متفرق

بورتھ جھیل اور ہنزہ کا معلق پل

(سید ذیشان اقبال)

بورتھ جھیل ایک بہترین پکنک پوائنٹ ہے جہاں تیراکی کے شوقین حضرات تیراکی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، کشتی رانی کی تفریح بھی فراہم کی گئی ہے

اگر رات قیام کا ارادہ ہو تو مناسب ہوٹلز کے ساتھ ساتھ محدود بجٹ والے سیاحوں کے لیے جھیل سے ذرا فاصلے پر ارزاں کرائے کے حامل ٹینٹس بھی موجود ہیں

پاکستان کے شمال میں گلگت شہر سے 144کلومیٹر کے فاصلے پر گلمت ایک مشہور اور خوبصورت گاؤں واقع ہے۔ گلمت سے تقریباً اڑھائی کلومیٹر آگے قراقرم ہائی وے پرحسینی نامی سرسبز مقام ہے جو دریائے ہنزہ پر تعمیر کردہ معلق پل کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسی حسینی گاؤں سے ایک راستہ صاف اور شفاف پانیوں کی حامل بورتھ جھیل کی طرف بھی نکلتا ہے جو یہاں سے 2کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔

بورتھ جھیل

قراقرم کے پہاڑوں میں 8500فٹ کی بلندی پر موجود یہ جھیل لمبوتری شکل کی ہے۔اندازاً 300میٹر طویل اس جھیل کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 200میٹر اور گہرائی90فٹ ہے۔ بورتھ جھیل کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ اوّل:یہ نمکین پانی کی جھیل ہے جس کا پانی ہلکی سی کڑواہٹ لیے ہوئے ہے۔کڑوے پانی کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش بھی ممکن نہیں۔

دوم: اس جھیل میں آپ کو نہ توپانی کہیں سے آتا دکھائی دے گا اور نہ ہی جھیل سے پانی خارج ہوتا ہوا نظر آئےگا۔ اس کے باوجود جھیل کا پانی تازہ ہے۔جھیل میں پانی کی آمد کا واحد ذریعہ وہ چشمے ہیں جو اس کی تہ میں پھوٹتے ہیں جن میں سلفر کی ملاوٹ ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق جھیل کا پانی بدن کے داغ دھبوں اور پھوڑے پھنسیوں کے لیے شفا کا درجہ رکھتا ہے۔ جھیل موسم سرما میں منجمدہو جاتی ہے۔ برف اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ اس کی سطح پر چل کر اسے عبور کیا جاسکتا ہےلیکن کبھی کبھار یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ چند سال قبل ایک نوجوان اسی کوشش میں برف کی پرت ٹوٹ جانے کے سبب جھیل میں گر کر موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔جھیل کے کناروں پر خود رو جھاڑیاں اس کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان جھاڑیوں میں جنگلی مرغیوں کا بسیرا ہے جن کے شکار پر پابندی عائد ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پریوں کے دیس بابوسر ٹاپ اور جھیل سیف الملوک کا تفریحی دورہ (قسط اوّل)

بورتھ جھیل کے مغرب میں گلمت ٹاور دکھائی دیتا ہے جبکہ مشرقی سمت مشہورومعروف اور قدرت کا شاہکار پاسو کونز (Passu Kones) بہترین دعوت نظارہ دیتی نظر آتی ہیں۔شمال میں پہاڑوں کی بلندیوں پر ایک بڑاگلیشیر موجود ہے جس سے خارج ہونے والا پانی پائپوں کے ذریعے بورتھ گاؤں تک پہنچایا گیا ہے۔ مقامی رہائشی یہی پانی اپنی روز مرہ ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔جنوب میں 2 کلو میٹر کے فاصلے پر قراقرم ہائی وے اور حسینی گاؤں واقع ہے۔

حسینی گاؤں میں قراقرم ہائی وے پر لگے اطلاعی بورڈ بورتھ جھیل جانے والے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں۔آپ اس جھیل تک رسائی گاڑی کے ذریعے بھی پاسکتے ہیں لیکن راستہ کچا اور خاصا ٹوٹا پھوٹا ہے۔اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی نہیں تو بہتر ہے کہ یہ راستہ بجائے جیپ کے پیدل طے کریں۔ راستہ آسان ہے۔ اگرشارٹ کٹ لیںتوزیادہ سے زیادہ آدھےگھنٹے میں جھیل تک رسائی ممکن ہے۔

