سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

’’بیعت کے بعدمیرے نام ایک دن انہوں نے ایک رقعہ لکھا۔ میں نے اسے پڑھا۔ اس کے نیچے میرزا سلطان احمد لکھا ہوا تھا مگر پڑھنے اور یہ یقین ہونے کے باوجود کہ یہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ہی رقعہ لکھا ہے مجھے شبہ ہوا کہ یہ کسی اَور نے نہ لکھا ہو کیونکہ وہ رقعہ اس قدر مخلصانہ انداز میں لکھا ہوا تھا اور اس قدر ادب اور احترام اس میں پایا جاتا تھا۔ جس طرح پرانے مخلص احمدی خط لکھا کرتے ہیں‘‘

صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کی قبولیت احمدیت

آپ کی بیعت ایک نشان تھا

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جولائی 1931ء میں صاحبزادہ صاحب کے قبول احمدیت کے نشان اوربیعت کے بعد آپ کے اخلاص کے بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام…یعنی ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کو جو تیرے لئے شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہو سکیں مٹا دیں گے۔ اس الہام کو میں دیکھتا ہوں کہ ان عظیم الشان کلمات ِالٰہیہ میں سے ہے جو متواتر پورے ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ظہور کا ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے تھے ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ کے رشتہ دار آپ کا انکار کرتے ہیں او ر پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک لڑکا آپ کی بیعت میں شامل نہیں۔ یہ اعتراض اس کثرت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کےدلوں میں سلسلہ کاد رد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ میں دوسروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہزار ہا دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہو گی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کےکہ بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کےمتعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کابیٹا تھا اور اس وجہ سے کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑتا تھا۔ میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری والدہ سے بڑے بھائی تھے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لئے اب احمدیت میں داخل ہونا ناممکن ہے احمدی ہو گئے۔ ان کا احمدی ہونا ناممکن اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اس کے دل میں موجود ہو۔ اس کے متعلق یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا۔ لیکن کتنا زبردست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا وہ خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مدتوں پہلے فرما دیا تھا۔… یعنی ہم تیرے اوپر جو جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے بلکہ سب کو مٹا دیں گے۔ تین سال کے قریب ہوئے مرزا سلطان احمد صاحب شدید بیمار ہوئے۔ قریباً ایسی ہی بیماری تھی۔ نفخ تھا او ربخار بھی تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب سے ان کا علاج کراتا تھا لیکن سب سے بڑی فکر جو مجھے ان کے متعلق تھی وہ یہ تھی کہ اگر یہ اسی حالت میں فوت ہو گئے تو مخالفوں کا اعتراض باقی رہ جائے گا…عام طور پر میں دیکھتا ہوں لوگوں کو پہلی حالت کا ذکر کرنے میں ایک قسم کا حجاب ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ہماری تائی صاحبہ بیعت میں داخل ہوئیں تو ہماری جماعت میں سے کئی لوگ کہنے لگے تائی صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت نہیں کیا کرتی تھیں۔ مگر چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی یہ واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کو زیادہ ظاہر کرنے والے ہیں۔

میں نے دیکھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے۔ ایک سیڑھی تھی جو ہمارے دونوں گھروں کے درمیان تھی۔ ہم وہاں سے گزرتے تو ہماری تائی صاحبہ اکثر کہتیں۔’’جیسے کوا ویسے کوکو‘‘ (’’جیہو جیا کاں اوہو جئی کوکو‘‘ (الفضل 13؍اپریل1938ء)) یعنی جس رنگ کا باپ ہے یہ بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کچھ حجاب نہیں آتا۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں یہ قلب کی حالت ہو اور پھر ہدایت نصیب ہو۔ تو یہ تو معجزہ ہو جاتا ہے اور پھر ان کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ باوجود اتنی مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے آخر کوئی نیکی دیکھی ہی تھی۔ جو انہیں ہدایت دے دی۔ یہی حال میں دیکھتا ہوں مرزا سلطان احمد صاحب کا تھا اس رنگ میں تو نہیں۔ جس رنگ میں تائی صاحبہ کا تھا۔ مگر ایک اور رنگ میں ان کابھی ضرور ایسا ہی حال تھا۔ اس میں شبہ نہیں۔ مرزا سلطان احمد صاحب ہمیشہ یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹ نہیں بولتے۔ اپنا باپ ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ فی الواقع ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راستبازی گھر کر چکی تھی۔ مگر یہ نہیں کہ وہ آپ کے الہامات کی ایسی عظمت اورشان سمجھتے ہوں جیسے ایک مامور کے الہامات کی سمجھنی چاہئے۔

