پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

اپریل2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ڈکٹیٹر کا بیٹا باپ کے فخر میں شریک

اعجازالحق جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ہیں جو 1980ء کی دہائی میں ایک ڈکٹیٹر کی صورت میں پاکستان کا حاکم تھا۔ وہ سیاست میں سرگرم ہیں لیکن ان کی پیروی کرنے والے بہت کم ہیں۔ اعجاز الحق اپنے والد کے اسلامی نظریہ کے سر پر سیاست کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی تقریر کی ایک ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہوئی ہے۔ اس کا اقتباس ذیل میں فراہم کیا جاتا ہے تاکہ احمدیہ مسئلہ پر اسلامسٹ لابی کا نظریہ جو کہ ان کے والد کی میراث ہے، کو ریکارڈ میں محفوظ کیا جا سکے: ’’پاکستان میں ختم نبوت کے حق میں اتنا شور کیوں مچایا جاتا ہے؟ اس لیے کہ دنیا کا سب سے بڑا فتنہ قادیانی ہے جس کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ یہ ملک کلمہ کے نام پر وجود میں آیا۔ ایسی کوششوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن دشمن بہت چالاک ہے۔ وہ اپنی اسکیموں کو آہستہ آہستہ لیکن مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔

آپ شہید جنرل ضیاء الحق کے جاری کردہ آرڈیننس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ ان کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ جنرل ضیاء الحق…اگر یہ پابندیاں ان پر نہ لگائی جاتیں تو موجودہ بیداری، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں [ٹرانسمشن میں خرابی]۔ خان صاحب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے ایک قادیانی کو معاشی ماہر مقرر کیا۔ لوگوں کو پتا چلا… انہوں نے شور مچایا۔ اتنا کہ اس کا نام واپس لینا پڑا۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ جب ہم ختم نبوت کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم اور ہمارے حکمرانوں میں اس پر ایمان پختہ ہو تو کوئی بھی اس میں تبدیلی کی جرأت نہیں کرتا۔ جب میں مذہبی امور کا وزیر تھا تو میں امریکہ گیا تھا وہاں محکمہ خارجہ [افسران] سے ملاقات ہوئی تھی۔ پھر میں یورپی یونین گیا۔ بیلجیم جہاں پورے یورپ سے منتخب نمائندے جمع ہوتے ہیں۔ مجھ سے ان [احمدیوں ] کے خلاف ظلم کے بارے میں پوچھا گیا، ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیتے ویسا نہیں کرنے دیتے تو وہ ہمارے خلاف پابندیاں لگائیں گے، وہ ہماری ٹیکسٹائل کی درآمد بند کر دیں گے، اور [ہماری] حکومتوں پر دباؤ ڈالیں گے۔‘‘

پاکستان میں حکومتوں کو کم از کم [مکمل طور پر] جنرل ضیاء الحق شہید کے جاری کردہ [احمدی مخالف] آرڈیننس کو نافذ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی ان پر دباؤ ڈالتا ہے تو وہ صاف صاف بتا دیں کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

Youtube.com/watch?=yhvuygMKZdpc

ایک احمدی عاطف میاں کے لیے باوقار ایوارڈ

9؍اپریل 2021ء: tribune.com.pk پر درج ذیل خبر دی گئی:

عاطف میاں کو اقتصادیات میں گوگن ہائیم فیلوشپ سے نوازا گیا۔

اسلام آباد:معروف پاکستانی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں کو اقتصادیات میں باوقار گوگن ہائیم فیلوشپ سے نوازا گیا ہے۔

جان سائمن گوگن ہائیم میموریل فاؤنڈیشن گوگن ہائیم فیلوشپ کا اعزاز چند ایسے افراد کو دیتا ہے جنہوں نے Productive Scholarship (پبلیکیشنز) یا آرٹس کے فنون میں غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہو۔

فنانس اور میکرو اکنامکس کے اسکالر ڈاکٹر عاطف کا شمار دنیا کے چوٹی کے نوجوان معاشی ماہرین میں ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے 2018ء میں اقلیتی احمدی برادری کے رکن کی تقرری پر شدید ردعمل کا سامنا کرنے کے بعد اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) میں ان کی تقرری منسوخ کر دی تھی۔

حکومتی فیصلے کے بعد عاطف نے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ حکومت پاکستان کے استحکام کی خاطر میں نے اکنامک ایڈوائزری کونسل سے استعفیٰ دے دیا ہے کیونکہ حکومت کو میری تقرری کے حوالے سے ملاؤں (مسلم علماء) اور ان کے حامیوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔

گزشتہ سال، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی نے ڈاکٹر عاطف کا ایک سیمینار منسوخ کر دیا تھا کیونکہ ’’یونیورسٹی انتظامیہ کو انتہا پسندوں کی طرف سے خطرات لاحق تھے‘‘ ۔