خنجراب ٹاپ سے واپسی پر مَیں حسینی گاؤں اتر گیا۔ ایک بزرگ جیپ لیے یہاں موجود تھے ۔ مجھے پشت پر رک سیک (Ruck Sack)اٹھائے جاتے دیکھا توجھیل تک پہنچانے کی پیشکش کی لیکن چونکہ میں ایک ٹریکر ہوں اور راستے کا بھی علم تھا سو معذرت کرکے آگے بڑھ گیا۔ شارٹ کٹ لیتے ہوئے 20 منٹ بعد ہی میں جھیل پر موجود تھا۔

بورتھ جھیل ایک بہترین پکنک پوائنٹ ہے جہاں تیراکی کے شوقین حضرات تیراکی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ کشتی رانی کی تفریح بھی فراہم کی گئی ہے۔ اگر رات قیام کا ارادہ ہو تو مناسب ہوٹلز کے ساتھ ساتھ محدود بجٹ والے سیاحوں کے لیے جھیل سے ذرا فاصلے پر ارزاں کرائے کے حامل ٹینٹس بھی موجود ہیں۔ ان ٹینٹس کے منتظمین افتخار صاحب اور حقیقت صاحب اچھے تعاون کرنے والے اور ملنسار لوگ تھے۔ رات قیام کے لیے مَیں نے انہی خیموں میں سے ایک خیمہ 400 روپے کے عوض حاصل کیا۔ خیمے میں میٹرس کے ساتھ سلیپنگ بیگ اور تکیے بھی موجود تھے لیکن چونکہ میرے پاس ذاتی سلیپنگ بیگ تھا سو میں نے اسے ہی استعمال کیا۔ یہ سیلپنگ بیگ میں نے چند روز قبل ہی لاہور سے خریداتھا جو خاصا آرام دہ اور3 ڈگری تک سردی سے بچاؤ کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس سیلپنگ بیگ میں سرد ی کے باوجود میں پر سکون نیند سویا۔

شام کے سائےگہرے ہوئے تو اچانک ہی تیز ہَوا چلنا شروع ہوگئی۔ یہ اس قدر یخ بستہ تھی کہ مجھے گرم سویٹر میں بھی ٹھنڈ محسوس ہونے لگی۔میں کچن سے ملحقہ کمرۂ طعام میں آکر بیٹھ گیا اور افتخار صاحب سے علاقے کے متعلق باتیں کرنے لگا۔اس دوران ان کے چند کزن آگئے جن سے رات تک گپ شپ چلتی رہی۔ ساڑھے دس بجےنیندکا غلبہ ہواتو میں اپنے خیمے میں آگیا۔ صبح میرا ارادہ حسینی معلق پل جانے کا تھا۔

حسینی معلق پل

صبح بوقت فجر بیدار ہوا۔ شدید سرد پانی سے وضو کیا تو سردی کی ایک لہر بدن میں سرایت کرگئی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد جھیل کی مختصر سیر کی۔ پاسو کونز کا نظارہ خاصا سحر انگیز تھا۔صبح کی حسین روشنی میں چند تصاویر لیں پھر رک سیک تیار کرکےناشتے کے لیے کچن کا رخ کیا۔افتخار صاحب کو میں نے رات کو ہی اپنے وقتِ روانگی سے آگاہ کردیا تھا۔ ان کا ایک معاون ناشتے کی تیار ی کے لیے کچن میں تھا۔ آملیٹ، پراٹھا اور چائےپر مشتمل مزیدار ناشتہ اور جھیل کا کنارہ ہوتو ایسے ناشتے کا لطف ہی الگ ہے۔