مجھے ان کا ایک فقرہ خوب یاد ہے۔ شروع شروع میں جب میں نے ان سے ملنا شروع کیا تو ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے۔ مجھے یقین ہے ہمارے والد صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی بڑھ کر محبت تھی۔ اپنے رنگ میں انہوں نے یہ فقرہ محبت میں ہی کہا ہو گا۔ مگر مجھے بڑا ہی بُرا معلوم ہوا۔ کیونکہ خداکے مقابلہ میں کسی رسول سے زیادہ محبت ہو ہی کس طرح سکتی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ کہنے لگے اگر یہ سڈیشن (Sedation)کا قانون پہلے نکلتا تو ہمارے والد صاحب ضرور قید ہو جاتے کیونکہ انہوں نےرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان قائم رکھنے کے لئے کسی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرنی تھی۔ اس قسم کے الفاظ ممکن ہے محبت کی وجہ سے ان کے مونہہ سے نکلے ہوں مگر ایسے الفاظ ہم لوگوں کے مونہوں سے جو مامورین کی حقیقی قدر و منزلت جانتے ہیں کبھی نہیں نکل سکتے۔

غرض الہام الٰہی کا ادب اور وقار احمدیت کی حد تک ان کے دل میں نہ تھا۔ اگرچہ وہ یقین رکھتے تھے کہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹے نہیں۔ ایسی قلبی کیفیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور ایسے وقت میں دی کہ صاف طور پر وہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان معلوم ہوتا ہے۔ دسمبر 1930ء میں انہوں نے بیعت کی اور چھ مہینوں کے بعد وہ فوت ہو گئے۔ جس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیعت الٰہی تصرف کے ماتحت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتاتھا کہ اب یہ جلد ہی فوت ہو جانے والے ہیں اس لئے اگر انہوں نے بیعت نہ کی تو ایک مخزیہ رہ جائے گی۔ پس خدا نے انہیں بیعت میں داخل کر کے اس مخزیہ کو بھی دور فرما دیا۔ اس سے پہلے بعض دوست جب انہیں بیعت کے لئے کہتے تو وہ یہی جواب دیتے کہ میں تویہ سمجھتا ہوں کہ سلسلہ سچا ہے مگر مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کروں۔ قریباً سال بھر ان کی یہ حالت رہی اور اس سے پہلے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتے تھے یہ سلسلہ تو سچاہے مگر ابھی میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ لاہوری حق پر ہیں کہ قادیانی جماعت۔ مجھے ان کےجب یہ خیالات معلوم ہوئے تو میں نے انہیں تحریک کی کہ اپنی احمدیت کا اعلان کر دیں کیونکہ اس سوال کا فیصلہ کئے بغیر بھی تو ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لا سکتا ہے۔ اس پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ میں سلسلہ احمدیہ میں داخل توہوتا ہوں مگر ابھی میں نہیںکہہ سکتا کہ قادیانی جماعت حق پر ہے یا لاہوری۔ اس اعلان کے ایک سال کےبعد انہیں شرح صدر ہو گیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ جماعت قادیان ہی صداقت پر ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے۔ مگر شرم یہ آتی کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کروں۔ آخر ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مرزا سلطان احمد صاحب بیعت کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے کہا ہے میں تو چل نہیں سکتا آپ کوکسی دن فرصت ہو تو میری بیعت لے لیں۔ اس دن میری طبیعت اچھی نہیں تھی اور مَیں بیمار تھا مگر میں نے کہا میں ابھی ان کے پاس چلتا ہوں۔ ممکن ہے بعد میں دل بدل جائے اور پھر یہ وقت ہاتھ نہ آئے اس لئے میں اسی وقت گیا اور انہوں نے میری بیعت کر لی۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ 11؍جولائی 1931ء صفحہ 5-6جلد 19 نمبر5)

