خطاب حضور انور

افتتاحی خطاب سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ فرمودہ 02؍ اگست 2019ء

’’میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامور کیا ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حقیقی فائدہ ان تین دنوں کے جلسوں کا تبھی ہے جب ہمارا ایمان صیقل ہو

’’میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو‘‘

’’بغیر عمل کے ہمارے ایمان لانے کے دعوے کھوکھلے ہیں‘‘

’’یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے ‘‘

صرف برائیوں کو چھوڑنا تقویٰ نہیں بلکہ اخلاق فاضلہ میں ترقی کرنا تقویٰ ہے

’’کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ‘‘

’’امتی وہی ہے جو آپ کی تعلیمات پر پورا کاربند ہے‘‘

’’کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو، متقی بنو، ہر ایک بدی سے بچو،یہ وقت دعاؤں سے گزارو۔ رات اور دن تضرع میں لگے رہو،جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کا غضب بھی بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں دعا، تضرع، صدقہ، خیرات کرو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو‘‘

’’خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا ‘‘

’’عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو… عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عجب، ریاء، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو‘‘

ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے دکھانا چاہتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں

خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ اس پر کبھی بُرے دن نہیں آ سکتے

افتتاحی خطاب سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ فرمودہ 02؍اگست 2019ء بروز جمعۃ المبارک بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَکَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ (آل عمران:194)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ہمارے ربّ! ہم نے یقیناً ایک ایسے پکارنے والے کی آواز جو ایمان دینے کے لیے بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے ربّ پر ایمان لاؤ سنی ہے۔ پس ہم ایمان لے آئے اس لیے اے ہمارے ربّ !تُو ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بدیاں ہم سے مٹا دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا کر وفات دے۔

آج ہمارا یہاں جمع ہونا اس لیے ہے کہ ہم اس بات کا اعلان اور اظہار کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور احسان سے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادقؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی طرف ہماری رہ نمائی فرمائی ہے۔ جس نے ہمیں کھول کھول کر بتایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل سے ہی ہماری دنیا اور عاقبت سنور سکتے ہیں۔ بغیر عمل کے ہمارے ایمان لانے کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوٰة والسلام نے واضح کیا کہ بیعت میں آنے کے بعد اپنی حالتوں کو بدلنے اور اس حالت میں لانے کی ضرورت ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ورنہ یہ اعلان بے معنی ہے کہ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا اے ہمارے ربّ! ہم نے یقیناً ایک ایسے پکارنے والے کی آواز جو ایمان دینے کے لیے بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے ربّ پر ایمان لاؤ سنی ہے پس ہم ایمان لے آئے۔ یقیناً اگر ہمارے عمل اس تعلیم کے مطابق نہیں جو ہمیں بتائی گئی ہے تو ہمارا یہ اعلان کہ ہم ایمان لے آئے ہیں بالکل کھوکھلا اعلان ہے۔ پس حقیقی ایمان لانے اور ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہمارے ایمان کے کیا معیار ہیں، یہ دیکھیں کہ ایمان لانے کے بعد ہمارے ایمان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہیں یا نہیں۔ کہیں ہم اللہ تعالیٰ کے اس دوسرے فرمان کے نیچے تو نہیں آ رہے جہاں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَاِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (الحجرات:15) یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ تُو ان سے کہہ دے کہ تم حقیقتاً ایمان نہیں لائے لیکن تم یہ کہا کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر فرمانبرداری قبول کر لی ہے کیونکہ اے اعراب! ابھی ایمان تمہارے دلوں میں حقیقتاً داخل نہیں ہوا اور اے مومنو! اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پس یہ بڑے غور اور فکر کا مقام ہے۔ اگر ہمارے عمل نہیں ہیں تو ہماری حالت اُن اَن پڑھوں اور جاہلوں والی ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے غلامِ صادق کی ظاہری طور پر فرمانبرداری تو کر رہے ہیں لیکن حقیقی ایمان، ایمانی کیفیت جو ہے اس سے ابھی بہت دور ہیں۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور حقیقی ایمان کی حالت پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیاروں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اپنے اندر وہ حالتیں پیدا کر لی ہیں جو ایک مومن کے لیے ضروری ہیں؟ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کو ماننے کے بعد آپ علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ وہ کیا معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمارے سامنے رکھے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ایمان کی حالت پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا معیار ایک مومن کے لیے بتائے ہیں، وہ کیا معیار ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اور اپنے ماننے والوںمیں قائم فرمایا اور جن کی تجدید اور دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیجا اور انہوں نے پھر کھول کر یہ معیار ہمارے سامنے رکھے تا کہ ہم اپنی ایمان کی حالت کا اندازہ کر سکیں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زمانے کے امام کی فرمانبرداری میں لے آیا، آپؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس اس خوش قسمتی پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایمان کی حقیقی حالتوں کی نشان دہی کرنے اور توجہ دلانے کے لیے اپنے فرستادے کا ہمارے زمانے میں انتظام فرمایا اور پھر اپنی خاص تائیدات سے یہ انتظام بھی فرما دیا کہ علاوہ اَور بہت سارے موقعوں کے ایسے مواقع پیدا فرما دیے جن میں ہم تین دن کے لیے اپنے ایمان کی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔

پس حقیقی فائدہ ان تین دن کے جلسوں کا تبھی ہے جب ہمارا ایمان صیقل ہو اور جب ہم اپنے ایمان کو صیقل اور مضبوط کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی رہ نمائی کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں اور اُن توقّعات پر پورا اتریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہم سے کی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے مختلف مواقع پر جو رہ نمائی فرمائی ہے، جو معیار ہماری ایمانی حالتوں کے آپؑ ہم سے چاہتے ہیں اور جن کی بار بار آپؑ نے تلقین فرمائی ہے ان میں سے کچھ کا مَیں آج آپ کے سامنے ذکر کروں گا ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے تسلیم تو کر لیا، یہ مان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات واحد و یگانہ ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی اَور شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا اور پھر مسیح موعود علیہ السلام،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تجدیدِ دین کے لیے بھیجے گئے ہیں لیکن اگر ہمارے عمل اس شریعت کے مطابق نہیں تو پھر ایمان کی حالت پیدا نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ

حقیقی ایمان پیدا کرنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان کامل ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ایمان شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ تقویٰ و طہارت ہی وہ جڑ ہے جس سے ایمان شروع ہوتا ہے۔ اس جڑ کو مضبوطی ہی تقویٰ سے ملتی ہے۔ اس کو پانی اور خوراک تقویٰ سے ہی ملتا ہے اور پھر انسان ایمان میں بڑھتا ہے۔ وہ پرانی بیماریوں اور ناپاکیوں سے دھویا جاتا ہے۔ اَسْلَمْنَا سے نکل کر اٰمَنَّا میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لیے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شَے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذّات کی ہر ایک شَے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔چور چوری کرتا ہے۔‘‘ جو بھی آپ چاہتے ہیں حلال ذرائع سے ہر چیز مل سکتی ہے اگر تقویٰ ہو۔ فرمایا کہ ’’چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خد اتعالیٰ اسے اَور راہ سے مال دار کردے گا۔ اسی طرح زانی زنا کرتا ہے۔ اگر صبر کرے تو خد اتعالیٰ اس کی خواہش کو اَور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی اگر ایمان ہے تو یہ حرکتیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ کیونکہ ایمان ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات پر حقیقی ایمان ہو ،تقویٰ ہو تو ان برائیوں کے قریب بھی انسان نہیں جا سکتا۔ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے؟ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے۔ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔‘‘ چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچ سکے۔ فرمایا کہ ’’انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچاسکتے۔‘‘ حکومتیں قانون بناتی ہیں، حکم دیتی ہیں یہ گناہوں سے نہیں بچا سکتیں۔ کیوں؟ فرمایا ’’حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔‘‘ اگر یہ خیال ہو کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا۔ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو تو یہ خیال ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جب یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا اس کا مطلب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایمان اٹھ گیا اور جب ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں رہا، یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا اور اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں تو پھر یہ دہریوں والی حرکت ہے، خدا پر یقین نہ ہونے والی حرکت ہے۔ اور فرمایا ’’اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’تقویٰ سے سب شَے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحہ:5) سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اُسے اپنی طرف منسوب کرے اور اُسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لیے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘ عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اس عبادت کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد ہی انسان طلب کرتا ہے اس لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ پھر فرمایا ’’پھر دوسری سورت بھی هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ سےشروع ہوتی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔ اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔‘‘ جب انسان میں تقویٰ ہوتا ہے تو وہ تمام ذرائع جو گناہ کی طرف لے جانے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ختم کر دیتا ہے اور فرمایا کہ ’’بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔ دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شَے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔‘‘