ساڑھے سات بجے بورتھ جھیل کو الوداع کہہ کر میں حسینی گاؤں روانہ ہوگیا۔ موسم کے رنگ سحر خیز تھے۔ ہلکی لیکن سرد ہوا تھی، بادلوں کی آوارہ گرد ٹکڑیاں تھیں، سامنے پاسو کونز اور اردگرد قراقرم کے کوہسارتھے اور وادی میں سبزے کی بہار۔موسم کے یہ دلکش رنگ محسوس کرتے ہوےٴ میں جلد ہی حسینی گاؤں پہنچ گیا۔ گاؤں کی گلیوں سے گزرتے ہوئے مزید تھوڑے سے پیدل سفر کے بعد میں حسینی معلق پُل پر موجود تھا۔

حسینی گاؤں میں دریائے ہنزہ کا پاٹ خاصاچوڑا ہو جاتا ہے۔ دریا کی دوسری طرف ایک چھوٹا ساگاؤں ہے جس سے رابطے کے لیے یہ پل سب سے پہلے 1968ء میں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کیا۔ بعد ازاں 1983ء اور 2012ء میں اس کی مرمت بھی مقامی لوگوں نے خود ہی کی۔

آہنی رسیوں کے سہارے قائم اس پل کو ہنزہ کا عجوبہ کہا جاےٴ تو غلط نہ ہوگا کہ پل لکڑی کی پھٹیاں جوڑ کر بنایا گیا ہے جن کے درمیان خلا موجود ہے۔ اس پُل سے نیچے دیکھنے والا بعض دفعہ پانی کے تیز بہاؤ سے سخت خطرہ محسوس کرتا ہے ۔کئی فٹ نیچے بہتے ہوئے تیز پانی کو دیکھنے سے سر چکراتا ہے۔ کمزور دل اور ہائیٹ فوبیا کے شکار افراد کے لیے یہ خاصا خطرناک پل ہے۔ مضبوط اعصاب والے حضرات بھی جب اس پر قدم رکھتے ہیں تو ایک مرتبہ خوف سے آنکھیں بند کرکے آہنی رسیوں کو مضبوطی سے تھامنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

حسینی معلق پل کو مقامی لوگ عام استعمال کرتے ہیں کہ دریا کے آرپار ان کی آمدورفت معمول ہے لیکن سیاحوں کے لیے یہ ایک مہم جو ئیانہ تفریح ہے جس پر 200 روپے کا داخلہ ٹکٹ مقرر کیاگیا ہے۔ سیاحوں سے تفریح کی مد میں حاصل ہونے والی یہ رقم پل کی مرمت وغیرہ پر خرچ کی جاتی ہے۔

میں صبح 8 بجے حسینی پل پہنچا۔ اس وقت ٹکٹ گھر بند تھا۔ دروازے پرٹکٹ کی فراہمی کا وقت ساڑھے نو بجے تحریر تھا۔ اس قدر وقت میرے پاس نہیں تھا سو میں پل پر چلا گیا۔ اگر چاہتا توپل پار کرسکتا تھا لیکن چونکہ میرے پاس ٹکٹ نہیں تھا لہٰذا میں نے اسے پار کرنا مناسب نہ سمجھا اور چند قدم آگے جا کر تصاویر اور ویڈیو گرافی کرکے واپس آگیا۔

ہنزہ کے علاقے اَپر گوجال میں واقع بورتھ جھیل کی طرح حسینی کا معلق پل بھی ایک خوبصورت تفریح گاہ ہے۔ ایڈونچر(Adventure) کے شوقین افراد کے لیےایک چھوٹی سی مہم جوئی بھی ہے۔ اگر آپ کا ارادہ ہنزہ کی سیاحت کا ہوتو مذکورہ دونوں مقامات کو اپنی فہرست میں لازمی رکھیں اور آخر پرایک درخواست کہ ان علاقوں کی صفائی اور ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ یہ نہ صرف ہماری دینی بلکہ قومی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ہوٹلز اور خیموں کے قریب جگہ جگہ ڈسٹ بن رکھے گئے ہیں۔ جھیل کنارے پکنک ضرور منائیں لیکن اس دورا ن غیر ضروری اشیاء اور کچرا شاپنگ بیگز میں ڈال کر ڈسٹ بن میں پھینکیں تا کہ وطن عزیز کو بخشے ہوےٴ اللہ تعالیٰ کے ان حسین تحائف کی خوبصورتی اور رعنائی قائم و دائم رہ سکے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button