سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تواس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے

صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب

فرمانبرداربیٹا

(گذشتہ سے پیوستہ)سیرت المہدی کی ایک روایت ہے :’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا۔کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے۔پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔مگر مرزافضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اورایک رنگ جاتا تھا۔اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی اُدھر۔کبھی اپنی پگڑی اُتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤ ں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول، روایت نمبر36)

البتہ ایک موقع ایساآیاکہ جہاں کچھ قدم ڈگمگائے۔ ہرچندکہ ابتدامیں مرزافضل احمدصاحب نے فرمانبرداری کانمونہ دکھایا۔یہ امتحان تھابھی انتہائی کٹھن اوربجزاعلیٰ درجہ کے ایمان اور تقویٰ کے یہاں ہرایک کے قدم ڈگمگانے لازمی امرتھا۔کہ یہ راہ کانٹوں کی گزرگاہ تھی اورکمال اطاعت گزاروں کاامتحان تھاکہ جوفاسق اور مومن کے درمیان نمایاں فرق پیداکرنے والاامتحان تھا۔

کچھ ایسے ہی حالات کے پیش نظرقرآن کریم میں خداتعالیٰ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتاہے:قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَاَبۡنَآؤُکُمۡ وَاِخۡوَانُکُمۡ وَاَزۡوَاجُکُمۡ وَعَشِیۡرَتُکُمۡ وَاَمۡوَالُ ۣ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَجِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ۔(التوبہ:24)تو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہارے اَزواج اور تمہارے قبیلے اور وہ اموال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس میں گھاٹے کا خوف رکھتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے۔ اور اللہ بدکردار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

افسوس کہ انجام کاراطاعت کا بہترین نمونہ نہ دکھایا جاسکاگوکہ کسی حدتک ابتداءً فرمانبرداری کااظہار کیاگیاتھا۔ اس کی تفصیل درج ذیل ایک تفصیلی روایت سے معلوم ہوسکتی ہےجوسیرت المہدی میں ہے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب محمدی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہوگئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والد محمد ی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد دونوں کو الگ الگ خط لکھا کہ ا ن سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے۔ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کر نا ہوگا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا۔میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں۔والدہ صاحبہ نے فرمایا مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہیں میں ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ درست ہے تو اپنی بیوی بنت مرزا علی شیر کو (جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی ) طلاق دے دو۔ مرزافضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر دیا۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ پھر فضل احمد باہر سے آکر ہمارے پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بیوی کی فتنہ پردازی سے آخر پھر آہستہ آہستہ ادھر جا ملا۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا۔حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اُٹھاتا تھا۔حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے اُدھر جا ملا ہے۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تواس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا حضرت صاحب نے کچھ فرمایا بھی تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ صرف اس قدر فرمایا تھا کہ ہمارا اس کے ساتھ تعلق تونہیں تھا مگر مخالف اس کی موت کو بھی اعتراض کا نشانہ بنا لیں گے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم حضرت مسیح موعودؑ کی چچازاد بہن عمرا لنسا ء کی لڑکی ہے یعنی مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ کی حقیقی بھانجی ہے۔ہماری تائی یعنی بیوہ مرزا غلام قادر صاحب محمدی بیگم کی سگی خالہ ہیں گویا مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری جو محمد ی بیگم کا والد تھا مرزا امام الدین وغیرہ کا بہنوئی تھااس کے علاوہ اور بھی خاندانی رشتہ داریاں تھیں مثلاً حضرت مسیح موعودؑ کی اپنی حقیقی ہمشیرہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث صاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں۔یہ بہت پُرانی بات ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کے یہ تمام رشتہ دار پر لے درجہ کے بے دین اور لامذہب تھے اور اسلام سے ان کو کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ شریعت کی ہتک کرتے تھے۔حضرت صاحب نے ان کی یہ حالت دیکھ کر خدا کی طرف توجہ کی کہ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر ہو تا کہ ان کی اصلاح ہو یا کوئی فیصلہ ہو۔اس پر خدا نے الہام فرمایا کہ احمدبیگ کی لڑکی محمد ی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کر۔اگر انہوں نے منظور کر لیا اور اس لڑکی کی تیرے ساتھ شادی کردی تو پھر یہ لوگ برکتوں سے حصہ پائیں گے۔اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔اور ان کے گھربیواؤں سے بھر جائیں گے اور خاص لڑکی کے والد کے متعلق فرمایا کہ وہ تین سال کے اند ر بلکہ بہت جلدی مر جائے گا اور جس شخص کے ساتھ لڑکی کا نکاح ہو گا وہ بھی اڑھائی سال کے اند ر مرجائے گا۔ا ن دو موٴخر الذکر شخصوں کے متعلق جس طرح اللہ کا نشان پورا ہو ا وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں متعدد جگہ درج ہے یعنی احمد بیگ اپنی لڑکی کے نکاح کے صرف چند ماہ بعد پیشگوئی کے مطابق اس جہاں سے رخصت ہو ا اور مرزا سلطا ن محمدجس سے ان لوگوں نے محمدی بیگم کی شادی کروا دی تھی خدا کے عذاب سے خوف زدہ ہوا اور اس کے کئی رشتہ داروں کی طرف سے حضرت صاحبؑ کے پاس عجزو نیاز کے خطوط آئے چنانچہ ان کا اپنا خط بھی جس میں انہوں نے حضرت صاحب کے متعلق عقیدت کا اظہار کیا ہے رسالہ تشحیذالاذہان میں چھپ چکا ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق ان سے وہ عذاب ٹل گیا۔باقی رشتہ داروں کے متعلق عام پیشگوئی تھی اس کا یہ اثر ہو ا کہ ان کے گھر جو پیشگوئی کے وقت آدمیوں سے بھرے ہوئے تھے بالکل خالی ہو گئے۔اور اب اس تما م خاندان میں سوائے ایک بچہ کے اور کوئی مرد نہیں اور وہ بچہ بھی احمدی ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ مرزا امام الدین کی لڑکی بھی عرصہ ہو ا احمدی ہو چکی ہے۔پھر محمدی بیگم کی ماں یعنی بیوہ مرزااحمد بیگ اور مرزا احمد بیگ کا پوتا اور ہماری تائی یعنی محمدی بیگم کی خالہ سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں نیز محمدی بیگم کی سگی ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئی تھی مگرا ب فوت ہو چکی ہے ان کے علاوہ اور کئی رشتہ دار بھی احمدی ہو چکے ہیں اورجو ابھی تک سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے وہ بھی مخالفت ترک کر چکے ہیں۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول،روایت نمبر37)

وفات مرزافضل احمدصاحب

صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔اور 1903ء میں ملتان میں متعین تھے کہ ان کی اجل مسمّیٰ آن پہنچی اور خداکی تقدیرغالب آئی اور زندگی کاچراغ بجھ گیا۔انا للہ واناالیہ راجعون

خداکی شان بھی عجیب ہے کہ آپ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کواپنے اس چھوٹے بھائی کی وفات کی خبربھی خداتعالیٰ نے پہلے سے دے دی۔چنانچہ ’’مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان اپنے والدِ بزرگوار حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کو کشف میں ایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا جس پر یہ الفاظ مندرج تھے۔ ’’اخوک ڈائیڈ‘‘(اخوک died) یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے بھائی کی وفات کے بارہ میں خبر دے دی۔‘‘ (حضرت مرزاسلطان احمد،مرتبہ میرانجم پرویز، صفحہ2)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button