فرماتے ہیں ’’ایک اَور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا(حٰمٓ السجدہ:31) اس سے بھی مراد متقی ہیں ثُمَّ اسْتَقَامُوْا یعنی اس پر زلزلے آئے۔ ابتلا آئے۔‘‘ لیکن مستقل مزاجی سے اپنے دین پر قائم رہا، نیکیوں پر قائم رہا، تقویٰ پر قائم رہا، ان زلزلوں کے باوجود، ابتلا کے باوجود استقامت دکھائی۔ ’’آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے ’’اس سے نہ پھرے۔ پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی۔ تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ۔ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو۔ تمہارا خدا متولّی ہے۔ وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السجدہ:31) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے اور اس جنت سے یہاں مراد اس دنیا کی جنت ہے جیسے قرآن مجید میں ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:47) پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ (حٰمٓ السجدہ:32) دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ251تا253)

پس یہ ہے معیار اور یہ ہے پھر ایسا معیار دکھانے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک۔ اگر یہ ہو تو حقیقی تقویٰ ملتا ہے۔ یہ ہے وہ چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ پھر تقویٰ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا

’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔ تقویٰ ہونا چاہیے نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔ یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو‘‘ فرماتے ہیں ’’اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے۔‘‘ تقویٰ ہے ہی نہیں دنیا میں۔ ’’اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ357-358)

اور جو متوکّل نہیں اس کے ایمان کی حالت کمزور ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بے شک مانتے ہیں لیکن ایمانی حالت نہیں ہم کہہ سکتے۔ مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی مانتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا وہ کہتے ہیں الحمد للہ ہم مسلمان ہیں لیکن جو ایمان کی مضبوطی ہے، اس کے لوازمات جو ہیں جو چیزیں اس کے لیے ضروری ہیں وہ ان میں نہیں ہیں۔ وہ مفقود ہیں۔

اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ چیزیں مفقود ہیں، تقویٰ کی ہی ضرورت ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے تا کہ دنیا میں تقویٰ کو دوبارہ قائم کریں اور اسی لیے اس نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیجا ہے، اسی لیے آپؑ نے بار بار ہمیں اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک موقع پر تقویٰ کی ضرورت کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان الفاظ میں فرمایا کہ

’’جب تک انسان تقویٰ میں ایسا نہ ہو جیسے اونٹ کو سوئی کے ناکے سے نکالنا پڑے اس وقت تک کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ یہ ایک اَور بڑا معیار ہے اور یہی ایسا تقویٰ ہونا چاہیے کہ معمولی سا بھی انسان میں نقص نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’جس قدر زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ بھی توجہ فرماتا ہے۔ اگر یہ اپنی توجہ معمولی رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی معمولی توجہ رکھتا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔‘‘ آپؑ کو الہاماً فرمایا کہ ’’…اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ۔ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے۔ میں روزہ کھولوں گا بھی اور روزہ رکھوں گا بھی۔‘‘ کچھ حصہ کی میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ملامت ایک دل کے ساتھ ہوتی ہے۔ آپ کے الفاظ میں وضاحت ہے کہ ’’ملامت ایک دل کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک زبان کے ساتھ۔ زبان کے ساتھ تو یہی ملامت ہے جو مخالف کرتے ہیں۔‘‘ کہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ’’لیکن دل کی ملامت یہ ہے۔‘‘ یہ بڑے غور کی بات ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’دل کی ملامت یہ ہے کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ہم پیش کرتے ہیں اور ان پر عمل کے لیے تیار نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ360)