بیعت کے بعد آپ کا اخلاص

حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؒ نے بیعت کے بعد اپنے قول و فعل سے انتہائی اخلاص اور اطاعت کا نمونہ پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ آپ کے اس مخلصانہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ بیعت کے بعد میں یہ دیکھتا رہا کہ ان کی بیعت خلوص دل سے ہے یا صرف ظاہری طور پر۔ مگر میں نے دیکھا بیعت سے پہلے میرے نام جو ان کے رقعے آتے تھے ان میں ایک ایسا رنگ پایا جاتا تھا جس طرح کوئی علیحدہ شخص ہوتا ہے۔ مگر بیعت کے بعدمیرے نام ایک دن انہوں نے ایک رقعہ لکھا۔ میں نے اسے پڑھا۔ اس کے نیچے میرزا سلطان احمد لکھا ہوا تھا ۔مگر پڑھنے اور یقین ہونے کے باوجود کہ یہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ہی رقعہ لکھا ہے مجھے شبہ ہوا کہ یہ کسی اور نے نہ لکھا ہو کیونکہ وہ رقعہ اس قدر مخلصانہ انداز میں لکھا ہوا تھا اور اس قدر ادب اور احترام اس میں پایا جاتا تھا جس طرح پرانے مخلص احمدی خط لکھا کرتے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ انہیں ایسی حالت میں بیعت کی توفیق ملی جب ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے تھے اور دوسروں کو ہی چارپائی سے اٹھانا پڑتا تھا اور دوسروں کو ہی کھلانا اور پلانا پڑتا تھا۔ مگر ہدایت دماغ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ظاہری جسم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اس وقت تک توبہ قبول فرماتا ہے مَالَمْ یُغَرْغَرْ جب تک نزع کی حالت نہیں آتی۔ گویا جب تک اس کا دماغ معطل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ دماغ کے موت کے اثر سے متاثر ہوجانے سے پہلے پہلے ہر شخص کی توبہ کو قبول کر سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے عین وفات کے قریب انہیں بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔

بیعت کے بعد ان کے اندر اس قدر اخلاص پیدا ہو گیا تھا کہ مرزا سلطان محمد صاحب جب ایک دفعہ قادیان آئے تو بعض اور دوستوں اور میاں بشیر احمد صاحب کو بھی خیال آیا کہ انہیں تبلیغ کرنی چاہئے۔ چونکہ مرزا سلطان احمد صاحب سے ان کے پرانے تعلقات تھے اس لئے انہیں تحریک کی گئی کہ وہ مرزا سلطان محمد صاحب کو تبلیغ کریں۔ چونکہ آپ چل نہیں سکتے تھے اس لئے دو آدمیوں کا سہارا لے کر اس مکان پر گئے۔ جہاں مرزا سلطان محمد صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں جا کر انہیں تبلیغ کی اور کہنے لگے جب تبلیغ کرنی ہے تو اپنے مکان پر بلا کر نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہیں چلنا چاہئے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ چنانچہ باوجود بیماری کی سخت تکلیف کے وہ وہاں گئے اور انہیں تبلیغ کی۔

پس اللہ تعالیٰ کایہ ایک عظیم الشان فضل ہوا ہے کہ ہمارے رستہ میں جو ایک مخزیہ تھی اللہ تعالیٰ نے اسے دور کر دیا۔ اور جس طرح تائی صاحبہ کو بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ الہام پورا کیا اسی طرح مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالیٰ نے اس مخزیہ کو دور کر دیا جو آپ کے بیعت میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔ ‘‘(الفضل قادیان مورخہ 11؍جولائی 1931ء صفحہ 6 جلد 19 نمبر5 کالم 3-4)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button