سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

ایک بار حضرت اقدسؑ نے صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب کے متعلق فرمایا: ’’ وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا‘‘

صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب

شادی

محترم صاحبزادہ صاحب کے متعلق مختلف مواقع پر تین شادیاں کرنے کاذکرملتاہے۔

ان میں سے سب سے پہلی شادی ان کے ماموں کی بیٹی سے ہوئی۔پہلے بیان ہوچکا کہ آپ کے ننھیال کاخاندان ایمہ ضلع ہوشیارپور کاایک معزز خاندان تھا جوکہ کچھ عرصہ قادیان میں بھی رہائش پذیررہا۔اوراس خاندان سے حضرت اقدسؑ کے جدی خاندان کی رشتہ داریاں چلی آرہی تھیں۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ کی اپنی شادی اس خاندان کے ایک معزز مرزاجمعیت بیگ صاحب کی صاحبزادی حرمت بی بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔

مرزاجمعیت بیگ صاحب حضرت اقدسؑ کے ماموں بھی تھے۔محترم مرزا جمعیت بیگ صاحب کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔بیٹی کا نام تو حرمت بی بی صاحبہ تھا جو کہ اس عقدمبارک میں بندھ گئی۔اور بیٹے کانام مرزا علی شیر تھا۔ان کی شادی مرزا احمدبیگ صاحب ہوشیارپوری کی بہن [یعنی محمدی بیگم صاحبہ کی پھوپھی ] حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیداہوئی۔مرزاعلی شیرصاحب کی اس بیٹی عزت بی بی صاحبہ کی شادی حضرت اقدسؑ کے چھوٹے صاحبزادے مرزافضل احمدصاحب کے ساتھ ہوئی۔چنانچہ سیرت المہدی کی ایک روایت میں ذکرہے کہ ’’حضرت صاحب کے ایک حقیقی ماموں تھے۔(جن کانام مرزاجمعیت بیگ تھا)ان کے ہاں ایک لڑکا اورایک لڑکی ہوئے۔اوران کے دماغ میں کچھ خلل آگیاتھا۔ لڑکے کانام مرزا علی شیرتھااور لڑکی کانام حرمت بی بی۔لڑکی حضرت صاحب کے نکاح میں آئی اوراسی کے بطن سے مرزاسلطان احمداورمرزافضل احمدپیداہوئے۔ مرزاعلی شیرمرزااحمدبیگ ہوشیارپوری کی بہن حرمت بی بی سے بیاہاگیاجس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیداہوئی۔یہ عزت بی بی مرزافضل احمدکے نکاح میں آئی…‘‘(سیرت المہدی، جلد اول روایت نمبر212)

سیرت المہدی کی ایک روایت جوکہ حصہ اول میں ہی ہے اور روایت نمبر211ہے اس میں ذکرہے کہ محترم مرزا فضل احمدصاحب کی شادی اپنے بڑے بھائی محترم مرزاسلطان احمد صاحب سے بھی کئی سال پہلے ہوچکی تھی۔

محترم مرزافضل احمدصاحب نے ایک اورشادی محترمہ صاحب جان صاحبہ سے کی اور جن دنوں آپ کشمیرمیں ملازم تھے تب وہاں بھی انہوں نے ایک شادی کی۔اس کے متعلق بہت تفصیلات کاعلم تونہیں ہوسکا البتہ محترمہ صاحب جان صاحبہ کے بارے میں یہ پتا چلتاہے کہ وہ بیوہ ہونے کے بعد بھی ساری زندگی اپنے سسرال میں ہی رہیں۔محترم مرزاسلطان احمدصاحب ہی ان کے اخراجات کے کفیل رہے۔ ہرچندکہ ان کے بیوہ ہونے کے بعد ان کے کچھ رشتہ داروں نے ان کی شادی کسی اورجگہ کرناچاہی اور نکاح بھی کردیاگیا۔لیکن موصوفہ نے اسی گھرمیں رہنے اورحضرت مسیح موعودؑ کی بہوکہلانے کوترجیح دی اور اس گھرکونہیں چھوڑا۔انہوں نے بعدمیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت بھی پائی اور وصیت بھی کی۔چنانچہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں۔

صاحبزادہ صاحب کی دو بیویوں کا ذکر حضرت اقدسؑ کے ایک مکتوب میں بھی ملتاہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے نام ایک مکتوب میں آپؑ رقم فرماتے ہیں :’’ اس کی ایک بیوی تومیرے پاس اس جگہ ہے اورایک قادیان میں ہے۔‘‘(مکتوبات احمدجلددوم، صفحہ 127مکتوب نمبر 86)

حضرت اقدسؑ ان دنوں لدھیانہ میں مقیم تھے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ بیوی حضورؑ اورحضرت اماں جانؓ کے ساتھ ہی رہتی ہوگی۔