پس باتوں پہ عمل نہ کرنا یہ بھی ایک طرح کی ملامت ہے۔ آگے اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہو سکتا۔ پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔‘‘ فرمایا کہ’’انسان جب متّقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:4) ۔پس یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے ۔‘‘ ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اور انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خدا کے ولی ہو جاتے ہیں۔ تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو۔‘‘ ایک مومن کے لیے لکھا پڑھا ہونا عزت و تکریم کا باعث نہیں ہے اگر اس میں تقویٰ نہیں۔ فرمایا ’’لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل اُمی ہو۔‘‘ اَن پڑھ ہو ’’مگر متقی ہو وہ معزز ہوگا۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 361-362)اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ معزز ہو گا۔

متقی بننے کے لیے جن باتوں کی ضرورت ہے وہ بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکّا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے‘‘ یہ سارے اخلاق جو ہیں برائیاں ہیں ان سے پرہیز کر کے اس کے ’’بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے‘‘ یہ تقویٰ ہے۔ صرف برائیوں کو چھوڑنا تقویٰ نہیں بلکہ اخلاق فاضلہ میں ترقی کرنا تقویٰ ہے۔ فرمایاکہ ’’لوگوں سے مروت، خوش خُلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔‘‘ جن میں سب یہ باتیں جمع ہوتی ہیں کہ ان کے اخلاق بھی اچھے ہیں، سچائی پہ قائم ہیں، خوش خلقی کرنے والے ہیں، لوگوں سے ہمدردی کرنے والے ہیں، لوگوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں اور ہر طرح سے تقویٰ کی تلاش میں ہیں تو فرمایا کہ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ صرف یہاں رک نہ جائے بلکہ ان کے بھی معیار بلند کرتا جائے جہاں لوگ تعریف کرنے والے ہوں جہاں خدا تعالیٰ بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے والا ہو۔ فرمایا کہ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں ’’وہی اصل متّقی ہوتے ہیں فرمایا کہ (یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں) اور ایسے ہی شخصوں کے لیے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:63) ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہیے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ضمانت دے دی کوئی خوف نہیں ان کو ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے تو اس کے بعد انسان کو اَور کیا چاہیے ۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:197)۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں، ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں، ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں، ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں اور ایک اَور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لیے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ400-401)

ایک موقعے پر بعض بیعت کرنے والوں کو بیعت کے بعد نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی رحمت کے سرچشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے خدا تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے اس انسان کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خدا کا قدم بڑھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف ویسے ہی پھر خدا کا قدم بھی بڑھتا ہے۔

پھر آگے آپؑ نے وضاحت فرمائی کہ اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ان کو نصیحت فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ’’… اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شَے نہیں ہے۔‘‘ نمازوں کی پابندی ضروری ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت بڑھتی ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوٰة صاحب مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘ بڑا ہے، چھوٹا ہے، امیر ہے، غریب ہے، مرد ہے، عورت ہے جہاں یہ فرض ہے اس کو ادا کرنی ہے۔ ’’اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ مَیں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔‘‘ یہ ایمان ہونا چاہیے۔ ’’اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے۔‘‘ یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو سننے والا ہے اور وہ حالت اور کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے مانگ رہا ہے۔ ’’اُسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہرآ جاوے تو ابھی دے دیوے۔‘‘ اگر خدا تعالیٰ مہربان ہو جائے تو ابھی بخش دے اسی وقت بخش دے جب انسان دعا کر رہا ہے۔ فرمایا ’’بڑی تضرّع سے دعا کرے ناامید اور بدظن ہرگز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے۔ اور خود خدا بھی ملے گا۔ تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ401-402)

پس ایمان کی حقیقی حالت یہی ہے جس کا اندازہ ان باتوں سے ہر ایک خود لگا سکتا ہے اور جب ایسا ایمان ہو جاتا ہے کہ سب حاجتیں صرف خدا تعالیٰ کے سامنے بیان کرنی ہیں اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کرنا ہے تو یہی حقیقی ایمان ہے اور یہی وہ حالت ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا رسول ہم سے چاہتا ہے اور جو اس زمانے میں مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔

پھر ایمانی حالتوں کی مثال ایک جگہ آپ نے اس طرح دی ہے کہ جس طرح رات دن اکٹھے نہیں ہو سکتے اس طرح ایمان اور گناہ بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایمان ہو اور انسان گناہ کرنے والا ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ رات اور دن ایک جگہ پہ موجود ہوں پس جب وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے تو ایمان اور گناہ بھی جمع نہیں ہو سکتے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ 314)

ایک اَور معیار ہمارے سامنے آپؑ نے رکھ دیا کہ اس طرح اپنے جائزے لو۔

پھر ایمان کی حالت کو بہتر کرنے اور اپنے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لیے آپؑ نے ہمیں ایک نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’الہام میں جو یہ آیا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِاسْتِکْبَارٍ۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ بڑا منذر اور ڈرانے والا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بار بار کشتی نوح کو پڑھو اور قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے موافق عمل کرو۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تم نے اپنی قوم کی طرف سے جو لعنت ملامت لینی تھی لے چکے لیکن اگر اس لعنت کو لے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی تمہارا معاملہ صاف نہ ہوا اور اس کی رحمت اور فضل کے نیچے نہ آؤ تو پھر کس قدر مصیبت اور مشکل ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’اخباروں والے کس قدر شور مچاتے ہیں اور ہماری مخالفت میں ہر پہلو سے زور لگاتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے کام بابرکت ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس برکت سے حصہ لینے کے لیے ہم اپنی اصلاح اور تبدیلی کریں۔‘‘ آج کل بھی ہم دیکھ لیتے ہیں اخباروں سے بڑھ کر اب سوشل میڈیا میں بے انتہا غلاظت اور دریدہ دہنی کی جاتی ہے جماعت کے متعلق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے متعلق اور کیا کچھ حیلے نہیں استعمال ہو رہے لیکن ایسی حالت میں ہمیں پھر اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ جھکنے کی ضرورت ہے تب ہی اللہ تعالیٰ ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’اس لیے تم اپنے ایمانوں اور اعمال کا محاسبہ کرو کہ کیا ایسی تبدیلی اور صفائی کر لی ہے کہ تمہارا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہو جائے اور تم اس کی حفاظت کے سایہ میں آ جاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ69-70حاشیہ نمبر2)

پھر آپؑ نے فرمایا ’’مَیں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نِرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔ قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے۔‘‘ صرف چھلکے پر بھروسا نہ کرو، مغز کو حاصل کرنا ہے، اصل مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک اصل مقصد حاصل نہ ہو۔ فرمایا ’’قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے۔ اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔‘‘ یہ ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ہر عمل کرنے والے کے عمل کو میں اجر دوں گا۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ خود عمل کرنے والے نہیں تو میری بیعت یا میری مریدی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ’’جب کوئی طبیب کسی کو نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہرگز فائدہ نہ ہو گا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا جس سے وہ خود محروم ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشمس:10)۔ یوں تو ہزاروں چور، زانی، بدکار، شرابی، بدمعاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ امتی وہی ہے جو آپ کی تعلیمات پر پورا کاربند ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ232-233)

پھر بیعت کے ساتھ عملِ صالح کی ضرورت بیان کرتے ہوئے آپؑ نے بعض بیعت کرنے والوں کو ایک مجلس میں فرمایا کہ ’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہیے کہ یہ سلسلہ حق ہے۔‘‘ یہ سب کچھ سچ ہے اور ہم مانتے ہیں ’’اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’…صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں۔ کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو، متقی بنو، ہر ایک بدی سے بچو۔ یہ وقت دعاؤں سے گزارو۔ رات اور دن تضرع میں لگے رہو۔ جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کا غضب بھی بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں دعا، تضرع، صدقہ خیرات کرو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔ مثل مشہور ہے کہ منتیں کرتا ہوا کوئی نہیں مرتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’نراماننا انسان کے کام نہیں آتا۔ اگر انسان مان کر پھر اسے پسِ پشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت سے فائدہ نہیں ہوا۔ بے سود ہے۔ خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا ۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ274)