عاطف میاں نے کہا۔’’افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دیتا ہوں کہ آئی بی اے کراچی میں میرا زوم اکنامکس سیمینار یونیورسٹی انتظامیہ کو انتہا پسندوں کی طرف سے درپیش دھمکیوں کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔‘‘

(Tribune.com.pk/story/2293946/atif-main-awarded-prestigious-guggenheim-followship-in-economics on April 9, 2021)

پابند سلاسل احمدی

٭…13؍مئی 2014ء کو تھانہ شرقپور میں PPCs 295-A، 337-2 اور 427 کے تحت چار احمدیوں، خلیل احمد، غلام احمد، احسان احمد اور مبشر احمد بھوئیوال ضلع شیخوپورہ کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دو دن بعد خلیل احمد کو 16؍مئی 2014ء کو پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے ایک مدرسے کے طالب علم نے شہید کر دیا تھا۔ باقی تین ملزمان کو 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ کے جج کی تجویز پر ان کی چارج شیٹ میں ایک سال بعد مہلک شق PPC 295-C کا اضافہ کیا گیا۔ ایک سیشن جج نے 11؍اکتوبر 2017ء کو انہیں سزائے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ عدالت کو تین سال سے ان کی سماعت کا وقت نہیں ملا۔ یہ تینوں احمدی ساڑھے چھ سال سے جیل میں ہیں۔

٭…روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد وغیرہ کے خلاف 26؍مئی 2020ء کو PPCs 295-B,298-C,120-B,109,34R/W, 2016-PECA-11کے تحت پولیس سٹیشن FIA سائبر کرائمز ونگ لاہور میں ایف آئی آر 29/2020 درج کی گئی۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں عمر قید ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائمز ڈیپارٹمنٹ لاہور، جو کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے تحت کام کرتا ہے، نے واپڈا ٹاؤن لاہور کے روحان احمد صاحب کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔

ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کو ایف آئی اے آفس میں پیشی پر گرفتار کیا گیا، وہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ہیں۔

٭…عبدالمجید ولد جناب عبدالوحید صاحب ساکن شاہین مسلم ٹاؤن، تاج چوک، پھندو روڈ، ضلع پشاور، عمر 20سال پر عمران علی نامی ایک نابالغ شخص نے توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔ پولیس نے ملاؤں کے دباؤ میںآکر ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ 1860کی دفعہ 295-C کے تحت من گھڑت مقدمہ درج کیا جس میں 10؍ستمبر 2020ء کو ایف آئی آر نمبر648کے تحت تھانہ پھندو، پشاور میں درج کی گئی تھی۔ انہیں 13.09.2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت پشاور جیل میں ہیں۔

٭…طارق اے طاہر اور صفوان احمدصاحب کے خلاف ایف آئی آر 83/2020شق توہین رسالت PPC 295-B کے تحت P.S نگر پارکر سندھ میں 25؍نومبر 2020ء کودرج کی گئی۔ طاہر صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔

٭…محمد محمود اقبال ہاشمی اور شیراز احمد صاحب سمیت چار احمدیوں کے خلاف سائبر کرائم پولیس اسٹیشن لاہور نے 20؍جون 2019ءکو ایف آئی آر نمبر88 سیکشن PPCs 295-A, 298-C, PECA 11 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ ان پر مبینہ طور پر ایک گروپ ’’سندھ سلامت‘‘ بنانے اور اس میں احمدیہ مواد کو شیئر کرنے پر ایف آئی آر کاٹی گئی۔ شیراز احمد صاحب کو 25؍فروری 2021ء کو حافظ آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

٭…ملک ظہیر احمدصاحب کو 30؍ستمبر2019ءکو سیکشن -C298، 295-B PECA-11 اور 109 کے تحت مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 23 فروری 2021ء کو ضمانت مل گئی تھی اور توقع تھی کہ وہ چار سے پانچ دن میں کاغذی رسمی کارروائیوں کے چند دن بعد رہا ہو جائیں گے۔ 27؍فروری کو جب ملک ظہیر احمدصاحب کی کیمپ جیل سے رہائی متوقع تھی تو سائبر کرائم ونگ لاہور کی ٹیم نے انہیں ایف آئی آر نمبر 88سیکشن PPCs 295-A, 298-C, PECA-11 کے تحت گرفتار کر لیا۔ اس مقدمے میں انہیں باضابطہ طور پر نامزد بھی نہیں کیا گیا تھا۔

٭…منصور احمد طاہر صاحب پر 16 ایم پی او کے تحت ایف آئی آر نمبر 217 پولیس کیس درج کیا گیا تھا۔ 31؍مارچ 2021ء کو تھانہ حویلی لکھا، ضلع اوکاڑہ میں گرفتار کیا گیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ طاہر صاحب نے ان کے مذہبی پروگرام کے بارے میں منفی ریمارکس دیے جس سے وہ ناراض ہوئے۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button