خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 29؍ اپریل 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بارے میں گذشتہ خطبات میں مہمات بھجوانے کا جو ذکر ہوا تھا ان کی کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں تا کہ اس وقت کے حالات کی شدت کا بھی کچھ اندازہ ہو۔

سوال نمبر3:حضرت ابوبکرصدیق ؓنے حضرت خالدبن ولیدؓ کے حوالے سے کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: جب حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین سے جنگ کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کے واسطے جھنڈا باندھا تو فرمایا: میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا ہے کہ خالد بن ولید اللہ کا بہت ہی اچھا بندہ ہے اور ہمارا بھائی ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے خلاف سونتا ہے۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طلیحہ اسدی کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: طُلَیحہ اَسَدِیجھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک تھاجو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نمودار ہوا۔ اس کا نام طُلَیحَہ بن خُوَیلِدْ بن نوفل بن نَضْلَہاسدی تھا۔ عَامُ الوُفُود یعنی وفود کی آمد والے سال میں، نو ہجری میں اپنی قوم بنواسد کے ساتھ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور مدینہ پہنچ کر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ سے یہ کہاکہ حالانکہ آپؐ نے ہماری طرف کسی کو نہیں بھیجا اور ہم اپنے پیچھے والوں کے لیے کافی ہیں۔ جب یہ لوگ واپس چلے گئے تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی طلیحہ ارتداد کا شکار ہوا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اورسَمِیراء کو اپنا فوجی مرکز بنایا…بہرحال اس نے جو دعویٰ کیا تھا عوام اس کے مرید ہو گئے۔ لوگوں کی گمراہی کا پہلا سبب یہ ہوا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا تو لوگوں کو شدید پیاس لگی۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ تم میرے گھوڑے اِعلَالْ پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہیں پانی مل گیا۔ اس وجہ سے یہ دیہاتی اس فتنہ کا شکار ہو گئے۔ پانی کی کوئی جگہ اس نے دیکھی ہوگی پہلے ہی۔ بڑی ہوشیاری سے اس نے ان کو وہاں بھیجا اور اس وجہ سے جو اَن پڑھ لوگ تھے وہ اس کے فتنہ کا شکار ہوئے۔ بہرحال اس کی بے حقیقت باتوں میں سے یہ بھی تھی کہ اس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا تھا۔ یعنی نمازوں میں سجدے کی ضرورت کوئی نہیں اور اس کا یہ زعم تھا کہ آسمان سے اس پر وحی آتی ہے اور مُسَجَّعْ ومُقَفّٰی عبارتیں بطور وحی کے پیش کیا کرتا تھا۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں کاہن لوگ مسجع و مقفّٰی عبارتیں لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان پر رعب بٹھاتے تھے۔ طُلَیحہبھی کاہن تھا۔ طُلَیحہاسدی کے نفس نے اس کو دھوکا میں ڈالا۔ اس کا مسئلہ زور پکڑ گیا۔ اس کی طاقت بڑھی اور جب رسول اللہ ﷺ کو اس کے معاملے کی اطلاع ملی تو آپؐ نے ضِرَار بن اَزْوَر اَسَدِیکو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن ضِرار کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قوت بڑھ چکی تھی۔ خاص طور پر اسد اور غطفان دونوں حلیفوں کے اس پر ایمان لے آنے کے بعد مزید بڑھ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی اور طُلَیحہ کے معاملے کا تصفیہ نہ ہوا۔ جب خلافت کی باگ ڈور ابوبکرؓنے سنبھالی اور باغی مرتدین کو کچلنے کے لیے فوج تیار کی اور قائدین مقرر کیے تو طُلَیحہ اسدی کی طرف حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولید کی قیادت میں فوج روانہ کی۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عیینہ بن حصن کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:عُیینَہوہی شخص ہے جو غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو فَزَارَہکا سردار تھا۔ اس غزوہ کے دوران کفار کے تین لشکروں نے بنو قُریظہ سے مل کر مدینہ پر زبردست حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان میں سے ایک لشکر کا سردار عُیینہ تھا۔ غزوۂ احزاب میں کفار کی شکست کے بعد بھی اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے شہر سے باہر نکل کر اس کے حملہ کو روکا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ غزوہ ذی قَرَدْکہلاتاہے۔عُیینہ بن حِصْن فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا اور اس میں شرکت کی۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ مسلمان تھا۔ غزوۂ حُنَین اور طائف میں بھی شرکت کی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو نو ہجری میں بنو تمیم کی سرکوبی کے لیے پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں کوئی بھی انصار یا مہاجر صحابی نہ تھا اور اس سَرِیہ کا سبب یہ ہوا تھا کہ بنو تمیم نے آنحضرتﷺ کے عامل کو صدقات لے کر جانے سے روک دیا تھا۔ پھر عہدِصدیقی میں باغی مرتدوں کے ساتھ یہ بھی فتنہ ارتداد کا شکار ہو گیا اور طُلَیحہکی طرف مائل ہو گیا اور اس کی بیعت کر لی۔ بہرحال بعد میں پھر یہ اسلام کی طرف بھی لوٹ آیا تھا۔