پس ان حالات میں جو آج کل بھی خاص طور پر بعض ملکوں میں ہمارے حالات ہیں۔ ایسے میں صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ایک جگہ ہے اور اس کوحاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر حقیقی تقویٰ اور ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی باتوں کو غور سے سننے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

عمل صالح کیا ہے اس بارے میں مزید آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے۔ عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں۔‘‘ انسان کے عمل کی چوریاں بھی ہوتی ہیں اور ہر وقت چور اس کی تاک میں رہتا ہے اور چوری کرنے کی فکر میں ہوتا ہے اور وہ چور کس طرح پڑتے ہیں اور وہ چور کون ہیں؟ فرمایا کہ ’’ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لیے ایک عمل کرتا ہے)‘‘ یہ چور ہے انسان کے عمل کا۔ ’’عُجب‘‘ ایک چور ہے ’’(کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے)‘‘ کہ میں نے بڑا نیک کام کر لیا حالانکہ اصل نیکی تو اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے ہم نے دل سے کی تھی اللہ تعالیٰ کی خاطر کی تھی یا صرف دکھانے کے لیے کی تھی۔ اسی بات پہ خوش نہیں ہو جانا چاہیے کہ ایک نیکی کر لی۔ ’’اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ سب چور ہیں جو انسان کے عمل پر پڑتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔‘‘ ایسا عمل عمل صالح کہلا سکتا ہے۔ کسی کا بھی حق تلف نہ کرو، کوئی ظلم نہ کرو، کبھی ریاء نہ کرو، خود پسندی بالکل نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں عمل صالح ہی ہمیں بچا سکتے ہیں۔ آخرت میں بھی اگر ہمارے عمل اچھے ہوں گے تب ہی اللہ تعالیٰ ہم سے نیک سلوک کرے گا کہ ہمیں معاف کرے گا اور بہتر جزا دے گا اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی عمل صالح کرو گے تو برائیوں سے بچو گے اور پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن سکو گے۔ فرمایا ’’اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔‘‘

پھر عملِ صالح کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں’’……اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا ہے۔ اب زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔‘‘ پھر آپؑ نے فرمایا

’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے استغفار کا التزام کرایا ہے۔‘‘ بعض دفعہ انسان کو پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کر رہا ہے اس لیے استغفار کرتے رہو کہ گناہوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو اور جو گناہ کیے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ ’’کہ انسان ہر ایک گناہ کے لیے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۔ (الاعراف:24) فرمایا کہ ’’یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔‘‘ کسی قسم کی بلا اس کو نہیں آئے گی۔ فرمایا کہ ’’کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔

(ملفوظات جلد4صفحہ274تا276)

آپؑ کو اپنی جماعت کی تعداد سے زیادہ یہ فکر تھی کہ ایمان میں بڑھیں اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کریں چنانچہ اس کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہیے۔ اور ان کو شکر کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ438)

اگر ایمان سچا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ صحیح تعلق ہے تو انسان نشان بھی دیکھتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کے لیے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے، خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہوکیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگراعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لیے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پرعمل کرتا ہے … اس لیے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔ اعمال پروں کی طرح ہیں۔ بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لیے پرواز نہیں کرسکتا۔‘‘ اگر عمل نہیں ہیں تو اوپر جا ہی نہیں سکتا۔ ’’اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا جو ان کے نیچے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔‘‘ مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’پرندوں میں فہم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں۔ مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہد نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے، کس قدر دور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں اور خطوط کو پہنچاتے ہیں۔‘‘ ایسی ٹریننگ ان کو دی جاتی ہے۔ فرمایا ’’… پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لیے ہے یا نہیں۔ جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ سستی اور غفلت نہ کرے۔ ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑجاتا ہے اس لیے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہیے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 439-440)اور تب ہی انسان صحیح رستوں پر چلتا ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ ترقی کے مدارج کا طریق کیا ہے، جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانہ میں جبکہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے‘‘ پتہ نہیں لگتا کہ کون سے حقوق ادا کرنے ہیں کون سی باتیں ہیں جو پوری کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کون سے حکم ہیں جن کو کرنا ہے۔ ’’دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصّے کو ترک کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’…لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلے میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کہ خدا نے ان کو کمزور رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس امر کے مرتکب ہوئے۔‘‘ جب تک کمزوری ہے، طاقت نہیں، بڑے شریف بنے رہے، گناہ سے بچے رہے لیکن جہاں کہیں موقع ملا، جہاں کہیں حالات بہتر ہوئے پھر گناہ کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے۔ فرمایا کہ ’’آج اس زمانے میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اَور فصل پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ضائع نہیں ہونے دیتا۔ پھر فرمایا کہ ’’وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا ۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لیے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے مہربانی کر کے اس زمانے کے امام کو اتارا ہے تا کہ ہم اس کو مانیں اور اس کی باتوں پر عمل کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ اگر اس سے بھی ہم فائدہ نہ اٹھائیں تو پھر ہمارا قصور ہے ۔

