خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 29؍ اپریل 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ رمضان آیا اور تمام ان لوگوں پر جنہوں نے اس سے فیض پانے کی کوشش کی برکتیں بکھیرتے ہوئے گزر گیا۔ اب دو روز باقی رہ گئے ہیں یا شاید بعض جگہ تین روزے رہتے ہوں لیکن بہرحال رمضان اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ایک عقل مند اور حقیقی مومن ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور رکھنا چاہیے کہ رمضان کے ختم ہونے سے ہم اپنی بہت سی ذمہ داریوں اور فرائض سے آزاد نہیں ہو گئے بلکہ رمضان ان فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی تربیت کر کے گیا ہے۔ان فرائض کی ادائیگی اور مستقل ادائیگی کے طریق سکھانے آیا تھا اور ان میں ترقی کی منازل کی نشاندہی کرنے آیا تھا اور یہ سکھاتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔

سوال نمبر3:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےنمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:رمضان میں ہماری عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ فرض نمازیں اور نوافل ہم خاص اہتمام سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نمازوں کی فرضیت کوئی خاص مہینہ اور کسی خاص وقت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ دن میں پانچ نمازیں اپنے مقررہ وقت پر سال کے بارہ مہینوں میں ادا کرنی ضروری ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں مومنوں کو بار بار توجہ دلائی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔پھر آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا۔پس یہ اہمیت ہے نماز کی۔ کسی خاص مہینے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ دن میں پانچ نمازوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

سوال نمبر4:نماز میں حظ اور لذت پیداکرنے کی بابت حضرت مسیح موعودؑ نے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود ؑنے اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ’’نماز کیا ہے؟‘‘ فرمایا’’یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔‘‘ مجبوری سے پڑھنی ہے ۔’’نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے۔ بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔‘‘فرمایا کہ’’مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔‘‘یہ تو محبت کی باتیں ہیں۔ محبت ہو تو صحیح طرح ان فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے۔’’اس کی وجہ ایک عام زہریلااثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہو رہی ہے۔‘‘رسموں میں انسان زیادہ پڑ گیا ہے۔’’اور عبادت میں جس قسم کا مزہ آنا چاہئے وہ مزہ نہیں آتا۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے۔‘‘ دوائیاں کھا کے یا مرض کی وجہ سے منہ بک بکا ہو جاتا ہے، مزہ ہی نہیں آتا کسی چیز کا۔مریض کھانے سے انکار کر دیتے ہیں یا کھانے میں برائیاں نکالنے لگ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی طرح وہ لوگ جو عبادت الٰہی میں حظّ اور لذت نہیں پاتے۔‘‘وہ بھی بیماروں کی طرح ہیں ’’ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اس کے لئے لذت اور سرور نہ ہو۔‘‘فرمایا کہ ’’لذت اور سرور تو ہے۔‘‘یہ نہیں کہ نہیں ہے’’مگر اس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذٰریات:57) اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھا ہو۔‘‘ضرور اس درجہ کا رکھا ہونا چاہیے جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےنمازپڑھنے کی نسبت کیا نصیحت فرمائی؟

جواب: فرمایا: آپؑ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے۔ البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بےشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی۔ آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز تو بہت جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے خاص طور پر ایشیا میں ہندوستان پاکستان میں یہی رواج ہے۔ نماز جلدی جلدی پڑھی اور اس کے بعد ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے لگ گئے۔ فرمایا کہ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہے جس طرح ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جائے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن اس وقت تو وہ کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر آجائے تو اپنی درخواست پیش کرے۔ ایسے کیا فائدہ ہو گا؟ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو۔

سوال نمبر6: آنحضورﷺنے ہمیں نمازپڑھنے کا کیا طریق سکھلایا؟

جواب: فرمایا: نماز پڑھنے کا طریق آنحضرت ﷺ نے ہمیں کس طرح سکھایا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آ کے سلام کیا۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ آپؐ اسے دیکھ رہے تھے اور اس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس لگی ہوئی تھی۔ اس طرح تین مرتبہ اس سے نماز پڑھوائی۔ تو آخر اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! مَیں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے اب آپؐ ہی مجھے صحیح طریق بتا دیں کس طرح نماز پڑھنی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو۔ پھر حسبِ توفیق قرآن پڑھو۔ سورۂ فاتحہ کے ساتھ قرآن پڑھو۔ پھر پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔یہ نہیں کہ ذرا سا جھکے اور کھڑے ہو گئے۔ پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو اور پھر سجدے سے اٹھ کر پوری طرح بیٹھو۔ بعض لوگ صرف سجدہ کے لیے بیچ میں دو سجدوں کے درمیان اٹھتے ہیں اور پھر فوراً دوبارہ سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ فرمایا پوری طرح بیٹھو۔ اس کے بعد دوسرا سجدہ کرو۔ اس طرح ساری نماز ٹھہر ٹھہر کر،سنوار کر ادا کرو۔