سوال نمبر6: عیینہ بن حصن پر طلیحہ اسدی کی حقیقت کس طرح کھلی؟

جواب:فرمایا: طُلَیحہ اپنے اُونی خیمے کے صحن میں چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ یہ نبی بنا ہوا تھا اس لیے یہ خیمے میں بیٹھا رہا اور غیب کی خبریں دیتا تھا۔کہتاتھا تم لوگ جنگ لڑو میں یہاں سے تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا نتیجہ نکلنے والا ہے جبکہ لوگ قتال میں مصروف تھے۔ جب عُیینہکو لڑائی میں تکلیف اٹھانا پڑی اور اس کا شدید نقصان ہوا تو وہ طُلَیحہ کے پاس آیااور کہا کیا ابھی تک جبرائیل تمہارے پاس نہیں آئے؟ جنگ میں تو مار پڑ رہی ہے تم کہتے ہو مجھے الہام ہوتے ہیں، وحی ہوتی ہے اور جبرائیل مجھے بتائیں گے کیا ہونا ہے تو بتاؤ ابھی تک کچھ نتیجہ نہیں نکلا؟ جبرائیل آئے نہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ عُیینہ واپس گیا پھر لڑائی میں مصروف ہو گیا۔ جب اس کو دوبارہ لڑائی کی شدت نے پریشان کر دیا تو وہ پھر طُلَیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارا برا ہو کیا جبرائیل ابھی تک تمہارے پاس نہیں آئے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں آئے۔عُیینہ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کب آئیں گے؟ ہمارا تو کام تمام ہوا چاہتا ہے۔ وہ پھر میدانِ جنگ میں پلٹ کر لڑنے لگا اور اب جب پھر اسے ناکامی ہوئی تو وہ پھر طُلَیحہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا جبرائیل تمہارے پاس ابھی تک نہیں آئے؟ طُلَیحہ نے کہا ہاں آئے ہیں۔ عُیینہ نے پوچھا پھر جبرائیل نے کیا کہا؟ طُلَیحہنے کہا انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تیری چکی بھی ان کی چکی کی طرح ہوگی اور ایک ایسا واقعہ ہوگا، تیرا ایسا بول بالا ہوگا کہ جو تم کبھی بھُلا نہیں سکو گے۔ عُیینہ نے یہ سنا تو اپنے دل میں کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ عنقریب ایسے واقعات پیش آئیں گے جنہیں تم بدل نہیں سکو گے یا بھُلا نہیں سکوگے۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور اس قوم سے کہا کہ اے بنو فزارہ! بخدا یہ طُلَیحہ کذاب ہے۔ پس تم لوگ واپس چلو۔ اس پر تمام بنو فَزَارَہ لڑائی سے کنارہ کش ہو گئے اور ان لوگوں کو شکست ہوئی تو وہ بھاگے اور طُلَیحہ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ہی طُلَیحہ نے اپنے لیے اپنا گھوڑا اور اپنی بیوی نَوَار کے لیے اونٹ تیار کر رکھا تھا۔ وہ کھڑا ہوا اور لپک کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنی بیوی کو سوار کیا پھر اس کے ساتھ بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے جو کوئی بھی اس کی استطاعت رکھتا ہے جیسامَیں نے کیا ہے وہ بھی ایسا کرے اور اپنے اہل کو بچائے۔ دوڑ جاؤ میدان جنگ سے۔ پھر طُلَیحہ نے حُوشِیہ کی راہ اختیار کی یہاں تک کہ شام پہنچ گیا۔ اس کی جماعت پراگندہ ہو گئی اور اللہ نے ان میں سے بہتوں کو مار دیا۔ بہت سے مارے گئے۔ ایک روایت کے مطابق طُلَیحہ میدان جنگ سے بھاگ کر نَقْع میں بنو کَلْب کے پاس مقیم ہو گیا اور وہاں جا کے اسلام لے آیا۔

