حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

تکبر…اخلاقی برائیوں کی ایک جڑ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اگست 2003ء)

(بیعت کی) ساتویں شرط یہ ہے: یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔

شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گااور عبادالرحمٰن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگرہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبرکی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کاراس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ توکیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کاانکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں ،عبادت گزار ہوتے ہیں ، بچتے رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے،نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں ، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کوچھوڑوگے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کواگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا توتکبر پھر حملہ کرے گا۔اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں ۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اوراکڑتا پھرے۔یہ قرآن شریف کی آیت میں پڑھتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا (بنی اسراء یل:38) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقینا ًزمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتاہے۔ جیساکہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔…

اللہ تعالیٰ قرآ ن شریف میں فرماتاہے :وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ(لقمان:19)۔اس کا ترجمہ یہ ہے: اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

جیساکہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرمارہاہے کہ یونہی تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو۔اپنے گال پھلاکر، ایک خاص انداز ہوتاہے تکبرکرنے والوں کا اور گردن اکڑاکر پھرنا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ تکبر جوہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتاہے اورنیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں ۔ اورپھر دین سے بھی دورہوجاتے ہیں ، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتاہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں ۔

ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور مَیں تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو ثرثار یعنی منہ پھٹ،بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں ، متشدِّق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور مُتْفَیْہِقْ یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !ثرثار اور متشدِّق کے معنے توہم جانتے ہیں ، مُتْفَیْہِق کسے کہتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: مُتْفَیْہقِ متکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں۔(ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی معالی الاخلاق…)

تو تکبر آخرکار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کردیتاہے۔جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہو سکتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اوراس زمانہ میں دیکھے بھی۔تو یہ بڑاخوف کامقام ہے۔ ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھرپھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارننگ دے دی ہے، واضح کردیاہے کہ یہ میری چادر ہے، مَیں رب العالمین ہوں، کبریائی میری ہے، ا س کو تسلیم کرو، عاجزی دکھاؤ۔اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کروگے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے توعذاب تمہارا مقدرہے لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اگر ذرہ بھر بھی تمہارے اندرایمان ہے تو مَیں تمہیں آگ کے عذاب سے بچا لوں گا۔ جیسا کہ حدیث میں آیاہے۔

حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا و ہ آگ میں داخل نہ ہوگا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد )

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں ۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ598)

پھر فرماتے ہیں :’’اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پور انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12-13)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button