فرمایا آدمی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے کہ بدی نہ کر کے پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔ بھلا یہ کون سی صفت ہے جس کے اوپر ناز کیا جائے۔ شر سے اس طرح پرہیز کرنا نیکی میں داخل نہیں ہے۔ اگر کوئی بدی نہیں کی تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے اور نہ اس کا نام حقیقی نیکی ہے کیونکہ اس طرح تو جانور بھی کر سکتے ہیں۔ پھر آپؑ نے مثال دی ہے کہ ایک جگہ لوگوں نے کہا کہ ایک بلی کی اتنی ٹریننگ ہے، آپؑ فرماتے ہیں کسی نے بتایا کہ کسی کی ایک بلی تھی ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا اس کی اتنی ٹریننگ ہے کہ جب تک اس کو کہا نہ جائے کھانے کو وہ نہیں کھاتی اور اس کا ٹرائل جب انہوں نے کیا اور دودھ وغیرہ رکھ کر کمرے میں بند کر دیا۔ چند دن کے بعد جب دروازہ کھولا تو بلی مری ہوئی تھی اور چیزیں سلامت تھیں تو آپؑ فرماتے ہیں اب شرم کرنی چاہیے کہ اس نے حیوان ہو کر انسان کا حکم ایسا مانا ہے اور یہ انسان ہو کر خدا تعالیٰ کے حکم کو نہیں مانتے۔ پھر اسی طرح کتے کی مثال ہے، کتوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ جانور جو ہیں وہ انسانوں کا حکم مانتے ہیں اور ہم انسان ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دُور جا رہے ہیں اور گناہ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بغیر کسی شرم اور حیا کے گناہوں میں ڈوبتے جاتے ہیں پس اس طرف توجہ ہمیں کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر فرمایا کہ میرے آنے کے بعد تو اب یہ موقع ہے اور خدا تعالیٰ کی لہروں کے دن ہیں یعنی جیسے بعض زمانہ خدا کی رحمت کا ہوتا ہے اور اس میں لوگ قوت پاتے ہیں ایسے ہی یہ وقت ہے۔ فرمایا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل دنیا کے کاروبار چھوڑ دیوے بلکہ ہمارا منشاء یہ ہے کہ حد اعتدال تک کوشش کرے اور دنیا کو اس نیت سے کماوے کہ دین کی خادم ہو مگر یہ ہرگز روا نہیں ہے کہ اس میں ایسا انہماک ہو جاوے کہ دین کا پہلو ہی بھول جاوے، نہ روزے کی خبر ہے نہ نماز کی۔ فرمایا سچا تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو۔ فرمایا تقویٰ ایسی شَے نہیں جو کہ صرف منہ سے انسان کو حاصل ہو جاوے بلکہ یہ شیطانی گناہ کا کوئی حصہ دار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ذرا سی شیرینی رکھ دیں تو میٹھے کو دیکھ کر بے شمار چیونٹیاں اس پر آ جاتی ہیں یہی حال شیطانی گناہوں کا ہے اور اسی سے انسانی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو ایسی کمزوری نہ رکھتا مگر خدا تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ہر ایک طاقت کا سرچشمہ خدا ہی کی ذات ہے۔ کسی نبی یا رسول کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے طاقت دے سکے اور یہی طاقت جب خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے تو اس میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جاوے اور نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔ پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے۔ جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اس وقت شیطان اس سے محبت کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقل مند جب کوئی شَے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدّنظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے سورت فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ الرَّحْمٰنِ یعنی بلا مانگے اور سوال کیے دینے والا۔ الرَّحِيْمِ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ جزا سزا اسی کے ہاتھ میں ہے چاہے رکھے، چاہے مارے اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال کرتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ رب ہے رحمان ہے رحیم ہے اسے غائب مانتا چلا آرہا ہے اور پھر اسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے۔ اس میں کسی قسم کی کجی نہیں۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ ہے کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جس پر تُو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ نہ ان لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ اور نہ ان کی جو دُور جا پڑے ہیں۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے کُل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے۔ مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے تو جب تک اسے ایک صراطِ مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر وہاں بیٹھے ہوئے مجلس میں ایک نے اعتراض کیا تھا کہ انبیاء کو اس کی کیا ضرورت ہے ان کو تو صراطِ مستقیم ہوتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ وہ یہ دعا ترقی مراتب اور درجات کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ تو آخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ395تا400)