مرزافضل احمدصاحب کشمیرمیں بطورملازم مقیم تھے اوربعض اوقات حضوراقدسؑ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں ان کی بہترملازمت کے لیے سفارشی خط بھی لکھا۔ اس میں سے ایک مرتبہ ایک ملازمت جوان کے پاس تھی وہ بیس روپے ماہوار پرتھی۔چنانچہ اسی خط میں آپؑ لکھتے ہیں:’’فضل احمدکاخط نہایت اورغایت درجہ کی التجاسے آیاتھاکہ مولوی صاحب کی خدمت میں سفارش کریں کہ کوئی نوکری میرے گزارہ کے موافق کرادیں۔بیس روپے میں اپنے عیال کاگزارہ نہیں کرسکتا۔سواگرچہ مصلحت وقت کاحال آنمکرم کوبہترمعلوم ہوگا لیکن اگرکچھ حرج نہ ہواور مصلحت کے برخلاف نہ ہو اورکچھ جائے اعتراض نہ ہواورآنمکرم کچھ اس کی معاش کے لئے اس سے بہترتجویزکرسکیں توکردیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کا چال چلن کاحال قابل اعتراض ہے مگرشایدآئندہ درست ہوجاوے۔ابرارواخیارجومتخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیںکبھی مطابق آیت کریمہ وَکَانَ اَبُوْھُمَاصَالِحًاپرعمل کرلیتے ہیں۔اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ جن دولڑکوں کے لئے حضرت خضرنے تکلیف اٹھائی۔اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھےبلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علم الٰہی میں تھے۔لہٰذاخداتعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کوپوشیدہ رکھ کران کے باپ کی صلاحیت ظاہرکردی اور ان کی حالت کوجواصل میں اچھی نہیں تھی کھول کرنہ سنایا۔ اورایک خویش کی وجہ سے دوبیگانوں پررحم کردیا……اس قدرمیں نے لکھاتھا کہ پھرنہایت عاجزی سے فضل احمدکاخط آیاہے کہ خدمت میں مولوی صاحب کے میری نسبت ضرور لکھیں۔ آنمکرم اس کوبلاکراطلاع دے دیںکہ تیری نسبت وہاں سے سفارش لکھی ہے۔اگرمناسب سمجھیں توکسی کواس کی نسبت سفارش کردیں کہ وہ سخت حیران ہے۔‘‘(مکتوبات احمدجلددوم صفحہ 126-127مکتوب نمبر86)

فرمانبرداربیٹا

ہدایت کاملناتونصیبوں کی بات ہے کہ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ(القصص: 57) یقیناً توکسی کوہدایت نہیں دے سکتاکہ جسے توپسندکرے۔بلکہ اللہ ہی ہے کہ جسے چاہے ہدایت نصیب کرے اوروہ ہدایت پانے والوں کوزیادہ بہترطورپرجانتاہے۔

اگرچہ حضرت اقدسؑ کے یہ دونوں بیٹے فوری طورپراحمدیت قبول نہیں کرسکے، کیوں نہیں کرسکے یہ ایک الگ امرہے۔البتہ جہاں تک ان دونوں بیٹوں کے مزاج اور طبائع کاتعلق ہے تو مزاجاً یہ اپنے باپ کے سعادت منداورفرمانبرداربیٹے تھے۔اوراپنے باپ سے محبت اورعقیدت کاتعلق رکھنے والے تھے۔ایک بار حضرت اقدسؑ نے صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب کے متعلق فرمایا: ’’ وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا‘‘(مطبوعہ الفضل 22؍اپریل 1941ء بحوالہ مضامین بشیر صفحہ448جلد اول)اورخاص طورپران کی فرمانبرداری اوراطاعت توگویازبان زدِ عام تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ تحریرفرماتے ہیں:’’مرزا فضل احمد صاحب…حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے مگر انہوں نے کبھی بھی حضرت مسیح موعودؑ کی ظاہری رنگ میں مخالفت یا تکذیب نہیں کی بلکہ ہمیشہ از حد مؤدّب اور فرمانبردار رہے حتی کہ جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اہم دینی معاملہ میں ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ اگر تم میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو جو اشد مخالفین کے ساتھ تھی طلاق دے کر الگ کر دو تو مرزا فضل احمد صاحب نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھجوا دیا اور عرض کیا کہ آپ کے ارشاد پر یہ طلاق نامہ حاضر ہے۔ آپ جس طرح پسند فرمائیں اسے استعمال فرمائیں۔‘‘(مسئلہ جنازہ کی حقیقت، ازمرزابشیراحمدصاحبؓ، ایڈیشن اول صفحہ 67)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا۔ جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے… وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں۔‘‘(انوار خلافت،انوار العلوم جلد 3صفحہ149)

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک بہت پرانے اور نہایت مخلص صحابی بھائی عبد الرحمان صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’جناب مرزا فضل احمد صاحب مرحوم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حرم اول سے دوسرے صاحبزادہ تھے اور محکمہ پولیس میں ملازم تھے…جب ان کا جنازہ قادیان پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور ان کا جنازہ پہنچنے کی اطلاع کی۔ اس پر حضور کے چہرہ پر اداسی اور غم کے آثار نمایاں ہو گئے اور آواز میں رقت پیدا ہو گئی اور حضور نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو جو اس وقت مجلس میں حاضر تھے مخاطب فرما کر فرمایا کہ’’ فضل احمد ہمیشہ ہمارا فرمانبردار رہا ہے اس نے کبھی ہماری نافرمانی نہیں کی حتیّٰ کہ ایک مرتبہ ہمارے اشارہ پر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کی علیحدگی پر تیار ہو گیا تھا اور طلاق نامہ لکھ کر ہمیں بھیج دیا تھا۔‘‘حضور کا صاحبزادہ اور فرمانبردار صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے خیال تھا کہ حضور جنازہ پڑھائیں گے مگر نہ حضور نے خود پڑھا اور نہ کسی کو جنازہ میں شرکت کی اجازت دی… مَیں اس مجلس میں شریک تھا اور یہ سارا واقعہ میرے سامنے کا ہے۔‘‘(مسئلہ جنازہ کی حقیقت، ازمرزابشیراحمدصاحبؓ، ایڈیشن اول صفحہ 68-69)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button