیکنالوجی پر کتنا انحصار کررہے ہیں اور کسی ایک معمولی خرابی یا غلطی سے پوری قوم مفلوج ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی گزشتہ بیس سے تیس سالوں سے ہی اتنی عام ہوئی ہے مگر نوجوان یہی سمجھ رہے تھے کہ شاید وہ ’’پتھر کے دور‘‘ میں پہنچ گئے ہیں اور وہ سارا دن اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

اس موقع پر کئی ماہرین نے اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دِلائی کہ ’’راجرز کمیونیکیشن‘‘ حالیہ برسوں میں کئی کمپنیوں کو خرید کر اپنی کمپنی میں ضم کرچکا ہے جس کی وجہ سے وہ سب سےبڑی کمپنی بن گئے ہیں۔ اگر وہ سب کمپنیاں الگ الگ ہوتیں تو نقصان بہت کم ہوتا اور ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ کاروبار کے کسی بھی میدان میں کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے اور ایک حد مقرر ہونی چاہیے جس سے زائد کاروبار کرنے کی اجازت نہ ہو تاکہ مسابقت کا زیادہ سے زیادہ رجحان رہےجو قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کا سبب ہوتا ہے۔ نیز کسی قسم کے حادثہ کی صورت میں کم سے کم لوگ متاثر ہوں۔ یاد رہے کہ کینیڈا ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں فون کا انٹرنیٹ ڈیٹا پوری دُنیا سے مہنگا ہے۔

تادمِ تحریر یہ واضح نہیں ہوا کہ اتنے بڑے بریک ڈاؤن کی وجہ کیا تھی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ کچھ راؤٹرز میں خرابی سارے مسئلہ کی جڑ تھی جن کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ تاہم کچھ ماہرین یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کسی غیرملکی گروپ نے تاوان کے لیے ان کا پورا سسٹم ہیک کیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں کئی کینیڈین کمپنیوں کے نظام کو ہیک کرکے تاوان لیا جاچکا ہے۔ اس خرابی کی وجہ جو بھی ہو اس ایک دن میں مجموعی طور پر کینیڈین عوام اور کاروباروں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کا حتمی اندازہ تو ابھی نہیں لگایا جاسکا لیکن ماہرین کا تخمینہ اربوں ڈالرز میں ہے۔

کینیڈا کے اکثر لوگوں نے 8؍جولائی 2022ء کا دن آپس میں باتیں کرتے ہوئے، کتابیں پڑھتے ہوئے یا گھریلو کام کاج کرنے میں گزارا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button