پھر تقویٰ اور ایمان میں بڑھنے کے لیے مزید نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں’’قرآنِ شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بے شک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی۔‘‘ فرمایا ’’… نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو۔ لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے اسے کیا فائدہ؟ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 257-258)

پھر قرآن کریم کے احسانات کے بارے میں آپؑ بیان فرماتے ہیں۔

’’یاد رکھنا چاہیے کہ قرآنِ شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف کی ہی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:14)۔ یعنی یقیناً یہ ضرور ایک فیصلہ کن کلام ہے اور ہرگز کوئی بے ہودہ کلام نہیں ہے۔ یعنی قرآن کریم میں ہر بات اور فیصلہ دلیل سے کیا گیا ہے اور اس کی باتیں سب سچی ثابت ہوتی ہیں اور ہوئی ہیں اور ہوں گی۔ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ۔ فرمایا کہ ’’وہ میزان، مھیمن، نور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصّہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف کو نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں ہم اس کو گوارہ نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے اس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 155)اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو، ایک ضابطۂ حیات سمجھ کر پڑھو، اس پر عمل کرنے کے لیے پڑھو، حقیقی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے پڑھو۔

پھر ہماری عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے بار بار ہمیں اس کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا ’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دارزندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے۔ کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا۔ بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفا داری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشاء کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ370-371)

پھر آپؑ نے یہ فرمایا کہ میری بیعت میں آ کر اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرنے کی تمہیں ضرورت ہے۔ پس اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں

’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ نہیں۔ خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ اس پر کبھی برے دن نہیں آ سکتے۔خدا جس کا دوست اور مددگار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پروا نہیں۔ مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں۔ خدا کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 263)

خدا تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں وہ انقلاب پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے والے ہوں، ہمیں ایمان کے اعلیٰ مدارج پر لے جانے والے ہوں اور اس کا باعث بنیں۔ ہم حقیقت میں اس بات کا عملی مظاہرہ کرنے والے بنیں کہ ہم نے ایک منادی کی آواز کو سنا جس نے اپنے آقا کی غلامی میں اللہ تعالیٰ کی پاک جماعت بنانے کا اعلان کیا اور ہم اسے مان کر حقیقی ایمان لانے والوں میں بن گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو اور پھر ہم دنیا کو بھی صحیح راستے پر بلانے والے ہوں۔

ان دنوں میں خاص طور پر دنیا کے لیے بھی دعا کریں مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحیح راستے پر رہ نمائی کرے۔ آپس میں جو ان کی سر پھٹول ہو رہی ہے، جنگ اور لڑائیاں ہو رہی ہیں اور غیر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس سے محفوظ رکھے اور دنیا بھی جو جنگ کے شعلوں کی طرف بڑھ رہی ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی بچائے اور امن اور سکون بھی دنیا میں قائم ہو اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو یہ جاننے والے ہوں اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسلام کا جھنڈا دنیا پر لہرانے والے بنیں۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭٭دعا٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button