سوال نمبر7: حضرت خالدبن ولیدؓ کی بنو عامرسے لی گئی بیعت کے الفاظ کیا تھے؟

جواب:فرمایا:اہل بُزَاخَہکی شکست کے بعد بنو عامر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم دین میں داخل ہوتے ہیں جس سے ہم نکل گئے تھے۔ حضرت خالدؓ نے ان سے اس شرط پر بیعت لی جو آپؓ نے اہل بُزَاخَہ یعنی اَسَد، غَطَفَان اور طَے سے لی تھی اور ان سب نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اطاعت قبول کر لی۔ اس بیعت کے الفاظ یہ تھے۔ تم سے اللہ تعالیٰ کا عہدو پیمان لیا جاتا ہے کہ تم ضرور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ گے اور ضرور نماز کو قائم کرو گے اور ضرور زکوٰة ادا کرو گے اور اسی چیز پر تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کی طرف سے بھی بیعت کرو گے۔اس پر وہ کہتے ہاں۔

سوال نمبر8: حضرت خالدبن ولیدؓ نے بنو غطفان، ہوازن اور اسد سے کس شرط پر بیعت قبول کی؟

جواب:فرمایا: حضرت خالدؓ نے اَسَد، غَطَفَان، ہَوازِن، سُلَیم اور طَے میں سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی سوائے اس کے کہ وہ ان تمام لوگوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں جنہوں نے ارتداد کی حالت میں اپنے ہاں کے مسلمانوں کو آگ میں جلایا تھا اور ان کا مُثلہ کیا تھا اور مسلمانوں پر چڑھائی کی تھی۔ حضرت خالدؓ نے ان سے یہ بیعت اس صورت میں لی کہ اپنے ان لوگوں کو ہمارے سپرد کرو جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، قتل کیا، ان کے گھروں کو آگ لگائی۔ مسلمانوں کو آگ میں جلایا۔ پھر ان کا مُثلہ کیا اور آگ میں جلایا۔ یہ ساری باتیں کیں۔انہوں نے کہا ہمارے حوالے کرو گے پھر تمہاری بیعت قبول کی جائے گی۔ وہ ملزمان جو ہیں، سارے مجرم جو ہیں وہ سب پیش ہوں۔ پس ان تمام قبائل نے ان لوگوں کو حضرت خالدؓ کے سپرد کر دیا تو حضرت خالدؓ نے ان قبائل کی بیعت کو قبول کر لیا اور جن لوگوں نے مسلمانوں پر مظالم کیے تھے ظلم کرنے والے جو لوگ تھے ان کے اعضاء بھی قطع کرا دیے اور ان کو آگ میں بھی جلایا گیا۔

سوال نمبر9:بنو عامرکے قبول اسلام کے بعدحضرت خالدبن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں کیا خط تحریر کیا؟

جواب:فرمایا: حضرت خالد بن ولیدؓ نے قُرَّہ بن ہُبَیرہ اور اس کے چند ساتھیوں کو رسیوں سے باندھ دیا اور پھر قُرَّہ اور دوسرے قیدیوں کو حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے پاس روانہ کیا اور آپؓ کی خدمت میں لکھا کہ بنو عامر اسلام سے روگردانی اور انتظار کے بعد پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے ہیں۔ جن قبائل سے میری جنگ ہوئی یا جن سے بغیر جنگ کے مصالحت ہوئی مَیں نے ان سب سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کو میرے پاس لائیں جنہوں نے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کیے تھے۔ مَیں نے ان کو قتل کر دیا۔ قُرَّہ اور اس کے ساتھیوں کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔

سوال نمبر10:حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدبن ولیدؓ کے خط کا کیا جواب تحریرفرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے اس خط کے جواب میں حضرت خالدؓکو لکھا کہ جو کچھ تم نے کیا اور جو کامیابی تم کو حاصل ہوئی اللہ تم کو اس کی جزائے خیر دے۔ تم اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِینَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:129)۔یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔ تم اللہ کے کام میں پوری جدوجہد کرنا اور تساہل نہ کرنا۔ جس شخص نے کسی مسلمان کو مارا ہو اور وہ تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کو ضرور قتل کر دو اور اس طرح قتل کرو کہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ وہ لوگ جنہوں نے خدا کے حکم سے نافرمانی کی ہو اور اسلام کے دشمن ہوں ان کے قتل سے اگر اسلام کو فائدہ پہنچتا ہو تو قتل کر سکتے ہو۔ حضرت خالدؓ ایک ماہ بُزَاخَہمیں فروکش رہے اور اس قسم کے لوگوں کی تلاش میں ہر طرف چھاپے مار کر ان لوگوں کو گرفتار کرتے رہے۔اور یوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ہدایت کے مطابق ان لوگوں کو سخت سزائیں دیں۔

سوال نمبر11: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےطلیحہ اسدی کے دوبارہ اسلام قبول کرنے کا کیا سبب بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: طُلَیحہ اسدی کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ جب اسے اطلاع ملی کہ قبیلہ اسد، غطفان اور بنو عامر مسلمان ہو چکے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ پھر وہ حضرت ابوبکرؓ کی امارت میں عمرہ کرنے مکہ روانہ ہوا۔ وہ مدینہ کے اطراف سے گزرا تو حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا گیا یہ طُلَیحہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا مَیں اس کا کیا کروں؟ اس کو چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ نے اسے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے۔ طُلَیحہ مکہ کی طرف گیا اور عمرہ ادا کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان کی بیعت کرنے آیاتو حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ تم عکاشہ اور ثابت کے قاتل ہو۔ بخدا! مَیں کبھی تم کو پسندنہیں کر سکتا۔ طُلَیحہنے کہا اے امیر المومنین !آپ ان دو شخصوں کا کیا غم کرتے ہیں جن کو اللہ نے میرے ہاتھوں سے عزت دی۔ شہید ہوئے اور مجھے ان دونوں کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا۔ یعنی میں ذلیل نہیں ہوا۔ ان کے حملے سے مرا نہیں ورنہ میں جہنم میں جاتا اور آج میں اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کا فضل پانے والا بن رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس سے بیعت لےلی اور کہا اے دھوکے باز! تمہاری کہانت میں سے کیا باقی ہے؟ یعنی تم کاہن تھے اس میں سے ابھی بھی کچھ کہانت کا کام کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ایک آدھ پھونک مار لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنی قوم کی قیام گاہ کی طرف آیا اور وہیں مقیم رہا۔ عراق کی جنگوں میں طُلَیحہنے ایرانیوں کے مقابلے میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ مسلمان ہونے کے بعد عراق کی جنگوں میں یہ لڑا اور اچھا لڑا اور جنگ نَہَاوَنْد میں 21؍ہجری میں شہید ہوا۔

سوال نمبر12:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ام قرفہ کی طرف سریہ کی کیا وجوہات بیان فرمائیں؟

جواب:فرمایا:ام قرفہ کی طرف ایک سَریہ چھ ہجری میں وقوع پذیر ہوا۔ اُمِّ قرفہ کی سرکوبی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے مدینہ پر حملہ کرنے اور نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اس بارے میں ایک مصنف نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ اس نے اپنے تیس بیٹوں اور پوتوں کا ایک دستہ تیار کیا اور کہا کہ مدینہ پر چڑھائی کرو اور حضور ﷺ کو قتل کرو۔ اس لیے مسلمانوں نے اس فتنہ باز عورت کو کیفرِکردار تک پہنچا دیا۔اس کا دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے پاس دیگر صحابہ کرام کے اموالِ تجارت تھے۔ جب وادی القریٰ پہنچے تو قبیلہ فَزَارَہ کی شاخ بنو بدر کے بہت سے آدمی نکل آئے۔ انہوں نے حضرت زیدؓ اور ان کے ساتھیوں کو سخت مارا پیٹا اور سارا سامان بھی چھین لیا۔ انہوں نے واپس آ کر بارگاہِ رسالت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ایک لشکر اُن کے ساتھ بھیجا تا کہ ان لٹیروں کی گوشمالی کرے۔

سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخر پر کن مرحومین کا ذکر خیرفرمایاا ور نمازجنازہ غائب پڑھائی ؟

جواب:1:محترمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ رفیق احمد بٹ صاحب سیالکوٹ

2:محترمہ ثریا رشید صاحبہ اہلیہ رشیداحمدباجوہ صاحب کینیڈا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button