سوال نمبر7: حضرت اقدس مسیح موعودؑنے قرآن کریم پڑھنے کی نسبت کیاتوجہ دلائی؟

جواب: فرمایا: قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان واعتقاد ہو تے تو ہم قو موں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے۔ مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیش گوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اَور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اَور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔ بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآنِ کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔ بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے۔اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔‘‘

سوال نمبر8: حضرت اقدس مسیح موعودؑنے جماعت کو آپس کے تعلقات اور ہمدردی رکھنے کی نسبت کیا نصیحت فرمائی؟

جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔ جو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ مَیں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے، محبت کرے اور اسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہو جاتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کر کے پردہ پوشی کی جائے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہوکر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ آپس میں محبت حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ ایسی ہمدردی ہو…خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق ونعمتِ اخوت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔ خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی امیدیں ہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ (آل عمران: 56) مَیں یقینا ًجانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں۔ ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔ دیکھو! ایک دوسرے کا شکوہ کرنا، دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسروں کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔

سوال نمبر9:حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک دوسرے کے لیے کس امرکی طرف توجہ دلائی؟

جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔‘‘بڑی اہم بات ہے۔ ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو۔ چاہے تمہیں کوئی دعا کے لیے کہتا ہے یا نہیں کہتا۔ جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ عمومی طور پر جماعت کے افراد ایک دوسرے کے لیے یا جماعت کے لیے من حیث الجماعت دعا کریں تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ فرمایا کہ ’’اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظورہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘فرمایا ’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ (آل عمران: 104)‘‘کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا۔ ’’یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں‘‘

سوال نمبر10:خداکےساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب: فرمایا: آپؑ نے فرمایا ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(البقرة:201)۔یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔‘‘فرمایا کہ ’’… اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔‘‘عملی طور پر بھی محبت کرنی ہو گی، اظہار کرنا ہو گا۔ ’’نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔‘‘اس کا منہ میٹھا نہیں ہو جاتا اگر صرف چینی کا نام لے لے، شوگر کا نام لے لے تو میٹھا ہو جائے گا۔ نہیں۔ ’’یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرواور یہی اسلام ہے۔ یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے۔ اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالبِ صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانہ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔…‘‘

سوال نمبر11: حضرت مسیح موعودؑنے حقیقی بیعت کی نسبت کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: اصل میں تو ایک حقیقی مومن کا ہر کام اور فعل ہی توحید کے قیام کے لیے ہوتا ہے اور ہونا چاہیے اور یہی حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت کا مقصد تھا اور اس بات کا آپؑ نے بار بار اظہار فرمایا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ نری بیعت کر لینا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ بات بڑی کھول کر متعدد جگہ آپؑ نے بیان فرمائی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا کہ’’جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا مَیں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا مدعی سچامدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے۔‘‘یہ سب دعویٰ جو محبت کرنے کا یا ایمان کا یااطاعت کا یا بیعت کا ہے یہ سب دعوے ہیں سچا دعویٰ نہیں ہو گا۔ یادرکھو کہ سچی بات یہ ہے’’کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ امر یقینی ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جا ؤ۔ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘

سوال نمبر12:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدنیا کے موجودہ حالات کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: دعائیں بھی کریں۔ دنیا کے لیے بھی دعائیں کریں کہ دنیا کے حالات بہتر ہوں۔ آپس میں جو دشمنیاں چل رہی ہیں، ملک ملک پر حملے کر رہے ہیں وہ عقل کے ناخن لیں اور ان چیزوں سے باز آ جائیں ورنہ دنیا بہت زیادہ تباہی کی طرف جا رہی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کو یہ پہچان لیں تو تبھی اس سے نکل سکتے ہیں۔ اسی طرح اسیران، احمدی اسیران جو ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ پاکستان میں احمدیوں کے جوحالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔دنیا کے بعض اَور ممالک میں حالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ افغانستان کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ الجزائر کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ پاکستان میں تو قانون کی وجہ سے ان کی ہر جگہ اور پھر یہ کہ مولوی کا خوف یا عوام کے نام پر عوام کا خوف جو ہے وہ ججوں کو صحیح فیصلہ بھی کرنے کی توفیق نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ حالات بہتر کرے اور پاکستان میں بھی احمدی آزادی سے رہنے لگیں۔

سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےکس مرحوم کی نمازجنازہ پڑھائی اورذکرخیرفرمایا؟

جواب: فرمایا:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم عبدالباقی ارشد صاحب کی نمازجنازہ پڑھائی اوران کا ذکرخیرفرمایا جو ان دنوں الشرکة الاسلامیہ یوکے کے چیئرمین تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button